Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 14
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

کھیل کے شرائط
سوال… کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر سے کہا کہ ہروہ کھیل جس میں ذہن استعمال ہوتا ہو ناجائز ہے اور بالخصوص کرکٹ کہ یہ کفار کی ایجاد ہے اور حدیث میں آتا ہے”من تشبہ بقوم فھو منہم“ اگرچہ نشاط وغیرہ کی نیت سے کیوں نہ ہو؟

جواب… کسی کھیل کے جواز کے لیے چند شرائط ہیں:
کھیل سے مقصود محض ورزش ( خواہ جسمانی ہو یا ذہنی) ۔تفریح ہو، لیکن خود اس کھیل کو مقصد نہ بنایا جائے۔
کھیل بذات خود جائز بھی ہو، اس کھیل میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
اس قدر انہماک نہ ہو کہ دین ودنیا کے اہم کاموں میں غفلت کا باعث بنے۔
اس سے دوسروں کو اذیت اور تکلیف نہ ہو، جیسا کہ آج کل گلیوں اورسڑکوں کو کھیل کا میدان بنایا جاتا ہے، جس سے گزرنے والوں کو سخت اذیت ہوتی ہے۔
ناجائز کھیلوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
بے دین لوگوں کا شعار نہ ہو۔
ہارجیت پر شرط نہ لگائی گئی ہو۔

باقی جہاں تک تعلق ہے کرکٹ کا، تو یہ کھیل فی نفسہ جائز ہے، کیوں کہ اس سے تفریح طبع اور ورزش وتقویت ہوتی ہے ، جو دنیوی اہم فائد ہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی، اب اگر مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھا جائے، تو اس کھیل میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو پھر یہ ناجائز ہو گا۔

پرندوں کے لیے پانی دانہ رکھنا
سوال… پرندوں کے لیے جو دانہ پانی رکھا جاتا ہے ، کیا یہ کارثواب ہے؟ کیا پرندے انہیں استعمال کرکے دعائیں بھی دیتے ہیں؟ کیا یہ صدقے کی بھی ایک شکل ہے؟

جواب… الله تعالیٰ نے ہر ذی روح کے ساتھ احسان کرنے میں، انسان کے لیے اجر رکھا ہے یہاں تک کہ کوئی پرندہ کسی کی کھیتی سے دانہ چگتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے ، چناں چہ غیر محبوس جانوروں اور پرندوں کے لیے دانہ ، پانی کا انتظام کرنا بھی ایک صدقہ ہے، جو باعثِ اجر اور ثواب ہے ، البتہ ان سے مصیبتیں دور ہونے یا کوئی اور عقیدہ رکھنا درست نہیں ، جب کہ محبوس کیے ہوئے جانوروں اور پرندوں کے لیے خوراک کا انتظام مالک پرواجب ہے او راس میں کوتاہی کرنا گناہ اور باعثِ عذاب ہے۔

پرندوں کا تسبیح ودعا کرنا ثابت تو ہے، لیکن خاص طور پر اس خوراک رکھنے والے کے لیے ان کا دعا کرنا تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔

دورانِ نماز موبائل بند کرنا
سوال… بہت سے لوگ مسجد میں آنے کے بعد بھی موبائل فون بند نہیں کرتے اور دوران نماز اس کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، جس میں اکثر موسیقی ہوتی ہے۔ کیا ایسے موقع پر موبائل کو نماز کے دوران ہی دیکھ کر بند کیاجاسکتا ہے؟ کیوں کہ اگر اسے یوں ہی بجنے دیا جائے تو پوری مسجد کے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ اگر موبائل کو دوران نماز بند کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی تو کیا یہ ایک شخص تمام نمازیوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنی نماز فاسد کر دے یا اس کو نماز کے آخر تک چھوڑ دیا جائے اور سلام کے بعد بند کیا جائے۔

جواب… واضح رہے کہ موبائل کو بند کرنے کے لیے نماز کو توڑنا تو جائز نہیں ، البتہ ایک ہاتھ سے اس طرح بند کیا جاسکتا ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا اور اگر نمازی موبائل کو اس طرح بند کر رہا ہو کہ دور سے دیکھنے والا شخص یہ سمجھے کہ یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا، تو اس طرح نماز ٹوٹ جائے گی۔

بایں ہمہ نمازی کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل ہی موبائل فون اہتمام اور پابندی سے بند کر دینا چاہیے، تاکہ مسجد کا تقدس پامال اور بے حرمتی نہ ہو اور کسی کے خشو ع وخضوع میں خلل نہ آئے۔اور گھنٹی میں موسیقی منتخب کرنا بھی ناجائز ہے۔

ناپاک موبائل کو پاک کرنے کا طریقہ
سوال… موبائل فون اگر کسی گندی نالی یا گٹر وغیرہ میں گر جائے تو اسے کس طرح پاک کیا جائے اس لیے کہ موبائل کو اور اس کی کیسنگ (باڈی) کو دھونا تو ممکن ہے مگر بیٹری او راندر کا حصہ جسے پانی سے نہیں دھو سکتے، کیا صرف خشک کرنے سے پاک ہو جائے گا۔

اسی طرح گھڑی اور دیگر مشینی آلات کو پاک کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب… موبائل اگر ناپاک ہو جائے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا وہ حصہ جو دھونے سے خراب نہیں ہوتا ہے اسے تین دفعہ دھو لیا جائے اور جو حصہ پانی لگنے سے خراب ہوتا ہے اس کو تین دفعہ گیلا کپڑا مارکر صاف کر لیا جائے، یا اسپرٹ سے صاف کیا جائے کہ اسپرٹ سے موبائل خراب نہیں ہوتا ۔

اور یہی حکم گھڑی اور ان تمام مشینی آلات کا ہے جو پانی سے دھونے سے خراب ہو جاتے ہیں۔

موبائل کے ذریعے قرآنی آیت یا حدیث مبارک ارسال کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل موبائل کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کو میسج بھیجتے ہیں ، جن میں اکثر قرآنی آیت وحدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم ہوتی ہیں اور جب میموری فل ہو جاتی ہے تو پھر چند ایک میسج ڈیلیٹ کرنے پڑتے ہیں جس میں قرآنی آیات واحادیث نبویہ صلی الله علیہ وسلم بھی ہوتی ہیں۔

آیا اس طرح ختم کرنے یا مٹانے سے نسخ قرآنی وحدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم یا تحریف قرآنی وحدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم کا جرم تو نہیں ہوتا۔

لہٰذا اس کے نسخ وعدم نسخ کے بارے میں مفصیل جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب… صورت مسئولہ میں اگرS.M.S انگلش میں ہے تو وہ آیت قرآن یا حدیث کے حکم میں نہیں، اس لیے کہ قرآن الفاظ و معانی دونوں کا نام ہے او راگر عربی میں ہے تو اس کو ڈیلیٹ (Delete) کرنا تحریف تو نہیں ( کہ تحریف کا تعلق عقیدے سے ہے اور ڈیلیٹ کرنے والے کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا کہ : ” یہ قرآن کریم کی آیت نہیں “ یا ” اس پر اضافہ ہے “ وغیرہ ) البتہ نسخ ( مٹانا) ہے اور قرآن کریم کی کوئی آیت یا حدیث نبوی کو لکھ کر مٹانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ آیت قرآنی یا حدیث نبوی کو لکھ کر S.M.S کے طور پر سینڈ (Send) ہی نہ کیا جائے اس لیے کہ:

جب S.M.S کو ڈیلیٹ کیا جاتا ہے تو بعض موبائلوں میں ڈیلیٹ شدہS.M.S کو ڈسٹ بن میں گراتے ہوئے اسکرین پر دکھایا جاتا ہے جس میں بظاہر بے ادبی کا شائبہ ہے۔

چند منٹ تاخیر کی وجہ سے پورے دن کی تنخواہ کاٹنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان دو مسئلوں کے بارے میں !!!
میں ایک دینی اسلامی اسکول میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں، وہاں جمعہ کو تعطیل ہوتی ہے ۔ اسکول کا یہ قانون ہے کہ جو استاذ تعطیل ( جمعہ ) والے دن سے قبل ( جمعرات والے دن) یا تعطیل والے دن کے بعد ( ہفتہ والے دن) چھٹی کرے تو انتظامیہ دو دن کی تنخواہ کاٹتی ہے یعنی جمعہ والے دن کی بھی کاٹتی ہے حالاں کہ جمعہ کو تو چھٹی ہوتی اس طرح دیگر تعطیلات سے قبل یا بعد چھٹی کرو تو چھٹی والے دنوں کے ساتھ تعطیلات کے دنوں کی بھی تنخواہ کاٹتی ہے، کیا یہ ازروئے شریعت درست ہے؟

دوسرا مسئلہ:اسکول انتظامیہ نے تمام اساتذہ کو پابند کیا ہے کہ وہ صبح 8 بجے سے قبل اسکول پہنچ جائیں، جو استاد مہینہ میں کوئی سے بھی تین دن آٹھ بجے کے بعد پہنچے ( خواہ وہ چند منٹ لیٹ کیوں نہ پہنچے) انتظامیہ اس استاذ کی ایک دن کی تنخواہ کاٹتی ہے، کیا یہ از روئے شریعت درست ہے؟

جواب… اسکولوں میں اساتذہ کی شرعی حیثیت اجیر خاص کی ہے پس وہ کام کے وقت میں حاضر رہنے سے اس وقت کی مکمل تنخواہ کے حق دار ہوں گے، کسی غیر حاضری کی وجہ سے غیر حاضری سے زائد وقت کی تنخواہ کاٹنے کا شرعاً انہیں اختیار نہیں ہے اس لیے ادارے والوں کا یہ فعل ناجائز ہے بلکہ جتنے دن کی غیر حاضری ہو اتنے دن کی تنخواہ کاٹنا درست ہے زیادہ نہیں۔

اسی طرح پانچ سے دس منٹ تک لیٹ آنا عرفا ًمعاف ہوتا ہے پس اس پر بھی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی استاذ زیادہ تاخیر کرے تو اتنے وقت کی تنخواہ کاٹنا جائز ہے جتنی دیر ہو، اس سے زیادہ نہیں۔

گناہ سے توبہ کرنے کے بعد اس گناہ کے مرتکب کو عار دلانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ہذا میں کہ زید نے گناہ کا خفیةً ارتکاب کیا ، عمر اس گناہ پر مطلع ہوا،اب عمر اس کا مذاق اڑاتا ہے اور لوگوں کے درمیان زید کی تذلیل کرتا ہے ، تو کیا زید پر مظلوم ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے ، یا نہیں؟

جواب… زید جب اپنے گناہ سے توبہ کر چکا ہے تواب کسی کے لیے زید کا مذاق اڑانا اور لوگوں میں ذلیل کرنا جائز نہیں ہے ، زید یقینا اس بارے میں مظلوم ہے۔

ایسے شخص کے بارے میں ”جو مسلمانوں کی آبرو ریزی کرے“ بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے عمر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ کرے اور زید سے معافی مانگے۔

حدیث پاک میں ہے کہ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو اس کے ایسے گناہ پر عار دلائی جس سے وہ توبہ کرچکا ہو تو مرنے سے پہلے پہلے اس گناہ کے اندر خود مبتلا ہو جائے گا۔
Flag Counter