Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

14 - 17
اس سے پہلے کہ
محترم جاوید چودھری

محمد اقبال ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے تھے۔ میرا ان سے پہلا رابطہ1997ء میں ہوا۔یہ اپنے6سال کے بیٹے کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے۔ان کا بیٹابہت تمیزدار،بااعتماد اور ذہین تھا۔اقبال صاحب نے اپنے بیٹے کو علامہ اقبال کی نظمیں اور شیکسپئیر کی لائنیں یاد کرارکھی تھیں۔یہ اپنے بیٹے کے سا تھ صبح جاگنگ بھی کرتے تھے اوران کا بیٹا 6سال کی عمرمیں اخباراور میگزینز بھی پڑھتاتھا۔6سال کے ا س بچے کو ٹائم اور نیوز ویک کا فرق بھی معلوم تھا۔ یہ پاکستان کے بڑے کالم نگاروں،شاعروں اور مصنفوں کو شکل اور نام سے بھی جانتا تھا اور اسے ملکی سیاست کے بارے میں بھی بہت معلوم تھا۔ یہ نواز شریف کا دوسرا دور تھا۔اس دورمیں میاں نواز شریف اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان اختلافات چل رہے تھے ۔صدر فاروق لغاری بھی اس جنگ کے فریق تھے ۔ بچے کو اس سیاسی لڑائی کا بھی علم تھا اور یہ مجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا :”صدرفاروق لغار ی ہوں گے یا میاں نواز شریف؟“

اور میں بچے کے اس سوال پر بار بار ہنس پڑتا تھا۔ اقبال صاحب اس کے بعد بھی رابطے میں رہے ۔ان سے سال چھ مہینے میں ایک آدھ ملاقات ہوجاتی تھی ۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔اقبال صاحب میرے پاس آخری بار2010ء کی سردیوں میں آئے ۔ان کا بیٹا اس بار بھی ان کے ساتھ تھا، لیکن یہ وہ بچہ نہیں تھا جس سے میں1997ء میں ملا تھا ۔ یہ بچہ لمبا بھی ہو چکا تھا، جوان بھی، لیکن جسمانی اور ذہنی لحاظ سے بالکل فارغ تھا۔یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔اُنیس سال کی عمر میں اس کے دوتہائی بال سفید ہوچکے تھے۔ اس کے چہرے پر جھریاں پڑ چکی تھیں ۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ کندھے اور کمرجھکی ہوئی تھی اور اس میں اعتماد نام کی چیز نہیں تھی۔یہ متوحش نظروں سے دائیں بائیں دیکھتا تھااور بات کرتے کرتے ڈر کر اوپر کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ یہ مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں بھی نہیں ڈال سکتا تھا اور یہ ناخن بھی چباتا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جس بچے کو 1997ء میں میاں نواز شریف اورجسٹس سجاد علی کی لڑائی کی بنیاد تک معلوم تھی، یہ2010ء میں آصف علی زرداری کو وزیر اعظم اور یوسف رضا گیلانی کو صدر کہہ رہا تھا اور اسے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ پرویز مشرف پاکستان چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ یہ بابراعوان کو بھی نہیں جانتا تھا او راسے امریکی صدر باراک حسین اوباما کے بارے میں بھی زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اس کی گفت گو بھی ربط سے خالی تھیں اور یہ اپنے فقرے بھی درمیان میں چھوڑ دیتا تھا۔ مجھے اقبال صاحب کی صحت بھی ٹھیک نہیں لگی۔ ان کے بال بھی سفید ہوچکے تھے اور یہ بھی بلڈ پریشر ، شوگر اور دل کی ادویات استعمال کر رہے تھے۔

میں اخلاقاً خاموش رہا، لیکن پھر ضبط نہ ہو سکا تو میں نے اقبال صاحب سے بچے کے بارے میں پوچھ لیا۔ اقبال صاحب نے بیٹے کو باہر گاڑی میں بھجوا دیا اور اس کے بعدمجھے وہ حیران کن بات بتائی جس نے آج تک مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ اقبال صاحب نے بتایا کہ ان کا اکلوتا بیٹا ذہین بھی تھا، صحت مند بھی اورا سپورٹس مین بھی۔ یہ ہمیشہ کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا تھا۔ یہ بچے کی رفتار پرخوش تھے لیکن پھر ان سے ایک غلطی ہو گئی۔ انہوں نے بیٹے کو چودہ سال کی عمر میں لیپ ٹاپ لے دیا اور گھر میں ” ان لمیٹڈ“ انٹرنیٹ لگوا دیا۔ اقبال صاحب کا خیال تھا کمپیوٹر او رانٹرنیٹ آج کے دور کا جامعہ ازہر ہے اور آپ آج کے زمانے میں انٹرنیٹ او رکمپیوٹر کے بغیر علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اقبال صاحب کا خیال درست تھا، لیکن عمر ابھی کم تھی ۔بیٹے کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ آیا تو اس کی سرگرمیوں کا رخ بدلنے لگا۔یہ شروع میں کمپیوٹر کو ایک آدھ گھنٹہ دیتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا زیادہ وقت کمپیوٹر پر صرف ہونے لگا۔یہ آنکھ کھولتے ہی کمپیوٹر کا بٹن دبا دیتا اور اس کے بعدپورا دن لیپ ٹاپ سے کھیلتا رہتا۔یہ سکول میں بھی زیادہ وقت کمپیوٹرپررہتا، اسکول سے واپس آکر یہ اپنے کمرے میں بند ہوجاتا اور ساری ساری رات آن لائن رہتا۔صبح اس کی آنکھ نہیں کھلتی تھی۔والدہ اسے بڑی مشکل سے اُٹھا کر سکول بھیجتی تھی۔یہ کھانے پینے میں بھی بے احتیاطی کرنے لگا۔یہ چھپ کر سگریٹ بھی پینے لگا اور اس نے والدین کے ساتھ بد تمیزی بھی شروع کردی۔یہ جاگنگ اور ایکسر سائز سے بھی بھاگ گیا اور اس نے اپنے دوستوں سے بھی منھ موڑلیا۔

غرض یہ ایک دو برسوں میں اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گیا۔اقبال صاحب نے بیٹے کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، لیکن یہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا، اقبال صاحب کو شروع شروع میں بیٹے کے مسئلے کاعلم ہوا تو دیر ہو چکی تھی۔اقبال صاحب کا بیٹا انٹر نیٹ کے ذریعے فحش سائیٹس کا عادی ہو چکا تھا۔یہ پورنوگرافک سائیٹس ہیں،جن پرانتہائی فحش مواد ہوتا ہے۔ پورنوگرافی بھی چرس، ہیروئن اورکوکین کی طرح نشہ ہوتی ہے۔دنیا کا ہر انسان فحاشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ہم سب زندگی میں فحش مواددیکھتے بھی ہیں ،سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں،لیکن ہم میں سے نوے فیصد لوگ بہت جلد اس دنیا سے باہر نکل آتے ہیں،لیکن دس فیصد لوگ اس کے عادی ہوجاتے ہیں، پھر ان میں اور ہیروئن کے عادی لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ یہ لوگ فحاشی کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتے۔فحاشی شروع میں ان کی جسمانی صحت کو برباد کرتی ہے، پھر ان کے اعتماد کو توڑتی ہے،اس کے بعد ان کی ذہانت کو نگل جاتی ہے اور آخر میں ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ ختم کر دیتی ہے۔اقبال صاحب کے بیٹے کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔یہ اپنی صحت بھی برباد کربیٹھا اور پڑھائی سے بھی فارغ ہوگیا، جس کے بعد وہ بچہ جوکلاس میں پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرتا تھاوہ فیل ہونے لگا اور جو پانچ سو میٹرکی دوڑمیں ہمیشہ اوّل آتا تھا وہ واک کے دوران بھی تھکنے لگا۔اقبال صاحب ان دنوں نفسیات دانوں سے اپنے بیٹے کا علاج کرارہے تھے۔یہ اقبال صاحب سے میر ی آخری ملاقات تھی،یہ اور ان کابیٹااس کے بعد کہاں گئے مجھے نہیں معلوم۔

پورنو گرافک سائیٹس اور موبائل کے ذریعے فحش مواد کی ترسیل اس وقت پاکستان کا بہت بڑاسماجی مسئلہ ہے۔ہمارے انٹرنیٹ پر ڈیڑھ لاکھ فحش سائیٹس موجودہیں اور تین سال کے بچے سے لے کر نوے سال کے بوڑھے تک کوئی بھی بڑی آسانی سے یہ سائیٹس وزٹ کر سکتا ہے۔ میں اکثراپنی ای میل کھولتا ہوں تو فحش سائیٹس خود بخودکھل جاتی ہیں اور میں شرمندگی سے دائیں بائیں دیکھنے لگتا ہوں، مجھے روزانہ سینکڑوں ایس ایم ایس بھی آتے ہیں اور ان میں اکثر کا مواد گھٹیا اور اخلاق باختہ ہوتا ہے کہ پورا دن خراب ہو جاتا ہے۔میں نے اپنی عزت بچانے کے لیے آئی پیڈ اور آئی فون پر”پاس ورڈ“لگا رکھے ہیں اور ہمیشہ اپنے بچوں سے چھپا کر موبائل آئی پیڈ کھولتا ہوں کیوں کہ مجھے خطرہ ہوتاہے ،اس کی سکرین پر کسی بھی وقت کچھ بھی آسکتا ہے اور میں بچوں اور عام لوگوں کے سامنے ”بے عزت“ہو سکتاہوں۔

پوری دنیا میں ایس ایم ایس اور ویب سائیٹس فلٹر ہوتی ہیں، آپ یورپ،امریکا اور مشرق بعید کے ممالک میںآ سانی سے پورنوگرافک سائیٹس نہیں دیکھ سکتے۔ یورپ میں حکومت والدین کو کمپیوٹر پر ممنوعہ ویب سائیٹس کو بلاک کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ والدین گھروں میں اور بچوں کے کمپیوٹرزپر ایسی ویب سائیٹس بلاک کرا دیتے ہیں ۔یورپی والدین ویب سائیٹس سروسز دینے والے اداروں کو بھی پابند کر سکتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک میں کمپیوٹر او رموبائل ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ میں نے کل اخبار میں پڑھا کہ حکومت نے ڈیڑھ لاکھ پورنوگرافک ویب سائیٹس اور موبائل پر1695 غیر اخلاقی الفاظ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے یہ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی، یہ ایک انتہائی اچھا، بلکہ شان دارفیصلہ ہے اور میری حکومت سے درخواست ہے، حکومت اس پر فوراً عمل کرے۔ فحش ویب سائیٹس اور فحش ایس ایم ایس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ یہ پابندی اقبال صاحب جیسے کروڑوں والدین پر احسان ہو گا۔ ایک بد لحاظ او ربد اخلاق شخص ہزاروں خود کش حملہ آوروں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ہم نے اگر معاشرے کو فحاشی سے بچا لیا تو یہ آج کے دور کا بہت بڑا جہاد ہوگا او رحکومت کو یہ جہاد فوراً شروع کرنا چاہیے ، اس سے پہلے کہ ہم سب محمد اقبال بن چکے ہوں۔ 
Flag Counter