Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 16
عذاب قبر اسباب وتدارک
مولانا محمد موسی خان ندوی

جو بھی انسان اس دنیا میں آیا اسے یہ دنیا ضروربضرورایک نہ ایک دن چھوڑنی ہے،اس لیے کہ موت وہ تلخ حقیقت ہے جس سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں اوریہ وہ کڑواگھونٹ ہے جس کو نوش کیے بغیر کسی کو چارہ نہیں،دراصل موت ہی قیامت وآخرت کے احوال کے مشاہدہ کاپہلا مرحلہ ہے،گویا دارفانی سے داربقا میں نقل مکانی کایہ باب الداخلہ ہے انسان اس عالم میں جو کچھ خیر وشر اختیار کرتا ہے اس کی اصل جزاتو (ثواب وعذاب کی شکل میں )آخرت ہی میں ملنی ہے، لیکن قرآن وحدیث کی تصریحات بتلاتی ہیں کہ موت کے بعد اورقیامت سے پہلے انسان کو روزِقیامت اورآخرت میں پیش آنے والے واقعات اوراحوال کامشاہدہ کروایا جاتا ہے او رکبھی اس سے گزارابھی جاتا ہے، اسی کو قرآن مجید کی اصطلاح میں ”برزخ“اورحدیث کی اصطلاح میں ”قبر“کہتے ہیں،دنیاسے نکل کر آخرت تک پہنچنے والی راہ اسی سے ہوکر گزرتی ہے،کسی بھی راہی ملک بقا کو اس سے مفرنہیں ہے،معترف ہویامنکر ،ہرکسی کو اس سے گزرنا ضرورہے،اسلامی نقطہٴ نظر سے یہ کوئی نظریاتی،فروعی اورجزئی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ اصولی واعتقادی ہے،مسلمان ہونے کے لیے جن بنیادی باتوں کا اعتقاد ضروری ہے ان میں ایک یہ بھی ہے۔

موجودہ دورمیں دین وایمان کے اعتبار سے کمزوری،عبادات میں کوتاہی اورتعلیمات اسلام سے دوری کے نتیجہ میں مسلمانوں پر جو مار پڑی اورجوبرے اثرات محسوس کئے گئے ان میں سے ایک برزخ کامعاملہ بھی ہے،اس رخ سے مسلمان دوطرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوگئے،ایک یہ کہ مسلمانوں میں باضابطہ ایک طبقہ پیدا ہوچکاہے،جو سرے سے اس کا انکار،کردیتا ہے،دوسری خرابی یہ کہ زندگی کے عملی میدان میں مسلمانوں کو بالعموم برزخ کاتصور اوردھیان نہ رہا، جس کی وجہ سے عبادات میں عمومی کوتاہی کے ساتھ نفاق،جھوٹ،خیانت،بدعہدی،لوٹ کھسوٹ اورخداجانے کس کس طرح کی خرابیوں میں مسلمان ملوث ہوگئے ؟ا س کا بالکل خیا ل ہی نہ رہا کہ موت کے ساتھ ہی اعزہ واہل تعلق شہرخموشا ں کی چارگز زمین کے گڑھے میں تن تنہا چھوڑکر چلے جائیں گے، وہاں کوئی پرسان حال تک نہ ہوگا،لوگ کئی کئی ایکڑ زمین کے مالک تو ہوگئے ،مگر چارگز زمین کی فکرنہ رہی ، بڑی بڑی بلڈنگوں کے تو مالک ہوگئے مگر چارگزکی چھوٹی سے جھونپڑی کی فکر سے ذہن خالی ہوگئے۔

جہاں تک پہلی بات، یعنی عذاب قبر سے انکارکاتعلق ہے وہ یاتو کم علمی کی وجہ سے ہے یا پھر مخصوص ذہنیت کی پیداوار ہے،جب کہ قرآن وسنت سے صحیح معنی میں استفادے کے لیے ضروری ہے کہ خالی الذہن ہوکر اس ارادے سے پڑھے کہ اس میں جوکچھ ملے گااسے میں قبول کروں گا، نہ یہ کہ اپنی ذہنیت قرآن وحدیث پرتھوپنے لگے، جو سراسر گم راہی کاراستہ ہے،باطل تحریکیں وغلط تنظیمیں اسی سے بہکتی ہیں ، اس رخ سے قرآن مجید کامطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ قبر اوربرزخ کا تذکرہ قرآ ن میں متعددمقامات پر کیاگیا ہے، حضرت موسیٰ وفرعون اور ”رجل مومن“کے قصہ کے اختتام پر فرعونیوں کی سزاکاتذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”اورفرعون کے لوگوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ،وہ صبح وشام آگ پر پیش کیے جائیں گے اورجس دن قیامت قائم ہوگی (تونداہوگی کہ) فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو“۔ (سورہ ٴمومن :50)

آیت شریفہ میں اگر چہ فرعون اور اس کی قبطی قوم کے متعلق ہی بطورخاص برزخ کا تذکرہ کیا گیا ہے،لیکن بیشتر مفسرین جمہور کاکہناہے کہ یہ صورت حال سب کے ساتھ پیش آسکتی ہے، اس کی وضاحت احادیث شریفہ میں موجود ہے او ریہ ایک مستقل فن تفسیر کااصول ہے کہ کبھی کبھی آیت شریفہ کی تفسیر حدیث شریف سے ہوتی ہے اس سلسلہ میں احادیث کاتذکرہ ہم آگے کریں گے،پہلے ہم یہاں آیات قرآنیہ کی روشنی میں برزخ کاتجزیہ کریں گے۔

قرآن اورعذاب قبر
غیر منقسم ہندوستان کے ایک نامورعالم دین اورادیب کامل اور محقق سیرت نگار علامہ سید سلمان ندوی  نے ایسی بہت ساری آیات شریفہ کاتذکرہ کیاہے جن میں صراحتاًنہ سہی دلالةً اوراشارتاً ہی برزخ کاتذکرہ ضرورموجودہے، ہم یہاں ان سب آیا ت کااحاطہ نہیں کریں گے،بس چند ایک ہی ذکر کریں گے ،اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ ”جب ان گناہ گاروں کو موت آتی ہے تو وہ (زندگی کے پس پردہ بعض مناظر کو دیکھ کر)کہتے ہیں کے اے میرے رب !مجھے ایک بار اوردنیا میں لوٹادے، تاکہ دنیا میں جو ماحول چھوڑ کر آیاہوں اس سے شاید کوئی نیک کام کروں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہتا ہے اوراب ان گناہ گاروں کے پیچھے اس دن تک ایک پردہ (برزخ)ہے، دوبار ہ زندہ اٹھنے (قیامت)تک “۔(سورہ موٴمنون : 100)ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ”موت کی بے ہوشی حقیقت کو لے کر آگئی،یہی ہے وہ جس سے تو ہٹاکر تا تھا“۔(سورہٴ ق:19)اول الذکر آیت سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ندوی فرماتے ہیں کہ اگر موت کے وقت اوربعد میں کوئی نئی غیبی کیفیت اس کے سامنے مشاہد ہ کے طو رپر نہیں آتی تو اس کا شک وتردد اچانک یقین میں کیسے بدل جاتا؟او رثانی الذکر آیت کے متعلق فن تفسیر کے بڑے بڑے ماہرین حافظ ابن کثیر ،قاضی شوکانی ،مفتی آلوسی حنفی اورزمخشری معتزلی جیسے مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مفسرین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں آیات بالامیں برزخ ہی مرادہے۔ (سیرت النبی4/339) قرآن مجید میں منافقوں کی سزاوعذاب کاتذکرہ کرتے ہوئے کہاگیا کہ ”ہم ان کو عنقریب دودفعہ عذاب دیں گے، پھر وہ ایک بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے “۔(سورہ ٴتوبہ )مفسرین کہتے ہیں کہ آیت میں ”عذاب عظیم “سے دوزخ کاعذا ب مراد ہے، جو آخرت میں ہوگا،ا س سے پہلے دودفعہ عذاب کاتذکرہ ہے جن میں سے ایک تو دنیا کی سزا ہے دوسرا عذاب موت کے بعد ہی کاہے، جو برزخ میں ہوگا،ایک اورمقام پر ارشادربانی ہے کہ ”اگرتو دیکھے کہ جب گناہ گار موت کی سکرات کے عالم میں ہوں گے اورفرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں گے (اوران سے کہیں گے کہ) نکالو(اپنے جسم کے اندرسے )اپنی روح کو ،آج تم کو ذلت کی سزاملے گی“ (سورہٴ انعام ) علامہ ندوی فرماتے ہیں کہ آیت شریفہ میں لفظ ”الیوم “سے وہی زمانہ مراد ہوسکتاہے جس وقت کہ فرشتے بدن سے روح نکالیں گے ،اس سے مراد شب وروز کاچوبیس گھنٹہ کامجموعہ نہیں ہے، بلکہ پورا برزخ کاعرصہ اس میں شامل ہے ،علامہ ندوی نے آیت کی یہ مراد تفسیر فتخ القدیر ،ابوسعود او رروالمعانی سے اخذ کی ہے ۔(سیرت النبی:4/244)

برزخ کے سوال وجواب کاتذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں بتلایاگیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو پکی بات پر اس دنیا میں بھی مضبوط رکھیں گے اورآخرت میں بھی اوراللہ تعالیٰ ظالموں کو بچلاتے ہیں “۔ (سورہ ٴابراہیم )

حدیث ا ورعذاب قبر
قرآن مجید کا مفسر اول حدیث شریف ہے،ظاہر ہے کہ حدیث سے زیاد ہ بہتر اوربااعتماد تفسیر کسی آیت شریفہ کی کیاہوسکتی ہے؟آیت مذکورہ کی تفسیر حدیث میں اس طرح کی گئی ہے کہ یہاں سوال وجواب سے برزخ کاسوال وجواب مراد ہے،جس طرح اہل ایمان دنیوی زندگی میں ایمان پر ثابت قدمی سے قائم رہتے تھے اسی طرح برزخ میں بھی اس پر قائم رہیں گے اورجو کفار ومشرکین دنیا میں اس پر قائم نہ تھے وہاں بھی نہ رہ پائیں گے، بلکہ بہک جائیں گے۔ (سیرت النبی4/347) اسی طرح سورہ ٴمومن کی فرعون اورآل فرعون کو برزخ میں آگ پر پیش کیے جانے کے تذکرہ والی آیت شریفہ کی تشریح ہی میں گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح وشام اس کااصلی مقام پیش کیا جاتا ہے ،اگروہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت او راہل دوزخ میں سے ہوتا ہے تودوزخ،پھر اس سے کہاجاتا ہے کہ یہ تیرامقام ہے اس وقت تک کے لیے کہ جب تو قیامت کے دن اٹھایا جائے۔ “(صحیح مسلم،کتاب الجنة والنار ،ترمذی وبخاری، بحوالہ:سیرت النبی:4/342)ایک اورحدیث میں ہے کہ جنتی مردہ کے سامنے جنت اوردوزخ دونوں کے منظر سامنے کرکے کہاجائے گا کہ اگر تو اچھا عمل نہ کرتا تو تیرا یہ مقام نہ ہوتا ،مگر تیرے نیک عمل کے سبب سے اب جنت تیرا مقا م ہے۔ (بخاری،کتاب الجنائز ،بحوالہ سیرت النبی:4/343)

ام الموٴمنین حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ مجھے ابھی اس بات کاعلم نہ تھاکہ قبر میں عذاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اورکوئی چیز اس نے مانگی وہ میں نے دے دی ، اس نے مجھے دعادیتے ہوئے کہاکہ اللہ تمہیں عذاب قبرسے بچائے،میں نے سمجھاکہ یہ یہود یوں کی بے بنیاداورمن گھڑت باتیں ہیں،لیکن آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے گھر تشریف لانے پر میں نے اس بارے میں پوچھاتب آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بتلایاکہ عذاب قبر برحق ہے۔ (بخاری حدیث:1049، بحوالہ تنبیہ الغافلین /25) اور بھی دیگر متعدداحادیث میں یہ مضمون پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جب آدمی کی موت کا وقت آتا ہے تو فرشتے نیک آدمی کی روح قبض کرکے کس قدر اعزاز واکرام کے ساتھ لے جاتے ہیں اوربرے آدمی کی روح کو کس قدر شدت وتکلیف سے بدن سے نکال کرتوہین آمیز انداز میں آسمانوں پر لے جاتے ہیں۔(تفصیلی روایت کے لیے دیکھیے تنبیہ الغافلین ،باب عذاب القبر وشدتہ /20،21)

منکرعذ اب قبر کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ برزخ ہویا عذاب قبر خود ا س کو بھی اس دورسے گزرنا ضرورہے ،اس کا انکار ا س کو اس مرحلہ سے بچانہیں سکتا ،بقول شاعر #
        اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
        مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

جیسے قرآن مجید میں بہت ساری آیات میں بتلایاگیا ہے کہ قیامت کے دورسے موٴمنین تو گزریں گے ہی،کفارومشرکین بھی وہاں حاضر رہیں گے،کوئی غائب نہیں ہوسکے گا۔ (سورة الانفطار /16)انکار برزخ کی وجہ اور اگر یہ ہوکہ وہ ایک پوشیدہ چیز ہے تو یادرکھنا چاہیے کہ اسلام کے بنیادی عقائد مغیبات ہی سے تعلق رکھتے ہیں، اسی صورت میں ایمان کا امتحان بھی ہے،مشاہدہ کے بعد ایمان کا اعتبار ہی کیا ہے ؟بہرحال شریعت مطہرہ کے ٹھوس بنیادی مستدلات سے ا س کا ثبوت موجود ہے، جس کی بنیادپر انکار کی کوئی گنجائش ہی پید انہیں ہوسکتی ۔

عذاب قبر کے اسباب
یہاں تک تو مضمون کا ایک حصہ ہوا جو عذاب قبر کے امکان وثبوت اور ا س کے یقین سے متعلق تھا، لیکن ا س سے کہیں زیادہ زندگی کے عملی میدان میں اس کو پیش نظر رکھنے کا ہے، جس سے منشائے خداوشریعت میں بڑی مددملتی ہے اسے پس پشت ڈال دینے ونظرانداز کرنے سے طاعات وعبادات میں بڑی کوتاہی پیداہوتی ہے، اس لیے یادرکھنا چاہیے کہ عذاب قبر کا استحضار زندگی کے عملی تقاضوں میں نہایت ہی مفید ہے،مگر احادیث شریفہ میں عمومی طور پر عذاب قبر کے تذکرہ کے علاوہ بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ کچھ ایسی خاص خرابیوں کا بھی ذکر ہے، جن سے آدمی عذاب قبر میں مبتلاہوسکتا ہے،اگر ان سے احتیاط برتی جائے تو یہ عذاب قبر سے حفاظت میں بہت معین ثابت ہوسکتی ہے اور اگر خدانخواستہ ان میں کوتاہی وبے احتیاطی سے کام لیا گیا توانسان عذاب قبر کا شکار ہوسکتا ہے ،ان میں سب سے پہلی خرابی پیشاب میں بے احتیاطی ہے، چناں چہ حضر ت سیدنا عبد اللہ بن عباس  کی حدیث میں یہ ارشاد رسول صلى الله عليه وسلم مروی ہے کہ ”نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا دوقبروں پرسے گزرہوا تو فرمایا کہ ان قبروالوں کو عذاب ہورہا ہے اورایسی بات بھی نہیں کہ کسی بڑی خرابی کی وجہ سے ہورہا ہے (کہ جن سے بچنا انسان کی وسعت سے باہر ہو)ان میں سے ایک کو پیشاب میں بے حجابی کی وجہ سے اورمسلم شریف کی روایت کے مطابق پیشاب میں بے احتیاطی کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے اوردوسرے کو چغل خوری کی وجہ سے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کھجو رکی ایک تازہ ٹہنی لی اور ا س کے دوٹکڑے کرکے قبروں پرلگایا ،صحابہ کرام  نے پوچھا یارسول اللہ صلى الله عليه وسلم آپ نے یہ عمل کیوں کیا ؟آپ نے ارشاد فرمایاکہ جب تک یہ ٹہنیاں تروتازہ رہیں گی تو شاید اس وقت تک عذاب میں تخفیف ہو“۔ (مشکوة)

حدیث مذکور سے جہاں عذاب قبر کاثبوت ملتاہے وہیں دوایسی خرابیاں بھی ذکر کردی گئی ہیں جن سے آدمی عذاب قبر میں مبتلاہوسکتا ہے،ان میں پہلی خرابی پیشاب میں بے حجابی یا بے احتیاطی کی ہے، ا س سے مقصود دراصل پیشاب میں بے احتیاطی سے روکنا ہے،پیشاب سے فراغت کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں سترپوشی بھی ہوسکے اورا س کے چھینٹوں سے بدن اورکپڑوں کو بچایا جاسکے ،پہلی چیز تو حیا وشرم کے بالکل منافی ہے ،حدیثوں میں ایسے مقامات پرپیشاب وقضائے حاجت کرنے سے منع کیا گیا ہے جو عام لوگوں کی گزرگاہ ہو ،کیوں کہ اس سے لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوگی او رخود فراغت کرنے والے کے لیے بے پردگی ہے ،اسی طرح کسی جانور کے بل میں بھی پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ اس میں جہاں جانور کے لیے تکلیف ہے وہیں خود پیشا ب کرنے والے کے لیے یہ خدشہ ہے کہ کوئی زہریلا جانور بل میں سے نکل کر تکلیف نہ پہنچائے؟ بعض علماء نے لکھا ہے کہ سوراخ میں بسا اوقات جنات بھی ہوسکتے ہیں، ایسی صورت میں وہ آدمی کو ہلاک کردیں گے ،چناں چہ مشہور ہے کہ صحابی ٴرسول صلی الله علیہ وسلم، قبیلہٴ خزرج کے سردار حضر ت سعد بن عبادہ انصاری  نے مقام ”حوران“ میں ایک سوراخ میں پیشاب کیا، جس میں جنات کا بسیرا تھا ،ا س میں سے نکل کر جنا ت نے انہیں قتل کردیااو ریہ مشہورشعر پڑھا #
        نحن قتلنا سید الخزرج سعد بن عبادہ
        ورمیناہ بسھمین فلم نخطِ فوٴادہ
(یعنی ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کرڈالا اوران پر دوایسے تیر پھینکے جو سیدھے جاکر ان کے دل پر لگے۔)

پیشاب میں بے احتیاطی سے بچنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جونرم ہو،تاکہ پیشاب کے قطرے بدن یا کپڑوں پر نہ اڑیں،اگر زمین سخت ہوگی تو لامحالہ چھینٹے اڑیں گے ، جس سے بدن اورکپڑے ملوث ہوں گے،آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکا بھی یہی معمول تھا ،آپ کے ساتھ ہروقت ایک برچھی رہتی تھی،جس سے پیشاب کے وقت سخت زمین کو کھرچ کر نرم کرلیا کرتے تھے ،اسی طرح پیشاب میں احتیاط کے لیے بیٹھ کرکرنا چاہئے،کھڑے ہوکر کرنے کی صورت میں چھینٹے اڑسکتے ہیں ، اگرچہ بسااوقات آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے بھی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مروی ہیے،جس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ یاتو بیان جواز کے لیے تھا یا آپ کو کوئی عذرلاحق تھاکہ پیر میں یاگھٹنوں میں درد کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتے تھے، یا اس جگہ کوئی گندگی رہی ہوگی، بیٹھنے کی صورت میں اس میں ملوث ہونے کا اندیشہ تھا،اس کے علاوہ عموما آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشا ب کرتے اورصحابہ کو اسی کی تاکید فرماتے اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے منع کرتے،حضرت سیدنا عمر فاروق کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ کر ارشاد فرمایا اے عمر!کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرو۔حضر ت عمر  فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا ،یہ تمام باتیں اس صورت میں تھیں جب کہ زمین یاجگہ پر اپنے بدن یاکپڑے پر پیشاب کی چھینٹ اڑجائیں تو اس سے بچاوٴکاکیا طریقہ ہوسکتا ہے ؟مگر بسااوقات خودپیشاب کرنے والے کے بدن سے پیشاب سے فراغت کے بعد کچھ قطرے بے اختیار خارج ہوجاتے ہیں تو ا س کی دوشکلیں ہیں،ایک تو یہ ہے کہ ایسابیماری کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کاجلدازجلد علاج کرواناچاہیے اوراس وقت تک سخت احتیاط رکھی جائے اور جب بھی پیشاب کے قطروں کا نکلنا یقین اورغلبہٴ گما ن سے معلوم ہوتوبدن اورکپڑے کے حصہ کو دھولیا جائے او ر اگریہ کیفیت اتنے تسلسل کے ساتھ ہوکہ ایک ہلکی سی نماز کے وقت کے بقدر بھی روک نہ سکے تو ا س کو ”سلسل البول“ کہتے ہیں،یہ عذر کی حالت ہے،ایسی حالت میں ایک وقت میں صرف ایک نماز پڑھی جاسکتی ہے،اگلے وقت کی نماز کے لیے تازہ وضوکیا جائے ،دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ بسااوقات جسم سے پیشا ب کا قطرہ نکل جانے کا وسوسہ انسان کوستانے لگتا ہے،اس سے بچنے کاطریقہ حدیثوں میں یہ بتلایاگیا ہے کہ پیشاب سے فراغت کے بعد اپنے کپڑوں پر پانی مارلیا کرے،آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کاخود بھی یہی معمول تھا،اس طرح کاعمل پیشاب کے قطرے نکلنے کے وساوس سے بچنے کاایک موٴثر طریقہ ہے؛ اگرچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ہرقسم کے وسوسہ اورشکوک وشبہات سے پاک تھے، مگرآپ صلی الله علیہ وسلم امت کوپیشاب میں بے احتیاطی سے بچنے کی یہ ایک عملی تعلیم تھی،بعض روایات میں تو یہاں تک بتلایاگیا ہے کہ یہ طریقہ قولی او رعملی اعتبار سے حضرت جبرائیل نے براہ راست آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو بتلایا تھا ۔

پیشاب میں بے احتیاطی نہ کرنے کے نتیجہ میں عذاب قبر کی وعید سے متعلق مذکورہ حدیث میں ایک روایت قضائے حاجت کے وقت بے پردگی کی بھی ہے،اس لیے پیشاب کرتے وقت پوری طرح ستر پوشی کا اہتمام کرنا چاہیے ،ستر پوشی دوطرح سے ہوتی ہے، ایک تو کرنے والے آدمی سے متعلق اوردوسری جگہ سے متعلق،آدمی سے متعلق بے پردگی سے بچنے کا طریقہ حدیث شریف میں یہ بتلایا گیاہے ،کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے زمین کے قریب ہونے کے وقت کپڑا اٹھاتے تھے اورجگہ سے متعلق بے پردگی سے احتیاط یہ ہے کہ ایسی جگہ کاانتخاب ہونا چاہیے جہاں مکمل طریقہ سے جسم کو چھپایاجاسکے اورکسی کی نظر نہ پڑے،حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ اگر پردہ وغیرہ کی کوئی آڑنہ ہوتوریت کا تودہ ہی جمع کرکے ا س کی آڑ میں بیٹھ جائے،کیوں کہ شیطان انسان کی شرم گاہ سے کھیلتا ہے،قضائے حاجت کے وقت بے پردگی سے منع کرتے ہوئے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”دوآدمی قضائے حاجت کے لیے اس طرح نہ بیٹھیں کہ آمنے سامنے سترکھولے رہیں اورایک دوسرے سے باتیں کرتے رہیں،اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں“اور کیا عجب ہے کہ غضب خداندی کا اثر عذاب قبرکی شکل میں ظاہر ہوجائے، جیساکہ حدیثوں میں صراحت موجودہے ۔

یادرکھنا چاہیے کہ فرشتے نور سے بنی ہوئی پاکیزہ محلوق ہیں، وہ گندے مقامات سے دوررہتے ہیں اورخبیث جنات وشیاطین آگ سے بنی ہوئی شریر مخلوق ہے،انہیں گندگی کے مقامات سے مناسبت ہے اوروہی ان کے اڈے بھی ہیں، اس لیے بیت الخلا میں ان کا تصرف ہوسکتا ہے تو اس سے بچنے کی تدبیر بتلائی گئی ہے کہ حدیث میں سکھلائی گئی دعاوٴں کے پڑھ لینے کا اہتمام کرناچاہیے ”اعوذ باللہ من الخبث والخبائث“․ (کہ ناپاک جنوں اورجنات سے میں اللہ کی پناہ لیتاہوں۔ ) 
Flag Counter