Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

13 - 17
قابل رشک زیست و مرگ
محترم یرید احمد نعمانی

آہ!داعیٴ قرآن حضرت مولانامحمداسلم شیخوپوری بھی دست قاتل کی نذرہوگئے۔درندہ صفت قاتلوں نے امت مسلمہ کو ایک اورمشفق باپ سے محروم کردیا۔کل تک اس طرح کے افسوس ناک سانحات وحادثات پر جو اپنی موٴثر ودل نشین تحریروں کے ذریعے غم زدہ قلوب کی تسکین کاسامان مہیا کیاکرتے تھے،آج ڈوبتے دل کے ساتھ ان کی جدائی اورفراق کا نوحہ لکھنا پڑرہاہے۔

موت اٹل حقیقت ہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں۔ہرآنے والاجانے کے لیے ہی آیا کرتاہے۔لیکن بعض افراداپنی زیست ومرگ کے حوالے سے قابل صد رشک دکھائی دیتے ہیں۔حضرت مولانا اسلم شیخوپوری نوراللہ مرقدہ بھی انہی شخصیات میں سے ایک تھے۔آپ کی زندگی اورموت دونوں ہی قابل افتخاراورباعث رشک ہیں۔انہوں نے زندگی بھر کتاب اللہ سے اپنے آپ کو ایسے جوڑے رکھا کہ قرآن کریم ہی آپ کی پہچان وتعارف بن گیا۔دیکھنے والوں نے دیکھا اورسننے والوں نے سناکہ آپ کی کوئی محفل کلام الٰہی کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی تھی۔جہاں جاتے بس ایک ہی دھن، ایک ہی لگن اورایک ہی فکر سواررہتی کہ کسی طرح امت اپنی متاع گم گشتہ کی طرف پلٹ آئے۔اہل ایمان کا تعلق اللہ کی آخری اورابدی کتاب سے جڑ جائے۔مسلمان اپنی زندگی میں اسوہ حسنہ پر عمل پیراہوجائیں۔

اسی سوزدروں کو لے کر گذشتہ دس سالوں سے ”درس قرآن“کے عنوان کے تحت ،ابتداً بلاک این نارتھ ناظم آباداورپھر جامع مسجد توابین گلشن معمار میں ہفتہ واری نشست کاسلسلہ شروع کیا ۔جس میں مسلمانوں کی موجودہ پستی،عملی بے حسی اوراس کے تدارک پر سیر حاصل گفتگوکی جاتی۔اہل ایمان کو قرآن کریم سے اپنارشتہ مضبوط کرنے کی تلقین کی جاتی۔آپ کے دروس کی محافل میں جہاں ایک عام آدمی شریک ہوکر استفادہ کرتا،وہاں صاحب ثروت اوردنیا دار طبقے کی موجودگی بھی آپ کی ہردل عزیزی پردلالت کرتی۔علاوہ ازیں ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہزاروں مدارس وجامعات کی سالانہ تقریبات اورعمومی محافل میں بھی تشریف لے جاکر ، عوام الناس کی ذہنی وفکری تربیت کا کام سرانجام دیتے۔ان روحانی مجالس کے ذریعے جہاں آپ نے معاشرے میں پائے جانے والے فکری ارتداد کا راستہ روکا ،وہاں عامة الناس کو صحیح معنوں میں قرآنی تعلیمات اورہدایات سے آگاہی دی۔

مولاناشیخوپوری رحمہ اللہ کو اظہارمافی الضمیرکے حوالے سے بلا کی سلاست اورروانی ودیعت کی گئی تھی۔ قرآن کریم کی تبلیغ ودعوت کے میدان میں اللہ رب العالمین نے آپ کو گوناگوں خوبیوں اورکمالات سے نوازاتھا۔ تحریرہویاتقریر ،انداز بیان ہویا طرزنگارش، سہل نگاری اورنکتہ رسی آپ کاخاصہ سمجھی جاتی تھی۔اگرچہ معروف معنوں میں آپ شعلہ جوالا خطیب نہیں تھے،مگر باتوں کی گہرائی اورگیرائی سے سامعین وحاضرین کے دل موہ لیاکرتے تھے۔آپ کی گفتگومیں اعتدال کی وہ صفت نمایاں تھی ،جس کا حکم قرآن کریم نے جابجادیاہے۔جسمانی معذوری کبھی آپ کے لیے رکاوٹ نہ بنی۔بعض اہل تعلق نے بتایا کہ باوجود پیروں سے معذورہونے کے آپ نے کبھی بھی دوسروں کی دست نگری قبول نہیں کی۔حصول معاش کے لیے ازخود کوشش کرتے رہے۔

آپ کی یہ خواہش اورآرزو تھی کہ علما ئے کرام حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی اس فکر کو مشعل راہ بنالیں،جس کااظہار حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے مالٹاکی جیل سے واپسی کے بعد کیاتھا۔حضرت شیخ الہند ارشادفرمایاکرتے تھے: ”جہاں تک میں نے جیل کی تنہائیوں میں بیٹھ کر امت کی پستی اورتنزلی کے اسباب پر غوروفکر کیاہے ،تومجھے اس کی دووجہ معلوم ہوئیں۔اول، مسلمانوں کی قرآن کریم سے دوری ۔دوم ،باہمی افتراق ۔“یہی وجہ تھی کہ گذشتہ کچھ عرصے سے آپ رحمہ اللہ نے علما،طلبا اورائمہ مساجد کودرس قرآن کی عملی تربیت دینے کاسلسلہ شروع کررکھاتھا۔اس حوالے سے کراچی اوربیرون کراچی آپ کے کئی پروگرام منعقد ہوچکے تھے۔جس میں آپ پوری دل سوزی،فکرمندی اورقلب مضطر کے ساتھ اہل علم کو درس کی تیاری،طریقہ کار اوراسلوب بیان کے مراحل سے آگاہ فرماتے۔

شہادت سے بیس دن قبل اپنے ایک بیان میں آپ رحمہ اللہ نے اپنی دینی تڑپ،جستجواورقرآنی مشن کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”دور نبوت کے لوگوں اورآخری دورکے لوگوں کی اصلاح کاطریقہ ایک ہی ہے۔قرآن کریم کی تعلیمات اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی واطاعت ہی میں نجات ہے۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی چلتی پھرتی تفسیر تھے۔ قرآن فہمی کے لیے واسطہٴ رسول ضروری ہے۔اس کے بغیر لوگ گم راہی کا شکار ہوجائیں گے۔آج قرآن کریم کو دستوزندگی بنانے کی بجائے صرف حصول برکت اورایصال ثواب تک محدود کردیاگیاہے۔

علما کی غفلت کے باعث بہت سے ماڈرن مادرپدرآزاد لوگوں نے درس قرآن شروع کررکھے ہیں۔ جوعلمی بنیاد مضبوط نہ ہونے،زہدوتقویٰ والی صفات سے خالی ہونے کی وجہ سے من مانی تفسیر سے خود بھی گمراہ ہورہے ہیں اورلوگوں کو بھی گم راہ کررہے ہیں۔یہ لوگ چوں کہ نوجوانوں کی نفسیات سے آگاہ اورعصری علوم پر عبوررکھتے ہیں،اس لیے نوجوان بہت جلد ان سے متاثر ہوکرگم راہ ہو رہے ہیں۔پختہ اورمستندعلما درس قرآن کے حلقے قائم کرکے اس کی اصلاح کرسکتے ہیں۔اوراس طرح عوام سے ان کا ٹوٹا ہوا تعلق بھی جڑسکتاہے۔“

آپ کے اساتذہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر،محدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری ،مولانایوسف لدھیانوی شہید،مولانامفتی احمدالرحمن ،مفتی ولی حسن ٹونکی اورمولانامحمدامین اورکزئی شہید رحمھم اللہ جیسے اساطین علم وعمل شامل ہیں۔بلاشبہ آپ جس قافلے کے فرد فریدا ورحدی خواں تھے،اس نے کبھی حالات کے جبروستم کاشکوہ نہیں کیا۔اس قافلہ حق میں شامل صاحبان عزیمت نے کسی موقع پر کلمہ حق بلندکرنے سے چوک نہیں کی۔احقاق حق اورابطال باطل اس طبقے کانمایاں اورامتیازی وصف رہاہے۔طاغوت کے پیروکار ازل سے حق والوں کاراستہ روکنے میں مصروف عمل ہیں۔اندھیروں میں رہنے والے بھلا روشنی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔جہالت وضلالت کے علم بردار علم وعرفان کی شمع کو کب فروزاں وتاباں ہوتادیکھ سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران کئی نامورعلما ئے حق کاخون ناحق کراچی کی سڑکوں پربہادیاگیا۔

خاکم بدھن ظالم ،سفاک اوراسلام دشمن عناصر کی نظریں اس وقت ہر اس عالم ربانی پر ٹکی ہوئی ہیں،جن کے وجود مسعودسے امت مسلمہ کو راہ نمائی مل رہی ہے۔جو عوام وخواص میں یکساں محبوبیت ومقبولیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔جن کے فیض سے ایک عالم فیض یاب ہورہاہے۔باطل کے ہرکارے چن چن کر اپنے ہد ف کونشانہ بنارہے ہیں۔امت کو کتنی بڑی خیر اورسعادت سے محروم کیا جارہاہے ،اس کا احساس ہی دل کوبے کل وبے چین کیے دیتاہے۔بہرحال حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار،مفتی عبدالسمیع، حضرت لدھیانوی ،مفتی نظام الدین شامزئی کی مظلومانہ شہادت ہویا مفتی عتیق الرحمن ،مولانامفتی سعید احمدجلال پوری ،مولاناشیخوپوری رحمھم اللہ کاظالمانہ قتل۔ان بلندمرتبت شہیدوں کا لہوپکارپکارکرگواہی دے رہاہے #
        اے دل! تمام نفع ہے سودائے عشق میں
        اک جان کا زیاں سو ایسا زیاں نہیں
Flag Counter