Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

13 - 16
قیدیوں کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کارحیمانہ سلوک
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

سلام اس پر کہ جس نے مشکیں کھول دیں اسیروں کی

زمانہٴ جاہلیت میں قیدی بے دست وپا ہوا کرتے ،انہیں کوئی مراعات حاصل نہ ہوتیں، ان کے ساتھ کسی قسم کی خیر خواہی روانہ سمجھی جاتی، ہر طرح کی بد تمیزی ان کے ساتھ روزمرہ کامعمول تھی، یہی کچھ صورت حال دورِ حاضر میں بھی لوٹ کرآرہی ہے، زمانہ بڑی تیزی سے ماضی کی طرف رواں دواں ہے؛ بلکہ سابقہ نظیروں کو بھی پس پشت ڈالنے کے لیے مستعد ہے، ابھی کچھ دنوں قبل عراق کی بد نام زمانہ ابوغریب جیل کی انسانیت سوز حرکات ظاہر ہوئیں، جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا، اسی طرح گونتا نا موبے جیل میں اذیت ناک سزائیں اور اس کے معمولات وقفہ وقفہ سے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، جس کو تاریخ دان انسانیت سوز مظالم کی داستان میں شمار کرنے سے ہر گز نہیں ہچکچا ئے گا اور تواور اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک اپنایا جاتا ہے، اسے کوئی بھی قلم کار بیان کرنے سے عاجز ہے، اسی طرح دیگر مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ اپنایا جانے والے ناروا سلوک میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچتا رہتا ہے، نیز میں بھی ابھی کچھ دنوں قبل خبر آئی کہ وارانسی کی ایک جیل میں قیدیوں کو ہل میں باندھ کر زراعت کے لیے کھیتوں میں جوتا گیا اور ان سے بیلوں وجانوروں کا کام لیا گیا، ایک جانب موجودہ اور سابق کا یہ طر زعمل ہے، دوسری جانب سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ اسلوب وطریقہٴ کار ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیدیوں کے ساتھ کیا طرز عمل اپنایا؟ کیا آپ صلی الله علیہ وسلم قیدیوں کے ساتھ ظلم پر قادر نہ تھے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم قیدیوں سے سابقہ حساب کی تکمیل پر قدرت نہ رکھتے تھے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم قیدیوں کو ہرطرح کی سزائیں دینے پر قادر ہونے کے باوجود ان کے ساتھ وہ طرز عمل اپنایا جس کی سابق میں بھی کوئی نظیر نہیں ملتی اور مستقبل میں بھی جس کا تصور محال ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ طرزِ عمل ان جانے دشمنوں کے ساتھ جنہوں آپ صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف دینے میں کوئی کسرنہ چھوڑی،ان قیدیوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رحم وکرم کا معاملہ فرمایا، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کو شعبِ ابی طالب میں قیدیوں سے گئی گذری زندگی گذارنے پر مجبور کردیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي الله عنهم کو سرزمین مکہ میں (جس میں انسان تو کجا،جانور بھی آزاد محفوظ ہوا کرتا ہے، حرم کے علاقہ میں شکار بھی مامون ومحفوظ ہوا کرتے ہیں۔) قیدیوں سے ابتر زندگی سے دوچار کردیا تھا؛ حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات کریمی تووہ تھی جو اوروں کو بتوں کی قیدوبند کی صعوبتوں سے آزاد کرانے کے لیے آئی تھی، ایسی ذات والا کو وسیع وعریض کشادہ مکہ کی سرزمین میں پابندِ سلاسل ہونے پر مجبور ہونا پڑا، مکہ جو اوروں کی پناہ گاہ وقیام گاہ تھا یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي الله عنهم کے لیے قید خانے کے مماثل کردیا گیا، جس کے نتیجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہجرت مدینہ پر آمادہ ہونا پڑا؛ لیکن جب انہیں قیدیوں پر آپ صلی الله علیہ وسلم قادر ہوئے یہ ظالم، قیدی بن کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے زیر دست آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے ظلم وستم سہنے کے باوجود انہیں عفوو کرم کی چادر میں لپیٹ لیا۔

قیدیوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرزِ عمل
جنگ بدر میں جب مسلمانوں کے حصے میں کچھ قیدی آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان قیدیوں کے ساتھ صحابہ کرام رضي الله عنهم  کو حسنِ سلوک پر آمادہ فرمایا اور قیدیوں کے تئیں خیر خواہی کی تلقین کی ۔ (طبرانی کبیر: 409 باب من اسمہ حسین، حسن) یہ صرف زبانی تلقین ہی نہ تھی ؛بلکہ عملی طور پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي الله عنهم نے اس کی مثالیں پیش فرمائیں؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہٴ بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا: قیدیوں کا اکرام کرو، چناں چہ صحابہ کرام رضي الله عنهم  بذات خود قیدیوں کے لیے طعام پیش فرماتے۔ (تفسیر ابن کثیر 8/295، مکتبہ علمیہ)

صحابہ کرام رضي الله عنهم  کا طرز عمل قیدیوں کی غذا کے سلسلہ میں یہ تھا کہ وہ ان کے لیے عمدہ رزق تلاش فرماتے اور اس کا انتخاب کرتے، بچا کھچا دینے سے احتراز فرماتے، ابو عزیز اسارت کے احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: انصار ِ مدینہ کو میں نے دیکھا کہ وہ دوپہر وشام میں مجھے تو روٹی کھلاتے ہیں؛ لیکن خودکھجور پر اکتفا کرلیتے ہیں؛ حالاں کہ ابو عزیز ان افراد میں ہیں جنہوں نے غزوہٴ بدر میں نضر بن حارث کے بعد مشرکین کا جھنڈا اٹھایاتھا، صحابہ کرام رضي الله عنهم کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر ابو عزیز کہتے ہیں کہ مجھے خود اس سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ ( السیرة النبویہ 2/475، ابن کثیر) جھنڈا تو وہی شخص تھامتا ہے، جو مخالف سے سخت متنفر ہو اور خود بہادر ہو اور مخالف کو نیست ونابود کردینے کا عزم بھی رکھتا ہو، غور طلب امر یہ ہے کہ ایسے مخالف کے ساتھ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو انسانی اصولوں کے تقاضے کے مطابق رحم وکرم کا پہلو اپنانے کی تلقین کی ہے۔

قیدیوں کا لباس
انسانی ضروریات میں اہم ضرورت لباس ہے، جسے زیب تن کرکے انسان ستر پوشی کرتا ہے اور لباس سے حسن وجمال کا اظہاربھی ہوتا ہے،فی زمانہ قیدیوں کو ایسا لباس زیب تن کرایا جاتا ہے، جس سے ان کی توہین وہتک ہوتی ہے، ایسا لباس ہوتا ہے جس سے بعض دفعہ مکمل ستر پوشی بھی نہیں ہوپاتی، لباس کی ساخت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ غریب سے غریب تر انسان بھی اسارت گاہ کے باہر اس طرح کا لباس استعمال کرنے سے گریزاں ہوتا ہے؛ لیکن قربان جایئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر جنہوں نے قیدیوں کی بھی عزتِ نفس کا لحاظ کیا اور ان کے لیے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں مذکورہے کہ جب ہوازن کے قیدی آئے تو ان کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ سے عمدہ کپڑے خریدنے کا حکم فرمایا، پھر ان کپڑوں کو قیدیوں کو زیب تن کروایا۔ (دلائل النبوة للبیہقی 5/264) کپڑوں کی عمدگی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی قیدی آزاد ہو کر نکلتا تو اسی لباس کو زیب تن کرتا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیدیوں کے لیے کپڑوں کے انتظام کو اس قدر اہمیت دی کہ امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اس سلسلہ میں ایک باب ذکر فرمایا ہے، غزوہٴ بدر میں جب حضرت عباس کفار کی جانب سے قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں پہنچے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے کپڑوں کو دیکھا، اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی کا کرتہ منگوا کر حضرت عباس کو پہنایا۔ (بخاری: 3008 ،باب الکسوة للأساری)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی حضرت عباس رضي الله عنه  سے رشتہ داری سے قطع نظر کرتے ہوئے بحیثیت قیدی دیکھا جائے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیدی کے لیے دشمنِ رسول سے لباس لینے میں پس وپیش نہ کیا۔

قیدیوں کا ٹھکانہ
عموما قیدیوں کی آرا م گاہ وقیام گاہ بالکل الگ تھلگ بنائی جاتی ہے، جس سے عوامی تعلق ورابطہ بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے، جس سے انسان ایک گونہ وحشت بھی محسوس کرتا ہے، بعض دفعہ پسِ دیوار انسان پثرمردگی کا شکار بھی ہوجاتا ہے، جو تنہائی ویکسوئی کاعادی ہو، اس کے لیے تو یہ کوئی رنج والم کی بات نہیں؛ لیکن جو محفلوں کا عادی ہو، جو تنہائی سے گھبراتا ہو اس کے لیے تو یہ ایک وحشت ناک گھاٹی سے کم نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم قیدیوں کے لئے دو مقامات میں سے ایک کا انتخاب فرماتے، ایک تو صحابہ کرام رضي الله عنهم کے گھروں میں قیام ہوتا، یہ قیدی کے لیے اکرام کی بات ہے کہ اس کا قیام صحابہ کرام رضي الله عنهم کے گھروں میں ہو، نہ صرف یہ کہ قیام ہی ہو؛ بلکہ صحابہ کرام رضي الله عنهم اس کی خاطر تواضع دل وجان سے فرماتے، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی قیدی لایا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرامث کے حوالے کرتے، اس سے فرماتے کہ اس قیدی کے ساتھ حسن سلوک کرو، وہ قیدی ان کے پاس دو تین دن رہتا، اس صحابی کا عالم یہ ہوتا کہ وہ اپنی ذات پر قیدی کو ترجیح دیتے۔ (روح المعانی 29/155 مرسل حسن بصری) دوسرا مقام قیدیوں کے لیے مسجد ہوا کرتی، کہ قیدی مسجدمیں رہ کر مسلمانوں کے اعمال واخلاق کا ملاحظہ کرے، اس سے تأثر لے، تاکہ یہی تأثر اس کے ایمان کا سبب بنے، اس کے اثرات بھی بڑے اچھے مرتب ہوئے، چناں چہ ثمامہ ابن اثال کو مسجد ہی میں قید کیا گیا تھا، انہوں نے مسجد میں رہ کر آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي الله عنهم کے عبادات واخلاق سے متأثر ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ (بخاری: 262 باب الاغتسال إذا أسلم)

قیدیوں کے ساتھ نرمی ومحبت
جب کوئی انسان قید ہوجاتا ہے تو وہ بقیہ زندگی کے سلسلہ میں نا امید ومایوس ہوجاتا ہے، وہ اپنی اگلی زندگی کے تئیں غیر یقینی کیفیت سے دو چار ہوجاتا ہے؛ لیکن ان قیدیوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا معاملہ کیا جائے تو انہیں امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے، ایک دفعہ بنو عقیل کے کچھ لوگ گرفتا ہوئے قید ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیے گئے، ان میں ایک صاحب بار بار آپ صلی الله علیہ وسلم سے استفسار کرنے لگے اور یا محمد یا محمد کہ کر خطاب کرتے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے باوجود ان کے ساتھ نرمی ومحبت کا معاملہ اختیار فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم اسلامی مملکت کے قائد ہیں، آپ فاتح بن کر مخالف قوم پر غالب ہورہے ہیں، اس کے باوجوداس قیدی کے ساتھ نرمی وملاطفت کادامن آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ (مسلم:1641، باب الاوفاء لنذر فی معصیة اللہ،ابوداود: 3316، باب فی النذر فیما لایملک)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے رحیمانہ پہلووٴں سے مستفید ہونے میں اپنے اور غیر سبھی برابر ہیں، قیدی اور آزاد کی کوئی تفریق نہیں، غلام اور آقا میں کوئی تفاوت نہیں، مالک ومملوک میں کوئی فرق نہیں، مسلمان غیر مسلم میں کوئی امتیاز نہیں، مغلوب اقوام ، مقید افراد کے ساتھ رحم وکرم کے ذریعہ ایسی نظیر قائم فرمائی ،جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز وقاصر ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت ابوالہیثم کو ایک قیدی عنایت فرماتے ہیں اور انہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آوٴ، ابوالہیثم انہیں گھر لے جاکر ان کا اکرام فرماتے ہیں، اس کے بعد قیدی سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں : نبی صلی الله علیہ وسلم نے تمہارے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرنے کی تلقین کی ہے، لہٰذا تم آزاد ہو اور تمہارے لیے میرے مال میں بھی حصہ ہے۔(شعب الایمان: 4606) نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے مقید عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی انتہائی نرمی وخیرخواہی کی تلقین فرمائی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مقید عورت اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کرنے سے منع فرمایا: چناں چہ ابوایوب انصاری فرماتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مقید والدہ اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کردی، اللہ تعالیٰ روزِمحشر اس کے اور اس کے چاہنے والوں کے درمیان تفریق کردے گا۔ (ترمذی: 1566، حسن، حاکم: 2334، صحیح) دور نبوت میں ایک واقعہ بھی اس طرح کا پیش آیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ابو اسید انصاری رضی الله عنہ قیدیوں کولے کر کے حاضر ہوئے، سب قیدی صف بستہ کھڑے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیدیوں پر نظر دوڑائی تو ایک خاتون رورہی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت کیا، اس نے جواب دیا کہ میرا لڑکا بنو عباس میں بیچ دیا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابو اسید کو فورا حکم دیا کہ جاوٴ! فوری اس بچے کو لے کر آوٴ، ابو اسید سوار ہو کر اس بچے کو لے آئے۔ (مستدرک حاکم: 6193)

آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے قول پر عمل کرکے دکھاتے ہوئے اس مقید خاتون کے آنسووٴں کو خشک کیا، اس کی دلی حسرت وآرزو کی تکمیل فرمائی، جو قیدیوں کو گرفتار کرکے لائے تھے انہیں ہی اس بات کا مکلف کیا کہ وہ فوری بچے کو لے آئیں، یہ سرکارِ دوعالم صلی الله علیہ وسلم کا قیدیوں کے تئیں اسوہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیدیوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر احسان کا معاملہ فرمایا۔
Flag Counter