محدود ترین زادِ راہ
عبید اللہ خالد
ایک شخص کے پاس ایک بوتل پانی ہو او راُسے ایک طویل صحرا پار کرنا ہو تو کیا وہ موجود پانی کونہانے حتی کہ ہاتھ منھ دھونے کے لیے استعمال کرے گا یقینا کوئی بھی ذی عقل انسان ایسا نہیں کر سکتا اُسے معلوم ہے کہ اس کے پاس پانی کا ایک محدود ذخیرہ ہے جب کہ اسے طویل صحرا کا پُر مشقت سفر کرنا ہے ۔ ایسی صورت میں عقل وخرد رکھنے والا انسان پانی کے اس ذخیر کو انتہائی ضرورت ہی کے لیے استعمال میں لائے گا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اس محدود ذخیرہٴ حیات اور آخرت کے عظیم نتائج کا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے”الدنیا مزرعة الآخرہ“ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس دنیا میں اپنے عمل کے ذریعے انسان جو کچھ بوتا ہے اسے و ہی فصل ( نتیجہ) موت کے بعد ملے گا۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہی مرنے کے لیے ہوا ہے۔ پیدائش اور پھر موت ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، بہت بڑی نشانیاں ہیں کہ یہ ایک مُسلسل سفر ہے۔ اور یہ قانون قدرت ہے کہ انسان جس قسم کا سفر اختیار کرتا ہے ، ویسا ہی نتیجہ منزل پر پہنچنے پر حاصل کرتا ہے۔
لیکن صد افسوس ہے انسان کی عقل پر کہ اس قدر واضح حقیقت کو انسان بھولا ہوا ہے۔ وہ روزانہ سنتا اور دیکھتا ہے جو کبھی پیدا ہوا تھا، وہ مر گیا لیکن وہ اس دھوکے میں رہتا ہے کہ شاید اسے مرنا نہیں ہے بلاشبہ اسے مرنا ہے۔ لیکن اس حقیقت کوتسلیم کرنے کے باوجود انسان نادان کی طرح اپنی زندگی کے محدود ذخیرے کو کھیل کود اور سیر وتفریح میں ضائع کر دیتا ہے کہ جیسے صحرا میں سفر کرنے والا اپنے پاس موجود بوتل کے پانی کو اپنے ہاتھ پیر دھونے میں خرچ کر ڈالے ۔
غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کیا امیر کیا غریب، کیا جاہل کیا پڑھا لکھا… سب ہی اس محدود ذخیرہٴ حیات کو ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چناں چہ یہاں کی کام یابی کو کام یابی اور یہاں کے نقصان کو نقصان سمجھ لیا گیا، حالاں کہ یہاں کی ہر شے عارضی اور نتیجہ کے اعتبار سے بے حیثیت ہے حدیث کا مفہوم ہے۔
عقل مند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے ( اس دنیا ہی میں جیتے ہوئے) مرنے کی تیاری کرے۔ اس عقل ودانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ یہاں ہر لمحے ہر دم وہ کام کیا جائے جو الله کو راضی کرنے والا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے والا ہو اور ایسا ہر کام صرف اور صرف الله کے حکم اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی ہو سکتا ہے ۔ زندگی کا پہلا اور آخری تقاضا یہی ہے کہ اس کا ہر لمحہ الله کے حکم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق گزرے۔ یہی دانائی ہے اوریہی کام یابی…!!