اجتماعی مفادات کے ملبے پر
مولاناسید ابو الحسن علی ندویؒ
بعض اوقات برسوں بعد ایسا آتا ہے کہ انسان کسی شدید بیماری سے دو چار ہوتا ہے،یوں تو انسان بیمار ہوکر،اچھاہوکر،بھوکا ہوکر، بھوک کا اظہار کرکے کھانے کا محتاج بن کر، اپنی انسانیت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی انسانیت کا ثبوت دیتا ہے؛لیکن جس کو بحرانی کیفیت کہتے ہیں، ہسٹریا کا حملہ کہتے ہیں اور پوری انسانی سوسائٹی جس کا شکار ہو وہ کبھی صدیوں کے بعد ہوا کرتا ہے،بعض مخصوص اسباب کی بنا پر کچھ عوامل ایسے ہوتے ہیں جو اپنا کام کرتے رہتے ہیں،اس وقت لوگوں کو خیال نہیں ہوتا کہ وہ کیا عمل کررہے ہیں،ان کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے،بہت سے لوگ ان پر نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ہیں؛لیکن یہ عوامل،یہFactorsاپنا کام کرتے رہتے ہیں اور پھر وہ کام کرتے کرتے جس طریقے سے ہر چیز کی ایک ترقی کی منزل ہوتی ہے وہ ایسی Developہوتی ہے کہ اس کا حملہ ہسٹریا کی طرح ہوتا ہے اور وہ اچانک ہی ہوتا ہے اور بہت شدید ہوتا ہے،آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا،اس کا مادہ جو کئی دنوں سے تیار ہورہاتھا،انسان کا جسم اس کی موافقت کرنے سے،اس کو Rejectکرنے سے،اس کا مقابلہ کرنے سے ہار گیا تھا،اس کے سامنے ہتھیار ڈال چکاتھا،یہاں تک کہ اس بیماری کا پوری طرح قبضہ ہوگیا۔
حالات غیر معتدل اور غیر معمولی
اس وقت جو حالات ہمارے ملک اور پوری دنیا میں رونما ہیں وہ غیر معتدل اور غیر معمولی ہیں؛لیکن یہ ماننے کے لیے میں تیار نہیں اور آپ میں سے سبھی حضرات تعلیم یافتہ ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ حالات اچانک ایکسیڈنٹ کی طرح رونما نہیں ہوئے،بلکہ یہ ارتقا کاEvolutionکا نتیجہ ہیں، جو سینکڑوں برس سے کام کررہا تھا،ان بیماریوں کی رفتار کم بیش ہوتی رہتی ہے، بعض مرتبہ اٹیمک انرجی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔
اس وقت جو بنیادی حالات ہمارے ملک کو درپیش ہیں یہ اچانک نہیں پیدا ہو ئے،آپ کو شاید تعجب ہو یا آپ اسے خلاف توقع بات سمجھ رہے ہوں؛لیکن میں اس پر کسی حیرت واستعجاب کا اظہار نہیں کرتا ،مجھے ان حالات سے بالکل تعجب نہیں ،بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ میں ان حالات سے مایوس بھی نہیں اور مجھے ان سے زیادہ تکلیف بھی نہیں ،حالات تو میرے نزدیک زندگی کی علامت ہیں،یہ حالات تو پیدا ہوتے رہتے ہیں،ہماری تاریخ کا جتنا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے،یہ خود بتاتا ہے کہ انسان فرشتوں کی طرح یا بے نفس انسانوں کی طرح ، جن کے اندر شر کی صلاحیت ہی نہ ہو،بلکہ وہ خیر مجسم بن گیاہو،اس کے اندر سوائے خیر خواہی اور خیر طلبی کے کوئی صلاحیت ہی نہ رہی ہو،تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا،اگر گذر ابھی ہے تو وہ کسی پیغمبر کی کوشش،کسی بڑے مصلح کی تگ ودو سے؛لیکن اس کا رقبہ بھی محدود تھا،یہ نہیں رہا کہ صدیوں تک یہ صورت حال قائم رہی ہو اور ساری دنیا پر،پورے کرئہ ارض پر اس کا اثر ہو،ایسا نہیں ہوا،عموماًہر زمانے میں اکثریت متوسط درجے کے لوگوں کی رہی ہے،Jeniusقسم کے لوگ ہر دور میں بہت کم ہوتے ہیں اوراس زمانہ میں بھی کم ہیں۔
ہمارے ملک میں جو اس وقت انتشار ہے،دولت پیدا کرنے کا بحران ہے،اس وقت جو خود غرضی ہمارے اوپر چھائی ہوئی ہے،اس وقت جو دولت کی پیاس اور بھوک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آدمی دیوانہ ہوگیا ہے،اس وقت جو کرپشن پھیلا ہوا ہے،اس وقت ذخیرہ اندوزی کا جو دور دورہ ہے،اس وقت نفسی نفسی کا جو دور دورہ ہے،فرض شناسی کا فقدان ہے،اس وقت دیانت وامانت کا فقدان ہے،ادائے فرض کا کوئی احساس نہیں ،مجھے اس پر زیادہ دکھ بھی نہیں ہے،میں اس صورت حال سے بالکل مایوس نہیں ہوں۔
میں پھر عرض کروں گا کہ میری بات آپ لوگوں کے لیے بالکل خلاف توقع ہوگی،میں گویا جان بوجھ کر اپنے کا زکو نقصان پہنچارہا ہوں،میں گویا وکیل حریف کے سارے دلائل بیان کررہا ہوں،الٰہ آباد ہائی کورٹ کے نام ور جج جسٹس محمود کے متعلق میں نے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اپنی ذہانت کے جوش میں اپنے موکل کے خلاف تمام دلائل دینے شروع کردیے،تھوڑی دیر بعد ان کے کسی جونیئر وکیل نے یارفیق کار نے ان کو متوجہ کیا کہ حضور! یہ تو آپ اپنے موکل کے خلاف تمام دلائل مہیا کررہے ہیں اور اپنے فریق مقابل کو جتا رہے ہیں،تو انھوں نے ایک دم سے رخ بدلا اور کہا کہ میں نے ابھی تک جو دلائل پیش کیے ہیں، یہ میرے فریق کے حق میں جو بہتر سے بہتر دلائل دیے جاسکتے تھے وہ یہی دلائل ہیں ان سے بہتر دلائل نہیں دیے جاسکتے،اب میں ان کا توڑ کرتا ہوں اور ان کی تردید کرتا ہوں اور فوراًعدالت کا رنگ بدل گیا اور رخ دوسری طرف ہوگیا،تو آپ تھوڑی دیر کے لیے محسوس کرنے لگیں کہ میں اپنے مقدمے کو ہرارہاہوں،کیوں کہ میں یہاں یہ کہنے آیا تھا کہ حالات نہایت نازک ہیں،اس میں ہمارا معاشرہ،ہمارا سماج،ہماری سوسائٹی کیا رول ادا کرسکتی ہے،کس طرح اسے روک سکتی ہے،یہ جو ہماری طرف ایک لاوا،ایک خوفناک طوفان بڑھ رہا ہے،اس کو ہم کس طرح روک سکتے ہیں لیکن یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے اس پر کوئی تعجب نہیں ہے اوراس صورت حال پر زیادہ دکھ بھی نہیں ہے،مایوس بھی نہیں ہوں،تویہ بالکل توقع کے خلاف ہے اور یہ تو اپنے موضوع و مقصد سے ایک طرح کی بے وفائی ہے۔
لیکن نہ تو میں اپنے سا تھ بے وفائی کررہا ہوں اور نہ اپنے موضوع کے ساتھ ۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ یہ سب تو زندگی کی علامت ہے، انسان انسان ہے،انسان سے یہ توقع کرنا کہ فرشتہ بن جائے،اس کے اندر دولت کی قدرنہ ہو،اس کے اندر آسائش کے ساتھ زندگی گذارنے کی خواہش نہ ہو،یہ تو گویا انسان کی زندگی کوختم کردینا ہے اور انسان کا گلا گھونٹ دینا ہے،انسان کی امنگوں کا،اس کی صلاحیتوں اور اس کی حوصلہ مندیوں کا گلا گھونٹ دینا ہے،اگر انسان کو مہذب ،آرام دہ اور منظّم زندگی گزارنے کا شوق ہے تو اس پر تعجب نہ کرنا چاہیے اور نہ پیشانی پر شکن آنی چاہیے او رنہ لبوں پر تبسم آنا چاہئے اور نہ کوئی احتجاج کرنا چاہیے،میں تو ایک قدم آگے بڑھا کر کہو نگا کہ اس پر مبارکباد دینا چاہیے کہ انسان زندہ ہے،انسان ذہانت رکھتا ہے،اس کے اندر انسانی احساسات ہر طرح بیدار ہیں۔
دنیا میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے مجھے اس پر تعجب نہیں ہے؛ لیکن مجھے اس وقت پوری دنیا سے بحث نہیں ہے،دنیا کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ہمارا اور آپ کا وقت بہت محدود ہے،ہماری قسمت ہمارے ملک سے وابستہ ہے،ہم کو یہیں جینا اور مرنا ہے،ہم اتنی بڑی دنیاکوسنبھال بھی نہیں سکتے ،شاید اس کا ہم سے مطالبہ بھی نہیں ہے۔
مسلمانوں کی حیثیت سے، پیغمبروں کے جانشینوں کی حیثیت سے اور ایک درد مند انسان کی حیثیت سے ہمارا تعلق پوری دنیا سے، پوری انسانیت سے ہے؛لیکن میں اس وقت اپنے موضوع کو وسیع کرنا نہیں چاہتا،بلکہ اپنے دائرہ کو تنگ رکھنا چاہتا ہوں۔
خاص عوامل اور ان کے ارتقا کا نتیجہ
تو حالات حاضرہ سے نہ میں بددل ہوں اور نہ مایوس،یہ جو کچھ ہورہا ہے طبعی طور پر ہورہا ہے،خاص عوامل اور ان کے ارتقا کا یہ نتیجہ ہے اور یہی ہونا چاہیے،مجھے تعجب صرف دوچیزوں پر ہے،ایک تو یہ کہ یہ چیز حدود کو پھلانگ جائے اور اس میں اجتماعی مفاد اس طرح پس پشت ڈال دیا جائے کہ گویا اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے، یعنی دولت مند بننا یہ جذبہ کوئی بری چیز نہیں ہے،یہ ہمیشہ رہا ہے کہ دنیا کی ترقی اور چہل پہل اسی جذبہ کی رہین منت ہے،اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ جذبہ انسانوں میں نہ ہوتا تو تمدن اور سائنس اتنی ترقی نہ کرتی،بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا ادب،ہماری شاعری ترقی نہ کرتی،اس لیے کہ ہمارے ادب و شاعری کو بھی اسی سے غذا ملتی ہے۔
انسان کے اندر بڑا بننے کا جذبہ فطری ہے،اس کے اندر مسابقت کا جذبہ طبعی طور پر ہے،وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتا ہے،اس کے اندر احساس جمال ہے،اس کے اندر حسن کا احساس ہے،اس کے اندر کمال کی قدر ہے،علم وادب،شاعری و فلسفہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
دو چیزیں قابل شکایت اور قابل فکر
البتہ دو چیزیں قابل شکایت بھی ہیں اور قابل فکر بھی،اس کی وجہ سے اگر ہمارے اور آپ کے اندر فکر پیدا ہو،ہماری اور آپ کی نیند پر اس سے اثر پڑے،ہمارا اور آپ کا سکون اس سے متاثر ہوتو وہ بالکل بجاہے اور حق بجانب ہے۔
ایک تو یہ کہ انسان کی یہ خواہش اندھی اور بہری ہو جائے اور وہ ان خواہشات کے پیچھے مجنوں اوردیوانہ اور مدہوش ہو جائے کہ وہ ہر قیمت پر دولت مند بننا چاہے،ہر قیمت پر آسائش کی زندگی گذارنا چاہے، ہر قیمت پر سرمایہ دار ہونا چاہے اور وہ یہ چاہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اس کے پاس جمع ہوجائے،ایک رات میں لکھ پتی،کروڑ پتی بن جائے۔
آپ اگر دنیا کی اخلاقی تاریخ کا مطالعہ کریں؛لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ایسی کوئی تاریخ لکھی ہی نہیں گئی ،جس میں دنیا کی ترقی کو اور اس پر جو واقعات پیش آئے ہیں اور انسانوں میں جو رجحانات کام کرتے ہیں ،ان کو اخلاقی پیمانے سے ناپا گیا ہو،کوئی ایسا اخلاقی تھرمامیٹر نہیں رہا؛لیکن اگر آپ خود دنیا کی اخلاقی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا کو اس جذبے سے اتنا نقصان نہیں پہنچا،حق حاصل کرنے کے جذبے،دولت حاصل کرنے کے جذبے نے انسانیت کو کبھی کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا، یہ چیزیں تو اوسط درجہ کے لوگوں میں ہمیشہ رہی ہیں،بلکہ بہت سے نیک انسانوں میں بھی رہی ہیں،پیغمبروں کی تربیت کی ہوئی جماعت میں بھی رہی ہیں؛لیکن نقصان جس چیز سے پہنچا وہ اندھا دھند دولت کی خواہش اور کم سے کم وقت میں آنکھ بند کر کے سرمایہ دار بن جانے کا یہ جذبہ بڑا مضر ہے،یہ تباہ کن ومہلک جذبہ ہے،آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں جو بڑی جنگیں ہوئی ہیں،دنیا میں جو تباہی و بربادی پھیلی،وہ ان لوگوں کے ہاتھوں نہیں ہوئیں جن کے اندر متوسط درجہ کا دولت مند بننا،آسائش کے ساتھ زندگی گذارنا اور اپنی ضروریات مہیا کرنے کا جذبہ تھا۔
دنیا کی تباہی ان لوگوں کے ہاتھوں سے ہوئی جو اپنی خواہشات کے پیچھے اندھے اور بہرے ہو کر پڑگئے،یہ خونی لکیریں، جو آپ کو تاریخ کی پیشانی پر نظر آتی ہیں، تاریخ کے اندر جوایک دور کو دوسرے دور سے ممتاز کردیتی ہیں اور جو ملک کو ملک سے ، قوم کو قوم سے،ایک ریاست کو دوسری ریاست سے،برادری کو برادری سے،ایک فرقے کو دوسرے فرقہ سے اور ایک فرقے کے مختلف اجزا کو ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں اور یہ خونی لکیریں انسانوں کے گرم، تازہ اور گاڑھے خون سے کھینچی ہوئی ہیں، یہ لکریں ان لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں جن کے اندر یہ جذبہ جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا اور جنھوں نے تمام انسانی مفادات ، اجتماعی مصلحتوں،انسان کے مستقبل کو،انسان کے حق کو،سب کو چیلنج کیا تھا،ان سے انکار کیا تھااور ان کو ٹھکرادیا تھا،سب کو پامال کردیاتھا،سب کا گلا گھونٹ دینے کی کوشش کی تھی ،یہ جو بڑے بڑے کشور کشا،بڑے بڑے فاتح آپ کو نظر آتے ہیں،وہ اس لیے نہیں ہوئے تھے کہ بقدرضرورت دولت حاصل کریں،بقدر ضرورت طاقت حاصل کریں ،بقدر ضرورت اپنے ملکوں کوعزت دیں،بقدر ضرورت اپنے ملکوں کی حفاظت کریں،بقدر ضرورت اپنے ملکوں سے غیر ملکی اقتدار ختم کریں،غیر ملکی غاصبوں کو اپنے ملک کی سرزمین سے نکالیں ،یہ تو بہت پاک مقصد تھا،اس زمانے کے دین دار،اس زمانے کے فلسفی اور دانش ور اس کی تعریف کرتے،کون اس سے انکار کرسکتا تھا،ہمارے ملک پر انگریز قابض تھے،ان کو اس ملک پر قبضہ کرنے کاکیا حق تھا،جولوگ اس کے خلاف برسر پیکار ہوئے،وہ ایک نہایت مقدس فرض کو ادا کرنے کے لیے اٹھے تھے،ہر شخص نے ان کی پیٹھ ٹھونکی،ان کو شاباشی دی،وہ کون سا نامراد ،کون سا وطن دشمن،کون سا بد نصیب تھا جس نے اس کی مخالفت کی ،یہ جذبہ تو ہر زمانہ میں نہایت پاکیزہ ،نہایت مقدس ،قابل احترام اور ہر طرح سے قابل داد تھا،اس سے نہ کبھی نقصان پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتاہے،میں ایک طالب علم کی حیثیت سے چیلنج کرتا ہوں اور دعویٰ کرتا ہوں کہ آپ دکھادیں کہ کبھی کسی ملک کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے جو بھی کوششیں جب حدود کو پھلانگ جاتی ہیں اور وہ خوں ریزی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور ہسٹریا کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں تو پھر دنیا میں وہ تباہی و بربادی نازل ہوتی ہے جس کے تصور سے انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،یہ تباہی اتنی ہی زیادہ عام ہوتی ہے جتنے وسائل اس تحریک کے علم بردار کے پاس ہوتے ہیں۔علامہ اقبال نے فرمایا #
اسکندر وچنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک
جب یہ خونی سیلاب آتا ہے تو تمام تہذیبیں،ہر قسم کا تمدن،ہزاروں برس کے جمع کیے ہوئے خزانے ،ہزاروں برس کی جمع کی ہوئی کتابیں،جن کے لیے دانشوروں نے اپنی آنکھیں پھوڑی تھیں ،راتوں کو جاگ کر محنتیں کی تھیں،شاعروں کے ضخیم ضخیم دیوان ،جن کو انہوں نے اپنے خون جگر سے مرتب کیا تھا اورجو انسانی ذہانت کے عمدہ نمونے تھے،دم کے دم میں بالکل خاک سیاہ ہوجاتی ہیں اور پورا شہر نہیں، بلکہ بعض اوقات پورا ملک تبدیل ہوجاتا ہے،اس لیے مجھے اس سے شکایت نہیں ہے اور میں اپنے بھائیوں سے اس بناپر مایوس نہیں ہوں کہ وہ کامیاب زندگی گذارنے کی خواہش کررہے ہیں۔
اجتماعی مفاد نظر انداز
لیکن مجھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی مفادات کو بالکل نظر اندازکردیں اور اجتماعی مفادات کے ملبے اورقبر پر اپنے ذاتی اغراض کی نئی عمارت تعمیر کریں،جب کسی شہر یا سماج یا سوسائٹی میں یہ مرض پیدا ہوجائے یعنی ان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ انسانوں کی لاشوں پر گذر کر ہم کو آرام حاصل کرنا ہے،ہمیں عام انسانوں کے جذبات کو کچلتے ہوئے،ان کے جائز مطالبات کو ٹھکراتے ہوئے،ان کی زندگی کے تقاضوں کا انکار کرتے ہوئے،ان کے بچوں کو یتیم بناتے ہوئے اور ان کی عورتوں کو سوگوار اور بے یارومددگار کرتے ہوئے اپنی ضروریات مہیا کرنی اور اپنی خواہشات پوری کرنی ہیں،تو یہ جذبہ خطرناک ہے،جب کسی سو سائٹی میں یہ زہرپیدا ہوجائے تو وہ سوسائٹی ،وہ جماعت زیادہ دن دنیا میں رہنے کے قابل نہیں رہ جاتی ،بلکہ یہ جذبہ پوری قوم،پوری انسانیت کو ہلاک و برباد کر ڈالتا ہے۔
سوسائٹی ہمیشہ ان لوگوں کے پاوٴں کے نیچے کچلی گئی ہے،روندی گئی ہے جو بالکل مست ہاتھی کی طرح رہتے تھے،جن کا نصب العین یہ تھا کہ ہمیں تو دولت حاصل کرنی ہے،خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو،ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنا ہے،اس لیے وہ اپنے گاوٴں ،شہر،قصبہ،بلکہ اپنی پوری سوسائٹی وجماعت کو داوٴپر لگادیتے ہیں اور تمام انسانوں کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے قربان گاہ پر چڑھا دیتے ہیں۔
یہی مرض پیدا ہو گیا ہے
یہی مرض کچھ دنوں سے ہمارے اندر بھی پیدا ہوگیا ہے،یہ مرض بڑا مہلک و خطرناک ہے اور جو کچھ آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں،عام زندگی میں جوناہم واری اور بے اعتدالی ہے،سب کچھ ہوتے ہوئے ہمیں اس پر یقینااتنا افسوس نہ ہوتا اگریہ ملک زراعتی نہ ہوتا،ہمیں غلہ نہ ملنے پر اتنا افسوس نہ ہوتا اگر ہمارے اس ملک کے وسائل محدود ہوتے،یہاں کھیتی نہ ہوتی،اتنا بڑا ملک ہم کو نہ ملا ہوتا ،آبادی بہت ؛لیکن ملک چھوٹا سا ہوتا،اگر ہمارے ملک میں قدرتی عطیات اور اللہ کی نعمتیں نہ آتیں، جیسا کہ یورپ کے بہت سے ملک ہیں، وہاں سب کچھ ہے، مگر پیدائش بہت کم ہوتی ہے،آپ وسط یورپ جائیے،آپ کو وہاں سے ایسے چھوٹے چھوٹے ملک ملیں گے کہ جن کے یہاں وسائل کی بہت کمی ہے؛لیکن اس کے باوجود وہاں یہ بے چینی وقلق نظر نہیں آتاہے۔
آپ ہی بتائیے! آپ میں سے یہاں بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ ہمارا ملک زراعتی ملک نہیں ہے؟کیا یہاں وسائل زندگی کی کمی ہے؟کیا یہاں دریاوٴں کی کمی ہے؟کیا یہ ایک بنجر چھوٹا سا ملک ہے؟ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے؟خدا کی قدرت ،خدا کی سخاوت نے اس ملک کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی ہے،بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کو قدرتی خزانوں سے مالا مال کردیا ہے،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں یاکہتے ہیں کہ اس ملک کی ابتری غذائی اشیا اور دوسری ضروریات زندگی کی کمی کی وجہ سے ہے،میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اس ملک سے واقف نہیں ہیں،ان کو اپنے ملک کی قدر نہیں ،انہوں نے اپنے ملک کو دیکھا نہیں ہے،میں نے اس ملک کو خوب دیکھا ہے،شاید اس مجمع میں کم ہی آدمی ہوں گے جنھوں نے میری طرح اس ملک کی سیاحت کی ہے،میں نے مختلف اسباب کی بنا پر اس ملک کو چھان ڈالا ہے،مجھے سیروسیاحت کا شوق بھی ہے اور اس کے مواقع بھی ملتے رہے ہیں او ربعض وفود کے ساتھ بھی دورہ کرنا پڑاتو حیران رہ گیا کہ اللہ اکبر!کتنا لق ودق ملک خدا نے ہم کو عطا کیا ہے،یورپ میں مجھے یاد ہے کہ اگر آدمی ذراسی بے احتیاطی کرے،موٹر ذرا تیز چلائے تو اس کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی حدود کو چھوڑ کر دوسرے ملک کی سرحد میں داخل نہ ہو جائے۔
جنیوا کا ایک واقعہ
مجھے یاد ہے کہ جنیوا میں ہم لوگ شام کو ہوا خوری کے لیے گئے، ہمارے ساتھ ڈاکٹر حمیداللہ بھی تھے،وہ ہمارے ساتھ تھے،ایک جگہ جا کر ہم کھڑے ہوئے، باتیں کرتے کرتے ذرا ہم آگے بڑھ گئے،انہوں نے کہابس!میں ذرا آگے قدم رکھوں گا تو فرانس پہنچ جاوٴں گا اور وہاں سے واپس نہ آسکوں گا،معلوم ہوا کہ جنیوا کے ہوائی اڈہ کا کچھ حصہ فرانس کے حدود میں ہے اور کچھ حصہ سوئزرلینڈ میں،یہ تو ان ملکوں کی حقیقت ہے۔اگر آپ وہاں بے تحاشا موٹر چلائیں تو آپ ملک کی سرحد پار کرجائیں گے اور آپ کو اس کا احساس بھی نہ ہوگا۔ (جاری)