Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

10 - 14
سن رسیدہ کے حقوق
محترم محمد شمشاد ندوی

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف بنایا۔اس کو علم،عقل،صلاحیت اور فہم و فراست عطا فرمائی۔انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اُن میں نیک و بد، عالم وجاہل،مشرک ومومن،اپنے اور پرائے، ہمسایہ واجنبی وغیرہ ہیں۔مردو عورت میں مختلف رشتہ داریاں اور حقوق وواجبات ہیں۔ان میں بچے،جوان، بوڑھے،محتاج وکمزور،یتیم و بیوہ اور بیمار واپاہج بھی ہیں۔انسانی نسل میں مختلف قبائل وخاندان،رسم ورواج،مذہب ومسلک،رنگ ونسل،ملک ووطن ہیں، لیکن تمام تر تفریقات کے باوجود کچھ قدریں مشترک ہیں اور انسانی آبادی میں ان قدروں پر عمل ہوتا رہا ہے۔ بچوں سے شفقت و محبت اور بوڑھوں کا ادب و احترام تمام قوموں اور مذہبوں میں پایا جاتا ہے اور انسانی سماج میں ہر عمر کے لوگوں کے لیے الگ الگ برتاؤ پایا جاتا ہے، لیکن آج بدلتے حالات کے ساتھ بہت سی پرانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔مغربی ممالک اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے سماج میں بوڑھے مرد اور عورت پر ظلم و زیادتی پائی جارہی ہے۔ان کا ادب و احترام،ان کی خدمت و خبرگیری سے خود اولاددورہوتی جارہی ہے۔بوڑھے اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور سرکاری رہائش گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔آئے دن ان پر زیادتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

مسلم خاندان و معاشرے میں بھی بتدریج تبدیلیاں آرہی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ عمر رسیدہ کے حقوق اور ان کے ادب و احترام اور خدمت وخبر گیری کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا جائے اور وعظ ونصیحت اور آپسی ملاقاتوں میں بھی بڑوں کے ادب و خدمت کو بار بار دہرایا جائے اور بچوں پر شفقت و محبت اور بڑوں کے ادب و احترام کا عمومی ماحول پیدا کیا جائے۔

اسلام نے چھوٹوں پرشفقت و محبت کرنے اور عمر رسیدہ لوگوں کی عزت و احترام کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں احادیث اور اسلاف کے قول وعمل کے نادر نمونے موجود ہیں۔حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا…”من لم یرحم صغیرنا ولم یعرف حق کبیرنا فلیس منا“ (جوہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حقوق کونہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ہے)۔

اس حدیث میں بڑوں کے ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے۔ایسے لوگوں کا رشتہ اسلام سے کمزور ہے۔

نماز ایک اہم رکن ہے،اس میں بھی بوڑھوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔انفرادی نماز میں انسان کو بڑی سورت اور لمبی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن جماعت کی نماز میں بوڑھے ،کمزور اور بیمار شریک ہوتے ہیں اس لیے امام کو حکم دیا گیا کہ آسانی اختیار کرے اور نماز زیادہ لمبی نہ کرے۔

”عن أبی ھریرة ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اذا أم أحدکم الناس فلیخفّف، فان فیھم الصغیر والکبیر والضعیف والمریض، فاذا صلی وحدہ فلیصلّ کیف شاء“․
ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے(یعنی زیادہ طول نہ دے)،کیوں کہ مقتدیوں میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔“

ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امام پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو بوڑھے،کمزور اور ضرورت مندوں کاخیال نہ رکھتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتے تھے۔چناں چہ صحیحین میں ہے:
”عن قیس بن أبی حازم قال أخبرنی أبو مسعود ان رجلاً قال: واللّٰہ یا رسول اللّٰہ، انی لاتاخر عن صلاة الغداة من أجل فلان مما یطیل بنا، فمارأیت رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم فی موعظة أشد غضباً منہ یومئذ، ثم قال: ان منکم منفرین، فایکم ما صلی بالناس فلیتجوز، فان فیھم الضعیف والکبیر وذاالحاجة“
ترجمہ :”قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں۔حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا،پھر اس خطبہ میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو ( اپنے غلط طرزِعمل سے اللہ کے بندوں کو)دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ نماز مختصر پڑھائے،کیوں کہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔“

حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات امامت فرمائی۔مرض الموت میں صحابہ کرام کے درمیان سب سے معزز ہستی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کے فریضہ کو انجام دیا۔یہاں بھی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو فراموش نہیں فرمایا۔قرآن و حدیث میں مہارت،عمر میں برابری،ہجرت میں سبقت میں سب برابر ہوں تو اس وقت سب سے زیادہ عمر دراز کو امامت کرنی چاہیے۔

”عن ابی مسعود الأنصاری قال:قال رسول للہ صلی الله علیہ وسلم: یوٴم القوم أقروٴھم لکتاب اللہ، فان کانوا فی القرأة سواءً، فاعلمھم بالسنة، فان کانوا فی السنة سواءً فاقدمھم سناً، ولا یوٴمن الرجل الرجل فی سلطانہ، ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ، الا باذنہ“ ․
ترجمہ:”حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہواور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے،جو سن کے لحاظ سے مقدم ہواور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں ا س کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔“

امام بخاری نے کتاب الاذان کے تحت ایک روایت کو ذکر کیا ہے جس میں عمر میں سب سے بڑے کو امامت سپرد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

”عن مالک بن الحویرث: اتیت النبی صلی الله علیہ وسلم فی نفر من قومی، فأقمنا عندہ عشرین لیلة، وکان رحیماً رفیقاً، رأی شوقنا الی أھالینا، قال: ارجعوا وکونوا فیھم، وعلموھم وصلوافاذا حضرت الصلوٰة فلیوٴذن لکم احدکم ولیوٴمکم اکبرکم“․
ترجمہ:”حضرت مالک بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان اور نرم مزاج تھے۔چناں چہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم لوگ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس جانے کے مشتاق ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ اب واپس چلے جاوٴاور اپنے قبیلے میں ٹھہر کر انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھاوٴ، جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔“

بیہقی نے کتاب الزہد میں حضرت انسسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ اس سے جنون اور جذام اور برص کو رفع کردیتا ہے،پھر جب پچاس سال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب نرم فرما دیں گے،پھر جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ا س سے محبت فرماتے ہیں اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جب اسّی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کے حسنات کو قبول فرمالیتے ہیں اور اس کی سیئات کو معاف فرمادیتے ہیں، پھرجب نوّے سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کا نام خدائی قیدی ہو جاتا ہے اور اس کے اہل کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔

حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا…”ان من اِجلال اللہ تعالیٰ اِکرامَ ذی الشیبة المسلم، وحامل القرآن غیر الغالی فیہ، والجافی عنہ، واِکرام ذی السلطان المقسط“․
ترجمہ:”اللہ کی عظمت واحترام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عمر رسیدہ کا اکرام کیا جائے اور اس قرآن کے حامل وحافظ کا جو اس میں غلو نہ کرنے والا ہو اور نہ اس کو چھوڑنے والا اور عادل بادشاہ کا“۔

جس شخص نے عمر رسیدہ کی عزت کی اس کا بدلہ یہ کہ بڑھاپے میں اس کی بھی عزت کی جائے گی۔

”عن أنس بن مالک رضی ا للہ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ما اکرم شابٌ شیخاً لسنہ الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ“․
ترجمہ:”حضرت انس رضی ا للہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نوجوان کسی بوڑھے کی عزت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے شخص کو مامور کرے گا جو اس کے بڑھاپے میں اس کے عزت کرے۔“

جو شخص اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے بوڑھا ہو جائے اور اس کے بال سفید ہو جائیں ،اس کو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک نور عطا فرمائے گا۔یہ اس کی عظمت وبڑائی کی علامت ہوگی جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں میں ممتاز ہو گا۔

”عن کعب بن مرة قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من شاب شیبة فی الِاسلام کانت نوراً یوم القیامة“․
ترجمہ:”حضرت کعب بن مرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جونوجوان اسلام میں بوڑھا ہو گیا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا“۔

دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بوڑھے شخص کے لیے ایک سفید بال کے بدلہ ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ مٹائے گا۔

”کتب اللّٰہ بھا حسنة وحط عنہ بھا خطیئة“ لأصحاب السنن بلفظ ابی داوٴد․
ایک اور حدیث میں ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ  سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے اس بات سے کہ اپنے بندے اور بندی کو جب کہ وہ اسلام میں بوڑھے ہوں،عذاب دیں۔

عمر دراز کی عظمت و بڑائی کا تقاضا ہے کہ چھوٹا سلام کرنے میں پہل کرے اور بعض روایتوں میں بڑوں کے ادب و احترام کے لیے کھڑے ہونے اور ہاتھ چومنے کی بابت معلوم ہوتاہے اور امت کے دین دار ومہذب طبقہ میں اس کا معمول پایا جاتا ہے۔

حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کھانے میں شریک ہوتے تو اس وقت تک برتن میں ہاتھ نہیں ڈالتے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک برتن میں نہ ڈالیں۔

اسی طرح ادب یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد عمر دراز کو سب سے پہلے ہاتھ دھونے کا موقع دیا جائے یا ان کا ہاتھ دھلایا جائے۔اسی طرح اپنے ہر اجتماعی کام میں اپنے بڑوں کو شریک کرے ،ان سے مشورہ کرے۔ان کی رائے پر عمل کرنے سے کام یابی ملتی ہے اور کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے اور اس کام میں برکت ہوتی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”البرکة من أکابرنا ،فمن لم یرحم صغیرنا، ویجل کبیرنا فلیس منا“ ․
ترجمہ:”برکت اکابر کے ساتھ ہے جو، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔

حضرت ابن عباس  روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الخیر مع أکابرنا“یعنی خیر اکابر کے ساتھ ہے۔

کئی افراد جمع ہوں اور ان کے سامنے کوئی چیز پیش کی جائے اور بڑوں کی عزت و مرتبہ کا خیا ل رکھا جائے۔مسلم شریف میں ہے۔

”عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: أرانی فی المنام أتسوک بسواک وجاء نی رجلان، أحدھما أکبر من الآخر، فناولت السواک للأصغرفقیل لی:کبر، اِلی الکبیر منھما “․
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کررہا ہوں،میرے پاس دو آدمی آئے،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا،تو میں نے چھوٹے کو مسواک پیش کیا تو مجھ سے کہا گیا،بڑے کو دیجیے،لہٰذا میں نے وہ مسواک دونوں میں سے جو بڑا تھا اس کے حوالے کردی۔“

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے شفقت و محبت اور رحم وکرم کا معاملہ فرماتے تھے ۔ان کے نقش قدم پر صحابہ کرام بھی بچوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے تھے۔بچے بھی اپنے بڑوں کا ادب و احترام کرنے میں اپنی سعادت و نیک بختی سمجھتے تھے۔کیوں کہ ان کی تربیت ایسی ہی کی گئی تھی۔ایک مرتبہ صحابہ کرام کے مجمع میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ وہ کون سا درخت ہے جس کی تمام چیزیں کار آمد ہیں؟حضرت عبداللہ بن عمر کو اس کا جواب معلوم تھا، لیکن معمر صحابہ کرام کی موجودگی میں جواب دینا ادب کے خلاف سمجھا۔

”عن عبداللہ بن عمر قال قال: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: أخبرونی بشجرة مثَلھا مَثل المسلم، توٴتی اکلَھا کل حین باذن ربھا، لا تحث ورقھا، فوقع فی نفسی النخلة فکرھت ان أتکلم وثم أبوبکروعمر رضی اللہ عنھما فلما لم یتکلما، قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ھی النخلة، فلما خرجت مع أبی قلت یا أبت وقع فی نفسی النخلة، قال:مامنعک أن تقولھا؟ لو کنت قلتھا کان احب الی من کذا و کذاَ قال: ما منعنی اِلا لم أرک ولا أبابکر تکلمتما فکرھت“․
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عمررو ایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا۔آپ لوگ ایسے درخت کے بارے میں بتایئے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔اللہ کے حکم سے ہرموسم اس کا پھل آتا ہے،اس کے پتے نہیں گرتے ۔راوی کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے،میں نے جواب دینا ناپسندکیا، اس لیے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے کوئی جواب نہیں دیا۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا اے میرے والد!میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کادرخت ہے۔حضرت عمرنے فرمایا کس بات نے تم کو جواب دینے سے روک دیا؟اگرتم جواب دیتے تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ۔حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس اتنا کہ آپ اور حضرت ابو بکر نے جواب نہیں دیا تو میں نے جواب دینا نا پسند کیا“۔

اسلام نے بڑوں کی بے حرمتی کرنے،مذاق اُڑانے،برابھلا کہنے اور ان پر ہنسنے سے منع کیا ہے اور بڑوں کی توہین کرنے والوں کو منافق قرار دیاہے۔طبرانی اپنی کتاب معجم کبیر میں حضرت ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ثلاث لا یستخف بہم الا منافق: الشیبة فی الِاسلام، وذوالعلم، واِمام مقسط.“
ترجمہ: ”تین آدمیوں کی توہین منافق کرسکتا ہے،ایک وہ شخص جو حالتِ اسلام میں بڑھاپے کو پہنچا ہو اور عالم اور عادل امام و بادشاہ“۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی اس طرح تربیت فرمائی کہ قرآن وحدیث کی مکمل تعلیمات ان کے اعمال و اقوال سے ظاہر ہوتی تھیں،گویا کہ وہ قرآن و حدیث کے سانچے میں ڈ ھلے ہوئے تھے۔حکیم بن قیس بن عاصم فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:”عن قتادة سمعت مطرفا، عن حکیم بن قیس بن عاصم، أن أباہ أوصی عند موتہ بنیہ فقال اتقوا اللہ، وسوّدوا أکبرہم، فان القوم اذا سودوا أکبرہم خلفوا أباہم، واذا سودوا أصغرہم أزری بھم ذلک فی أکفائھم، وعلیکم بالمال واصطناعہ، فانہ منبھة لکریم، ویستغنی بہ عن اللئیم، وایاکم ومسألة الناس، فانھما من آخر کسب الرجل، واذا متُّ فلا تنوحوا، فانہ لم ینح علی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم واذا متُّ فادفنونی بأرض لا تسعیر بدفنی بکر بن وائل، فانی کنت أغافلھم فی الجاہلیة“․
ترجمہ: ”حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے مطرف سے سنا، وہ حکیم بن قیس بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا واجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں میں ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔تم پر مال حاصل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازم ہے۔مال شریعت کے لیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے کمینہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو…“۔

ایک بوڑھا شخص ،چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم ووطن سے ہو،کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اس کے ادب و احترام کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔“:(اذا أتاکم کبیر قوم فأکرموہ،رواہ الطبرانی)(یعنی جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آدمی آئے تو تم ان کا اکرام کرو)۔

قاضی ابو یوسف نے”کتاب الخراج“میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ایک بوڑھا، جو اندھا بھی تھا، ایک دروازے پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔حضرت عمر نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی؟اس نے کہا جزیہ ادا کرنے،اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کے سبب بھیک مانگ رہا ہوں۔حضرت عمراس کا ہاتھ پکڑکراپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے کچھ دیا،پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو! خدا کی قسم! ہم انصاف نہیں کریں گے،اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔قرآن میں صدقہ کی اجازت فقرا اور مساکین کے لیے ہے ۔فقراء تو وہی لوگ ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ مساکین اہل ِکتاب میں ہیں ،ان سے جزیہ لیا جائے۔

اسلام پورے عالم میں امن وآتشی چاہتا ہے۔برائیوں و گم راہیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔شرک و بدعات،اوہام وخرافات،قتل و غارت گری اور زنا وبے حیائی سے عالمِ انسانیت کو محفوظ و پاک رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے تمام انسانوں تک اسلام کی ابدی و لازوال دولت پہنچاناامتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔

﴿ادع اِلی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی أحسن ﴾․
”اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاوٴ اور ان کے ساتھ بحث کرو بہترین طریقے پر “۔

یہ بھی تعلیم ہے کہ”لا اِکراہ فی الدین“دین میں کوئی زبردستی نہیں۔لیکن اس کے باوجود حق وباطل میں معرکہ آرائی روزِاوّل سے جاری ہے۔حق کے سامنے باطل نے سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔اس موقع پر بھی اسلام نے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے اور عورتوں کی طرف نگاہِ بد ڈالنے سے منع کیا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس خطہ میں تشریف لے گئے،آپ حضرات کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کی موجودگی کو باعث خیر وعافیت اور سعادت و نیک بختی خیال کیا گیا۔

الغرض اسلام نے عمر رسیدہ و بزرگ کی عزت و احترام کا حکم دیتے ہوئے ان کی موجودگی کو معاشرہ کے لیے خیر و برکت کا بہترین ذریعہ قراردیا ہے۔ایک بوڑھا شخص، چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو،اس کا کوئی بھی وطن ہو،اس کاتعلق کسی بھی نسل و برادری سے ہو،ا س کی عزت و توقیر اور ادب واحترام کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے ۔ جو کوئی ان کی عزت واحترام کو ناقابل ِاعتناء سمجھتا ہے،اس کا تعلق و وابستگی کمزور ہے۔دنیا میں بوڑھے و عمر دراز ادب و احترام اور عزت ووقعت کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کو ایک نور سے نوازا جائے گا،جوان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہو گا۔اللہ ہر سفید بال کے بدلے ان کو ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ کو مٹائے گا۔

عمر رسیدہ و بوڑھوں کی قدر و منزلت اور عزت و احترام اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ ان کو آخرت میں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ اورلوگوں میں ممتاز ہوں گے ، یہ ان کی بڑائی اور عظمت کی نشانی ہوگی۔اللہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔دنیاوی معاشرہ میں بھی ان کی موجودگی خیر وبرکت کا بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا ان کے ادب و احترام ،سکون واطمینان اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے عمومی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ امتِ مسلمہ کو انسانی برادری کے سامنے قابلِ تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے۔
وما توفیقی الا باللّٰہ وعلیہ توکلت والیہ اُنیب.
Flag Counter