Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 14
ایمان او راعمال صالحہ
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہاً وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾․ (البقرة:25)
ترجمہ: اور خوش خبری دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے او راچھے کام کیے کہ ان کے واسطے باغ ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، جب ملے گا ان کو وہاں کا کوئی پھل کھانے کو تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جوملا تھا ہم کو اس سے پہلے اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے اور ان کے لیے وہاں عورتیں ہوں گی پاگیزہ اور وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے۔

ربطِ آیات
قرآن مجید میں جہاں جہاں کفار اور ان کی سزا کا ذکر آتا ہے ، مؤمنوں او ران کی جزا کا ذکر بھی ضرور آتا ہے ، تاکہ آخرت کی راحت اورتکلیف کا حال ساتھ ساتھ معلوم ہوتا رہے ، اسی طرز بیان کے مطابق پہلی آیت میں کافروں کے انجام کا ذکر فرما کر ، ان آیتوں میں مؤمنوں اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا ہے۔

تفسیر
یہاں مؤمنین کو جنت کی خوش خبری دو چیزوں کی بنا پر دی گئی ہے، ایک ایمان، دوسرے عمل صالح اور بھی متعدد جگہ قرآن پاک نے اخروی انعامات واحسانات کے حصول کی ایمان او راعمال صالحہ کے ساتھ شرط لگائی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق نہیں بناتا اور عمل صالح بغیر ایمان کے تو کوئی أخروی اجر نہیں رکھتا، اگرچہ نفس ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچانے کا سبب ہے ، لیکن عذابِ جہنم سے بالکل دوری اعمال صالحہ ہی سے ممکن ہے، یہی اہل السنة والجماعت کا عقیدہ ہے۔

ایمان کی حقیقت
ایمان کی حقیقت کے بارے میں مختلف فرقوں کے مختلف نظریات پر اہل علم نے لمبی اور تفصیلی بحثیں فرمائی ہیں، اب چوں کہ اس قسم کے فرقے ناپید ہو چکے ہیں ، اس لیے بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، تعارف کے طور پر خلاصہ جان لینا کافی ہے۔

جہمیہ کا عقیدہ
یہ جہم بن صفوان کے متبعین ہیں، انہی کی تردید میں امام بخاری  نے مستقل کتاب قائم کی ہے ”کتاب الرد علی الجھمیہ“․

ان کے عجیب وغریب عقائد تھے، ان کا کہنا تھا ہے کہ ایمان الله کی معرفت کا نام ہے، مثلاً: ایک آدمی نے دل میں سوچنا شروع کیا او راس کو خود بخود دل میں معرفت حاصل ہو گئی کہ الله ایک ہے ، کہتے ہیں یہ کافی ہے ، بس آدمی مومن ہو گیا، چاہے دل سے تصدیق کرے یا نہ کرے ، زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے، اسی طرح عمل کرے یا نہ کرے ، محض معرفت ایمان کے لیے کافی ہے ۔ ( امداد الباری،263/4، مکتبہ حرم)

معرفت اور تصدیق میں فرق
دونوں میں فرق یہ ہے کہ معرفت غیر اختیاری چیز ہے، کسیچیز کا علم حاصل ہو جانا غیر اختیاری چیز ہے اور” تصدیق“ میں اپنے اختیار سے کسی بات کی تصدیق کی جاتی ہے۔

ان کا یہ مذہب بداھةً باطل ہے ،کیوں کہ یہ معرفت تو یہودیوں کو بھی حاصل تھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾۔(البقرة، آیت:146)
یعنی یہ یہود حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مؤمن نہیں ہیں ، حتی کہ یہ معرفت فرعون کو بھی حاصل تھی، مگر اس کے باوجود فرعون بالاجماع کافر ہے۔

کرامیہ کا عقیدہ
یہ محمد بن کرّام کی طرف منسوب ہیں، مشہور یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے، یعنی جس نے زبان سے کلمہ پڑھا بس وہ مؤمن ہے، چاہے دل میں تصدیق ہو یا نہ ہو ۔ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)

چناں چہ حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ نے بھی یہی نقل فرمایا ہے ۔ (فتح الباری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم! بنی الاسلام علی خمس:64/2، العلمیة)
”الکرامیة قالوا: ھو نطق فقط“
یعنی کرامیہ کے نزدیک ایمان صرف اقرار کا نام ہے۔

لیکن بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ن کا صحیح مذہب یہ ہے کہ زبان سے اقرار دنیاوی احکام کے اجرا کے لیے ہے، البتہ آخرت میں نجات کے لیے ان کے نزدیک بھی دل میں تصدیق ضروری ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی بھی یہی تحقیق ہے ۔ ( فضل الباری:245/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)

اس صورت میں اہل السنہ والجماعہ اور کرامیہ کے درمیان کوئی زیادہ اختلاف باقی نہیں رہتا۔

مرحبہٴ کا عقیدہ
مرحبہٴ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے ، عمل کی کوئی حاجت نہیں ، چناں چہ وہ کہتے ہیں:”لا تضرمع الایمان معصیة کما لا تنفع مع الکفر طاعة“․ (امداد الباری:263/4، مکتبہ حرم)

یعنی جس طرح کفر کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں، کافر خواہ کتنے ہی اچھے عمل کرے ثواب نہیں ملے گا، اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت مضر نہیں ، انہوں نے عمل کو بالکل لغو اور بے کار چیز قرار دیا۔

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی رائے یہ ہے کہ تصدیق قلبی کے بعد مرجہٴ کے نزدیک جنت کا دخول ضروری ہے، اگرچہ کوئی عمل نہ کیا ہو ، لیکن ترقی درجات کے لیے وہ بھی عمل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ (فضل الباری:246/1، ادارہ علوم شرعیہ کراچی)

مرحبہٴٴ ارجاء سے ہے اور ارجاء کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں، مرحبہٴ کہتے ہیں کہ عمل کی کوئی حاجت نہیں ، گویا کہ انہوں نے عمل کو مؤخر کر دیا، اس لیے ان کو مرحبہٴ کہا جاتا ہے۔ (مختار المصاحح، باب الراء:128، العلمیة)

مرحبہٴ کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عذاب کو معصیت پر مرتب کیا گیا ہے ، مثلاً:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً﴾․(سورة النساء:10)

اس میں صاف صاف ذکر ہے کہ وہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے ، جو یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں ، معلوم ہوا کہ معصیت کی وجہ سے عذاب ہو گا۔

معتزلہ وخوارج کاعقیدہ
ان کے نزدیک ایمان تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے : دل میں تصدیق ہو ، زبان سے اقرار ہو، عمل ہو۔

ان میں سے اگر کوئی ایک چیز نہ پائی جائے تو ایمان معتبر نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان بغیر عمل کے درست او رمعتبر نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص عمل نہیں کرے گا تو اس کو مؤمن نہیں کہاجائے گا، اگر کوئی شخص نماز چھوڑدے تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ نماز بھی ایمان کا ایک اہم جزہے اورجب ایک جز کو چھوڑ دیا تو اس پر کل کا اطلاق نہیں ہو گا یا کوئی شخص کسی معصیت کا ارتکاب کرے، مثلاً، چوری کرے ، ڈاکہ ڈالے، زنا کرے ، شراب پی لے تو اس عمل سے بھی وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا، کیوں کہ اعمال ایمان کا جز نہیں۔

پھر معتزلہ وخوارج میں مشہور فرق ہے، خوارج کہتے ہیں کہ معصیت کے ارتکاب سے انسان ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور کفر میں داخل ہو جاتا ہے او رمعتزلہ یہ کہتے ہیں کہ ایمان سے تو خارج ہو جاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا، بیچ میں لٹکتا رہتا ہے اس کو فاسق کہتے ہیں لیکن جس طرح کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اسی طرح یہ فاسق بھی۔ گویا انجام کے اعتبار سے ان کے اور خوارج کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ معتزلہ وخوارج او ر مرحبہٴ دونوں افراط و تفریط کے شکار ہیں، ایک جانب معتزلہ وخوارج ہیں کہ اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا تو ایمان ہی معتبر نہیں اور وہ شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور دوسری طرف مرحبہٴ ہیں کہ ان کے نزدیک معاصی بالکل مضر نہیں، گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود آدمی براہ راست جنت میں جائے گا۔

جمہوراہل سنت کا مسلک مبنی بر اعتدال ہے، نہ تو معتزلہ و خوارج کی طرح تفریط ہے کہ عمل کے نہ ہونے سے ایمان ہی ختم ہو جائے اور نہ مرحبہٴ کی طرح افراط ہے کہ عمل اتنا بے حقیقت ہے کہ اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان نہ ہو، اس وجہ سے جمہور اہل سنت۔فرماتے ہیں کہ عمل ایمان کامل کا جز ہے، جس کامطلب یہ ہوا کہ عمل ایمان کی فرع او رتکمیل کا باعث ہے، چناں چہ قرآن مجید کی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے ، فرمایا:
﴿أَلَمْ تَرَ کَیْْفَ ضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِیْ السَّمَاء﴾․(سورہ ابراہیم:24)

آیت میں اصل نفس ایمان اور عمل اس کی فرع ہے، نیز ارشاد ہے:
﴿إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ﴾․ (الفاطر:10)

کلم طیب نفس ایمان ہے اور عمل صالح اس کی تکمیل کے لیے ہے۔

معتزلہ وخوارج کے نزدیک عمل جز ایمان ہے ، ان کی تردید ان آیات سے ہوتی ہے جن میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے ، مثلاً:
﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَات﴾․ (البقرہ:25)
اس میں عمل کا عطف ایمان پر کیا گیا ہے اور عطف مغایرت چاہتا ہے، تو معلوم ہوا کہ ایمان او رچیز ہے او رعمل اور چیز ہے ، اگر جز ہوتا تو اس کو ایمان پر معطوف نہ کیا جاتا ہے۔

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ ﴾․(سورة النساء، آیت:48)
ترجمہ: بے شک الله تعالیٰ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے او راس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔

معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ شرک سے کم گناہوں کی بخشش فرمائیں گے ، انسان کیسا ہی بد عمل اور کتناہی گنہگار ہو، مگر کسی نہ کسی وقت جہنم سے نکال لیا جائے گااور جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔

اگر عمل جز ایمان ہو تا جیساکہ معتزلہ وخوارج کہتے ہیں تو وہ کبھی بھی جنت میں نہ جاتا۔

ایمان کی حقیقت کے بارے مختلف فرقوں کے مذاہب کا مختصر خلاصہ بیان کر دیا گیا، امید ہے ان کی پہچان کے لیے اتناکافی ہو گا۔
﴿وبشر الذین اٰمنوا الخ﴾

”واو“ عرف عطف، ”بشر“ فعل امر معطوف ہے، عطف کے بارے میں تین احتمال ہیں۔(الکشاف، سورة البقرہ، رقم الآیة:25،104/1، أدب الحوذہ، التفسیر الکبیر:126/2، اعلام الاسلامیہ، سورة البقرة، رقم، الآیة:25)․

مضمون جملہ کا عطف مضمون جملہ پر ہے، یعنی مؤمنوں کی جزا کے بیان کا عطف، کافروں کے عذاب کے بیان پر ہے۔

”فاتقوا“ فعل امر پر عطف ہے۔

بشر کو فعل ماضی مجہول پڑھا جائے ، جیسا کہ ایک قرأت بھی ہے، تو اس صورت میں ” اُعدت“ پر عطف ہو گا۔

وہ خوش خبری کیا ہے ؟ فرمایا:﴿أن لھم جنت تجری من تحتھا الانھر﴾ کہ ایسے لوگوں کے لیے جنت یعنی عجیب قسم کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جنت لغت میں باغ کو کہتے ہیں ، لیکن اصطلاح شریعت میں اس خاص جگہ کا نام ہے جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی، جہاں راحت ہی راحت نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی، آگے جنت کی بعض نعمتوں کا ذکر فرمایا:
﴿کُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْہَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ ہَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُواْ بِہِ مُتَشَابِہا﴾․(البقرة، آیت:25)
یعنی اہل جنت کو جنت کے پھل جب دیے جائیں گے ، تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت دیکھ کر یوں کہیں گے ، کہ یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے۔

پہلے دیے گئے پھلوں سے کیا مراد
بعض مفسرین نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد ہے کہ دنیا میں جو پھل ہمیں دیے گئے تھے یہ اسی جیسے ہیں ۔(روح المعانی:275/1، سورہ البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة، تفسیر أبي السعود:94/1، سورة البقرة، تحت آیة:25، العلمیة، تفسیر ابن کثیر،63/1، سورة البقرة تحت آیة رقم:25، دار الفکر، التفسیر الکبیر:129/2، سورة البقرة،تحت آیة رقم:25، الاعلام الاسلامیة)․

جنت کے پھل ظاہری شکل وصورت میں دنیا کے پھلوں کے طرح ہوں گے، دیکھنے میں مثلاً:آم، انار، سیب ہی ہوں گے ، تو وہ ان کی ظاہری شکل وصورت کو دنیا کے پھلوں سے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے یہ تو وہی پھل ہیں، جو دنیا میں ہمیں ملا کرتے تھے۔ بعض نے فرمایا: وہیں جنت میں جب ایک مرتبہ دینے کے بعد دوسری مرتبہ دیے جائیں گے تو وہ ان پھلوں کی ظاہری شکل وصورت پہلے دیے گئے پھلوں کے مشابہہ ہونے کی وجہ سے کہیں گے : یہ پھل تو وہی ہیں جو ہم کو پہلے دیے گئے تھے، مگر جب کھائیں گے تو نئی لذت پائیں گے۔ (ایضاً)

بعض حضرات نے فرمایا کہ پہلے دیے گئے پھلوں سے مراد وہ طاعات ومعارف ہیں جن کو اصحاب فطرت اور عقول سلیمہ (رزق، ظاہری سے زیادہ) لذیذ سمجھتے ہیں اور یہ پھل لذت میں ان طاعات ومعارف کے مشابہہ ہیں۔ ( روح المعانی:275/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 العلمیة)

خلاصہ یہ کہ جنت میں ہماری سوچ سے بہت بلند اعلیٰ درجہ کی غذائیں ملیں گی، پھر ان مادی غذاؤں کے ساتھ سکون وراحت قلب کے لیے حسب منشا رفیق بھی ملیں گے، فرمایا:﴿وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ﴾․(تفسیر ابن کثیر:64/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25)
یعنی ان کے لیے بیویاں ہوں گی پاک صاف۔

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”مطھرة من القذر والاذی“ یعنی گندگی اور تکلیف دینے والی چیز سے پاک صاف ہوں گی اور مجاہد نے فرمایا:(حوالہ بالا)
”من الحیض والغائط والبول والنخام والبزاق والمنی والولد“ یعنی حیض، پاخانہ، پیشاب، رینٹ، تھوک، منی اور بچے سے پاک صاف ہوں گی اور حضرت قتادہ نے فرمایا(حوالہ بالا)”من الاذی والماثم“ یعنی ہر تکلیف دینے والی چیز او رگناہوں سے پاک صاف ہوں گی۔

ان سب اقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ وہ ہر قسم کی ظاہری وباطنی گندگی سے پاک صاف ہوں گی، ان کا ظاہر وباطن سب کچھ عمدہ او ربہترین ہو گا۔

” مطھرة“ (باب تفعیل سے) فرمایا اور ”طاھرات“ نہیں فرمایا۔

اس سے ان کی طہارت او رپاکیزگی کو نہایت اعلیٰ طریقے پر بیان فرمانا مقصود ہے کہ ان کو ایک پاک کرنے والے نے پاک بنایا ہے اور وہ پاک بنانے والا الله ہی ہے۔ (الکشاف:110/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25، ادب الحوذہ، التفسیر الکبیر:130/1، سورة البقرة، تحت آیة رقم:25 الاعلامیة الاسلامیہ)․

یہ مفہوم لفظ”مطہرہ“ سے تو نکلتا ہے لفظ”طاہرات“ سے نہیں، اس لیے مطہرہ فرمایا۔﴿وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُون﴾، یعنی جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔

نوٹ: ”خلود“ سے متعلق تفصیلی بحث سورہ ہود آیت نمبر1 کے تحت آئے گی)

جنت کی جن چیزوں کا قرآن وحدیث میں تذکرہ ہے ، اس میں کسی نعمت کی پوری کیفیت بیان نہیں کی گئی، جو کچھ بیان فرمایا ہے ، وہاں کی نعمتیں اس سے بہت بلند وبالا ہیں۔

پھر جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے ، وہاں ان کے علاوہ بھی بہت زیادہ نعمتیں ہیں، نیز کسی چیز کے دیکھنے اور استعمال کرنے سے جوپوری واقفیت حاصل ہوتی ہے وہ محض سننے سے حاصل نہیں ہو سکتی ، لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے نعمائے جنت کی واقعی حقیقت وکیفیت کا ادراک نہیں ہو سکتا ہے ۔

سرسید احمد خان صاحب کا جنت کی مادّی نعمتوں سے انکار
سرسید احمد خان او ران کی روش پر چلنے والے عقل پرست جنت کی مادّی نعمتوں کا کھلے لفظوں میں انکار کرتے ہیں ، ان کے نزدیک جنت کے میوے پھل، شراب وشہد ، حور قصور اور اس طرح کی تمام نعمتیں جسمانی اور مادّی کے بجائے روحانی نوعیت کی ہیں، چناں چہ سرسید صاحب اپنے موقف کے اثبات میں لکھتے ہیں:

”جنت یا بہشت کی ماہیت جو خدا تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے : ﴿ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة اعین جزاء بما کانوا یعملون﴾ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔

پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی، جیسا کہ بخاری ومسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے ، قال الله تعالیٰ: ”اعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر“ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے او رنہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا ہے۔

پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اورچاندی ، سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ وشراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوب صورت عورتیں اور لونڈے ہوں ، تو یہ قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودہ کے بالکل مخالف ہے۔“(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرة ، تحت آیہ رقم:25)

ایک دوسری جگہ جنت کا استہزاء کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے، اس میں سنگ مر مر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں، باغ میں شاداب وسرسبز درخت ہیں ، دودھ وشراب وشہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ، ساقی وساقنین نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی کھو سنیں پہنتی ہیں، شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے، ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹ رہا ہے ایک نے لب جان بخش کا بوسہ لیا ہے ، کوئی کسی کونے میں کچھ کر رہا ہے، کوئی کسی کونے میں کچھ، ایسا بیہودہ پن ہے ، جس پر تعجب ہوتا ہے ، اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔“ ( تفسیر القرآن سر سید، ص:44، دوست ایسوسی ایٹس)

سر سید صاحب کے مستدلات کی حقیقت
سرسید نے اپنے موقف میں جس آیت قرآنی اور حدیث رسول کو پیش کیا ہے اسے اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کے متعلق تمام تر حقائق الله تعالیٰ ہی جانتا ہے بجز وحی کے اس تک کسی کی رسائی نہیں۔

نیز سرسید کی بیان کردہ نصوص میں جو یہ کہا گیا ہے کہ: ” کسی آنکھ نے ان نعمتوں کو نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا، کسی دل پر ان کا خیال نہیں گزارا۔“ اس سے مردا یہ ہے کہ ان نعمتوں کی حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کو ابھی تک کوئی انسان نہیں جان سکا، کیوں کہ حقیقت وماہیت اور لذتِ کیفیت کا علم مشاہدے او راستعمال میں لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ البتہ ان نعمتوں کی ظاہری صورت وحی کے ذریعے بتلا دی گئی ہے۔
(جاری)
Flag Counter