Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

10 - 16
کہاں ہے جذبہ ایمانی؟
مولانا محمد جہان یعقوب

الحمدللہ!اس پرفتن دورمیں بھی ہرمسلمان کایہ ایمان ہے کہ الله اور اُس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور قرآن پاک کے بتائے ہوئے راستے کے منافی چلنا تباہی کے راستے پر چلنا ہے۔آج ہم مسلمان جو پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حالت میں ظلم وجبر کا شکار ہورہے ہیں وہ اس وجہ سے کہ ہم نے قرآن کو دینی زندگی سے نکال دیا ہے۔ وائے افسوس کہ آج ہمارے کثرت میں ہونے کے باوجود یہود ونصاریٰ اپنی سفاکی کی صلاحتییں مسلمانوں پر بھرپور انداز میں آزما رہے ہیں۔ اور ہم امن،بھائی چارے اور ترقی کے نام پر خاموش بیٹھے ہیں۔جب کہ قرآن پاک کی سورة التوبہ میں ارشاد ہوا ہے:

”کیا اُس قوم سے نہیں لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے نکالنے کا ارادہ کیا۔ حالاں کہ اُنہیں کی طرف سے پہل ہوئی ہے؟ کیا اس سے ڈرتے ہوتو اس کا زیادہ مستحق الله ہے کہ اُس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو تو اِن سے لڑو، الله انہیں عذاب دے گا تمھارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں اُن پر مدددے گا۔ اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گا۔ اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا۔“ (پارہ نمبر 10، سورة التوبہ، آیت 4)12 تا1
        یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
        قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

ہم الله تعالیٰ کی باتوں کو بھُلاکر دنیاوی الجھنوں میں بری طرح پھنس چکے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ : ” ہم نے کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی ہے۔“ (پارہ2 ،البقرة، آیت 211)
        کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
        مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

ہم مسلمانوں کا حال تو اتنا برا ہوگیا ہے کہ ہم اپنے تمام تر مسائل کا حل اقوام متحدہ سے مانگ رہے ہیں اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنا دوست بنارہے ہیں۔ اُن کی ہر ایک بات کا خیال رکھ رہے ہیں کہ:

اقوامِ متحدہ کو کوئی بات بری نہ لگ جائے اور وہ ہماری امداد بند نہ کردے۔ جب کہ قرآن ِ کریم کی سورة النساء میں ارشاد ہورہاہے کہ:
” وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا اُن کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟تو عزت تو ساری الله کے لیے ہے۔“ (پارہ 5، سورة النساء،آیت نمبر 139)

اقبال نے کیا خوب کہاتھا #
        پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
        جھکا جب تو غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من تیرا

پاکستان کو بنے 64 سال ہوگئے ہیں اور اِن 64 سالوں کا ریکارڈ ہے کہ اقوامِ متحد ہ نے صرف اور صرف اپنے لوگوں کے مسائل کو حل کیا ہے یا پھر اُن مسئلوں کو حل کیا ہے جس میں اُس کا مفاد شامل ہے۔ اور یہ بات قرآن واضح طور پر سورة المائدہ میں بتاچکا ہے، مگر ہم عقل نہیں رکھتے۔ ہماری اس بے وقوفی، حماقت اور تجاہل عارفانہ سے بلی کو دیکھ کرکبوتر کی طرح آنکھیں موندنے کی عادت نجانے ہمیں کیا دن دکھلائے گی۔۔۔۔؟؟”اے ایمان والوں! یہود نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں جو کوئی اُن سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہیں۔ بے شک الله بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔ اب تم انہیں دیکھو گے جن کے دلوں میں آزار ہے کہ یہود ونصاریٰ کی طرف دوڑتے ہیں کہتے ہیں، ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے۔“( پارہ 6 سورة المائدہ آیت نمبر 50 تا52)

ہم ان کی دوستی میں پاگل ہوئے جارہے ہیں کہ ان کے کہنے پر اپنے ہی بھائیوں کا خون بہارہے ہیں، جب کہ قرآن کہ رہا ہے: ”ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے۔“ ( پارہ6 المائدہ 81)

ہم مسلمان امن، اقتصادی خوش حالی اور ترقی کے نام پر خاموش ہیں، جب کہ الله ہمیں غالب لانے کے لیے ہمارے حوصلے بلند کررہا ہے۔ اب ہم خود اپنے محسن ومربی پروردگار کے احکامات سے روگردانی کریں تو کسی کا کیا نقصان… ؟؟” اور ہرگز کافر اِس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ وہ ہاتھ سے نکل گئے بے شک وہ عاجز نہیں کرتے۔ اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ۔ جو الله کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں۔“ (پارہ 10، الانفال، آیت نمبر58 تا60)

ہم مسلمان اِس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ہمارا مالی نقصان نہ ہوجائے، کہیں ہمیں شکست نہ ہوجائے۔ یعنی ہمارا الله کی ذات پر سے بھروسا اٹھ گیا ہے ۔(نعوذ بالله) جب کہ قرآن واضح الفاظ میں بیان کررہا ہے کہ: ”اپنے امرربّی سے،غیب کی خبریں بتانے والے صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو،اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دوسو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزار پر غالب آئیں گے۔ اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔“ (پارہ 10 سورة انفال آیت نمبر 64)
        میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے؟
        شمشیر وسناں اول طاوس ورباب آخر
                                                            (اقبال)

ثابت ہوگیا کہ آج ہم قرآن کے بالکل منافی چل رہے ہیں، ہمارے لیے بس آخری راستہ یہ ہے کہ ہم قرآن سے اپنی زندگی کی روشنی حاصل کریں اور کافروں اور یہودیوں پراعتمادکرناچھوڑدیں اوراپنی تقدیر خود بناتے ہوئے اپنے داخلی وخارجی معاملات کے فیصلے خودکریں۔ تبدیلی کے لیے خودکوبدلناضروری ہے۔ہم بدلیں گے تودنیاکارویہ خودبخودبدل جائے گا۔قرآن میں ہے :” بے شک الله کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دے۔“
Flag Counter