Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 16
تذکرہ سلیمان بن صرد
اور ان سے متعلق تاریخی روایات پر ایک نظر
مفتی ابو الخیر عارف محمود    فہرست   

نام ونسب
آپ کا پورا نام اور سلسلہ نسب یوں ہے :
سلیمان بن صرد (بضم المھملة و فتح الراء)بن الجون بن ابی الجون بن منقذ بن ربیعہ بن اصرم بن حرام بن حبشیةبن سلول بن کعب بن عمروبن ربیعةالخزاعی الکوفی۔(تہذیب الکمال:1 /454،طبقات ابن سعد :4 /292،معرفة الصحابة:2 /461،الاصابة:2 /75، التاریخ الکبیر:4/1، الجرح والتعدیل:4/120، تاریخ بغداد :1 /215 ، سیر الاعلام النبلاء: 3/394، تھذیب التھذیب:4 /200،تاریخ الاسلام :2/ 416،طبقات ابن سعد :4 /292 ) ابو مطرف ان کی کنیت ہے ۔ (تاریخ بغداد:1/215،طبقات ابن سعد:4/292)

شرف صحبت
آپ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔(معرفة الصحابة : 2/461، الاصابة2 /76)علامہ ذہبی نے آپ کو صغار صحابہ میں شمار کیا ہے۔ (تاریخ اسلام : 2/416 ) لیکن علامہ عسقلانی ،عینی اور قسطلانی رحمہم اللہ اجمعین نے آپ کو افاضل صحابہ میں شمار کیا ہے۔(فتح الباری 2/ 484، عمدة القاری :3 /297 ، ارشادی الساری : 1 /493)

کسب فیض اور حدیث کی روایت
آپ نے براہ راست مشکوٰة نبوت سے کسب فیض کیا ،حدیث کا سماع حضورا ،ابی بن کعب  ،علی بن ابی طالب  ،جبیر بن مطعم  اور حضرت حسن بن علی سے کیا ۔(الاصا بة:2 /76 ،تاریخ الاسلام :2 /412،تہذیب الکمال :11/ 455 ،سیر اعلام النبلاء:3 /394، تہذیب التہذیب :4/200)

آپ سے حدیث کا سماع کرنے والے
آپ سے حدیث کا سماع کرنے والوں میں ابواسحاق سبیعی،تمیم بن سلمہ ،شقیر عبدی،شمر،ضبثم ضبی، عبداللہ بن یسار جھنی ،عدی بن ثابت ،ابو الضحیٰ مسلم بن صبیح ، یحییٰ بن یعمراو رابو عبداللہ جدلی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ (تاریخ بغداد :1/ 215، الاصابة:2/76، تہذیب الکمال :11/455، 456 ، الجرح وا لتعدیل :4 /120)

حالات زندگی
اسلام لانے سے قبل زمانہ جاہلیت میں ان کا نام یسار تھا ،جب اسلام قبول کیا اور حضورصلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تو آپ نے ان کا نام یسار سے بدل کر ”سلیمان “ رکھا ۔( الاصابة:2 /76،تہذیب الکمال: 11/456، تاریخ بغداد : 1/215،تہذیب التہذ یب :4 /200 )

آپ  اپنی قوم کے بلند مرتبہ اور معزز افراد میں سے تھے۔ (الاستیعاب: 2 /64، طبقات ابن سعد :4/292،تاریخ الاسلام :2/413، تہذیب الکمال :11 /456)

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم جب اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو حضرت سلیمان بن صرد دیگر مسلمانوں کے ساتھ کوفہ تشریف لے گئے۔ (طبقات ابن سعد:4 /292،تہذیب الکمال :11 /456 ،الاستیعاب: 2/63،64)خطیبِ بغدادی وغیرہ کے بقول آپ نے بنو خزاعہ میں رہائش اختیار کی ، اس کے علاوہ آپ نے مدائن اور بغداد کا بھی سفر کیا ۔(تاریخ بغداد: 215/1،الاستیعاب :2 /63،تہذیب ا لکمال:11/ 456)

ابن عبد البررحمةاللہ علیہ نے فرمایا :”کان رضی اللہ عنہ خیرا فاضلا لہ دین و عبادة“․(الاستیعاب :2 /23،تہذیب الکمال:11/ 456، تہذیب التہذیب :4/200)آپ  بہترین، فاضل، متدین اور عبادت گزار شخص تھے۔حضرت علی کے ساتھ جنگ جمل وصفین میں شریک ہوئے۔ (طبقات ابن سعد :4 /292 ،تہذیب التہذیب :4/ 200، الاستیعاب :2/64، الاصابة :2/ 76 ،معرفة الصحابہ : 2/ 461، تہذیب الکمال :11 /456)

وفات
آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں :ابن حبان  نے رمضان المبارک کا مہینہ 67 ہجری کو وفات کا سال قرار دیا ہے ۔ (کتاب الثقات:1/ 330)جب کہ اکثر مورخین نے ربیع الاول 65ہجری میں 93 سال کی عمر میں وفات کو نقل کیا ہے ،یہی اصح ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر  نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔(تاریخ بغداد :1 /215، طبقات ابن سعد :4/292، 293 ،تاریخ الاسلام :2 / 412،الاصابة : 2/ 76، الاستیعاب : 2 /64 ، تہذیب الکمال :11/ 456 ،457،سیر اعلام النبلاء :3/ 395 ، معرفةالصحابہ :2 / 461،تہذیب التہذ یب :4 /201)

سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے متعلق تاریخی روایات کا جائزہ
تاریخ کی کتابوں میں عام طور سے ہر طرح کی روایات کو سند وں کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے، تنقیح وتحقیق نہیں کی جاتی ہے، ان روایات کی تنقیح وتحقیق ماہرین فن کے ذمہ ہوتی ہے ، بغیر تنقیح و تحقیق ان روایات پر قبولیت وعدم قبولیت کا حکم لگانا درست نہیں ، اس لیے ماہرین فن کے اقوال کی روشنی میں حضرت سلیمان بن صرد  سے متعلق تاریخی روایات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

حضرت سلیمان بن صرد  کے حوالے سے بھی کتب ِ تاریخ خاص کر (تاریخِ طبری :3/ 277،390 ،391 ،397، 405،420) ابن اثیر جزری کی ” الکامل “(الکامل فی التاریخ :3/385 ،486 ،490،4/ 3، 12)اور ان دونوں سے منقول ہو کر ابن ِکثیر کی ”البدایة والنہایة“وغیرہ میں جو روایات مذکور ہیں ان کا کچھ حصہ کتبِ رِجال میں بھی نقل کیا گیا ہے ۔ (الاستیعاب : 2 /64، الاصابة:2/ 76 تہذیب الکمال:11/ 456، سیر اعلام النبلاء: 3/395 ،طبقات ابن سعد:4 / 292،293،الثقات :1/330)

ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان بن صرد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت حسین کو کوفہ بلانے کے لیے خطوط لکھے اور ان کے تشریف لانے پر انہیں اکیلا چھوڑدیا ، ان کی مدد سے پیچھے ہٹے ، ان کی شہادت پر ندامت ہوئی تو ایک لشکر بناکر ان کا بدلہ لینے کے لیے عبید اللہ بن زیاد سے لڑائی لڑی، وغیرہ وغیرہ۔(تاریخ بغداد:1/ 215،216)

ابو مخنف لوط بن یحییٰ
کتبِ تاریخ کی ان تمام روایات کو جو سلیمان بن صرد کے حوالے سے ہیں، کسی بھی طرح منِ وعنَ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے، لہذا جب اس طرح کی روایات کی حقیقت جاننے کے لیے کتبِ تاریخ اور پھر کتبِ رجال کی مراجعت کی تویہ بات واضح ہوگئی کہ ان میں سے اکثر روایات ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی گھڑی ہوئی ہیں، لوط بن یحییٰ ابو مخنف کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

علامہ ذھبی اور ابن حجر  کہتے ہیں :”اخباری،تالف ،لایوثق بہ“․ (لسان المیزان : 5 /567،میزان الاعتدال:3 /419 )

ابو حاتم وغیرہ نے اسے متروک الحدیث کہا ہے ۔( الجرح والتعدیل :7 /248 ،لسان المیزان :5 /568، سیر اعلام النبلاء :7/302)

یحییٰ بن معین نے فرمایا ”لیس بثقة ‘ لیس بشیء “․ (الضعفاء الکبیر: 4/ 18 ، لسان المیزان :5 /568)عقیلی نے” ضعفاء“ میں تذکرہ کیا ہے۔ (حوالہ بالا ، مزید دیکھیے: سیر اعلام النبلاء : 7/302،الضعفاء والمتروکین، ص: 333، میزان الاعتدال : 3/ 420، المغنی فی الضعفاء : 2 /234)

ابو عبید آجری کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو داؤد سے ابو مخنف کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور فرمایا کہ کیا کوئی اس کے بارے میں بھی پوچھتا ہے؟ یعنی یہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے ۔(لسان المیزان 5 /568)

ابن عراقی کنانی فرماتے ہیں :”کذاب تالف․ “(تنزیہ الشریعة: 1/ 98) ابن جو زی نے بھی کذاب کہا ہے۔(الموضوعات ،ص:406

ابن عدی نے فرمایا : ”شیعی محترق‘صاحب اخبارھم“․

(الکامل فی لضعفاء الرجال :6 / 93 ،لسان المیزان:5 /568)بعض نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ” امامی“ شیعہ تھا ۔(الاعلام لخیر الدین الزرکلی:5/ 245)

ابو مخنف شیعہ مئورخین کی نظر میں
شیعہ مئورخین، خاص کرکتبِ رجال کے مصنفین محسن امین ،شرف الدین ، آغا بزرگ طہرانی ،عباس قمی،محمد مہدی طبا طبائی، خوئی،خاقانی ، نجاشی، حلی اور طوسی وغیرہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتابوں میں بطور شیعہمؤرخ کے کیا ہے ، بلکہ اس کا شمار بڑے اور اکابر شیعہ مورخین میں کیا ہے ۔(اعیان الشیعہ، ص:127 ،اعلام الشیعہ:1 / 16،الکنیٰ والالقاب:1 /148،فہرست اسماء مصنفی الشیعہ للنجاشی ،ص: 224 ،225،الفہرست للطوسی :2 /20 ،الفوائد الرجالیہ لبحر العلوم :1/ 375،379،الکنیٰ والالقاب:1/ 169، المراجعات:2 /21، حلیة الابرار :4/ 146،رجال الخاقانی: 1/177، رجال الطوسی:1 / 459،رجال النجاشی :1 /321،معجم رجال الحدیث :11 /136،138، الاحتجاج لطبرسی :456/1، الذریة: 394/6، خلاصة الاقوال : 389/1،نقد الرجال :141,140/7))

مزید برآں صاحب ”الفوائد الرجالیہ “طباطبائی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس کے شیعہ ہو نے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ اصحابِ معاجم کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے ۔(الفوائد الرجالیہ:3791)

حساس موضوعات پر جھوٹ پر مبنی کتابیں لکھنا
یہ ابو مخنف وہ شیعی مؤ رخ ہے جس نے خیر القرون میں رو نما ہونے والے تمام اہم واقعات پرجھوٹ سے بھری مستقل کتابیں لکھی ہیں،جیسے: سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت ابو بکر ،شوریٰ ،خلافت سے متعلق حضرت عمر کی قائم کردہ شوریٰ ، مقتل عثمان  ،مقتل علی، جنگ جمل وصفین ،مقتلِ حسین ، وفاتِ معاویہ اور ولایتِ یزید ، مقتل عبداللہ بن الزبیر، سلیمان بن صرد  اور عین وردہ وغیرہ۔(فوات الوفیات لمحمد بن شاکر ،ص :225 ، الاعلام للزرکلی :245/5 ، الفہرست لابن الندیم، ص:106, 105، معجم الادباء :670/6 ، معجم المئولفین :157/8)

مشہور مستشرق (اے بیل )نے ”دائرہ معارف اسلامیہ “ میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ ابو مخنف نے قرونِ اولی میں رو نما ہونے والے واقعات کی تاریخ میں ”32“رسالے لکھے ہیں ، جن کا اکثر حصہ طبری نے نقل کیا ہے، البتہ ابو مخنف سے منسوب جو کتابیں ہم تک پہنچی ہیں وہ متاخرین (شیعہ ) کی وضع کردہ ہیں ۔ (الاعلام للزرکلی:2455)

عباس قمی شیعی نے ”الکنیٰ والالقاب“ میں ابو مخنف کے بارے میں لکھا ہے:”کان ابو مخنف من اعاظم مؤرخی الشیعة، ومع اشتھار تشیعہ اعتمد علیہ علماء السنة فی النقل عنہ کالطبری وابن الاثیر وغیرھما “․(دیکھیے : الکنیٰ والالقاب :169/1) ابو مخنف بڑے شیعہ مورخین میں سے تھا، اس کے مشہور شیعہ ہو نے کے باوجود طبری اورابن اثیر وغیرہ نے اس سے روایات نقل کر نے میں اس پر اعتماد کیا ہے ۔

حافظ ابن کثیر کا قول
حافظ ابن کثیر ، طبری وغیرہ سے ابو مخنف کی روایات نقل کر نے کے بعد یہ لکھنے پر مجبور ہوئے : ”وللشیعة والرافضة فی صفة مصرع الحسین کذب کثیر، واخبار باطلة، وفیما ذکرنا کفایة، وفی بعض ما اوردناہ نظر لولا ابن جریر وغیرہ من الحفاظ والائمة ذکروہ ما سقتُہ، واکثرہ من روایة ابی مخنف لوط بن یحییٰ، وقد کان شیعاً وھو ضعیف الحدیث عند الائمة، لکنہ اخباری حافظ، عندہ من ھذہ الاشیاء ما لیس عند غیرہ، ولھذا یترامی علیہ کثیر من المصنفین فی ھذا الشأن “․(البدایة والنھایة : 209/8)
ترجمہ :شیعوں اور رافضیوں کی شہادت حسین  سے متعلق بہت ساری دروغ گوئیاں اور بے بنیاد خبریں ہیں ، ہم نے جو ذکر کیا اس میں کفایت ہے اور ہماری ذکر کردہ بعض چیزیں قابلِ اشکال ہیں، اگر ابن جریر طبری وغیرہ جیسے ائمہ اور حفاظ اسے ذکر نہ کرتے تو ہم بھی ان روایات کو نہ لاتے اور یہ اکثر ابو مخنف کی روایتیں ہیں، جو یقیناً شیعہ ہے اور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ،لیکن اخباری(صحافی) اور حافظ ہے اور اس کے پاس اس حوالے سے ایسی چیز یں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں،لہذا بعد کے اکثر مصنفین نے ان روایات کے بارے میں ابو مخنف سے نقل پر اکتفا کیا ہے۔

ابن عدی  کی صراحت
ابن عدی  نے صراحت کی ہے کہ اس کی کوئی روایت قابل ِاعتبارنہیں، سب بے ہودہ روایتیں ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ یہ بد بخت سلف صالحین کی ہتک عزت کرتا ہے ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں :”حدث باخبار من تقدم من السلف الصالحین ولا یبعد منہ ان یتناولھم وھو شاعی (شیعی) محترق صاحب اخبارھم، وانما وصفتہ لا یستغنی عن ذکرحدیثہ فانی لا اعلم لہ من الاحادیث المسندہ ما اذکرہ، وانما لہ من الاخبارالمکروہ الذی لا استحب ذکرہ“․(الکامل فی ضعفاء الرجال :93/6)
ترجمہ :ابو مخنف متقدمین سلف صالحین کے بارے میں خبریں نقل کرتا ہے اور اس سے بعید نہیں کہ وہ ان کی ہتک عزت کرے ، یہ شیعہ اور ان کا مورخ ہے، میں نے اس لیے اس کا ذکر کیا ہے کہ اس کی احادیث کے ذکر سے استغناء نہیں ،میرے علم میں اس کی کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جسے میں ذکر کروں ،البتہ اس کی صرف وہ نا پسندیدہ، بدبودار روایتیں ہیں جنہیں میں ذکر کرنا پسند نہیں کرتا ہوں ۔

خلاصہ کلام
ان تمام تصریحات سے یہ بات بالکل اظہر من الشمس اور واضح ہوگئی ہے کہ ا بو مخنف ایک بدبودار، شیعہ ،امامی، مورخ ہے، جو بالاتفاق تمام ائمہ حدیث ورجال کے نزدیک ناقابلِ اعتبار اور جھو ٹا شخص ہے ، بلکہ ابن عدی کے بقول یہ شخص سلف صالحین کے واقعات ذکر کر کے ان کی ہتک عزت کرتا ہے ، چناں چہ جن اہلِ تاریخ نے اپنی اسناد کے ساتھ خاص کر طبری اور ابن اثیر وغیرہ نے جو بغیر کسی تنقیح وتحقیق کے اس طرح کے شیعہ ،امامی اور جھو ٹے شخص کی بے بنیاد روایتوں کو اپنی کتابوں میں بکثرت نقل کیا ہے، وہ قابل اعتبار ہرگز نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرات صحابہ کرام سے متعلق کوئی ایسی روایت سامنے آئے جس میں اشارتاًو کنایتاً یا کسی بھی پیرائے سے ان کی شان میں گستاخی ،یا تنقیص کا پہلو نکلتا ہو ، تو اس کو ا ٓ نکھیں بند کر کے نقل کرنے، یااس پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اس کی تنقیح او رتحقیق کرنی چاہیے، تا کہ ابو مخنف جیسے شیعہ مورخ حضرات صحابہ کرام پر کیچڑ اچھالنے کی منحوس ،نا مبارک اور نا مسعودسعی اور گھناؤ نے منصوبے میں ناکام اور نا مراد ہوجائیں ۔ 
Flag Counter