Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1433ھ

ہ رسالہ

6 - 14
نومولود سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی، رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لئے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو:
عن عائشة رضي اللہ عنہا قالت: ”کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یوٴتیٰ بالصبیان، فیدعو لہم بالبرکة“․(سنن أبي داوٴد،کتاب الأدب، باب في الصبي یولد، فیوٴذن في أذنہ، رقم الحدیث: 5105، 5/209، دار ابن الحزم )

ولادت کے موقع پر لڑکے کی پیدائش پر تو مبارک باد دینا اور لڑکی کی پیدائش پر مبارک باد نہ دینا، جاہلیت کا طرز ہے، موجودہ دور میں یہ روش بہت عام ہو چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ اوروں کے سامنے بیٹی کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں اور اگر کوئی مبارک باد پیش کرے تو اس کے جواب میں ”جزاک اللہ خیراً“ بھی نہیں کہتے، یہ طرزِ عمل اور روش اصلاح کی محتاج ہے۔

ولا ینبغي للرجل أن یھنیٴ بالبنت؛(فقط) بل یھنیٴ بھما، أو یترک التھنئة(بھما)؛ لیتخلص من سنة الجاھلیة؛ فإن کثیراً منھم کانوا یھنئون بالابن وبوفاة البنت دون ولادتھا․(تحفة المودود بأحکام المولود ، الباب الثالث:في استحباب بشارة من ولد لہ ولد و تھنئتہ، ص:58،دار ابن القیم)

مبارک کن الفاظ سے دی جائے؟
بچے کی پیدائش پر مبارک باد دینا مستحب ہے، اب یہ مبارک باد کن الفاظ سے دی جائے ؟ امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں آپ ا نے بچے کی والدہ کو یہ پیغام بھجوایا ”بارک اللہ لکِ فیہ وجعلہ براً تقیاً“․(مسند البزار،من حدیث النضربن أنس، عن أنس، رقم الحدیث:7310،13/496،موٴسسة علوم القرآن)

صاحب مجمع الزوائد علامہ الہیثمی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے،”رواہ البزار، ورجالہ رجال الصحیح“․(مجمع الزوائدو منبع الفوائد،رقم الحدیث:15421،دارالفکر)

تنبیہ: اگر کسی کو مذکورہ دعا عربی میں نہ آتی ہو تو اسے چاہیے کہ جس زبان کا ہو، اسی زبان میں مبارک باد دے دے۔نیز!جس کو مبارک باد دی جائے، وہ بھی اسے جواب میں ”جزاک اللہ خیرا“ کہہ دے۔اس موقع پرلمبی چوڑی ضیافتیں کرنا، ہدیہ دینے میں مبالغہ کرنا اور اسے ضروری سمجھنا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کے ہدیے دینے کے لیے قرض لینا وغیرہ، سب غیر شرعی امور ہیں، جن سے گریز کرنا چاہیے۔

حصول اولادکے بعد اولاد کی تربیت ،کفالت اورحقوق سے متعلق شریعت نے بہت واضح انداز میں احکامات ذکر کیے ہیں، ان کی تفصیلات پر مستقل تصانیف اس وقت منظرِ عام پر آچکی ہیں، یہاں صرف اس باب سے متعلق تھوڑا تھوڑا اشارہ کرنا مقصود ہے، تاکہ اس شعبہ سے واقفیت حاصل ہوجائے اور پھر بوقت ِ ضرورت مطوَّلات(یعنی: اس موضوع پر لکھی گئی بڑی کتب)کی طرف رجوع کیا جا سکے۔

اولاد پر خرچ کرنے کی فضیلت
اولاد کی تربیت،کفالت اورحقوق کے بے شمار فضائل ذخیرہ احادیث میں ملتے ہیں ، لیکن ان سے ہٹ کے اولاد پر خرچ کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ اجر ہے، بلکہ صرف اولاد پر ہی نہیں اور بہت سارے اعزہ ایسے ہیں جن پر خرچ کرنے کی فضیلت احادیث میں مذکور ہے۔مثلاً: حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو جو کچھ خود کھائے گا وہ تیرے لیے صدقہ ہو گا، اور جو تو اپنی اولاد کو کھلائے گا ،وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گااورجو کچھ تو اپنی بیوی کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا اور جو تو اپنے خادم کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا۔ملاحظہ ہو:
عن مقدام بن معدی کرب رضي اللہ عنہ أنہ سمع رسول اللہ ا یقول:”ما أطعمت نفسک، فھو لک صدقة، وما أطعمت ولدک،فھو لک صدقة، وما أطعمت زوجتک، فھو لک صدقة، وما أطعمت خادمک ، فھو لک صدقة“․(الأدب المفرد للبخاري، باب :”فضل من عال ابنتہ“،ص:58،رقم :82،مکتبة الدلیل)

البتہ اس صدقہ کے ثواب کا حصول نیت کے ساتھ مربوط ہے، کہ جو اس کی نیت کر ے گا، وہ یہ ثواب پائے گا۔ جیسا کہ علامہ مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”إن نوی فيالکل کما دلّ علیہ تقییدہ في الخبر الصحیح بقولہ:”وھو یحتسبھا“ فیحمل المطلق علی المقید“․(فیض القدیر،حرف المیم،رقم الحدیث:7824،دار الکتب العلمیة)

پھر ایک اور جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ بہترین صدقہ اپنی اس بیٹی پر خرچ کرنا ہے جو (اپنے شوہر کی وفات کے بعد یا طلاق ملنے کے بعد) اپنے والدین کے گھر لوٹ آئی ہو۔ملاحظہ ہو:
”عن سراقة بن مالک رضي اللہ عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:ألا أدلک علیٰ أفضل الصدقة؟ إن من أعظم الصدقة أجراً، ابنتک مردودة إلیک، لیس لھا کاسب غیرک “․ (المعجم الکبیر، سراقة بن مالک کان ینزل في ناحیة المدینة،7/169،رقم الحدیث:6591، مکتبة العلوم و الحکم)

تربیت ِ اولاد کی اہمیت
موجودہ دور میں ہرشخص دنیا کے دھندوں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور گھر بار سے دور ہو چکا ہے، باپ مال کمانے کی دوڑ میں ہے توماں بھی اسی فکر میں سرگرداں ہے، اوروں کی تو دور کی بات ہے، اپنی حقیقی اولاد کی تربیت سے بھی غافل ہو چکے ہیں، اس کام کے لیے ملازمہ/آیا رکھی جاتی ہے،واضح رہے کہ یہ طرزِعمل اور روش ٹھیک نہیں ہے، سرکار دو عالم ا نے ارشاد فرمایا:
”حق الولد علی والدہ أن یحسن إسمہ، ویحسن من مرضعہ، ویحسن أدبہ“․(شعب الإیمان، باب فيحقوق الأولاد وأالھلین، رقم الحدیث:8667،6/402،دارالکتب العلمیة)

ارشاد فرمایا:”والد کے ذمہ اولاد کا حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اس کو اچھا ادب سکھلائے“۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عن عثمان الحاطبي قال: سمعت ابن عمر یقول لرجل:”أدّب ابنک، فإنک مسوٴل عن ولدک: ماذا أدّبتہ؟ وماذا علّمتہ؟ “․(شعب الإیمان للبیہقي، باب فيحقوق الأولاد، رقم الحدیث:8662،6/400،دارالکتب العلمیة)

فرمایا:”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟“

مذکورہ احادیث میں اچھا نام رکھنے ، ادب سکھلانے، دینی تعلیم دینے کا ذکر ہے، اس کے علاوہ احادیث ِ مبارکہ میں بچوں کی تربیت سے متعلق بہت سارے احکام مذکورہیں،مثلاً:سب سے پہلے کلمہ طیبہ”لا إلہ إلا اللہ“ سکھلانا، ایمان کی باتیں سکھلانا، قرآنِ پاک سکھلانا، نماز سکھلانا اور اس کی عادت ڈالنا،ان کی اخلاقی تربیت کی خاطر ان کے بستر (بلوغت سے پہلے ہی) الگ کر دینا وغیرہ و غیرہ۔ یہ وہ تربیتی اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بچے کے بالغ ہونے سے پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔

اگر بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کر دی جائے تو جہاں یہ بچہ ایک انسانِ کامل اور ایک فردِ کامل بنے گا، وہیں یہ بچہ ایک صالح معاشرے کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی ثابت ہو گا۔یہ بچہ خود بامقصد زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیگر انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی والے کاموں کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کے برخلاف اگر اس کی صحیح اور اچھی تربیت نہ کی گئی تو سب سے پہلے اس کا وجود معاشرے کے لیے بوجھ اور وبال بنے گااور خود اس کی زندگی جانوروں والی زندگی ہو گی، ایسے فرد سے خیر کی توقع ایک عبث کام ہو گا۔

نیز! اولاد کی دینی تربیت کے باعث والدین کی دنیا میں بھی نیک نامی ہو گی اور آخرت میں بھی سرخ روئی ان کا مقدر بنے گی، جب کہ اس کے برعکس ناخلف(نافرمان) اولاد والدین کے لیے دنیا میں بھی وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی اللہ کے سامنے رسوا کروانے کا سبب بنے گی۔

تربیت کی دو قسمیں
اس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: اول :اولاد کی تربیت ظاہری اعتبار سے، دوم :اولاد کی تربیت باطنی اعتبار سے۔

اوپر ذکر کردہ حدیثِ مبارکہ میں بچوں کی باطنی اعتبار سے تربیت کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی شکل وصورت، سر کے بالوں (ڈاڑھی، مونچھ، بغل و زیرِ ناف کے بالوں )کی شرعی ہیئت، شرعی لباس، طور اطوار(کھانا کھانے، پانی پینے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے وغیرہ ) جیسے کام داخل ہیں، اس کے علاوہ اس بات پر نظر رکھنا بھی ظاہری تربیت میں داخل ہے کہ بچوں کو دوسروں سے پیسے مانگنے یا کھانے پینے والی اشیا مانگنے، چھوٹی موٹی چیزیں یا پیسے چرانے یا دوسروں کو اذیت دینے والی شرارتیں یا بد تمیزی سے بولنے کی عادت نہ پڑے۔اسی طرح بچوں کی گھر سے باہروالی زندگی، اس کے دوست یار، اس کے تفریحی مشاغل کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا۔اس کے تعلیمی مراحل ( دینی ہوں یا عصری)کو اپنی نگرانی میں مکمل کروانا، اس کے اساتذہ سے مل کے اس کی تعلیمی حالت وکیفیت سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے، نمازوں کے اوقات میں جب اولاد تنہا مساجد کی طرف جائے تو اس بات کی تسلی کرنا کہ وہ واقعتا مسجد میں ہی گئے ہیں، ضروری ہے۔نیز! جب اولاد کمانے کے قابل ہو جائے اور کمانے لگے تو ان کے ذرائع معاش کی نگرانی کرنا بھی اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہے۔

نومولود سے متعلق شرعی احکام
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:” اولاد کی (ظاہری و باطنی) تربیت کا وقت اورموقع سمجھ داری اور عقل والی عمر ہے“۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتملہ“․ (شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126،مکتبة الرّشد)

اس عمر تک پہنچنے سے پہلے اس بچے کے والدین پر اس کے کچھ حقوق اور احکامات متوجہ ہوتے ہیں، جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اوران پر مرتب ہونے والے نتائج واثرات بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایسے احکامات کی تعداد چھ ہے:
کان میں اذان دینا۔ تحنیک کرنا۔ نام رکھنا۔ عقیقہ کرنا۔ سر کے بال مونڈنااور ان بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنا۔ ختنہ کرنا۔

پہلا حکم : اذان دینا
نومولود سے متعلق سب سے پہلا حکم ا س کے کان میں اذان دینے کا ہے،اذان کا حکم اس لیے دیا گیا کہ اس دنیا میں آنے والا نیا مہمان اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شیطان کے اثر سے محفوظ ہو جائے اور سب سے پہلے اس بچے کے کانوں میں اللہ تعالی کی وحدانیت (”اللہ اکبر “کے ذریعے)، اللہ رب العزت کے علاوہ دیگر معبودان ِ باطلہ کی نفی (”اشھد ان لا الہ الا اللہ“ کے ذریعے)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت (”أشھد أن محمدا رسول اللہ“ کے ذریعے)،اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین عمل نمازکی دعوت اور اس میں کام یابی کی خبر(”حيّ علی الصلاة “ اور”حيّ علی الفلاح“ کے ذریعے) ڈالی جاتی ہے۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلُغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتمِلہ، وذلک یتفرع․ فمنھا:أن یُنشَّئِہ علی أَخلاق صُلحاء المسلمین، ویصونہ عن مخالطة المفسِدین، ومنھا: أن یُعلِّمہ القرآن ولسانَ الأدب ویُسمِعہ السُنَن، وأقاویل السلَف، ویُعلِّمہ من أحکام الدین ما لا غِني بہ عنہ، ومنھا:أن یُرشِدَہ من المَکاسِب إلی ما یُحمَد ویُرجیٰ أن یرُدَّ علیہ کفایتُہ، فإذا بلَغ أحدُہم حدَّ العقل عُرِّفَ الباریٴَ جلَّ جلالُہ إلیہ بالدلائل التي توصِلہ إلیٰ معرفتہ من غیر أن یُسمِعہ من مقالات المُلحدین شیئاً، ویذکرھم لہ في الجملة أحیاناً، ویُحذِّرہ إیّاھم، ویُنفِّرہ عنھم، ویُبغِّضُھم إلیہ ما استطاع، ویُبدَأ من الدلائل بالأقرب الأجلٰی، ثم ما یلیہ، وکذٰلک یُفعَل بالدلائل الدالة علیٰ نبوةِ نبیّنا صلی الله علیہ وسلم بھدیِہ فیھا إلیٰ الأقرب الأوضَح، ثم الّذي یلیہ، وبسَط الحلیميّ الکلامَ في کل فصلٍ من فصولِ ھذا الباب، مَن أراد الوقوف علیہ رجع إلیہ إن شاء اللہ“․(شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126 127،مکتبة الرّشد)

شیطان کے اثر سے حفاظت
شیطان سے حفاظت کے لیے ارشاد ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں اذان کا عمل ہے، اسی کا اہتمام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے،حضرت عبید اللہ بن ابی رافع اپنے والد یعنی”ابورافع“ سے روایت کرتے ہیں کہ” جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے دونوں کانوں میں اذان دی“۔

عن أبي عبید بن أبي رافع عن أبیہ، قال: ”رأیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم أذّن في أذني الحسن، حین ولدتہ فاطمةُ، بالصلاة“․(مسند أحمد بن حنبل،حدیث ضمیرة بن سعد، رقم الحدیث:23869، 29/297،موٴسسة الرسالة)

مذکورہ روایت میں دونوں کانوں میں اذان دینے سے مراد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت ہے،یعنی: لفظِ اذان بول کر مجازاً اقامت مراد لی گئی ہے۔

شیطان سے بچنے کے لیے دوسراعمل یہ بتایا کہ پیدائش کے وقت بچے کا سرپرست یہ دعا پڑھے: ”إني أعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم“․ ایسا کرنا مستحب ہے۔(مرقاة المفاتیح، کتاب الأطعمة،رقم الحدیث:……،12/418)

اذان سے متعلق مسائل
بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں (نماز والی)اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے۔

اس اذان اور اقامت کے بارے میں بھی وہی مسائل و احکامات ہیں ، جو نماز سے قبل دی جانے والی اذان کے ہیں، مثلاً:اذان دینے والے کا مسلمان، عاقل، بالغ یاقریب البلوغ، سمجھ دار ، مردہونا، باوضو ہونا،جنبی نہ ہونا، قبلہ رو ہونا،کھڑا ہونا،اذان ٹھہر ٹھہر کے دینا اور اقامت میں کلمات(بنسبت اذان کے) جلدی جلدی ادا کرنا، البتہ اس اذان و اقامت میں ”الصلاة خیر من النوم“کہنے کی اور ”حيّ علی الصلاة“ کہتے ہوئے چہرہ دائیں طرف پھیرنے کی، ”حيّ علی الفلاح“ کہتے ہوئے چہرہ بائیں طرف پھیرنے کی ضرورت، آواز بلند کرنے کی،کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی،اذان کے کلمات بہت زیادہ ٹھہر ٹھہر کے دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اگر یہ امور کر بھی لیے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد اذان کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اس کو غسل دے دیا گیا ہو، البتہ جسم پر لگی ہوئی نجاست و غلاظت کو صاف کر لینا چاہیے۔

اذان دینے میں زیادہ تاخیر پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر کسی عذر کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو(جیسے بعض حالات میں ولادت کے فورا بعد بچے میں کچھ کمزوری یا پیدائشی مرض وغیرہ کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کی شیشے والی مشینوں یا مخصوص درجہ حرارت والی جگہ میں رکھا جاتا ہے، اسے باہر کے ماحول میں نہیں نکالا جاتا، تو ایسی صورت حال میں اگر کچھ تاخیر بھی ہو جائے) تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ بعد میں اذان دے دی جائے۔

مستحب یہ ہے کہ کسی نیک ،صالح، باشرع شخص سے اذان دلوائی جائے۔

دوسرا حکم : تحنیک
بچے کے کان میں اذان دینے کے بعددوسرا مسنون عمل تحنیک کا ہے،تحنیک کا مطلب یہ ہوتا ہے:”کسی نیک ،صالح ،متبع سنت بزرگ کے منہ میں چبائی ہوئی کھجوریا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز بچے کے منہ میں ڈال کے اس کے تالو کے ساتھ چپکانا، تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک بزرگ کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندرمنتقل ہوں“۔

قال أھل اللغة :”التحنیک أن یمْضُغ التمر أو نحوہ، ثم یُدَلَّکُ بہ حَنَک الصغیرِ“وفیہ لغتان مشھورتان :حَنَکْتُہ وحَنَّکْتُہ بالتخفیف والتشدید․(شرح النووي علی مسلم، کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ:1/462،رقم الحدیث:688)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے۔

عن عائشة رضي اللہ عنہا أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کان یوٴتی بالصبیان، فیبرِّک علیہم، ویُحنِّکُہم․(صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ و حملہ إلی صالح یحنکہ، رقم الحدیث:2147)

تحنیک کا مقصد
تحنیک کا مقصد یہ ہے کہ بچے کے پیٹ میں پہلی غذا کسی نیک بزرگ کا لعاب جائے، تاکہ اس سے برکت کا حصول ہو۔

وقولہ: ”ویحنکہم“ لیکون أول ما یدخل أجوافہم ما أدخلہ النبي صلی الله علیہ وسلم، لا سیما بما مزجہ بہ من ریقہ وتفلہ فی فیہ․(إکمال المعلم للقاضي عیاض،کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ، رقم الحدیث:688)

تحنیک سے متعلقہ مسائل
اذان کے بعد پہلا کام تحنیک کا عمل کرنا ہے، یہ عمل مسنون ہے۔

تحنیک کسی نیک شخص سے کروانی چاہیے، تاکہ یہ بچے کے ایمان اور نیک عمل کی بنیاد بنے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”والحکمة فیہ أنہ یتفاوٴل لہ بالإیمان لأن التمر ثمرة الشجرة التي شبھھا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بالموٴمن، وبحلاوتہ أیضاً، ولا سیما إذا کان المحنِّکُ من أھل الفضل والعلماء والصالحین، لأنہ یصل إلی جوف المولود من ریقہم، ألا تریٰ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لما حنک عبداللہ بن الزبیر حاز من الفضائل والکلمات ما لا یوصف، وکان قارئاً للقرآن، عفیفاً في الإسلام“․ (عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

افضل یہ ہے کہ تحنیک کھجور سے کی جائے اور اگر کھجور میسر نہ ہو تو چھوہارہ اور اگر چھوہارہ بھی نہ ہو تواس کو شہدچٹا دیا جائے ، یاپھر کوئی بھی میٹھی چیزچبا کے یا اپنے منہ میں چوس کے بچے کے منہ میں ڈال دی جائے ، البتہ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ وہ چیز آگ پر پکی ہوئی نہ ہو، بلکہ کوئی پھل وغیرہ ہو۔

وأولاہ التمر، فإن لم یتیسر تمر، فرطب وإلا فشيء حلو، عسل النحل أولیٰ من غیرہ، ثم ما لم تمسہ نار کما في نظیرہ مما یفطر الصائم علیہ․(فتح الباري،کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ و تحنیکہ:9/588،دارالمعرفة)

تیسرا حکم: نام رکھنا
عام طور پر کتب میں نام رکھنے کا ذکر عقیقہ کے بعد کیا جاتا ہے، لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے نام رکھنے کا عمل عقیقہ کرنے سے قبل ہوناچاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیقہ کرتے وقت جو دعا پڑھنا مستحب ہے ، اس میں بچے کا نام لیاجاتا ہے، اس بنا پر پہلے بچے کا نام رکھنا چاہیے ،پھر عقیقہ کرنا چاہیے، اچھا نام رکھنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا، اس کی ترغیب دی جاتی تھی، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں کسی کا نام اچھا نہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کا نام تبدیل بھی فرما دیا کرتے تھے،یعنی: اچھا نام آپ صلی الله علیہ وسلم کو پسند اور بُرا نام ناپسند ہوتاتھا۔

اچھے نام کی ترغیب اور اہمیت
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ :”بے شک قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پُکارا جائے گا،اس لیے تم اپنے اچھے نام رکھا کرو“۔

عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم“․(سنن أبي داوٴد، کتاب الآدب، باب في تغییر الأسماء، رقم:4950، 5 /149،دارابن حزم)

اس حدیث ِ مبارکہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ قیامت کے دن مخلوقاتِ عالم کے سامنے بندوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، چناں چہ اچھے ناموں کے اچھے اثرات اوربرے ناموں کے برے اثرات ظاہر ہوں گے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو اس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا،بعض دیگر روایات میں انسان کو ماں کے نام سے پکارے جانے کا ذکر ہے، لیکن یہ روایات احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہیں۔صحیح اور مستند بات یہ ہی ہے کہ باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔

بچے کا نام رکھنے کا وقت
بچے کا نام پیدائش کے ساتویں دن رکھنا افضل ہے، جیسا کہ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والدسے اور ان کے والد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پیدا ہونے والے بچے کا نام ساتویں دن رکھنے کا حکم فرمایا“․
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ: ”أن النبي صلی الله علیہ وسلم أمر بتسمیة المولود یوم سابعہ، ووضعِ الأذیٰ عنہ، والعق“․
(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ما جاء في تعجیل إسم المولود، رقم الحدیث:2758 ،5/132،مطبعہ مصطفیٰ البابي الحلبي)

اس کے علاوہ اگر بچے کا نام کسی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد رکھنا پڑ جائے، یا نام رکھنے میں ساتویں دن سے کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم بلاوجہ بہت زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت ہے،ساتویں دن سے قبل اگر نام رکھنا تجویز ہو رہا ہو تو اس کی یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے، کہ نام تو پہلے سوچ لیا جائے ،لیکن طے ساتویں دن کر لیا جائے۔

وقال الخطابي: ”ذھب کثیر من الناس إلی أن التسمیة تجوز قبل ذلک“․ وقال محمد بن سیرین وقتادة والأوزاعي: ”إذا ولدوقد تم خلقہ، یسمیٰ في الوقت إن شاء“․ وقال المھلب: ”وتسمیة المولود حین یولد وبعد ذلک بلیلة أو لیلتین وما شاء إذا لم ینوِ الأبُ العقیقةَ عند یوم سابعہ جائز، وإن أراد أن ینسکہ عنہ، فالسنة أن تُوَٴخَّر التسمیة إلیٰ یوم النسک، وہو السابع“․ (عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولودغداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات
یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا چھوٹی سے بات ہے، لیکن اس کے اثرات دینی اور دنیوی زندگی میں مرتب ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بہت ہی زیادہ اہتمام سے برے نام تبدیل فرمایا کرتے تھے، ناموں کے اثرات انسان کے اعمال و احوال پر پڑنے کا ذکر احادیثِ نبویہ علی صاحبھا الصلاة والتحیة اور آثار ِ صحابہ میں موجود ہے، جیسا کہ حضرت ابن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:” ان کے باپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوئے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا نام ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام”حزن“ (یعنی:غم اور سختی والا)ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ:(نہیں! بلکہ)تمہارا نام ”سہل“(یعنی:آسانی والا)ہے، تو انہوں نے کہا کہ میں اس نام کو نہیں بدلوں گاجو میرے والد نے رکھا ہے“۔حضرت ابن مسیب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہمارے گھر میں غم کے حالات ہی پیش آتے رہے۔

عن ابن المسیب عن أبیہ أن أباہ جآء إلی النبيصلی الله علیہ وسلم فقال:”مااسمک؟“ قال:حُزنٌ، قال:”أنت سھلٌ“․ قال:لا أُغیِّرُ اِسماً سمّانیہ أبي، قال ابن المسیب: فما زالت الحزونةُ فینا بعدُ․ (صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب إسمِ الحُزن، رقم الحدیث:6190،9/43،دارطوق النجاة)

اسی طرح حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیاکہ ”جمرہ“ (اس کا مطلب ہے، چنگاری )، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”شہاب“(یعنی: شعلے ) کا بیٹا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد معلوم کیا کہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”حرقہ“ (یعنی: آگ جلانے والے ) قبیلہ سے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ تم کہاں رہتے ہو؟تو اس نے جواب دیا کہ ”حرّة النار“ (آگ کی گرمی ) میں رہتا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ یہ ”حرة النار “ کہاں واقع ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ ”ذات اللظیٰ“ (یعنی: بھڑکتی ہو ئی آگ کے علاقے)میں ہے،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خبر لو، وہ جل گئے ہیں،راوی کہتے ہیں کہ اس نے جا کردیکھا تو ویسے ہی پایا، جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ (جاری)
Flag Counter