Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 14
مذہبی کتابوں کی توہین صلیبی طاقتوں کی اولین ترجیح
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

اسلام دشمنی، مسلمانوں کی دل آزاری، قرآن کریم کی بے حرمتی،قرآن سوزی، قرآن پاک شہید کردینا، مذہبی کتابوں کی توہین، یہ اور اس طرح کے واقعات پہلی دفعہ نہیں، بلکہ یورپی ممالک میں تسلسل کے ساتھ اس طرح کا عمل جاری ہے، نیز نبی اکرم ا کی شانِ اقدس میں گستاخی، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، گذشتہ دنوں یہی امریکی فوجی طالبان کی لاشوں پرپیشاب کررہے تھے، گذشتہ دنوں گوانتاموبے جیل میں قید مسلمان قیدیوں سے تفتیش کے دوران امریکی تفتیشی افسروں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی، تاکہ ان افراد کو اعتراف جرم پر مجبور کیا جاسکے، قرآن مجید نذر آتش کرنے کی عادت مسیحی معاشرت میں بکثرت پائی جاتی ہے، بلکہ خود امریکہ میں نائن الیون کے بعد قرآن سوزی کی مسلسل مہم جاری ہے، فلوریڈا کے پادری ٹیری جو نزنے جولائی 2010میں اعلان کیا تھا کہ اس سال گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی برسی پر قرآن کے دوسو نسخے نذر آتش کرے گا، لیکن عوامی غیض وغضب کے بعد ملتوی کردیا گیا، لیکن اگلے سال مارچ میں اس نے یہ شرم ناک حرکت کرہی ڈالی، مسیحی حکم رانوں کی مذہبی کتابوں کی توہین کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے، چناں چہ یورپ کے مسیحی حکم رانوں نے گیارہویں صدی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا جو آغاز کیا تھا، اس کی ہزار سالہ تاریخ کتب سوزی کے واقعات سے بھری پڑی ہے، صلیبی جس شہر کو فتح کرتے نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کرتے، مساجد ومدارس اور کتب خانوں کو آگ لگادیتے، مغربی موٴرخین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انطاکیہ، قیصریہ، طرابلس، شام اور یروشلم کے کتب خانوں کی تباہی کو کبھی بھلا یا نہیں جاسکتا، قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کے کتب خانوں نے بغداد کے بیت الحکمت جیسی شہرت پائی تھی، لیکن اسپین کے عیسائی بادشاہوں اور اہل کلیسا نے اسے بھی تباہ وتاراج کیا، ہلاکو کی فوجوں نے (جنوری 1258ء میں) بغداد کی ۵ سو سال پرانی لائبریری نذر آتش کی، اس میں دنیا بھر کے علوم وفنون پر مشتمل کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لاکھوں نسخے جلنے سے رہ گئے، انہیں دریا دجلہ میں پھینک دیا گیا، عینی شاہدین کے مطابق کتابوں کی روشنائی سے سات دن تک دریا میں سیاہ پانی بہتارہا، الغرض کتب سوزی کی روایت پر بڑی تندہی سی عمل کیا گیا، جارج بش کی صلیبی فوج نے بھی ۲۰۰۳ءء میں بغداد کی لائبریری اور عجائب گھر کو تاراج کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر امریکا میں بہت سے مذہبی گروہ اور ان کے چرچ کتب سوزی کواپنے مذہب کی اشاعت کا ذریعہ قراردیتے ہیں، بلکہ کئی چرچوں سے اس طرح کے احکامات بھی جاری ہوئے ہیں کہ کتب سوزی بھی عبادت کا ایک جز ہے، اس کے برعکس اسلام کا طریقہٴ کار بالکل مختلف اور جُداگانہ ہے، آپ ا نے صحابہ کرام کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی، تاکہ توریت سے واقفیت ہوسکے، عباسی خلیفہ مامون الرشید نے یونانی اور رومی حکما کی کتابیں جمع کیں، عربی میں ان کا ترجمہ کرنے کے لیے ادارہ قائم کیا، اندلس کے حکم رانوں نے اس روایت کو مزید ترقی دی۔

الغرض شکست خوردہ فوج شعائر اسلام کی اہانت کرکے دل کی بھڑاس اسی طرح نکالتی ہے، لیکن اہانت قرآن، وقرآن سوزی کے ذریعہ مسیحی معاشرہ ہر گز اس خام خیالی میں نہ رہے کہ اس نے قرآنی چیلنج کاجواب دے دیا، کیوں کہ قرآن کریم کا چیلنج اوراق سوزی پر نہیں ہے، اگر تم نے اوراق قرآن جلا دیے تو تم قرآن کے مقابل فاتح قرار دیے جاوٴ گے؟ بلکہ قرآن کریم نے تو اب بھی پوری دنیا کو کھلا چیلنج کررکھا ہے کہ اس کی ایک آیت جیسا مثل توپیش کر دکھاوٴ، قرآن کریم کی شان عالی تو یہ ہے کہ اس نے نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اہل دنیا سے اس کے مثل سے عاجزی کا بھی دعویٰ کردیا کہ تم مثل پیش کرہی نہیں سکتے، تقریباً۱۴صدیاں اس پر گذر چکی، لیکن دنیا آج بھی اس کے مثل سے قاصر ہے، اور قاصر ہی رہے گی، لہٰذا در حقیقت یہ قرآن سوزی نہیں ہے، بلکہ منطقِ قرآن کے مقابل اعترافِ شکست ہے اور شکست خوردہ خود سوزی پر آمادہ ہوتا ہے،انہوں نے خود سوزی کے بجائے قرآن سوزی کا ارتکاب کرکے اپنی شکست وپستی کا اعتراف کیا ہے۔

صلیبی وصیہونی معاشرہ مذہبی کتابوں کی توہین کرتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ روس ہزار بلکہ لاکھ کوشش کے باوجود اپنے ملک سے مذہبیت کا خاتمہ نہ کرسکا، روس مذہبی کتابوں کی ضبطی اور مذہبی کتابوں کو نذر آتش کرنے کے باوجود، بلکہ کاغذ پر بھی پابندی لگا کر اپنے ملک سے قرآن کے حفاظ اور علمائے اسلام کا خاتمہ نہ کرسکا، حفاظت قرآن کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے۔

نیز کفارِ مکہ نے بھی قرآن کے مقابل رستم واسفندیار کے قصے منگوائے تھے، کبھی ڈھول باجوں کا سہارا لیا تھا، مگر حق کے مقابل باطل نے کام ہی نہیں کیا، بلکہ طاغوتی طاقتوں نے جب بھی قرآن واہل قرآن کے خلاف مہم چلائی ہے یہ مہم مسلمانوں کے حق میں تبدیل ہوگئی ہے۔

قرآن سوزی کے یہ واقعات مسلمانوں کے غیرتِ دین کا امتحان لے رہے ہیں کہ مسلمانوں کا اپنی آفاقی ولا فانی کتاب کے تعلق سے کتنا جذبہ ان کے قلب میں جاگزیں ہے؟ وہ اپنی مذہبی کتاب کے تئیں کتنے حساس ہیں؟ کیا اب بھی ان کی غیرت ِ ایمانی جاگ سکتی ہے؟ فحاشی وعریانیت کے سیلاب میں غوطہ زن،گناہوں کے زہر آلود ماحول سے متأثرہ مسلمان اب بھی مذہب سے وابستگی کا ثبوت دے سکتا ہے؟ افغانیوں نے بھی بھرپور قرآن سے وابستگی کا ثبوت دیا، یادرہے آج بھی افغانستان میں قرآن سوزی میں احتجاج کرنے والے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے وہی مسلمان ہیں جو2001ء میں اسلامی حکومت کے زوال پذیر ہونے پر خوشیاں منارہے تھے، اسلامی حکومت کی رخصتی پر اپنی ڈاڑھیاں تراش رہے تھے، ان سب کے باوجود آج بھی ان میں اتنی حمیت وغیرت باقی ہے کہ وہ باطل کے مقابل سینہ سپر ہوسکتے ہیں، کیوں کہ قرآن کریم اور رسول اکرم ا کی محبت وہ چیزہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کسی مسلمان کے دل سے خارج نہیں کرسکتی اور یہ محبت جب بھی انگڑائی لیتی ہے طاقت کے بڑے بڑے بُت پاش کردیتی ہے، یہ ابابیلوں کی طرح، ہاتھیوں کے لشکروں کو بھس بھرے کھلونے بنادیتی ہے، کیوں کہ کسی کلمہ گو کا دل قرآن مجید اور نبی اکرم ا کی محبت سے خالی نہیں ہوسکتا اور جس دل میں یہ محبت ہے اسے زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھا جاسکتا۔

جہاں مسلمانوں کے لیے اس طرح کے واقعات افسردگی کا ذریعہ ہیں، وہیں ان واقعات پر بھر پور نفرت کا مظاہرہ کریں اور اس بات کا شدت سے مطالبہ کریں کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو، اسی طرح اپنی قرآن سے وابستگی میں اضافہ کریں، یہ واقعات ہمیں مذہب سے قریب کرنے میں معاون ومدد گار ہوں، نہ صرف یہ کہ نفرت کے اظہار پر ہم مطمئن ہوجائیں؛ بلکہ قرآنی تعلیمات سے عملی زندگی کو وابستہ کریں، ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی امید ہونی چاہیے کہ جس طرح سابقہ واقعات سے کئی خیر کے پہلو سامنے آئے ہیں، اسی طرح اس واقعہ سے بھی کوئی خیر کا پہلو سامنے آئے گا، ورنہ تو افغانیوں کا متحدہ طورپر بیرونی افواج کے تخلیہ کا مطالبہ ہی کیا کم ہے؟ 
Flag Counter