Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 14
عصبیت کی آگ
سید محمد زبیر،کراچی

دو طبقے،دو جماعتیں
اگر ہم لوگوں کا سرسری جائزہ لیں ،تو ہم اس نتیجے پہ پہنچیں گے کہ تمام انسانیت دوجماعتوں میں منقسم ہے:ایک وہ جو”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“کی داعی ہے اور دوسری وہ جو”الکفرملة واحدة“کا مصداق ہے۔

پھر یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ تمام امت مسلمہ کی مثال -عرب ہو یا عجم ،کا لے ہوں یا گورے ،امیر ہوں یا غریب-ایک خاندان کی مانند ہے،جو باہمی اخوت کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے؛چناں چہ حضور اقدس انے فرمایا :
”موٴمن (دوسرے)موٴمن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ہرحصہ ،دوسرے کو مضبوط کرتا ہے ... “۔(بخاری)

ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مسلمانوں کی باہمی اُلفت، موٴدت، رحمت اور شفقت میں مثال انسانی جسم کی ہے کہ اگرکسی ایک عضومیں تکلیف ہو تو اس کا سارا جسم بے چینی اور بیماری کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے“۔

یہی اسلامی اخوت وہ بنیاد تھی جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خاندانی رشتوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کردیا اور بلال حبشی، صہیب رومی اورسلمان فارسی رضی اللہ عنہم کا رشتہ جو ڑدیا #
        حسن زبصرہ، بلال زحبشہ، صہیب از روم
        زخاک مکہ ابوجہل، این چہ بو العجبی ست؟

علامہ شہر ستانی کا قول
علامہ عبدالکریم شہر ستانی اپنی شہرہ آفاق تصنیف”الملل والنحل“ میں لکھتے ہیں:
”شہر میں جب تک آبادی زیادہ نہیں تھی تودنیا کی چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں…اس کے بعد جب آبادی زیادہ پھیل گئی تو ہر سمت کے لو گوں میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر ،قومیت اور اجتماعیت کا تصور ایک اصول بن گیا...(پھر ایک دور آیا جب)علاقائی،صوبائی،وطنی اور لسانی بنیادوں پر انسانیت کے ٹکڑے کر کے الگ قومیں کھڑی کردی گئیں اور آج یہی سکہ تقریباًساری دنیامیں چل رہا ہے ...“۔

عصبیت کیا ہے؟
اس سارے فساد کو ہم ”تعصب اور قوم پرستی “سے تعبیرکر سکتے ہیں، ہا ں ! اپنی جماعت اور اپنی قوم کی جائز حمایت کرنا اورا ن کے فطری اور قانونی حقوق ومفادات کے حصول وتحفظ کے لیے اس طرح جدوجہد کرنا کہ دوسروں کے حقوق اور مفادات پر کوئی زد نہ پڑے ،تعصب نہیں ہے ؛البتہ!اگر اپنی جماعت وقوم کی اس طرح بے جا حمایت کی جائے جس سے دوسروں کے لیے ظلم اور تعدی کے جذبات ظاہر ہوتے ہوں،یا اپنی جماعت وقوم کی جدوجہد میں معاونت کرنا جو سراسر زیادتی اور انتہا پسندی پر مبنی ہو ،تو اس کو عصبیت کہا جائے گا اور شریعت کی رو سے ایسی حمایت ومعاونت کی کوئی حقیقت نہیں۔

عصبیت کی حقیقت شریعت کی نگاہ میں
رسول ا سے پوچھا گیا کہ عصبیت کیا ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا :” عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کر و ‘ ‘ ۔ (ابوداود)

اسی طرح ایک مرتبہ آپ ا سے دریافت کیا گیا کہ کیا عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم اور جماعت کو عزیز رکھے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں!بلکہ عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملے میں اپنی قوم وجماعت کی (اندھی)حمایت کرے۔ (مسنداحمد،ابن ماجہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے قومیت، ،لسانیت اور علاقائیت کے نعروں کا خاتمہ فرمایااور بتایا کہ اسلامی معاشرہ امن وسکون کا معاشرہ ہے،جو محبت،اُخوت اور ہم دردی کا درس دیتاہے۔

عصرِ حاضر اور عصبیت
عصر حاضر میں مسلمانوں نے اس سبق کو یکسر بھلادیا ہے ،باہم شیر وشکر ہونے کے بجائے آپس میں دست و گریباں ہیں، آئے دن ،نت نئے فتنوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے ۔

تعصب وہ”دعوہٴ منتنہ“(بدبودار نعرہ)ہے جس نے پوری پوری قوموں کو تہس نہس کر ڈالا ،خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا،مسلمانوں کے رعب ودبدبے کے چڑھتے سورج نے غروب کے دن دیکھے ،کئی کئی بستیاں خون سے رنگ دی گئیں،کئی گھروں کے ٹمٹماتے چراغ تک بجھادیے گئے ۔

ہم کب بیدار ہوں گے؟
آج بھی قومیت اور لسانیت کی بنیاد پہ تباہ ہونے والے معصوم بچوں کی آہیں اور بیواوٴں کے نوحے ،اس مسلمان کو کیوں نہیں جھنجوڑتے ․آخر ہمیں کس چیز کا انتظار ہے ؟اس دہکتی آگ کے انگاروں کو اپنے گلشن کا رخ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں؟؟

دانا وبینا لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ 20,000,000کی آبادی والے اس شہر کے بگڑے حالات بھی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔لیکن ”قوم پرستی “جن کے ضمیر کو اندھا کردے ،تو انہیں کسی مظلوم کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ۔پتا نہیں کیوں ،وہ اس بات سے اتنے نا آشنا ہیں کہ ظلم وستم کی اس چکی میں ایک دن وہ خود بھی پس جائیں گے #
        جو اوروں کو جلاتا ہے، خود بھی جلتا ہے ضرور
        شمع جلتی رہی، پروانے جل جانے کے بعد

عصبیت سے متعلق اسلامی تعلیمات
اسلام نے تعصب اور قوم پر ستی کی سخت مذمت کی ہے ۔سینکڑوں احادیث اس کی قباحت کو بیان کر تی نظر آتی ہیں۔

صحیح مسلم کی روایت ملا حظہ فرمائیں :
”جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے اس طرح کہ عصبیت کی وجہ سے غصہ کا اظہار کرے ،یا عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے یا قومیت کی بنیاد پر کسی کی مدد کرے پھر وہ مارا جائے ،تو اس کی موت جاہلیت کی مو ت ہوگی؟ اور جو میری امت کے خلاف تلوار اٹھائے،نیک اور بد،ہر ایک کو قتل کرے…اس کا نہ مجھ سے (یعنی میر ی جماعت سے)کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے“۔

تمام مسائل کا حل
انسانیت کے تمام مسائل ،انفرادی ہوں یا اجتماعی،ان کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں ملے گا او ر یہی اس کی گم شدہ راہ کے لیے سامان ہدایتِ ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ قومیت اور لسانیت کے بت کو پاش پاش کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اُخوت،بھائی چارہ،ہم دردی،آپس میں محبت واُلفت کو اپنا لیں، تا کہ امت مسلمہ ترقی اور سر بلندی کی راہوں پہ گام زن ہو جائے؟کیوں کہ یہی ”صراط مستقیم“اس کی سلامتی اور بقا کا ضامن ہے ۔
Flag Counter