Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 17
نومولود سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی، رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک نسل انسانی کے بڑھنے کا سلسلہ بصورت ِ پیدائش جاری ہے ، اس دنیائے فانی میں سانس لینے والا ہر متنَفِّس اپنی زندگی بسر کرنے میں خالقِ کون و مکاں کے احکامات کاپابند ہے،اسی کا نام امتحان ہے کہ کون اس دنیا میں اس کی منشا کو سامنے رکھ کر زندگی گذار کر آتا ہے اور کون من مانی کی زندگی گذار کر آتا ہے؟!

اصلاً تو اللہ رب العزت کے احکامات بلوغت کے بعد ہی انسان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، لیکن ان احکامات پر چلنے کے لیے” مطلوبہ استعداد (یعنی: ایمان)کا حصول“ اس انسان کے اندر اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے،اس کی دلیل سرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کا وہ ارشاد ِمبارک ہے جس میں آپ علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا:

”لو أن أحدکم إذا أتیٰ أھلہ، قال : ”بِاسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا“ فقضي بینھما ولد، لم یضرہ الشیطان“․(الصحیح للبخاري،کتاب الوضوء، باب التسمیة علی کل حال وعند الوقاع،رقم الحدیث:141)
کہ جب تم میں سے کوئی اپنی زوجہ حیات کے پاس جاتے وقت(یعنی صحبت کرنے سے پہلے) یہ دعا ”بِاسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا“ پڑھ لے ،پھر اللہ تعالیٰ اُس رات کے ملنے کی وجہ سے اگر اولاد کا فیصلہ کرلے، تو شیطان اس بچے کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو بچہ شیطان کے اثرات سے محفوظ رہے گا،وہ بلوغت کے بعد احکامات ِ الہی پر بھی چلنے والا ہو گا اور ان احکامات ِالٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ اپنے والدین کا فرماں بردار بھی ہو گا، اس کے برعکس جو بچہ بلوغت سے پہلے ہی شیطان کا قیدی بن جائے گا ، وہ بلوغت کے بعد بھی اس کے اثرات میں جکڑا رہے گا، چناں چہ ! وہ بچہ نہ صرف اللہ جل جلالہ کے احکامات چھوڑنے والا ہوتا ہے ،بلکہ وہ اپنے ماں باپ کا بھی نافرمان ہوتا ہے،اس وقت اس کے والدین بھی اس سے شاکی رہتے ہیں کہ یہ بچہ نافرمان ہے ، ہماری مانتا ہی نہیں ، اپنی مَن مانیوں پر چلتا ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اول قصور وار اس کے والدین ہی نکلتے ہیں جنہوں نے ابتدا سے ہی اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اُن افعال سے نہیں بچایا جو انسان کو گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف لے کر چلتے ہیں اور ان کے اندر سرکشی پیدا کرتے ہیں۔

دوسری بات :جیسے گناہوں کی تاثیر ہوتی ہے ، اسی طرح نیکیو ں کی بھی تاثیر ہوتی ہے،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کیا ،تو اس سفر میں جہاں اور بہت سارے عجائبات ان کے سامنے آئے ، وہاں ایک یہ بات بھی سامنے آئی کہ انہوں نے ایک ایسی دیوار کو سیدھا کیا جو گرنے کے قریب تھی،یعنی اس دیوار کی تعمیر کی ، تاکہ وہ گرنے سے بچ جائے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دریافت کرنے پر حضرت خضر علیہ السلام نے یہ حکمت بتلائی:

﴿وَأَمَّّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِيْ الْمَدِیْنَةِ وَکَانَ تَحْتَہ کَنْزٌ لَہُمَا وَکَانَ أَبُوْھُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا،کَنْزَھُمَا رَحْمَةً مِنْ رَّبِّکَ﴾(الکھف:82)
کہ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ مدفون تھا، جو دو یتیم بچوں کی ملکیت تھااور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، اس نے مرنے سے قبل اپنے ان نابالغ بچوں کے لیے وہ خزانہ دفن کیا تھا کہ بلوغت کے بعدوہ اسے نکال لیں گے اور وہ(خزانہ) ان کے کام آ ئے گا۔

اس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کا باپ نیک آدمی تھا،جس کی نیکی کا یہ صلہ دیاگیا کہ اس کے مال کی حفاظت کی گئی، جو کہ بطورِ امانت رکھا گیا تھا، تاکہ بوقت ضرورت اس کی اولاد کے کام آئے، جب کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ساتویں پشت کاباپ تھااور اس کی نیکی کے بارے میں تفاسیر میں یہ آتا ہے کہ ”لوگ اس کے پاس امانتیں رکھواتے تھے اور وہ بغیر کسی خیانت کے لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر دیتا تھا“۔(روح المعانی،سورة الکہف:28:11/963)۔

الغرض بات یہ چل رہی تھی کہ” احکامات پر چلنے کے لیے” مطلوبہ استعداد (یعنی: ایمان)کا حصول“ اس انسان کے اندر اس کے وجود میں آنے سے قبل ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے“ جو کہ اس کے والدین کے ذریعے ہوتا ہے،لہٰذا ماں اور باپ ،اگر یہ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد نیکو کار ہو اور ا ن کی فرماں بردار ہو، تو دونوں کے ذمے یہ بات لازم ہے کہ جہاں وہ خود اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہوئے نیک کاموں کو کریں ،وہاں اولاد سے متعلق احکاماتِ الٰہیہ کو بھی پورا کریں اور اولاد سے متعلق منہیات سے بھی بچیں۔

چناں چہ ذیل میں سب سے پہلے شریعت کی نظر میں اولاد کے حصول کا مقصد اور اس کی اہمیت ذکر کی جائے گی اور اس کے بعد والدین کی طرف ان کی اولاد سے متعلق جو احکامات متوجہ ہوتے ہیں ، ان کو ذکر کیا جائے گا۔

حصولِ اولاد کا مقصد
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اولاد کے حصول کو پسندیدہ اور مطلوب قرار دیا ہے اور اولاد کے حصول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ:
اس سے سید الانبیاء حضرت محمد ِ مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی امت میں اضافہ ہو ۔ اپنے لیے راحت ِ جسمانی اورراحتِ روحانی کا حصول ہو۔ مرنے کے بعد اپنے لیے صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنے۔صالح اولادکے ذریعے نیک اور صالح معاشرے کا قیام وجود میں آئے، وغیرہ وغیرہ۔

چناں چہ! جس ذریعے سے اولاد کا حصول ہوتا ہے ، (یعنی : نکاح) اس کے اپنانے کی پر زور ترغیب دی گئی اور اس کے ترک کو سخت ناپسند کیا گیا اور اس کے تارک کی حوصلہ شکنی کی گئی، اس لیے صرف نکاح ہی نہیں ، بلکہ اس عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی جو زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ہو اور اس عورت سے نکاح کرنے کو ناپسند قرار دیا گیا جو اس صلاحیت سے محروم ہو۔

ذریعہ اولاد ”نکاح“ کا مقصد
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں ،جسے امام ابن ِ ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ:
قالت:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”النکاح من سنتي، فمن لم یعمل بسنتي فلیس مني، وتزوجوا، فإني مکاثر بکم الأمم، ومن کان ذا طول فلینکح، وإن لم یجد فعلیہ بالصیام، فإن الصوم لہ وِجاء“․ (سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح، رقم الحدیث:1836)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت پر عمل نہیں کرے گا ، تو وہ مجھ سے نہیں ہو گا (یعنی میرے طریقے پرقائم نہیں رہے گا) اور تم نکاح کیا کرو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے (قیامت کے دن ) دوسری امتوں پر فخر کروں گا اور تم میں سے جو طاقت رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ نکاح کرے اور جسے طاقت نہ ہو تو وہ (کثرت سے)روزے رکھنے کا اہتمام کرے، کیوں کہ روزہ اس کے لیے وِجاء ہے (یعنی شہوت کو ختم کرنے والا ہے)۔

اس ارشادِ مبارک میں نکاح کا مقصد ذکر کیا گیا ہے، کہ شہوت کے غلبے کی صورت میں جائز طریقے سے اپنی شہوت کو پورا کرنے کا ذریعہ نکاح ہے اور اگر جائز طریقہ نہ ہو یعنی نکاح نہ ہوا ہو تواس کا علاج کثرت سے روزے رکھنا بتایا گیاہے۔

بانجھ عورت سے نکاح کا ناپسندیدہ ہونا
اوپرذکرکردہ حدیث کے برعکس ایک حدیث مبارکہ میں ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے ، جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، جیسا کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
”جاء رجل إلی النبي صلی الله علیہ وسلم، فقال:”إنّي اَٴَصبت إمرأةً ذات حسبٍ وجمالٍ، و أنھا لا تلد ،أفأتزوّجھا؟“ قال:”لا“․ ثم أتاہ الثّانیة، فنھاہ ، ثم أَتاہ الثّالثة، فقال:”تزوّجوا الودودَ الولودَ، فإنّي مکاثرٌ بکم الأمم“․(سنن أبي داوٴد، کتاب النکاح ،باب النھي عن تزویج من لم یلد من النساء، رقم الحدیث:2052)
ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت کو جانتا ہوں،جو بڑے اونچے نسب والی اور خوب صورت عورت ہے،لیکن اس کے اندر اولاد پیدا کرنے کی صفت نہیں ہے،کیا میں اس سے شادی کر لوں؟تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں پھر وہ شخص دوسری بار حاضرِ خدمت ہوا اور اسی عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بار بھی اسے اُس عورت سے شادی کرنے سے منع کردیا،وہ شخص پھر تیسری مرتبہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوااور اس عورت سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو اس بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا کہ تم ایسی عورت سے شادی کرو، جوزیادہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی ہو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے (قیامت والے دن)دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔

البتہ اگر مقصود محض عفت و پاک دامنی کا حصول ہو، دیگر کوئی اور رشتہ بھی نہ مل رہا ہو تو پھر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نکاح کے مقاصد میں صرف اولاد کا حصول ہی نہیں ہے، بلکہ شرم گاہوں کی حفاظت بھی ہے۔

شریعت کی نگاہ میں حصول ِ اولاد کی اہمیت
اس فرمانِ مبارک سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں نہ صرف اولاد کے حصول کی اہمیت بلکہ اس حصول کے ذریعے (یعنی: بچے جننے والی عورت سے نکاح)کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے،اسی لیے اس عورت سے نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا جو مال و دولت کی اور حسن و جمال کی مالک تو ہے لیکن وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔چناں چہ نکاح کرنے اور اس کے ذریعے اولاد کے حصول کی اہمیت کو اور زیادہ واضح انداز میں سمجھنے کے لیے ایک اور فرمانِ رسول پر نظر ڈالیے:

عن أنس بن مالک قال:کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یأمر بالباء ة، و ینہیٰ عن التبتل نھیاً شدیداً، ویقول:”تزوجوا الودود الولود، إني مکاثرٌ بکم الأنبیاء یوم القیامة“․(مسند أحمد بن حنبل،مسند أنس بن مالک،رقم الحدیث:12613،13569، 20/63،21/191،موٴسسة الرسالة)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کو سختی سے نکاح کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے جو نکاح پر قدرت رکھتا ہواور ایسے شخص کو بے نکاح رہنے پرسختی کے ساتھ منع کیاکرتے تھے اور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ایسی عورت سے نکاح کیا کرو جو خوب محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ہو، ارشاد فرمایا کہ : ”بے شک تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دوسرے انبیا کی امتوں پر قیامت کے دن فخر کروں گا“۔

مذکورہ صفات کی حکمت
ان دونوں احادیث میں خوب محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا، اس کی حکمت کے بارے میں ملا علی القاری  فرماتے ہیں کہ: یہ دونوں قیدیں اس لیے لگائی گئی ہیں کہ : اگر عورت محبت کرنے والی نہ ہوئی، تو خاوند کی اُس عورت میں رغبت نہیں ہوگی اور اگر اُس کے اندر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہوئی، تو پھر نکاح کا مقصد ِ عظیم ( زیادہ اولاد کے ذریعے اُمت ِ محمدیہ علی صاحبہا تحیة وسلام کا کثیر التعدادہونا ) فوت ہو جائے گا۔

زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت کی پہچان کا طریقہ
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ کس عورت کے اندر زیادہ محبت کرنے کی صلاحیت اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ؟ تو اس بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ دونوں خوبیاں پہچاننے کے لیے اس کے خاندان کی دوسری عورتوں کو دیکھا جائے گا کہ ان کے اندر یہ دونوں وصف کس حد تک پائے جاتے ہیں ، اگر ان کے اندر یہ اوصاف نظر آئیں تو پھر اس عورت میں بھی یہ اوصاف ہوں گے، کیوں کہ صفات و طبائع، نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں،تو احتمالِ غالب کے مطابق اس عورت میں بھی یہ صفات منتقل ہوئی ہوں گی، بس اتنا اندازہ لگا لینا کافی ہے، بعد میں اولاد کا پیدا ہونا یا نہ ہونا تقدیر کا کھیل اور ربِّ عزوجلّ کی طرف سے ایک امتحان ہو گا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح،النوع الثانی، رقم الحدیث:3091،6/247،دار الکتب العلمیہ)

اولاد کی کثرت میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رغبت
آپ علیہ الصلاة و السلام کو اس کی رغبت کس قدر تھی ؟ اس کا اندازہ مذکورہ حدیث سے لگایا جا سکتا ہیکہ: ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے بیٹے حضرت اَنَس رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان کو لے کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا :

”یا رسول اللہ خادمک أنس، أُدع اللہ لہ، فقال:”اَللہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہ ووَلَدَہ، وَبَارِکْ لَہ فِیْمَا أَعْطَیْتَہ“․(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أنس ابن مالک، رقم الحدیث 2480، المکتبة بیت الأفکار)

کہ یہ میرا بیٹا انس آپ کا خادم ہے، اس کے لیے آپ اللہ رب العزت سے دعا کیجیے، تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی:”اَللہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہ ووَلَدَہ، وَبَارِکْ لَہ فِیْمَا أَعْطَیْتَہ“ کہ یا اللہ! اس کے مال کو اور اس کی اولاد کو زیادہ فرما دیجیے اور جو کچھ آپ نے اس کو عطا فرمایا ہے، اس میں برکت ڈال دیجیے۔

اس دعا کی قبولیت کس شکل میں ہوئی ؟ اس بارے میں علامہ سندھی رحمہ اللہ حاشیہ بخاری میں لکھتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرمایااور ان کے مال میں اس قدر برکت عطا فرمائی کہ بصرہ شہر میں ان کے دو باغ تھے ، جو سال میں دو بار پھل دیتے تھے اور ان کی اولاد میں اس طرح برکت ہوئی کہ ان کی(زندگی میں ہی ان کی اولاد اور ”اولاد کی اولاد“ کی ) تعداد 120 تک پہنچی اور ان کی عمر میں اس طرح برکت ہوئی کہ 99 سال یا 103سال یا 107سال اور ایک قول کے مطابق 110سال تک زندہ رہے“۔(حاشیة السندی علی صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء للصبیان بالبرکة،4/159، دارالفکر، بیروت)

خاندانی منصوبہ بندی کا شرعی حکم
اوپر ذکر کردہ اب تک کی بحث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نکاح شریعت کی نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی طرح نکاح سے جو مقصود ہے یعنی: اولاد، وہ بھی نہایت اہم ہے، چناں چہ جس طرح اولاد کے حصول پر زور دیا گیا ہے ، اسی طرح ہر ایسی حرکت سے منع کیا گیا ،جس سے اولاد کے حصول کا سلسلہ منقطع ہو جائے ، چاہے وہ صورت عزل (یعنی : بیوی سے ملتے وقت مادہ منویہ باہر خارج کرنے)کی ہو یا نس بندی کی،مانع حمل ادویات کا استعمال ہو یا خاندانی منصوبہ بندی کا پراسس،عورت سے پیدائش ِ اولاد کی صلاحیت کو ختم کرنا ہو یا حمل ٹھہر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ہو، ہر صورت کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے۔عارضی طور پر مانع ِ حمل کے لیے مختلف تدابیر کو اختیار کرنا اگر کسی ضرورت ِ شرعیہ کی وجہ سے ہوتو شریعت کی طرف سے کچھ گنجائش ہے، بصورت ِ دیگرسرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں۔

”لیس منا مَن خصیٰ ولا اختصیٰ،إن خصاء أمتي الصیام“․(کتاب الزہد لابن المبارک،باب التواضع،رقم الحدیث: 845، ص:336،دارالکتب العلمیة)

مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کا حکم؟
اور جن صورتوں میں شریعت نے عارضی طور پر مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دی ہے ان میں بھی اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ عمل تنگ دستی او ر افلاس کے خوف سے نہ ہو، وگرنہ (مذکورہ بد عقیدگی کے ساتھ) مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، اس بارے میں ایک فرمانِ رسول صلی الله علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں:

عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ،قال رجل:یا رسول اللہ ، أيّ الذنب أکبر عند اللہ؟ قال: أن تدعوا للہ ندّا وھو خلقک ، قال: ثم أيّ ؟ قال: أن تقتل ولدک خشیة أن یطعم معک، قال: ثم أيّ؟ قال: أن تزاني بحلیلة جارک، فأنزل اللہ عزوجل تصدیقھا ﴿والذین لا یدعون مع اللہ إلھا آخر ولا یقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق ولا یزنون ومن یفعل ذلک یلق أثاما﴾․ (الفرقان:68)․(صحیح البخاري، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ:﴿ومن یقتل موٴمنا متعمدا فجزاوٴہ جھنم﴾ رقم الحدیث: 6861،4/265،المکتبة السلطانیة)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراوٴ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی،اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی:(ترجمہ)”رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا“۔

اس کے بعد جاننا چاہیے کہ یہ تدابیر اختیار کرنا شرم و عار کی وجہ سے ہو تو اس کا گناہ اپنی بیٹی کو زندہ درگور(یعنی قتل) کرنے کے برابر ہے،حضرت جدامہ بنت وھب رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:

قالت: حضرتُ رسولَ اللہ صلی الله علیہ وسلم في أُناسٍ …،ثم سألوہ عن العزل؟ فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”ذٰلک الوأدُ الخفيُّ“۔(صحیح مسلم ، کتاب النکاح، باب جواز الغیلة، وھي وطء المرضع وکراھة العزل، رقم الحدیث: 1442،ص:573، بیت الأفکار)
حضرت جدامہ بنت وھب رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ عزل کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :یہ (عزل)خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنا ہے۔

خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنے کے بارے میں شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وھي ”وإذا المووٴدة سئلت“، الوأد دفن البنت، وھي حیة وکانت العرب تفعلہ خشیة الإملاق، وربما فعلوہ خوف العار․(شرح النوويعلی صحیح مسلم:10/17،المطبعة المصریة بالأزھر)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ عرب اپنی بیٹیوں کو تنگ دستی کے خوف اور شرم و عار کی بنا پر زمین میں زندہ دفن کر دیتے تھے۔

ان کا یہ فعل علی الاعلان ہوتا تھا ، اور عزل کی صورت میں یہی فعل خفیةً ہوتا ہے، لہٰذا جیسے زندہ درگور کرنا اللہ رب العزت کے نزدیک بہت بڑا گناہ اور قتل کرنا ہے، اسی طرح خفیہ طور پر زندہ درگور (یعنی عزل )کرنا بھی ہے۔اور اگر یہ تدابیرایسی ہوں جن سے پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے تو ایسا کرنا بھی شرعاً بالکلیہ ناجائز ہے۔

چناں چہ اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خصی ہونے (یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے سے منع فرمایا، ارشاد فرماتے ہیں:

قال العلامة العینی  تحت قولہ:”نھانا عن ذالک“،یعني: عن الاختصاء، وفیہ تحریم الاختصاء، لما فیہ من تغییر خلق اللہ تعالیٰ، و لما فیہ من قطع النسل و تعذیب الحیوان․“(عمدة القاري، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ:﴿یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم﴾،18/280، دار الکتب العلمیة)․

اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا ہے اور اس وجہ سے کہ اس فعل میں نسلِ انسانی کو ختم کرنا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں کسی جان دار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔

اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا حرام اور قتلِ نفس ہے، چاہے ڈاکٹروں کے کہنے کی وجہ سے اسقاط ہو(بایں صورت کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ) یا ان کے کہے بغیر۔

وفيحاشیة ابن العابدین:”لو أرادت إلقاء الماء بعد وصولہ إلیٰ الرحم، قالوا: إن مضت مدة ینفخ فیہ الروح لا یباح لھا․ وقبلہ اختلف المشائخ فیہ، والنفخ مقدر بمائة وعشرین یوماً بالحدیث“․ (کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، 9/537، دار الکتب العربي)

عارضی مانع ِ حمل تدابیراختیار کرنے کا حکم
کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنے کی شرعاً گنجائش ہے،مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کم زور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کے لیے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کم زور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا(اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں،بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ ”شرح الدر المختار“ میں فرماتے ہیں :
ویکرہ أن تسقیٰ لإسقاط حملھا، وجاز لعذر حیث لا یُتَصوَّرُ(الدرالمختار)․

وقال تحت قولہ:”وجاز لعذر“کالمرضعةإذا ظھربھا الحبل، وانقطع لبنھا، ولیس لأبي الصبي ما یستأجر بہ الظئر، ویخاف ھلاک الولد، قالوا: یباح لھا أن تعالج في استنزال الدم، ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق لہ عضو، وقدروا تلک المدة بمائة وعشرین یوماً، جاز، لأنہ لیس بآدمي، وفیہ صیانة الآدمي، خانیة․ قولہ:”حیث لا یتصور“ قید لقولہ: ”وجاز لعذر“، والتصور کما في القنیة أن یظھر لہ شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذالک․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة، فصل في الاستبراء و غیرہ،9/615، دار عالم الکتاب)

مندرجہ بالا بحث سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی نسل کشی کی جتنی بھی صورتیں ہیں، شرعاً ناجائز اور حرام ہیں، سوائے عذر والی چند صورتوں کے، کہ مخصوص شرائط کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے۔

اولاداللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت
من جانب ِاللہ انسان کو جو بھی اولاد حاصل ہو، لڑکا ہو یا لڑکی، وہ اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت اور اللہ کا تحفہ ہے ، اللہ رب العزت قرآن ِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿ یھب لمن یشاء إناثاً و یھب لمن یشاء الذکور﴾․(الشوریٰ: 49,50)

کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ، لڑکیاں ہبہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، لڑکے ہبہ کرتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد چاہے نرینہ (یعنی: لڑکا) ہو یا غیر نرینہ (یعنی: لڑکی)وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہبہ یعنی: تحفہ ہے، تو جب یہ تحفہ ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔

پیدائش اولاد پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اہل خانہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو آپ یہ معلوم نہیں کرتی تھیں کہ لڑکا پیدا ہوا ہے یا لڑکی، بلکہ یہ معلوم کیا کرتی تھیں کہ ٹھیک طریقے سے اور بعافیت پیدا ہو گیا ہے؟ جب آپ کو یہ جواب ملتا کہ جی ہاں ! بخیر و عافیت پیدا گیا ، تو آپ یہ سن کر فرماتی تھیں:”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمَیْنَ“۔اس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الادب المفرد “میں ذکر کیا ہے۔ (جاری)
Flag Counter