ملائکہ کی حقیقت اور ان کی صفات
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
ملائکہ کی صفات
فرشتے نورانی مخلوق ہیں:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مشکوٰة المصابیح، رقم الحدیث:5701، بیروت)
فرشتے عموماً انسانی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں:
کئی بار حضرت جبرائیل علیہ السلام برسر مجلس وحی لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، لیکن حاضرین کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ یہ جبرائیل آپ کو سلام کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان پر بھی سلامتی ہو اور الله تعالیٰ کی رحمت ہو ۔ جبرائیل علیہ السلام وہ چیز دیکھ سکتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ ( صحیح مسلم، کتاب المناقب، باب فی فضل عائشة، رقم الحدیث2447)
فرشتے مختلف شکلیں اختیار سکتے ہیں:
چناں چہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّا﴾․ (المریم:17)۔(پھر بھیجا ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ پھر بن کر آیا اس کے آگے آدمی پورا۔)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتہ بعض اوقات انسانی صورت میں آکر مجھ سے گفتگو کرتا ہے۔
بہت زور آور او رخرق عادت صفات رکھتے ہیں:
چناں چہ صرف آٹھ فرشتے قیامت کے روز عرش الہٰی کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ﴿وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَة﴾․ (اوراٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ ۔)
ان کی قدرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرشتہ صور پھونکے گا تو کائنات میں موجود تمام اشیا پر بیہوشی کا عالم طاری ہو جائے گا۔﴿وَنُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُم قِیَامٌ یَنظُرُونَ﴾․( اور پھونکا صور میں پھر بے ہوش ہو جائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو الله چاہے پھر پھونکا جائے دوسری بار تو فوراً وہ کھڑے ہو جائیں ہر طرف دیکھتے۔)
الله کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوشاں رہتے ہیں:
قرآن کریم میں فرشتوں کو اطاعت اور تسبیح وتحمید کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَہُ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ، یُسَبِّحُونَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لَا یَفْتُرُونَ ﴾․(الانبیاء:20-18)
(اور اسی کا ہے جو کوئی ہے آسمان او رزمین میں او رجو اس کے نزدیک رہتے ہیں، سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہیں کرتے کاہلی، یاد کرتے ہیں رات اور دن نہیں تھکتے۔)
ایک دوسرے مقام پر ان کی فرماں برداری کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے ﴿َلایَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ﴾․(الانبیاء:27)
( اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں۔)
ان میں نکاح اور توالد وتناسل کا سلسلہ قائم نہیں:
کفار او رمشرکین ملائکہ کو عورتیں قرار دیتے تھے، ا لله تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا جب فرشتوں کو پیدا کیا جارہا تھا تو یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ ان کو مرد نہیں عورتیں بنایا ہے ؟﴿وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثاً أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ﴾․(الزخرف:19)
( اورٹھہرایا انہوں نے فرشتوں کو، جو بندے ہیں رحمان کے، عورتیں۔ کیا دیکھتے تھے ان کا بننا؟)
واضح رہے کہ ملائکہ تذکیر وتانیث سے پاک ہیں، قرآن کریم میں ملائکہ کے لیے مذکر کا صیغہ محض تکریم کی وجہ سے ہے، جیسے الله تعالیٰ کے لیے مذکر کا صیغہ محض عظمت کی وجہ سے ہے۔
فرشتے الله تعالیٰ کے قاصد اور پیغمبر ہیں:
یعنی بعض فرشتے انبیا کے پاس الله کا پیغام لاتے ہیں اور بعض دوسرے جسمانی وروحانی نظام کی تدبیر وتشکیل پر مامور ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلا﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے، جس نے بنا نکالے (بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والے۔)
آسمان وزمین کے درمیان اترنے چڑھنے کی قدرت رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَة﴾․(المعارج:4)
( چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کی لمبائی پچاس ہزار برس ہے) روح سے جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں۔)
اطاعت الہی کے باوجود خوف خدا رکھتے ہیں:
الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلِلّہِ یَسْجُدُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلآئِکَةُ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ،یَخَافُونَ رَبَّہُم مِّن فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُون﴾․(النحل:50-49)
(اور الله کو سجدہ کرتا ہے جو آسمان میں ہے او رجو زمین میں ہے جان داروں سے اور فرشتے اور وہ تکبر نہیں کرتے، ڈررکھتے ہیں اپنے رب کا اپنے اوپر سے اور کرتے ہیں جو حکم پاتے ہیں۔ ) فرشتے معصوم ہیں اور الله تعالیٰ سے حد درجہ قرب رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی اپنے رب کے جلال سے ڈرتے ہیں)
ان کا وجود حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کا ہے:
ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل موجود تھے، جس کی واضح دلیل وہ مکالمہ ہے جو حضرت آدم علیہ ا لسلام کی تخلیق سے قبل الله تعالیٰ اور فرشتوں کے مابین ہوا تھا:﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء﴾․ (البقرة:30)
( اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے)
11 فرشتوں کے پر ہوتے ہیں:
فرشتوں کے دو دو یا تین تین ، یا چار چار یا ا س سے زائد پر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے :﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِیْ الْخَلْقِ مَا یَشَاء ُ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ﴾․(فاطر:1)
( سب خوبی الله کو ہے جس نے بنا نکالے ( بنا کھڑے کیے) آسمان اور زمین، جس نے ٹھہرایا فرشتوں کو پیغام لانے والا، جن کے پر (بازو) ہیں دو دو اور تین تین اور چار چار، بڑھا دیتا ہے پیدائش میں جو چاہے، بے شک الله ہر چیز کر سکتا ہے۔)
ملائکہ کی اقسام
قرآن وسنت کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ملائکہ مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
اکابر ملائکہ چار ہیں:
حضرت جبرائیل علیہ السلام، جو انبیاء علیہم السلام کے پاس الله تعالیٰ کا پیغام لاتے تھے﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ، عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْن﴾․(الشعراء:194-192)
(اور یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کالے کر اترا اس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تو ہو ڈرسنا دینے والا۔)
قرآن میں انہیں ”الروح الامین“ ”روح المقدس“ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ملائکہ کی جماعت میں انہیں سردار کی حیثیت حاصل ہے۔ ﴿مطاع ثم امین﴾․ (التکویر:21)۔ ( سب کا مانا ہوا وہاں کا معتبر ہے۔)
حضرت میکائیل علیہ السلام جو خدا کی مخلوق کے لیے رزق کی تدبیر میں مصروف رہتے ہیں۔(روح المعانی، البقرہ تحت آیہ رقم:98)
مذکورہ دونوں فرشتوں کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ﴿مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾․ (البقرہ:98)
( جو کوئی ہووے دشمن الله کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا تو الله دشمن ہے ان کافروں کا۔)
حضرت عزرائیل علیہ السلام جو ملک الموت (موت کا فرشتہ ہے) کے نام سے معروف ہیں۔ (روح المعانی السجدة، تحت آیہ رقم:11) مخلوق کی ارواح قبض کرنے والے فرشتوں کی سرداری بھی انہیں حاصل ہے۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت قائم کرنے کے لیے صور پھونکنے کا فریضہ انجام دیں گے۔
کچھ فرشتے عرش الہٰی اٹھائے ہوئے ہیں﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْش﴾(غافر:7) (جو لوگ اٹھارہے ہیں عرش کو) ایک اور مقام پر فرمایا:﴿ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ﴾․ ( الحاقہ:17) (اور اٹھائیں گے تخت تیرے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ شخص۔)
کچھ فرشتے عرش الہی کا طواف کرنے میں مصروف ہیں:﴿وَتَرَی الْمَلَائِکَةَ حَافِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمَ﴾․( الزمر:75) ( اور تو دیکھے فرشتوں کو گھِر رہے ہیں عرش کے گرد پاکی بولتے ہیں اپنے رب کی خوبیاں۔)
کچھ ارواح قبض کرتے ہیں:﴿حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا﴾․ (الانعام:61)۔(یہاں تک کہ جب آپہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضہ میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے۔)
ملائکہ جنت جو اہل جنت پر سلامتی کی دعا کریں گے: ﴿وَالمَلاَئِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ، سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار﴾․(الرعد:24-23)۔ ( اور فرشتے آئیں ان کے پاس ہر دروازے سے کہیں گے سلامتی تم پر بدلے اس کے کہ تم نے صبر کیا سو خوب ملا عاقبت کا گھر۔)
ملائکہ جہنم، جو اہل دوزخ کو سزا دینے پر مقرر ہیں:﴿عَلَیْْہَا تِسْعَةَ عَشَرَ ،وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِکَة﴾․ (المدثر: 31-30)۔ ( اس پر مقرر ہیں انیس فرشتے اور ہم نے جو رکھیں ہیں دوزخ پر داروغہ وہ فرشتے ہی ہیں۔)
ملائکہ کی اس جماعت کے سردار حضرت مالک علیہ السلام ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَنَادَوْا یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْْنَا رَبُّک﴾․ (الزخرف:77) ۔ ( اور پکاریں گے اے مالک کہیں ہم پر فیصل (موت ڈال دے) کرچکے تیرا رب۔)
کچھ ملائکہ انسانوں کی حفاظت پر مامور ہیں:﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ﴾․(ق:17) ۔(داہنے بیٹھا اور بائیں بیٹھا۔)(﴿لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ﴾․ (الرعد:11) ۔( اس کے پہرے والے ہیں بندہ کے آگے سے اور پیچھے سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔)
وہ ملائکہ جو انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں:﴿وَإِنَّ عَلَیْْکُمْ لَحَافِظِیْنَ ، کِرَاماً کَاتِبِیْنَ﴾․( الانفطار:11-10) ۔( اور تم پر نگہبان مقرر ہیں، عزت والے عمل لکھنے والے۔)
وہ ملائکہ جو اس عالم کے احوال پر مؤکل ہیں، سورة النازعات اور ذاریات کے علاوہ مختلف مقامات پر ان کے احوال کا ذکر ہے ۔
قرآن وسنت کی رو سے ملائکہ کی ذات وصفات روز روشن کی طرح واضح ہو چکنے کے بعد سرسید کا وہ تبصرہ بھی پڑھیے جو انہوں نے ملائکہ کے متعلق حقارت آمیز لہجے میں کیا ہے۔
ملائکہ پر سرسید احمد کا حقارت آمیز تبصرہ
عام مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بت پرستوں کا تھا، وہ فرشتوں کو ہوا کی مانند لطیف سمجھتے ہیں او رمختلف شکلوں میں بن جانے کی ان میں قدرت جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور پردار ہیں کہ اڑ کر زمین پر اترتے اور زمین پر سے اڑ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور چیلوں کی طرح آسمان اور زمین کے بیچ میں منڈلاتے ہیں۔
ایک او رجگہ لکھتے ہیں:
ان کو نوری سمجھ کر گورا گورا برف کا رنگ، نوری شمع کی مانند باہیں، بلور کیسی پنڈلیاں، ہیرے کیسے پاؤں ایک خوب صورت انسان کی شکل، مگر نہ مرد نہ عورتمتصور کیا ہے… کسی کو شان دار اور کسی کو غصہ ور وغضب ناک، کسی کو کم شان کا، کسی کو صور پھونکتا، کسی کو آتشیں کوڑے سے مینہ برساتا خیال کیا ہے۔ (تفسیر القرآن، البقرہ تحت آیہ رقم:30)
ملائکہ کے متعلق سرسید کا موقف اور اس کا علمی جائزہ
سرسید نے فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار تو بآسانی کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن وسنت میں جب بارہا ملائکہ کا ذکر ہوا ہے آخر اس سے کیا مراد ہے ؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے تاویلات کا سہارا لے کر متضاد رائے کا اظہار کیا ہے ۔
۱۔ جبرائیل ومیکائیل صحف انبیا میں کوئی صفت باری تعالیٰ میں سے کسی خاص لفظ سے تعبیر کی گئی تھی۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:145)
آگے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
بہرحال ہم کو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو الفاظ صفات باری تعالیٰ پر مستعمل ہوتے تھے آخر انہی الفاظ کو فرشتوں کے نام سمجھنے لگے۔“ (تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:147)
ملائکہ نبوت پر جبرائیل کا اطلاق ہوا ہے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، آیت:97، حصہ اول:166)
ملائکہ کا اطلاق ان قدرتی قوُی پر ہوا ہے جن سے انتظام عالم مربوط ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:97، حصہ اول:164)
انسان ایک مجموعہ قُوی ملکوتی اورقُوائے بیہمی کا ہے… وہی انسان کے فرشتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، ص:56)
﴿واذ قال ربک للملئکة﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں ملائکہ سے فطرت انسانی مراد ہے، اس پر اعتراض ہوا اس وقت تک تو انسان ( حضرت آدم علیہ السلام) کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تھی پھر فطرت کیسے وجود میں آگئی ؟ جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو دعوی کر دیا کہ یہ سب انسان کی فطرت کا زبانِ حال سے بیان ہے۔( تفسیر القرآن،البقرہ، آیت:30، حصہ اول ص:59)
پھر اس دعوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے تاویلات کا راستہ اختیار کیا، سرسید نے جنت، جہنم، معجزہ، کرامات، معاد، ملائکہ ، جنات، وشیاطین کے متعلق جن فاسد خیالات کا اظہار کیا ہے وہ درحقیقت فلاسفہ اور قرامطہ کے باطل افکار ہیں۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، الباطنیہ،201/1 مجموع الفتاوی لابن تیمیہ176/4)
جنہوں نے علوم نبوت کو اپنے محدود عقلی دائرے میں لانے کے لیے تحریف کا راستہ منتخب کیا، عقل پرستوں کے اس گروہ کی ہمیشہ یہی صدا رہی کہ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات انسان کے میزان عقل میں پوری پوری اترنی چاہیے۔ اگر شریعت کا کوئی حکم او رمفہوم خلاف عقل محسوس ہو تو اس میں تاویل کی جائے یا توقف اختیار کیا جائے۔ ( تفسیر القرآن، اصول التفسیر، الاصل الخامس عشر، ص:30)
یہی وہ اصل ہے جس کی آڑ میں تمام عقل پرست طبقے اسلام کے نام پرایک مخصوص اور متوازی نظام فکر پیش کرتے ہیں۔
گم راہی کا یہ پہلا اعزاز معتزلہ کو حاصل ہے، جنہوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دے کر اپنا راستہ اہل سنت سے الگ کر لیا۔ ( الملل والنحل لشھرستانی، المقدمة الخامسة، ص:38-37)
لیکن فلاسفہ اور قرامطہ (باطنیہ) نے تو اپنے عقائد کی ساری عمارت ہی اسی پر استوار کر ڈالی، اس اصل کی اہمیت کے پیش نظر اس پر تفصیلی بحث ہو گی، کیوں کہ سرسید کی تمام تاویلات (تحریفات) کا مدار بھی یہی اصل ہے۔
نقل اور عقل میں تعارض ہو تو ترجیح کسے ہو گی؟
عقل پرستوں کا موقف یہ ہے کہ جب عقل اور نقل میں تعارض ہو جائے تو ترجیح بہر صورت عقلی نتائج ہی کو ہو گی کیوں کہ اگر اس طرح نہ کیا جائے تو پھر عقل اور نقل کے دو متضاد موقف بیک وقت تسلیم کرنے پڑیں گے، یا دونوں موقف چھوڑنے پڑیں گے جو ( اجتماع نقیضین) اور رفع نقیضین کی وجہ سے ) محال ہیں۔
اور نقل کو عقل پر ترجیح دینا بھی محال ہے، کیوں کہ جب نقل کا پورا کارخانہ عقل پر قائم ہو تو پھر نقل کو ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم فرع کے ذریعے اصل کو باطل کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صورت کسی طرح درست نہیں ، لہٰذا عقل اور نقل میں تعارض ختم کرنے کی ایک ہی درست صورت ہے کہ عقل کو ترجیح دی جائے اور نقل کی تاویل کی جائے۔
یہ وہ دلیل ہے جسے سر سید انتہائی اعتماد کے ساتھ موقعہ بموقعہ اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ، تحت آیہ رقم:98، تحریر فی اصول التفسیر، سر سید احمد خان، الأصل الخامس عشر ، ص:52)
اس دلیل پر حکم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله علیہ نے فکر وتعمق کے جن جواہر ریزوں کو صفحات قرطاس پر بکھیرا ہے انہیں یہاں بعینہ پیش کر دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اس موضوع پر بلاشبہ حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تعارض کی چند صورتیں او راس کا حکم
دلیل عقلی ونقلی میں تعارض کی چار صورتیں عقلاً متحمل ہیں۔
اول یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو، جس میں کسی طرح گنجائش جانب مخالف کی نہ ہو اور دلیل عقلی بھی اسی طرح قطعی ہو۔
دوم یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو ۔
تیسرے یہ کہ دلیل نقلی قطعی ہو اور دلیل عقلی ظنی۔
چوتھے یہ کہ دلیل عقلی قطعی ہو اور دلیل نقلی ظنی ہو ۔
اب ان چاروں صورتوں کے احکا م تفصیل سے پڑھیے۔
پہلی صورت اور اس کا حکم
ان میں سے صورت اول، یعنی یہ کہ دلیل شرعی قطعی مخالف ہو دلیل قطعی عقلی کے اس کا ذکر ہیفضول ہے، کیوں کہ یہ صورت وقوع میں نہیں آئی اور یہ دعوی کیا جاتا ہے اور علی رؤس الاشہاد ( گواہوں کے رو برو) کہا جاتا ہے کہ شریعت اسلامی کو یہ فخر حاصل ہے کہ کوئی بات اس کی، جو قطعی طور پر شریعت کے نزدیک مانی ہوئی ہو ، دلیل عقلی قطعی کے خلاف نہیں اور قیامت تک کوئی بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتا اور یہی دلیل ہے اس شریعت کے حق ہونے کی بخلاف دیگر مذاہب کے، مثلاً موجودہ نصرانیت کہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بیٹا ہونا الله تعالیٰ کا ثابت کیا جاتا ہے، جو مستلزم ہے جزئیت کو اور جزئیت مستلزم ہے حدوث کو اور حادث خدا نہیں ہو سکتا ۔یہ دلیل عقلی قطعی کے خلاف ہے۔
تنبیہ
بعض شرعی باتوں کو عوام میں خلافِ عقل کہا جاتا ہے، جیسے معراج شریف ، عذاب قبر ، پل صراط، وغیرہ ۔حالاں کہ یہ محض بے عقلی ہے ، یہ چیزیں خلافِ عادت ہیں، جس کو مستبعد ( دشوار) کہا جاتا ہے، خلافِ عقل نہیں… چوں کہ شریعت حقہ اسلامی میں کہیں دلیل نقلی قطعی اور دلیل عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوا، اس وجہ سے اس کا تو بیان ہی چھوڑ دیا گیا۔
تعارض کی دوسری صورت اور اس کا حکم
اور صورت دوم یعنی یہ کہ دلیل نقلی بھی ظنی ہو اور دلیل عقلی بھی ظنی ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس وقت میں دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ جانب مخالف کا کسی درجہ کا احتمال رکھتی ہیں ، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ عقلی دلیل کو ترجیح دیں اور دلیل نقلی کو تاویل وتوجیہ کرکے دوسرے بعید احتمال پر محمول کریں ،کیوں کہ یہ تحریف کی ایک قسم ہے ، شریعت کا جو حکم ہمیں معلوم ہوا ہے وہ قرآن کے الفاظ یا حدیث کے الفاظ کے ذریعے معلوم ہوا ہے او راس صورت دوم میں وہ دلیل گو ،دوسرے معنی کو بھی محتمل ہے مگر برابر درجے میں نہیں کیوں کہ ہر لفظ کے ایک معنی قریب ہوتے ہیں، ایک معنی بعید، حتی الامکان الفاظ کو ظاہری اور قریبمعنی پر محمول کرنا چاہیے، ہاں! اگر کوئی وجہ معقول ہو اور الفاظ میں گنجائش ہو تو اور بات ہے، بغیر اس کے کسی عبارت کے معنی قریب کا چھوڑنا ہر گز درست نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو وہ فطری قاعدے کے خلاف ہے ۔ اسی وجہ سے ہم نے اسے تحریف کہا ہے ۔ کیوں کہ یہ قاعدہ فطری ایسا ہے کہ دنیا کے اکثر کاروبار اسی قاعدے پر چل رہے ہیں، مثلاًکوئی ریل کے اسٹیشن پر پہنچ کر نوکر سے کہے ٹکٹ لے لو اور وہ اس کی تعمیل اس طرح کرے کہ ایک پیسہ کا ٹکٹ ڈاک خانہ کا خریدے اور آقا صاحب کے ہاتھ میں دے دے تو یہ حکم کی تعمیل نہ ہو گی، اس میں اس سے زیادہ کیا غلطی ہے کہ اس نے ٹکٹ کے الفاظ کو ظاہری معنی سے پھیر دیا، کیوں کہ ٹکٹ کا لفظ بوقت اسٹیشن پر ہونے کے اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ ریل میں سفر کے لیے کار آمد ہو، گو ڈاک خانہ کے ٹکٹ پر بھی بولا جاتا ہے جب ایک معمولی انسان کے حکم میں معنی قریب کو بدلنا بلاوجہ درست نہیں تو شریعت کے الفاظ میں، جو احکم الحاکمین کے فرمودہ ہیں ،یہ بدلنا کیسے درست ہو گا…؟ اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی قریب چھوڑ کر معنی بعید میں استعمال کرنا درست نہیں، بنا بریں صورت مذکورہ میں، یعنی جب دلیل نقلی ظنی اور دلیل عقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو معنی قریب سے پھیرنا جائز نہ ہو گا، کیوں کہ بے وجہ ہے اور دلیل عقلی کا تعارض اس کے لیے وجہ بننے کی قابلیت نہیں رکھتا، کیوں کہ وہ خود ظنی ہے ، قطعی طور پر وہ دلیل اس سے تعارض نہیں رکھتی ، دلیل عقلی میں کیوں تاویل نہ کی جائے یا اس کو غلط سمجھا جائے تو کون سا حرج ہو جائے گا؟ ہزاروں عقلی ظنی باتیں ایسی ہیں کہ مدتوں تک دنیا کے نزدیک مسلم رہتی ہیں، بعد ازاں غلط ثابت ہو جاتی ہیں، خصوصاً آج کل کی سائنسی تحقیقات تو بہت ہی جلد بدلتی ہیں۔
اسی صورت دوم کی مثال یہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون﴾․ (الانبیاء:33)
( حق تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور آفتاب کو اور چاند کو یہ دونوں آسمان میں چلتے ہیں۔)
یسبحون سباحت سے مشتق ہے ۔ سباحت تیرنے کو کہتے ہیں یعنی ایسے چلتے ہیں جیسے کوئی پانی میں تیرتا ہے ظاہر ہے کہ تیرنے میں تیرنے والے کا جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے ،یعنی پانی کو چیر کر ادھر ادھر پہنچ جاتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ستارے اسی طرح آسمان میں چلتے ہیں، اس کو حرکت انیّیہ کہتے ہیں، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ میں کل جسم متحرک کا منتقل ہو جانا اور بعض حکماء ان کے لیے صرف حرکتِ وضعیہ کے قائل ہوئے ہیں، حرکتِ وضعیہ اس کو کہتے ہیں کہ گول چیز اپنے محور ،یعنی کیلی پر حرکت کرے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ جسم متحرک کے اجزا تو ادھر سے ادھر کو ہٹتے ہیں لیکن کل جسم متحرک کی جگہ نہیں بدلتی، جیسے چکی گھومتی ہے۔ حکماء کی یہتحقیق آیت کے مضمون سے متعارض ہے لیکن حکما کی یہ تحقیق ظن کے درجے سے آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ہے تو اس صورت میں آیت کے الفاظ کے صریح معنوں کو حکماء کی اس ظنی تحقیق کی وجہ سے چھوڑنا اور کوئی دور کی تاویل کرنا کہ مثلاً یہ کہ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ آسمان میں تیر رہے ہیں اور حرکتِ انییہ ( کل جسم متحرک کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جانا) ان کو حاصل ہے۔ ورنہ درحقیقت آسمان میں کیل کی طرح گڑے ہوئے ہیں ، ہاں اپنے محور پر چکی کی طرح گھوم رہے ہیں ، ایسا کہنا جائز نہیں کیوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں کسی نے آسماں پر جاکر دیکھا نہیں ۔ زمین میں بلکہ اپنے ہی جسم کے اندر جو چیزیں ہیں ان ہی کی تحقیق قطعی طور پر نہیں ہوتی تا بآسمان چہ رسد #
تو کار زمین رانکو ساختی
کہ بآسمان نیز پر داختی
…… خلاصہ یہ کہ جب دلیل عقلی ظنی اور دلیل نقلی ظنی میں تعارض ہو تو دلیل نقلی کو چھوڑنا یا اس میں تاویلات کرنا اور دلیل عقلی ظنی کے مطابق بنانا درست نہیں۔ (جاری)