Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 16
نا مو سِ رسالت کی پا ما لی، مسلما نو ں کو کیا کر نا چاہیے ؟
مولانامحمدحذیفہ وستانوی

اللہ نے کا ئنا ت کو انسان کے لیے اور انسا ن کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ، مگر انسا ن محض اپنی عقل سے اللہ کی معر فت ، اس کی عبا دت اور اس کی رضا کے طریقوں کو معلو م نہیں کر سکتا تھا ،لہٰذا نسان کی راہ نما ئی کے لیے حضرات انبیا علیہم السلا م کو وقفے وقفے سے اللہ رب العز ت مبعو ث فر ما تے رہے، جنہوں نے انسا ن کی کامل راہ نمائی کی،صر ف اعتقا د اور عبا دت ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ معا شرت، تعلیم، حقو ق، اخلاق ، تزکیہ وغیرہ تمام ضروریات ِاورحیا ت ضروریات دین کے سلسلے میں اعتد ال کی را ہ بتا ئی ۔

انبیا ئے کرام علیہم السلا م نے بے لو ث ہو کر امت کی راہ نما ئی کی ، مگر دنیا میں اللہ کا دستو ررہا ہے کہ ہر چیز کا مبدااورمنتہیٰ ہو تا ہے، یعنی ہر چیز کا ایک نقطہٴ آ غا ز تو دوسر ا نقطہٴ انتہا ہو تا ہے ۔ لہٰذا نبو ت کا نقطہٴ آ غا ز حضرت آ د م علیہ السلام کو اور نقطہ انتہا حضر ت محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا یا ۔

انبیا کوئی عام انسا ن نہیں ہو ا کر تے تھے، بلکہ وہ اللہ کے خصو صی فضل کی وجہ سے تمام انسا نی خوبیو ں کے مالک ہو تے تھے اور تمام انسا نی وحیوانی رذا ئل سے پاک ہو تے تھے، جنہیں اسلامی اصطلا ح میں معصو م کہا جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا ء معصو م ہیں ، صحابہ محفوظ ہیں ، اوراولیاء موفّق ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس اللہ کی مخلو ق میں سب سے زیادہ پا کیز ہ، با اخلاق اور با بر کت ذات ہے ، اسی لیے مسلمانو ں کو ان کی اطاعت، ان سے سچی محبت اورآ پ کی عقیدت ومحبت کا حکم دیا گیا ہے ،بلکہ ان کی محبت اور عشق اور ان کی اطاعت پر اللہ کی رضا کو مو قو ف رکھا گیاہے ۔

فرما نِ الہٰی ہے : ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُحِبِّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْانِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ﴾ ”آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ کی محبت چا ہتے ہو تو میر ی اطا عت کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگ جا ئیں گے۔ “ اطاعت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان پر فر ض عین ہے اور آدمی کسی کی اطاعت پر اسی وقت آ ما دہ ہو تا ہے جب اس سے محبت ہو ۔

خلا صہٴ کلا م یہ کہ انسا ن کی زندگی کا مقصد حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت ومحبت کے واسطہ سے اللہ کی خوش نودی حاصل کر نا ہے ، گویا مقصدحیا ت کا حصو ل ہی مو قوف ہے اتبا عِ رسو ل پر، جس کو آ پ مند ر جہ ذیل نقشہ سے آ سا نی کے سا تھ سمجھ سکتے ہیں۔

مگر افسو س آج امت اس مقصد کو نہیں سمجھ سکی اور نا دا نی میں ایک دوسرے کی مخالفت پراتر آئی ہے، جس کا فا ئدہ غیرو ں نے اٹھا نا شروع کر دیا اور قر آ ن پر ،رسو ل پر ، شر یعت پر کیچڑاچھا لنے لگے ہیں اور ہم بس اپنے ہی اختلا ف میں مست ہیں۔

ہمیں یہ یا د رکھنا چاہیے کہ زندگی کا اصل مقصد خوا ہشا ت پر قا بو پاکر اپنی مرضی سے اللہ کے رضا کی حتی المقدو ر کوشش کرنا ہے ،مدا رس میں تعلیم کا مقصد بھی یہی ہے ، تبلیغ کے ذریعہ اصلا ح کا مقصد بھی یہی ہے ، دعو ت کے ذریعہ ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے ، خا نقا ہوں کے ذریعہ تز کیہ کا مقصد بھی یہی ہے اور انسا ن کو اپنی زندگی کی ضروریات میں بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر مشغول ہو نا چا ہیے ۔

لہٰذا سب سے پہلے تو میں امت کو بھی دعو ت دو ں گا کہ وہ اپنے آپسی اختلا ف کو چھوڑ کر متحد ومتفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور جذبا ت میں نہ آکر حدو د شریعت میں رہ کر علما ئے راسخین کے ذریعہ قر آ ن و حدیث کی روشنی میں راہ نما ئی حاصل کر ے ،کوئی قدم علمائے را سخین کی راہ نمائی کے بغیر نہ اٹھا ئے ،ورنہ بجائے فا ئدہ کے نقصا ن ہو گا او ر زندگی کا اہم مقصد یعنی رضائے الہٰی حاصل نہ ہو سکے گا ۔

رسو ل الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس پر کیچڑ اچھا لنا اور آپ کی مقد س ذا ت کو داغ دار کرنا یقینا ایک انتہائی گھنا وٴنی حر کت ہے، جس کی مذمت تو کیا ایسی حر کت کے مر تکب کو قتل بھی کر دیا جائے تو کم ہے ۔ شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ نامو س رسالت پر حملہ کرنے والے کو تہ تیغ کر دیا جائے اور تاریخ شا ہد ہے کہ مسلما نو ں نے ایساکیا۔ جیسا کہ آپ اگلے صفحا ت میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔ علما ء کے یہا ں اس میں کوئی اختلا ف نہیں رہا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے تو ا س پر مستقل کتا ب تحریر فر ما ئی ہے ۔” الصارم المسلو ل علی شا تم الرسول “ کتاب کے اخیر میں مصنف نے لکھا ہے :

” صر ف نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں، تمام انبیا جن کو صرا حةً ووصفاً قرآ ن نے نبی کہا ہو ، ان کی اہانت کا حکم شریعت اسلا میہ میں قتل ہے۔ مثلا ً اگرکسی نے دورا ن گفتگو کسی نا منا سب با ت یا فعل کی نسبت کسی نبی کی جانب اس کے نبو ت کا علم رکھتے ہوئے تعیینی طور پر کی، تو ایسا کہنے والے یا کرنے والے نے شا ن نبو ت میں گستاخی کی اور اگر اسے ان کے منصب نبوت کاعلم نہ تھا ،یا مطلقا ً گرو ہ انبیا کی طر ف ایسی نسبت کی تو اس کا حکم بھی وہی (قتل) ہے ۔ کیوں کہ تما م انبیاء پر علی الا طلا ق ایما ن رکھنا واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خصو صا ً، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قر آ ن کریم میں بتلا دیا ہے ۔ان کو بر ا بھلا کہنے والا اگر مسلما ن ہے تو وہ کافر و مر تد ہے اور اگر ذمی ہے تو اس سے قتا ل و اجب ہے ۔

اہا نت نبو ت کے مر تکب کی سزا صر ف اور صرف قتل ہے ، اس پر دلائل کے انبا ر مو جو د ہیں، جو اپنی عمو میت کے سبب لفظا ً اور معنی ً اس پر دال ہیں ۔ (ابن تیمیہ  فر ما تے ہیں) میر ے علم میں کو ئی بھی عالم دین ، فقیہ شریعت ایسا نہیں جس نے حکم مذکو رہ سے اختلا ف کیا ہو ۔ البتہ اکثر فقہا ء کا کلا م اس سز ا کے سلسلے میں ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرنے والوں کے متعلق ہے ۔ کیو ں کہ اس کی ضرو رت زیا دہ ہے ۔آپ کی نبو ت کی تصد یق اور آپ کی اطاعت اجما لا ً و تفصیلا ً ہر طرح سے واجب ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی اہا نت کا جر م دیگر انبیا کی اہانت سے کہیں زیا دہ ہے ۔ جیسا کہ آ پ کی حر مت و عظمت دیگر انبیا سے کہیں زیا دہ ہے ۔ لیکن اس با ت کا قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اہانتِ منصبِ رسالت میں تمام انبیاء و رسل آپ کے بھا ئی ہونے کی حیثیت سے شریک ہیں ۔ (اور ان کی اہا نت آپ کی اہانت ہے) لہٰذا کسی بھی نبی کی شا ن میں گستا خی کرنے والے کا خو ن حلا ل ہے اور وہ کافر واجب القتل ہے ۔ “(الصارم المسول علی شاتم الرسول:401)

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اب کہیں صحیح معنی میں اسلا می عدالت ہی نہیں۔پور ی دنیا الحاد اور دہریت کے دلدل میں پھنسی ہو ئی ہے اور وقفہ وقفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی جسا رت کی جا رہی ہے، توہمیں کیا کر نا چا ہیے ، کیا سڑ کو ں پر آ کر ٹائر جلا نا چا ہیے ؟
کیا عوام کی املا ک کو نقصا ن پہنچا نا چاہیے ؟
کیا احتجا جات کے ذریعہ سڑ کو ں کو رو ک کر نعرہ با ز ی کرنی چا ہیے ؟
کیا قتل و غا ر ت گری کا بازا ر گرم کرنا چا ہیے ؟
کیا مذکو رہ حر کتو ں کی اسلا م اجا زت دیتا ہے ؟
ظاہربات ہے اسلا م اس کی اجا ز ت نہیں دیتا ہے ، مگر مسلما ن ہے کہ انہیں کیے جا رہا ہے ، اب سو ال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چا ہیے ؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شر یعت کے احکام کے مطا بق نا مو س رسا لت کا دفاع کر سکیں ۔

اگر ہم واقعةً مسلما ن ہیں اور حدود شریعت میں رہ کر نامو سِ رسالت کا دفا ع کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مندرجہ ذیل امو ر کی طر ف خا ص تو جہ دینی چا ہیے ۔

1…اسلا می تعلیما ت کی مکمل پیرو ی اور غیراسلا می نظریات ، افکا ر ، خیالا ت ، عادات، اطوار ، تہذیب وتمدن ،معاشرت ومعیشت ، سیا ست وغیرہ سے کلی اجتناب کرنا ہو گا۔ خاص طور پر فیشن پرستی اور مادی افکار کو پور ی ہمت اور استقلال کے ساتھ چھوڑنا ہو گا اور سادگی والی زندگی گزا رنا ہو گی ، یہی سب سے پہلے کر نے کا کا م ہے، مگر اسے چھوڑکر امت دیگر غیر شرعی طریقو ں کو اختیار کر رہی ہے ۔

2…عالمی طور پر تما م مسلمانو ں کو متحد ہوکر U.N.O. کو ایسے قا نو ن وضع کر نے پر مجبو ر کر ناہوگا ، جس میں انبیا ئے کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والو ں کو قتل کی سزا دی جائے اور اگرایسا نہ ہو تو نامو س رسالت پر حملہ کر نے والو ں کو کسی تدبیر سے قتل کرنے کی کوشش کر نی چا ہیے ۔

3… یو رپ جو ان تمام غلیظ اور نا پا ک حر کتو ں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے ، اسے مند رجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھا یا جا ئے ۔
(الف)… مسلمان مغر بی مصنو عا ت کا مکمل با ئیکا ٹ کریں ۔
(ب)…ڈالر،یورو اورپا ؤنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کر نا چا ہیے ۔
(ج)…پور ے عالم میں دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کر نا چا ہیے ۔
(د) …اپنے علاقوں میں ایسی کمیٹیا ں بنا نی چاہیے جو بائیکا ٹ پر لو گو ں کو آما دہ کر یں اور امر بالمعر و ف اورنہی عن المنکر کریں ۔

4…ہر گھرمیں اسلام اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیر ت کی تعلیم کو عا م کرنا چا ہیے ۔

5…نما ز کا مکمل اہتمام کر نا چا ہیے ۔

6…زندگی کے ہر موڑ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کو معلو م کرکے اس پر عمل کر نا چا ہیے ۔

7…بد عات و خرا فا ت سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔

8…صحابہ سے محبت اور ان کی زندگیو ں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔

9…علما ء سے محبت اور ہر دنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنما ئی حاصل کر نی چاہیے ۔

10…اپنی اولا د کی صحیح اسلا می تر بیت کرنی چا ہیے ۔

11…رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کر نا چاہیے ۔

12…لو گو ں کو سیر ت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنو ا ن پر مسابقا ت (تقریری مقابلے) رکھنے چا ہیے ۔

غرضیکہ ہم سب پر اپنی استطاعت کے مطابق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفا ع لا ز م ہے ۔

المر ء یقیس علی نفسہ
جس ملعون نے یہ فلم بنائی ہے، وہ ایک بد اخلا ق ، بد کر دار شخص ہے، اس پر امر یکی عدالتوں میں کئی مقدمات درج ہیں ۔ عربی کا محاورہ ہے کہ آدمی دوسر و ں کو بھی اپنے ہی اوپر قیا س کرتاہے ،ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفا ت کے اخلاق و اطوار ،روز روشن کی طر ح عیا ں ہیں ۔

قر آ ن نے آ پ کو کہا ہے ﴿انک لعلٰی خلق عظیم﴾ اس کے بعد مزید کسی کی شہادت کی ضرورت نہیں ۔مگر ہم انہیں انگریز وں میں سے بعض کے تاثرا ت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں نقل کردینا چاہتے ہیں ۔ ”الفضل ما شہدت بہ الا عدا ء “ کے تحت کہ” حق تو وہ ہے جس کی سچائی پر دشمن بھی مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔“

حکیم الا مت مجدد ملت حضرت مو لانا اشرف علی تھانوی  نے ”شہادة الا قو ا م علی صدق الا سلا م “ کے نام سے ایک رسالہ مر تب فر ما یا تھا جو، حقا نیت اسلا م کے نام سے شا ئع ہوا ہے ۔جس میں حضرت نے غیر مسلمو ں کے اسلا م ، قر آ ن اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با رے میں تاثر ا ت کو مختلف اخبارات و رسا ئل سے اخذ کر کے جمع کیا ہے ۔ ہم یہاں نقل کردیتے ہیں ۔

ڈاکٹرجے ،ڈبلیو، لیٹزآ پ کی شخصیت کا اعترا ف ان لفظو ں میں کرتے ہیں : اگرسچے رسو ل میں ان علامتو ں کا پایا جا نا ضروری ہے کہ وہ ایثار نفس اور اخلاص نیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو او راپنے نصب العین میں یہاں تک محو ہو کہ طر ح طر ح کی سختیا ں جھیلے ، انوا ع و اقسا م کی صعوبتیں برداشت کر ے ، لیکن اپنے مقصد کی تکمیل سے باز نہ آ ئے ، ابنا ئے جنس کی غلطیوں کو فو راً معلو م کر لے اور ان کی اصلاح کے لیے اعلیٰ درجہ کی دانش مندا نہ تدابیر سوچے اور ان تدابیر کو قو ت سے فعل میں لا ئے تو میں نہایت عاجزی سے اس بات کے اقر ا ر کر نے پر مجبو ر ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی تھے اور ان پر وحی ناز ل ہو تی تھی ۔

پروفیسر فریمین : حقیقی اور سچے ارادوں کے بغیر یقینا کوئی اور چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا لگا تار استقلال کے ساتھ، جس کا آپ سے ظہور ہو ا آگے نہیں بڑھا سکتی ،ایسا استقلا ل جس میں پہلی وحی کی نز و ل کے وقت سے لے کر آخر دم تک نہ کبھی آپ مذبذب (متردد)ہو ئے اور نہ کبھی آپ کے قدم سچا ئی کے اظہار سے ڈگمگا ئے ۔

رومن صاحب : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فقط ایک صاحب علم ہی نہ تھے، بلکہ صاحب عمل بھی تھے ، انہوں نے اپنی امت کو عمل کی تا کید کی ، چناں چہ جیسی انسا نیت و مر وت مسلما نو ں میں ہے شاذو نا در ہی کسی قو م میں پائی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر ما رگیلوش : میں (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے بہت عظیم لو گوں میں شما ر کر تا ہو ں ، انہو ں نے قبائل عر ب سے ایک عظیم الشا ن سلطنت قا ئم کرکے بہت بڑی پولیٹکل گتھی کو سلجھا یا او ر میں ان کی کما حقہ تعظیم وتکر یم کر تا ہو ں ۔

لا لہ لا جپت ر ائے : میں مذہب اسلام سے محبت کر تا ہو ں اور اسلامی پیغمبر کو دنیا کے بڑے بڑ ے مہاپر شو ں میں سمجھتا ہو ں ۔ آپ کی سو شل اور پولیٹکل تعلیم کا مدا ح ہو ں اور اسلام کا بہتر ین رنگ وہ تھا جوکہ حضرت عمر  کے زما نے میں تھا ۔

ایڈورڈگبن : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب صاف شک و شبہ سے بالا تر ہے اور خدا کی وحدا نیت کی تصدیق میں قر آ ن ایک شا ن دا ر شہا دت ہے۔ (بحو الہ حقا نیت اسلا م منقول از اخبار ”المشرق “ یکم جولا ئی ۱۹۲۷ء )

ایک مسیحی عالم نے ایک کتا ب مسمیٰ بہ” قرا ن السعیدین “لکھی ہے، اس میں اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر زور دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایما ن داری، بے تعصبی ،وسیع القلبی اور شر افت اس با ت کی مقتضی ہے کہ عیسائی دو ست اپنے دلو ں کو صا ف کریں اوریقین جا نیں کہ دین داری اس کے علا وہ کچھ اور ہے کہ آنحضرت کو بر ا بھلا کہیں اور ان سے بغض وعدا وت رکھیں، بلکہ مناسب ہے کہ ان کی خوبیو ں پر نظر کریں، حسب مر تبہ ان کی قد ر کریں ، تعظیم کر یں ، او ر حتی المقدور مسلما نو ں کے جذبات کاپا س کر تے ہو ئے ان کے ساتھ رو ا داری سے پیش آئیں ۔

اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نر م دلی کی آ یت بھی نقل کی ہے کہ رسو ل ایمان داروں پر شفیق و مہر با ن ہیں اور ہم تسلیم کر تے ہیں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشن چرا غ تھے ، رحمة للعا لمین ، صا حب خلقِ عظیم تھے کہ ان کے اوصا ف سے آخر ان کی کوشش با ر آ ور اور سعی مشکو ر ہوئی ۔

داؤ د آ فندی مجاعض نامو ر عیسا ئی اہل قلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ۔
دنیا کا عظیم تر ین سب سے بڑ ا انسا ن وہ ہے جس نے صر ف دس سا ل کے قلیل زما نے میں ایک محکم دین اور اعلیٰ درجہ کا فلسفہٴ طریقِ معاشر ت اورقوانینِ تمدن وضع کیے ۔ قا نو ن جنگ کی کا یہ پلٹ دی او رایک ایسی قو م وسلطنت بنا دی کہ وہ عرصہ ٴ در ا ز او ر مدت ِ مدید تک دنیا پر حکم ر ا ں رہی ۔ اور آج تک زمانہ کا سا تھ دے رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ شخص باو جو د ایسے عظیم ترین اور بے مثل کا م کر نے کے محض نا خوا ندہ اور امّی تھا ۔ وہ مر دِ گرامی اور اجلِ اعظم ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب قریشی ،عربی، مسلما نو ں کے نبی ہیں ۔ “

مسٹر گووند جی ڈسا ئی گجرا ت کے ایک فا ضل ہندو تعلیم یا فتہ گزرے ہیں ، آ پ نے اپنی زندگی میں ایک مضمو ن اسلام اور اہنسا پرتحریر فر مایا تھا ، اس مضمو ن کو گا ندھی جی نے بھی اپنے اخبار ”ینگ انڈیا “میں درج کیا تھا ، آپ نے اس مضمو ن میںآ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا ن میں عقیدت کے جو پھول بر سا ئے ہیں ، وہ آپ کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں :

انسا نی شرافت : یہ امر واقعہ ہے کہ ذاتی طور پر رسو ل عر بی ایک ایسے شخص تھے ،جن میں بڑی انسا نیت اور شرافت تھی ، آپ کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ آپ اپنے سے کم درجہ کے لو گوں سے بڑی رعایت کرتے تھے ۔ اور آپ کا کم سن غلا م، چا ہے کچھ ہی کرتا تھا، آپ اس کا مضحکہ اڑا نے کی اجا زت نہ دیتے تھے ۔

بچو ں پر شفقت : آپ بچو ں سے بڑ ا انس رکھتے تھے ، آپ ان کو راستہ میں رو ک لیتے اور ان کے سر و ں پر ہا تھ پھیر تے تھے ۔ آپ نے عمر بھر کسی کو نہیں ما را ۔ آپ نے شدید تر ین الفاظ جو کبھی مخالفین مذہب کے متعلق کہے یہ تھے کہ اسے کیا ہے ؟ خدا کر ے اس کا چہر ہ خا ک آ لو د ہو ۔ جب آپ سے کہا گیا کہ فلا ں شخص کو بددعا دیں تو آپ نے جوا ب دیا کہ میں بددعا دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہو ں ، بلکہ انسا نو ں کے ساتھ رحم کا سلو ک کر نے آیا ہوں۔

رسو ل عر بی میں تمام انسا نو ں سے زیا دہ انسا نیت تھی ۔ جب آ پ اپنی والدہ کی قبر پر جا تے تو روتے تھے اور ان لوگوں کو رُلا تے جو اس وقت آپ کے گر د وپیش کھڑ ے ہو تے تھے ۔

نبو ت کا تاجدا ر جھونپڑیوں میں : جس قد ر سادہ اطوار رکھتے تھے اسی قد ر آ پ مخیر تھے ۔ آپ اپنی بیو یو ں کے ساتھ جھونپڑیو ں کی ایک قطا ر میں رہتے تھے ۔ آپ خود آگ جلا تے ا ور جھونپڑیوں میں جھا ڑو دیتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ کھا نا ہو تا تھا اس میں سے ان لو گو ں کو حصہ دیتے تھے جو آپ کے پاس جاتے تھے ۔ آپ کا معمو لی کھانا کھجو ریں اور پا نی یا جو کی رو ٹی ہو تی تھی ۔ دودھ اور شہد آ پ کا ساما ن عشرت تھاا ور ان دو نو ں چیزوں کے آپ بڑے شا ئق تھے، مگر آپ یہ چیز یں شا ذ ونا در ہی استعمال کر تے تھے ۔جب آپ عر ب کے با دشا ہ بن گئے تو بھی آپ ریگستا نو ں کی سیا حت کو بہت پسند کر تے تھے ۔

غریبو ں کا احترام : رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے غر یبو ں کو یہ کہہ کر تقدس بخش دیاکہ غریبی آ پ کا فخر ہے ۔ آپ نے خدا سے دعا کی کہ آپ کو غریبی میں رکھے ، آپ کو حالت غریبی میں مو ت دے اور حشرکے دن آپ کو غریبوں میں اٹھائے ۔

بزرگی اور پیغامبر ی : آپ اس قد ر منکسر مزا ج تھے کہ آپ کسی کو اپنی نسبت اس سے کچھ زیا دہ نہیں کہتے تھے کہ آپ خدا کے بند ے اور اس کے پیغا مبر ہیں ۔آپ اپنے دلی معتقدو ں کو یا د دلا تے رہتے تھے کہ میں انسا ن سے بڑھ کرنہیں ہو ں، اگرچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خا تم النبیین اور سر آمد انبیا ء ہیں، یعنی سب سے آخر اور سب سے بڑے نبی ہیں، مگر ساتھ ہی اپنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اور نیز با قی انسا ن اس وقت تک بہشت میں داخل نہ ہو ں گے جب تک کہ خدا آپ کو اپنی رحمت سے نہ ڈھا نک دے گا ۔ جہاں آپ نے ایک طر ف یہ اعلا ن کیا کہ خو د میں محض خدا کے فضل کی بدو لت نجا ت پا ؤ ں گا، وہاں آپ نے انسا نو ں کو بھی تسکین دی کہ خدا کی رحم دلی اس کے غصہ پرغالب آ جا تی ہے اور یہ کہ خدا نے بہشت کے دروا زے نام نہا د بے دینو ں پر بند بھی نہیں کیے ۔ آپ نے فر ما یا کہ اگر کسی بے دین کو معلو م ہو جا ئے کہ خدا کس درجہ رحیم ہے، تب بھی اسے بہشت کی طرف سے مایو سی نہ ہو نی چاہیے ۔

محسن اعظم
ونکلٹا رتنام ، مدراس: محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے ساتھ اتنا احسا ن کیا ہے کہ دوسروں نے نہیں کیا ۔

لا ئق عز ت ومحبت
لالہ لاجپت رائے: مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ میر ے دل میں پیغمبر اسلا م کے لیے نہا یت عز ت ہے ۔ میر ی رائے میں ہا دیا ن دین اور راہ برا ن بنی نو ع انسا ن میں ان کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔

جلیل القدر مصلح
کاؤنٹ ٹالسٹائی :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا منکسر المزاج ، رحم دل ، راست با ز ، خلیق ، متحمل ، انصاف پسند اور جلیل القدر مصلح وریفا رمرتھے …۔ دنیا کے تمام انصاف پسند محققین اس امر کو تسلیم کر تے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِ عمل ، اخلاق انسا نی کا حیرت انگیز کارنامہ ہے ۔ہم یہ یقین کرنے پر مجبورہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ وہدایت خالص سچا ئی پر مبنی تھی #

بنی نوع انسان کے لیے رحمت
پرو فیسر رگھو پتی سہائے /فر ا ق گو رکھپوری : میرا اٹل ایما ن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اسلام کی ہستی بنی نو ع انسا ن کے لیے ایک رحمت تھی ، پیغمبر اسلا م نے تا ریخ و تمدن ، تہذیب واخلا ق کو وہ کچھ دیا ہے جو شاید ہی کوئی اوربڑی ہستی دے سکی ہو ۔ پیغمبر اسلا م کے پر ستانہ جذبا ت رکھنا ، ان کا دلی احتر ا م کر نا ، ہر انسا ن کا فرض ہے ، بلکہ ہر انسا ن کے لیے سعاد ت ہے ، اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں #
            تفرقوں سے پاک ہے آنسو محبت کے فراق
            اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو…؟

پر وفیسر با سو رتھ اسمتھ : بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں، اگر پوچھا جا ئے کہ افریقہ (بلکہ پوری دنیا) کو مسیحی مذہب نے زیاد ہ فائدہ پہنچا یا یا اسلا م نے ؟ تو جو اب میں کہنا پڑے گا کہ اسلا م نے ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قر یش ہجر ت سے پہلے خدا نہ خوا ستہ شہید کر ڈالتے ،تومشر ق ومغرب د و نو ں نا کار ہ رہ جاتے ۔ اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو دنیا کا ظلم بڑھتے بڑھتے اس کو تبا ہ کردیتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے ، تو یور پ کے تاریک زما نے دو چند، بلکہ سہ چند تا ریک ترہو جا تے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے ، تو انسا ن ریگستا نو ں میں پڑے بھٹکتے پھرتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے تو عیسا ئیت بگڑ کر بد سے بدتر ہو جا تی ۔ جب میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفا ت اور تمام کا رنا مو ں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈا لتا ہو ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے ،کیا ہو گئے۔اور آپ کے تا بع د ار غلا مو ں نے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی رو ح پھونک دی تھی ، کیا کیا کا ر نامے دکھا ئے ، تو آپ مجھے سب سے بزر گ تر اور بر تر اور اپنی نظیر آپ ہی دکھا ئی دیتے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا سے لے کرانتہا تک یعنی بعثت سے لے کر دار البقا میں جا نے تک اپنے کو نبی کہلا یا اور اس سے رتی بھر آ گے نہیں بڑھے ۔ میں یہ اعتقا د کر نے کی جر أ ت کر تا ہو ں کہ نہا یت اعلیٰ درجہ کے فلا سفر اور سا ئنس داں اور فضلا ئے عا لی دماغ اورعیسا ئی ایک دن با لا تفاق تصدیق کر یں گے کہ بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں۔(محمد اینڈ محمڈن ازم ،تالیف پرو فیسر با سو رتھ اسمتھ )

یہ تھے وہ تأثرا ت جو غیر مسلموں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں بیا ن کیے ،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت تو اتنی جا مع الکمالا ت ہے کہ کوئی لکھنے والا اسے اپنے احاطہ میں نہیں لا سکتا۔ سلف صا لحین اور معاصر موٴلفین نے سیر ت پا ک کے ایک ایک مو ضو ع پر ہزا ر ہا ہزار صفحا ت تحریر کیے ہیں، مگر پھر بھی آ پ کی سیرت کا حق ادا کر نے سے قا صر ہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خو ب کہا ہے ۔ #
        تھکی ہے فکر رسا، مدح باقی ہے
        قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
        ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے
        تمام عمر لکھا، مدح باقی ہے

تحفظ نامو س رسالت سے متعلق کتب الصارم المسلول علی شاتم الرسول السیف المسلو ل علی شا تم الر سو ل صلی الله علیہ وسلم ( تقی الدین السبکی  )الشفا ء (قاضی عیاض  ) تنبیہ الو لا ة والحکام علی شا تم خیر الا نا م (رسا ئل ابن عابدین)

(اردو کتابیں) گستا خ رسو ل کی سزا بز با ن سیدنا محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم۔ (مولا نا محمد حسن صاحب ) نا مو سِ رسالت کی حفا ظت کیجیے (مو لا نامفتی محمد تقی عثما نی) با محمدصلی الله علیہ وسلم با و قا ر (قاضی محمد زاہد الحسینی) اسلا م میں اہا نت رسو ل صلی الله علیہ وسلم کی سزا (ڈاکٹر مولا نا محسن عثما نی ندوی) تو ہین ِ رسالت صلی الله علیہ وسلم اور اس کی سزا (مفتی جمیل احمد تھانوی )
Flag Counter