علم دنیا میں دو راستوں سے آیا ہے
حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ
فہرست
ایک علم الٰہی ہے، جو بذریعہٴ وحی انبیائے کرام علیہم السلام کے توسط سے دنیا والوں کو پہنچا ہے ،اس علم کے معلم اول خود حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ شانہ کی ذات گرامی صفات ہے اور اس کے اولین شاگرد حضرات انبیائے کرام علیہم السلام ہیں۔ اس مقدس سلسلہٴ تلا مذہ میں پہلے شاگرد اور متعلم ابولبشر سید نا آدم علیہ السلام ہیں،جن کے علم وفضل کا لوہا ملائکہ مقربین تک نے مانا ہے اور اس لحاظ سے حضرت آدم علیہ السلا م کے ذریعہ ہی اس علم الٰہی کا پہلا درس حظیرئہ قدس کی درس گاہ میں ملائے اعلیٰ کے فرشتوں کو ہی دیا گیا ہے ۔یہ علم الٰہی وہ علم ہے جس کے ادراک و معرفت سے عقل انسانی قاصر وعاجز ہے،اس لیے کہ یہ حقائق الٰہیہ اور علوم غیبیہ عقل انسانی کی دست رس سے بالا تر اوروراء الوراء(دور سے دورتر )ہیں، ارشاد باری ہے :
﴿ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَآءَ ﴾․(البقرہ:255)
ترجمہ:۔”اور وہ (انسان)نہیں احاطہ کر سکتے اس کے علم کے کسی حصہ پربھی،بجزاس کے جو وہ خود (عطا فرمانا)چاہے“۔
اور اس ” بِمَا شَآءَ“کے استثنا کے تحت ان علوم کا جو حصہ انسانوں کو دیا گیا ہے،وہ علم الاولین والآخرین (اگلوں اور پچھلوں سب کاعلم)ہونے کے باوجودبھی ”’قدر قلیل “گویا بحرذخار کے ایک قطرہ کا مصداق ہے۔ارشاد الٰہی ہے:﴿ وَمَا أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾ (بنی اسرائیل:85)
ترجمہ:۔”اور جو علم تم کو دیا گیا ہے ،وہ تو بہت ہی تھوڑا علم ہے“۔
دوسرا وہ علم ہے جس کا ذریعہ عقل وادراک کا وہ جو ہر لطیف ہے جو خالق کائنات نے ہر انسان کی فطرت میں علی فرق المراتب (درجہ بدرجہ)ودیعت فرمایا ہے ۔ جس کا ظہور ہربچہ میں ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے اور سن وسال نیز محسوسات و مشاہدات اور تجربات کے اضافہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔
بحیثیت مجموعی ہر دور میں عقل انسانی میں جتنی پختگی پیدا ہوتی گئی،، ”یہ فکر ی ونظری علم“بڑھتا اور ترقی و تنوع اختیار کرتا رہا اور جوں جوں نسل انسانی کونت نئی حاجات و ضروریات پیش آتی رہیں،ان کو پورا کرنے کی تگ دو میں اس علم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتارہا۔
لیکن اس علم انسانی کے مبادی،محسوسات ومشاہدات وتجربات سے انتفاع میں بھی عقل انسانی کی ابتدائی راہ نمائی وحی والہام الٰہی کے ذریعہ ہی ہوئی ہے اور تمام ترصنعتوں اورحِرفوں کے اصول ومبادی اول بھی انبیائے کرام علیہم السلام ہی ہوئے ہیں۔
چناں چہ تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ آدم علیہ السلام کی وہ تمام تر آسمانی تعلیمات جن کی تبلیغ وتعلیم کے لیے اُنہیں مبعوث کیاگیا تھا، معبود حقیقی کی ابتدائی معرفت اور اس روئے زمین پر انسانی زندگی کے ابتدائی لوازمات :غذا،لباس اور مسکن کے مہیاّ کرنے کے طریقوں کی تعلیم پر مشتمل تھیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام خیاطت (کپڑا سینے)کے معلم اول تھے،حضرت نوح علیہ السلام کشتی سازی اور جہاز سازی کے معلم اول ہوئے ہیں،حضرت داوٴد علیہ السلام آلات حرب میں سے زرہ سازی کے معلم اول اور حضرت سلیمان علیہ السلام فنونِ لطیفہ میں سے عمارت سازی اور ظروف سازی کے معلم اول ہوئے ہیں۔معدنیات میں سے خام لوہے سے فولاد تیار کرنے اور تانبہ کوسیال کرنے کی صنعت کے معلم اول داوٴدوسلیمان علیہما السلام ہی ہوئے ہیں، قرآن کریم کی نصوص اور صریح آیات اس پر شاہد ہیں۔
لیکن یہ تمام علوم ،جو انسانی عقل اور قوت اختراع کے ذریعہ پرَوان چڑھے اور دنیا میں پھیلے ،در حقیقت علوم نہیں، بلکہ فنونِ صنعت وحرفت ہیں ، جنہیں انسانی عقل، موجوداتِ عالم،خصوصاََ زمین اور اس کی اندرونی وبیرونی پیداوار ،یعنی معدنیات ونباتات وحیوانات ،پہاڑوں اور جنگلات کی طبعی پیداوارکے افعال وخواص اور منفعتوں ،مضر توں کے مسلسل مطالعہ اور ا س کی تحلیل وترکیب سے انسانی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے والی نو ایجادات واختراعات کو سالہا سال تک بروئے کار لاتی رہی ہے اور یہ نو بنو مصنوعات وجود میں آتی رہی ہیں۔
بہر حال قرآن کریم کی روشنی میں یہ تو مسلم ہے کہ حیات انسانی کے ابتدائی مراحل میں عقل انسانی کی راہ نمائی بھی وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی ہے،بلکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت میں نسلاً بعد نسل جو صنعتیں اور حرفتیں قیامت تک وجود میں آنے والی تھیں ،جن کی تعداد اس روایت کے بمو جب ایک ہزار ہے ،وہ سب الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائی ہیں، آیت کریمہ:﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمآءَ کُلَّھَا﴾سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔فلسفہ تو الدوتناسل کی رو سے بھی آدم یعنی ابو البشرکی خلقت اور فطرت میں اُن تمام کمالات وفنون کے اجمالی نقوش موجود ہونے ضروری ہیں، جو اُن کی ذریت میں بطورِ توراثِ نسلِ انسانی کے مختلف ادوار میں وجود میںآ نے والے ہیں۔
اس جہان ِحدوث وفنا، یعنی دنیا کے بقاوار تقا کے لیے یہ علوم عقلیہ صناعیہ اور ضروریات ِ زندگی کی کفیل صنعتیں بے حد ضروری ہیں اور ہر دور میں حق تعالیٰ شانہ عقل وادراکِ انسانی کی تحقیقات وتجربات کے ذریعہ اپنی گونا گوں عنصری ،معدنی ،نباتاتی اور حیوانی مخلوق میں چُھپی ہوئی بے شمار صلاحیتیں منفعتیں اور مضرتیں ظاہر فرماتے اور منظر عام پر لاتے رہے ہیں، اس لیے کہ خالق ِکائنات نے حضرت انسان کوہی ان پر متصرف بنایا ہے اورا نہی ارضی وسماوی کائنات و مخلوقات سے اس کی زندگی وابستہ ہے ،ارشاد ہے:
﴿وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ﴾․ (الجاثیہ:13)
ترجمہ:۔”وہ جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے،سب تمہارے تصرف میں دے دیا ہے“۔
﴿خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعا﴾․(البقرہ:29)
ترجمہ:۔”جو کچھ زمین میں ہے ،سب تمہارے لیے ہی پیدا کیا ہے“۔
چناں چہ انسانی عقل اور قوتِ اختراع کے ذریعہ ”خَلَقَ لَکُمْ“ اور ”سَخَّرَ لَکُمْ“کی عملی تفسیر ہمیشہ سامنے آتی رہی ہے اور رہتی دنیا تک آتی رہے گی،نئی نئی”دریافتیں“ ہوتی رہیں گی اور نو بنو ایجادات ومصنو عات منظر عام پرآتی رہیں گی ،نہ کائنات میں الله تعالیٰ کے ودیعت فرمودہ افعال وخواص اور منفعتوں اور مضرتوں کی کوئی حد و انتہا ہے اور نہ ہی انسانی ایجاد و ا ختراع کی کوئی حد و نہایت ہے۔در حقیقت خالق کائنات کی ان نو بنو شئو ن الٰہیہ کے تحت جن کے متعلق ارشاد ہے:﴿ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَأْن﴾․(رحمن:29)ہر روز اس کی نئی شان اور نرالی شان ہے ہر دن اپنے ساتھ نئی نئی در یافتیں اور نو بنو ایجادات واختراعات لاتا ہے ۔اس طرح ایک طرف اس کا رخانہٴ قدرت کی لا محدود وسعت ،ہمہ گیری اور احاطہ کا اور دوسری طرف روز افزوں دولت وثروت اور نو بنو لوازمِ معیشت کا ظہور ہوتا ہے اورحق جل وعلا کے کمال علم وقدرت اور محیر العقول کائناتی نظام کی حکمتیں اور اسرار ظاہر ہوتے رہتے ہیں،تاکہ یہ حضرت انسان ان آیات بینات (روشن دلائل)کو دیکھ کر زبانِ حال اور زبانِ قال دونوں طریق پر اعتراف کرتے رہیں:
﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً﴾․ (آل عمران:191)
ترجمہ:”اے پروردگار!بے شک تو نے اس (کارخانہٴ قدرت)کو (یو نہی) بے کار، بے فائدہ نہیں پیدا کیا ہے“۔
ظاہر ہے کہ دنیا کی اِن گونا گوں ارضی وسماوی موجو دات اور ان کے حقائق و عجائبات، اسرار وحکم کے دریافت و اکتشافات کا کفیل عقل وادراکِ انسانی ہی کو بنایاگیا ہے،اسی میں وہ شب وروز مصروف ومنہمک ہے اور قیامت تک رہے گی،اسی لیے کسی رِند مشرب کا مقولہ ہے کہ:”خدا اور انسان اپنی تخلیق پیہم سے زندہ ہیں“۔بات ایک حد تک صحیح ہے ، لیکن انداز ِ بیان عظمت وجلال خداوندی کے منافی اور تعبیر گستاخانہ ہے۔
ان صناعی علوم کا انبیاء علیہم السلام کے فرضِ منصبی سے کوئی تعلق نہیں۔ نبوت کافرض منصبی تو یہ ہے کہ ان حقائق الٰہیہ اور مرضیاتِ خداوندی کو وہ بیان کریں،جن کی معرفت سے عقل انسانی قاصر ہے،اسی لیے خاتم انبیاء صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے:”أنتم أعلم بأمور دنیاکم“۔”دنیاوی دھندوں کو تم ہی خوب جانتے ہو“۔
انبیاعلیہم السلام کا اصلی کام حق تعالیٰ کی ذات وصفات وکمالات کی معرفت ،عبادت ،وطاعت الٰہی کے طریقوں اور ﴿مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ﴾سے انتقاع واستعمال کے سلسلہ میں مرضیاتِ الٰہیہ اور منشا خدا وندی سے آگاہ کرنا ،مبداو معاد کے احوال،مرنے کے بعد کی زندگی کے کوائف،حساب وکتابِ اعمال کی تفصیلات اور جزا وسزا ،جنت ودوزخ وغیرہ حقائق دینیہ کا بیان کرنا ہے ،یہ وہ علم ہے جس کو عقل انسانی قطعی ادراک نہیں کر سکتی۔
اگر اس نظام کا بقا وارتقا اُن دنیوی علوم وفنون اور وسائل وضروریات کی تکمیل پر موقوف ہے تو دنیا کا معنوی بقا، روحانی ارتقا انسان کی درندگی اور بہیمیت سے محفوظ ”انسانیت“ کی تعلیم و تربیت پر موقوف ہے ، اگر نفوس کی تعلیم وتربیت،قلوب کی اصلاح و تزکیہ اور اس﴿خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعا﴾․(البقرة:29)
یعنی ”جو کچھ زمین میں ہے،سب تمہارے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے “ سے انتفاع میں عقل انسانی کی صحیح راہ نمائی”علوم وحی “یعنی مذہب اور دین الٰہی کے ذریعہ نہ کی جائے اور عقل انسانی کو آزاد اور شتر بے مہار کی طرح بے لگام چھوڑدیا جائے تو یہ پورا کارخانہٴ قدرت اور سارا عالم خود اسی انسان کے ہاتھوں، جس کی فلاح وبہبود کے لیے یہ پیدا کیا گیا ہے،یکسر تباہ وبرباد ہوجائے اور روئے زمین فساد وبربریت،قتل وغارت اور درندگی کی آماج گاہ بن کر رہ جائے،جس کی نشان دہی آیت کریمہٴ ذیل میں کی گئی ہے:
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾(روم:41)
ترجمہ :”بحر وبر میں لوگوں کے کر توتوں کی وجہ سے ایک فساد برپا ہے“۔
اس لیے قانونِ قدرت کا تقاضا اور بقائے اصلح کے اصول کا فیصلہ یہی ہے کہ ہر دور میں اس سر زمیں پر انسانی دست رس سے بالا تر قانونِ الٰہی اور مذہب سماوی کا وجو د ضروری ہے،تاکہ انسان انسان رہیں ،حیوان اور درندے نہ بن جائیں۔
موجوداتِ عالم سے انتفاع اور ان کے استعمال پر مذہب ،یعنی احکام الٰہیہ کی یہ پابندی اس لیے بھی ضروری اور ناگزیر ہے کہ خالق کائنات نے جس طرح انسان کی ”عبدیت “یا کہیے عقل وخرد کی آزمائش اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی اہلیت کو ظاہر کرنے کی غرض سے خود انسان کی خلقت میں نکوکاری وپرہیزگاری اور فسق وفجور اور بدکاری دونوں کے رجحانا ت فطری طور پر رکھ دیے،ارشاد ہے:
﴿فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا﴾․ (الشمس:8)
ترجمہ:۔”پس دل میں ڈال دیا اس کے اس کی بدکاری کو اور پرہیز گاری کو“ اورمتنبہ فرمادیا:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾ (الشمس:9،10)
ترجمہ:۔”بے شک جس نے اس نفس کو پاک وصاف کرلیا،اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو زندہ درگور کردیا،وہ خسارہ میں رہا“۔
اسی طرح انسان کے تصرف اور استعمال میں دی جانے والی تمام موجوداتِ عالم میں منفعت اور مضرت دونوں قسم کے خواص واثرات بھی رکھ دیے۔دنیا کی کوئی بھی چیز نہ اس طرح منفعت رساں ہے کہ اس میں مضرت کا شائبہ بالکل نہ ہو اور نہ ایسی مضرت رساں کہ اس میں منفعت کا کوئی شائبہ نہ ہو،حتی کہ سمّیات (زہریلی اشیا)میں بھی عظیم منافع موجود ہیں،پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ منفعت ومضرت کا کوئی یکساں ضابطہ نہیں،بلکہ ایک ہی چیز ایک وقت اور ایک حالت میں نافع،مفید اور حیات آفرین ہے اور وہی چیز دوسرے حالات میں سخت مضر اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔
طبائع اور امزجہ میں بھی اسی طرح کا فرق اور تفاوت رکھا کہ ایک ہی چیز ایک شخص کے لیے مضر اور مہلک ہے اور وہی چیز دوسرے شخص کے لیے مفید اور صحت بخش ہے اور اس متنوع اور متضاد افعال وخواص کی حامل موجودات پر متصرف بنادیا۔ اس نکوکاری اور بدکاری دونوں قسم کے متضاد رجحانات کی مالک مخلوق انسان کو پھر اچھی بری،مفید ومضر اشیا کے انتخاب کا اختیار صرف عقل وخرد کے ہاتھ میں نہیں دیا،بلکہ نفسانی اغراض وخواہشات کو اس انتخاب میں دراندازی کرنے کی پوری ”پاور“ (قدرت)دے دی۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر قدم پر عقل وخرد اور نفسانی اغراض وخواہشات میں زبردست کشمکش اور کھینچ تان برپا ہے اور یہ ظلوم وجہول مخلوق، یعنی حضرت انسان سر پکڑے حیران کھڑا ہے۔اسی ہوی وہوس اور عقل وخرد کی کشمکش کے مواقع کے لیے اللہ رب العالمین اپنی اس”حاملِ امانت مخلوق“حضرت انسان کی راہ نمائی فرماتے ہیں:
﴿عَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾․(البقرة:216)
ترجمہ:۔”بہت ممکن ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو اور وہی چیز تمہارے لیے بہتر ہواور ایسا بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور تمہارے لیے بری اور مضر ہو، اللہ ہی(حقیقت حال)جانتا ہے،تم نہیں جانتے“۔
یعنی زمامِ اختیار ”ہوی وہوس“کے ہاتھ میں ہرگز مت دینا اور ہمیشہ حکم خداوندی کے مطابق اچھے برے اور پسندونا پسند کافیصلہ کرنا،ورنہ تباہ ہوجاوٴگے۔اس لیے بھی موجودات عالم اور انسانی اختراع کردہ مصنوعات سے انتفاع اور ان کے استعمال کے بارے میں انسان کی راہ نمائی اور دست گیری کی شدید ضرورت ہے اور یہ کا م مذہب یعنی انسانی دست رس سے بالاتر آسمانی تعلیمات اور احکام الٰہیہ ہی انجام دے سکتے ہیں اور اس نظام عالم کے بقاوتحفظ کے لیے علوم دینیہ کا موجود ومحفوظ رہنا از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔
ذرا سوچیے!مذہب اگر انسان پر روز افزوں مادی ترقی کے دروازے بند کرے تو اس کے معنی تویہ ہوئے کہ لامحدود قدرتِ خداوندی کے نوبنو کرشموں اور عجائبات اسرار الٰہی کے اس ”مظہر“یعنی کارخانہٴ قدرت کی تخلیق عبث ہے اور یہ گردشِ لیل ونہار اور وقت کی رفتار بے معنی اور انسانی فطرت میں ایجاد واختراع کا جوہر ودیعت فرمانا عبث ہے،حالاں کہ خالق کائنات کا ازلی ابدی کلام”قرآن عظیم “اسی آسمان وزمین کی متنوع اور گونا گوں مخلوق اور اسی روز وشب کی گردش، یعنی وقت کی رفتار کو اربابِ بصیرت کے لیے خالق کائنات کی آیات (عجائبات اور کرشموں )کا مظہر قرار دے رہا ہے، ارشادہے:
﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ﴾․(اٰل عمران:109)
ترجمہ :۔”بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کی گردش میں ارباب عقل وخرد کے لیے بے شمار(قدرت کی)نشانیاں (رکھی ہوئی)ہیں“۔
﴿ربَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾․(اٰل عمران:191)
ترجمہ:۔”اے ہمارے رب!بے شک اس (آسمان وزمین)کو تو نے بے کار اور بے مقصد نہیں پیدا کیا تُو تو(بیکار وعبث کام کرنے سے)پاک ومبرا ہے،پس تو ہم کو جہنم کے عذاب سے بچا(اور اس جہل وکج فہمی اورجحود وعناد سے محفوظ رکھ)“۔
اس لیے مذہب اور دینی تعلیمات پر اس سے بڑھ کر کوئی بہتان نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ روزافزوں ترقیات کے دروازے اپنے ماننے والوں پر بند کرتا ہے یا علوم دینیہ کی اشاعت دنیوی ترقیات کے منافی ہے اور ان علوم کی درس گاہوں کا وجود ملکی ترقی واستحکام کی راہ میں حائل ہے۔
بلکہ مذہب تو ان تمام انسانی ایجادات واختراعات اور مصنوعات پر(جو اب تک ہوئی ہیں یا آئندہ ہوتی رہیں گی)کنٹرول کرتا ہے۔جس کی بقاوارتقااور استحکام کے لیے شدید ضرورت ہے کہ ان کا استعمال صحیح اور برمحل ہو،خالق کائنات کے منشا اور مرضی کے خلاف اور منافی نہ ہو،انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے، انسانیت کو ظلم وعدوان کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کے لیے ان سے کام ہرگز نہ لیا جائے،روئے زمین پر امن وسلامتی قائم کرنے اور معاشی،اقتصادی اور سیاسی فتنہ و فساد،استعماری لوٹ کھسوٹ کو مٹانے کے لیے ان سے کام لیا جائے،کمزور قوموں کو مغلوب ومقہور کرکے ان کے ملکوں کے ذخائرِثروت ورفاہیت پر ڈاکہ ڈالنے اور استحصال بالجبر کرنے کی غرض سے ہرگز ہرگز ان سے کام نہ لیاجائے۔
اسلام تلوار بنانے پر پابندی نہیں لگاتا،ہاں! اس کے استعمال پر ضرور پابندی عائد کرتا ہے کہ صحیح طریقے پر اس کو استعمال کیا جائے، کیوں؟ صرف اس لیے کہ تلوار ایک ظالم وبے رحم قاتل سے قصاص لینے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور ایک بے قصور اور بے گناہ انسان کو اپنی شیطانی اغراض وخواہشات کی راہ سے ہٹانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح اسلام عہد حاضر کے حربی اسلحہ،ٹینک،طیارہ شکن توپیں،بمبار طیارے،میزائل ،ریڈار اور طرح طرح کے ہلاکت خیز بم بنانے سے منع نہیں کرتا،ہاں! ان کے استعمال پر پابندی ضرور لگاتا ہے کہ یہ تمام سامانِ حرب اور آلاتِ جنگ صرف ملک وملت کے دفاع اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ظلم وعدوان کے مقابلہ کرنے اور دنیا میں امن وامان قائم کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں۔استعماری اغراض ،کمزور قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کو اس حربی طاقت کے دباوٴاور زور سے مغلوب ومرعوب کرکے ان ملکوں کی پیداوار،دولت وثروت پر ڈاکے ڈالنے کے لیے ہرگز استعمال نہ کیا جائے کہ یہ عمرانی عدل وانصاف اور مساوات منافی اور روئے زمین پر عالم گیر فتنہ وفساد برپا کرنے کا موجب ہے،جیسا کہ مذکورہ سابق آیتِ کریمہ میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے۔
غرض اسلام مقصد کی تعیین،نیت کی تصحیح،نفوس کے تزکیہ کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرتااور مقدس ترین فرض کو انجام دیتاہے،تاکہ عمل خود بخود صحیح ہوجائے۔حاصل یہ ہے کہ نظام عالم کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں قسم کے علوم،عقلی اور نظری علوم،دینی اور آسمانی علوم کا بقا اور تحفظ ضروری اور ناگزیر ہے۔عقلی اور صناعی علوم وفنون کے بقا، تحفظ اور ارتقاکی کفیل انسان کی نوبنوحوائج وضروریات ہیں،وہ خودانسان کو معاشی، اقتصادی ،سیاسی اور حربی امور میں وقت اور زمانہ کے تقاضوں کے تحت نوبنو فنون وصنائع،ایجادات واختراعات اور مصنوعات کو عدم سے وجود میں لانے پر مجبور کرتی رہیں گی۔
علوم دینیہ الٰہیہ کو دنیا میں لانے اور محفوظ رکھنے والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں اور ان کے بعد ان انبیاء علیہم السلام کے ورثا،یعنی حاملین علوم انبیاء ”علمائے حق“ ہیں ، اس لیے کہ انبیا علیہم السلام دینار ودرہم،مال ومتاع،جائداد وجاگیر ترکہ میں نہیں چھوڑتے، بلکہ علوم نبوت کی وراثت قرناً بعد قرن منتقل ہوتی چلی آتی ہے اور نظام عالم کے توازن کو برقرار رکھتی ہے،خاص کر خاتم النبیین سید الاولین والآخرین صلی الله علیہ وسلم کی امت کے علما اور حاملین علوم کتاب وسنت کہ ان کے متعلق تو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”العلماء ورثة الأنبیاء“اس حدیث کے پیش نظر علمائے امت کا کام وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام کا کام ہے۔
اس بحث وتنقیح سے یہ بات تو بالکل ہی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ علوم دنیا اور علوم آخرت میں کوئی نزاع یا تصادم قطعاًنہیں ہے،ہاں! دونوں کے مقاصد اور دائرہٴ کار جدا جدا ہیں ،اسی لیے یہ بالکل حقیقت ہے کہ اگر ان انسانی علوم وصنائع کو خالق کائنات کی مرضی اور منشا کی روشنی میں انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا جائے تو یہ ساری دین بن جائے اور پھر دین اور دنیا کی تفریق جومحض ایک شیطانی مفروضہ اور منصوبہ ہے،بالکل ہی مٹ جائے۔بالکل اسی طرح جیسا کہ اگر انہی علوم انبیاکو حصول دنیا اور جلب خواہشات واغراض نفسانی کا وسیلہ بنالیا جائے تو نہ صرف یہ کہ پورا دین دنیا بن جاتا ہے،بلکہ خالق کائنات کی امانت میں خیانت اور بہت بڑا جرم ہوجاتا ہے۔اس لیے کہ اگر دنیا کا حصول دنیا کے وسائل کے ذریعہ ہوتو عین مصلحت اور عقل کاتقاضا ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں،لیکن اگر دین کو صرف حصول دنیا کا وسیلہ بنالیا جائے تو یہ”وضع الشیء فی غیر محلہ“چیز کا بے محل استعمال ہے اور بہت بڑا ظلم اور انتہائی قبیح جرم ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ علوم نبوت کا اصلی مقصد آخرت کے ثمرات وبرکات تو ہیں ہی،لیکن آخرت سے پہلے اسی دنیاوی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی حیات طیبہ اور پا کیزہ ماحول کی تشکیل اور صالح، خدا شناس، خدا پرست معاشرے کی تخلیق بھی علوم انبیاکا اہم فریضہ ہے،جس کے بارے میں وہ دنیا وآخرت دونوں میں مسئول ہیں۔خداشناسی ،خداپرستی ،خدمت خلق،امن وامان کی ضمانت،انسانیت کی فلاح وبہبود وغیر ہ انسانی کمالات وفضائل اور وسائلِ سعادت ایک قابل رشک معاشرے کے وہ خدوخال ہیں،جو انسان کو صحیح معنی میں مسجود ملائک اور اشرف المخلوقات بنا دیتے ہیں اور علوم آخرت کے وہ ثمر پیش رس ہیں،جو اس دنیا کو بھی جنت بنا دیتے ہیں۔
یہ تو علوم الٰہیہ دینیہ کی برکات ہیں،اس کے برعکس نرے عقلی اور فنی علوم وفنون کی ہلاکت آفرینی اور ایک ایسے لادینی معاشرے کا جہنمی چہرہ اور انسانیت کے لیے نہ صرف باعث ننگ وعار،بلکہ انتہائی بھیانک خدوخال بھی دیکھیے جو علوم الٰہیہ دینیہ سے باغی اور خدا ورسول کی تعلیمات سے نہ صرف محروم،بلکہ ان کی بیخ کنی کے درپے ہے اور صرف نفسانی اغراض وخواہشات کے ہاتھوں میں اس کی با گ ڈور ہے،حالاں کہ (سائنسی)علوم وفنون اور اختراعات وایجادات کے اس معراج کمال پر پہنچا ہوا ہے کہ کائنات ارضی کو بزعم خود مسخر کرلینے کے بعد کائنات سماوی کی تسخیر کی تگ ودو میں مصروف ومنہمک ہے،ان فنی اور سائنسی علوم وفنون کی پیداوار کیا ہے؟اور ایسے لادینی معاشرہ کے خدوخال کیاہیں؟فرعونیت اور قہاریت ہے،بے پناہ ظلم وعدوان ہے ، عالم گیراقتدار وتسلط کا بھوت ہے،درندے بھی جس شرمائیں وہ بے رحمی اور قساوت ہے، جانوربھی جس سے کترائیں وہ خود غرضی اور نفس پرستی ہے،کمزور کشی اور استحصال بالجبر ہے،بے دریغ خوں ریزی اور جہاں سوزی ہے،عریاں درندگی اوربہیمیت ہے،یہ وہ انسانیت سوز نحوستیں اور لعنتیں ہیں جنہوں نے قیامت سے پہلے ہی اس روئے زمین کو جہنم بنارکھا ہے۔
ان فراعنہٴ وقت امریکہ،روس اور برطانیہ وغیرہ طاغوتی طاقتوں کے سیاہ کارنامے ،ننگِ انسانیت عزائم اور مادی طاقت کے مظاہرے آپ روزانہ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔دیکھا آپ نے ان نرے مادی علوم وفنون کے ارتقااور سائنسی اکتشافات وایجادات کی فراوانی نے اس وقت دنیا کو کس خطرناک دورا ہے بلکہ جہنم کے کنارے لاکر کھڑا کردیا ہے؟۔آپ کو معلوم ہے کہ روس میں امریکہ کو تباہ کرنے اور جہنم بنادینے کے لیے غیر معمولی پاور کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اور میزائل راکٹوں کے اندر فٹ جہاں سوزی کے لیے تیاررکھے ہوئے ہیں اور امریکہ میں روس کو جہنم بنا دینے کے لیے ناقابل قیاس پاور والے آتش بار بم تیار رکھے ہوئے ہیں ، صرف بٹن دبانے کی دیر ہے،آن کی آن میں امریکہ روس کو ہیروشیما اور روس امریکہ کو ہیروشیما بناسکتا ہے اور ان دونوں براعظموں میں برسنے والے بموں کے ذرات اورتاب کاری کے اثرات یورپ اور ایشیا کو پھونک ڈالنے کے لیے کافی ہیں،یہ ہے علوم آخرت کی گرفت سے آزاد محض عقلی اور سائنسی علوم وفنون اور سائنسی ارتقا کا کارنامہ۔
ہاں!اگر علومِ آخرت کے کنٹرول میں رہ کر اور ان کی سرپرستی ونگرانی میں یہ فنی اور سائنسی علوم وفنون اور ایجادات واختراعات پروان چڑھیں اور ترقی کریں تو یقینا یہ سائنسی علوم وفنون فلاح انسانیت اور خدمت خلق ومخلوق کے بہترین وسائل بن سکتے ہیں،اس لیے بھی علوم دینیہ کی درس گاہوں اور حاملین علوم نبوت یعنی علمائے دین کا بابرکت وجود اس روئے زمین خصوصاً مملکت پاکستان کے لیے از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔