Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 17
قرآن کی خدمت عظیم ہے
مفتی محمد تقی عثمانی

اگر چہ قرآنِ کریم کا اصل مقصود اس کے معنی کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے،لیکن اس کی پہلی سیڑھی،اس کی طرف چلنے کا پہلا درجہ قرآنِ کریم کی صحیح تلاوت ہے،حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مقاصدِبعثت قرآنِ کریم نے بیان فرمائے اور ایک جگہ نہیں، قرآنِ کریم کے چار مقامات پر سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصدِبعثت کو بیان فرمایا گیا،ان مقاصدِبعثت میں سب سے پہلا مقصد ﴿یَتْلُواْ عَلَیْھِمْ آیٰتِہ﴾ہے، ﴿یُعَلّمُِھُمُ الْکِتٰبَ﴾ بعد میں ہے اور مستقل مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے، لیکن اس سے پہلے﴿یتلوا علیھم آیتہ﴾یہ ایک مستقل مقصدِبعثت قرار دے کر بیان فرمایا گیا ہے،جس میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ پیغامِ ہدایت معنی سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لیے تو ہے ہی،لیکن اس کی تلاوت خواہ سمجھ کر ہو یا بے سمجھے ہو،یہ تلاوت بذاتِ خود مقصود ہے اوراس تلاوت کے بھی کچھ آداب ہیں،اس کا بھی خاص طریقہ مقرر ہے،اس طریقے کے مطابق تلاوت کی جائے گی،تو اس کے ہر حرف پر دس نیکیاں انسان کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں،بشرطیکہ تلاوت کا حق ادا کیا گیا ہو﴿یتلونہ حق تلاوتہ﴾اور جو آیات ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں ان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاص طور پر اس پہلو کو بڑی ہی تاکیدکے ساتھ اجاگر فرمایا۔علمائے کرام کا مجمع ہے،تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں،محض اشارے کے طور پر اس آیت کا شانِ نزول، جو حضراتِ مفسرین نے بیان فرمایا ہے، عرض کرتا ہوں کہ ابتدا میں جب حضرت جبرئیل علیہ الصلاة والسلام قرآنِ کریم لے کر آتے تھے اور سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے تو آپ کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ کوئی لفظ بھول نہ جائیں،اس لیے ادھر حضرت جبرئیل امین علیہ الصلاة والسلام قرآنِ کریم سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا رہے ہیں،اس کے ساتھ ہی ساتھ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دہراتے جاتے تھے، تاکہ کوئی لفظ،کوئی حرف رہ نہ جائے،ابھی ایک طرف تو نزول وحی کا بوجھ،کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جاڑے کے دنوں میں بھی آپ کی پیشانی مبارک پسینے سے تر ہو جایا کرتی تھی،ایسا بوجھ کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کا سرِمبارک میرے زانو پر تھا اور اس حالت میں وحی نازل ہوئی،تو مجھے ایسالگا کہ جیسے میری ران پھٹ جائے گی،ایسا بوجھ کہ اگر آپ کسی جانور پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے وہ جانور بیٹھنے لگتا تھا،ایک طرف تو وحی کا ایسا بوجھ اور دوسری طرف سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر کہ کہیں کوئی لفظ رہ نہ جائے۔اس لیے ساتھ ساتھ آپ تلاوت کرتے جاتے تھے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں، عین نزولِ وحی کے وقت میں،جب کہ آپ تلاوت کو دہرارہے ہیں،اس وقت آپ کے اوپر یہ آیات نازل فرمائیں کہ﴿لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ﴾اس قرآن کے ذریعے تم اپنی زبان کو ہلاؤ نہیں،حرکت دینے کی ضرورت نہیں،﴿لتعجل بہ﴾تاکہ جلدی جلدی اس کو یاد کرلو۔کیوں کہ ہمیں تمہاری مشقت گوارانہیں۔قرآن کو یاد کرانا ہم نے اپنے ذمہ لیا ہواہے،﴿ان علینا جمعہ وقرآنہ﴾ہماری ذمہ داری ہے کہ اس قرآن کو تمہارے سینے کے اندر محفوظ کرلیں،﴿ان علینا جمعہ وقرآنہ﴾اور وہ نہ صرف محفوظ کردیں، بلکہ اس کے پڑھنے کا طریقہ بھی آپ کے دل میں پیوست کردیں،پھر اس پر اکتفا نہیں فرمایا﴿فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾اور جب ہم پڑھ دیں اور ہمارے پڑھنے کا کیا مطلب ؟کہ ہمارا نمائندہ ہمارا بھیجا ہوا فرشتہ حضرت جبرئیل امین علیہ الصلاةوالسلام جب پڑھ دیں اور جبرئیل امیں کی قرأت کو اپنی جانب منسوب فرما کر یہ بھی فرما دیا کہ یہ جو کچھ جس انداز سے پڑھ ہے ہیں،وہ ہماری ہدایت کے مطابق پڑھ رہے ہیں،ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھ رہے ہیں،گویا کہ ہم پڑھ رہے ہیں۔﴿فاذا قرأناہ ﴾جب ہم تلاوت کردیں،﴿فاتبع قرآنہ﴾تو بس اسی طریقہ تلاوت کی تم بھی اتباع کرنا۔ ﴿فاتبع قرآنہ﴾،﴿ثم ان علینا بیانہ﴾پھر اتنا ہی نہیں، بلکہ اس کی تشریح،اس کی توضیح،اس کا مطلب سمجھانا،یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، تمہیں اس کا بھی بوجھ اٹھانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے معنی محفوظ رکھنے کے لیے اپنے اوپر مشقت کرو،تو اب دیکھیے،﴿ثم ان علینا بیانہ﴾یہ بعد میں ہے، لیکن جہاں تک تلاوت کا تعلق ہے تو دو آیتیں اس کے لیے فرمائیں، یعنی، ﴿ان علینا جمعہ وقرآنہ﴾، ﴿فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾ تو بتلایا کہ جو بیان ہے، جو تشریح ہے، جو تفسیر ہے،وہ ایک مستقل مقصد ہے اور اس سے پہلے اس کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ جس طرح پڑھایا جارہاہے،اسی طرح تم پڑھو﴿فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾لہٰذا صرف اتنی بات کافی نہیں کہ تم جب قرآن پڑھو ،تو اپنے اردو طریقے سے پڑھ لو،پنجابی طریقے سے پڑھ لو،پشتو طریقے سے پڑھ لو،نہیں،نہیں،﴿فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾جب ہم پڑھ رہے ہیں،یعنی ہمارا فرشتہ ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھ رہاہے تو تم پر لازم ہے کہ جب تم قرآن پڑھو تو اسی طرح پڑھو۔ ﴿فاتبع قرآنہ﴾ان دو آیتوں کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کو صحیح پڑھنے کی تاکید فرمائی،اس کو ایک مستقل مقصد قرار دیا۔اُن لوگوں کے طریقے سے نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں اوریہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ قرآن کریم تو ایک نسخہ ہدایت ہے اور نسخہ ہدایت اس وقت کار آمد ہوتا ہے جب آدمی اس کو سمجھ کر اس کے اوپر عمل کرے۔بعض مرتبہ مثالیں دی جاتی ہیں،آج کل ایک بہت بڑا طبقہ یہ مثالیں دیتا ہے کہ اگرکسی طبیب نے کوئی نسخہ لکھ کر آپ کو دیا ہے،تو اس کا فائدہ اس وقت ہوگا جب آپ وہ دوائیں لے کرجو نسخہ میں لکھی ہوئی ہیں،وہ استعمال کریں،لیکن اگر کوئی شخص نسخے کو صرف پڑھتا رہے تو پڑھنے سے کیا فائدہ.........؟فائدہ تو جب ہے جب اس نسخے کو استعمال کرے، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ کے اندر بتادیا کہ یہ اہم نسخہ تمہارے پاس بھیج رہے ہیں کہ اس پر عمل تو کرنا ہی ہے اور وہ توہے ہی فائدہ مند، لیکن اگر تنہا بھی اس کو پڑھو گے تو پڑھنا بھی تمہارے لیے دنیا و آخرت کی کا م یابی ہے۔﴿فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾،﴿یتلوا علیھم آیتہ﴾چناں چہ امتِ محمدیہ علی صا حبہا الصلاة والسلام کی اس محبت کو دیکھیے!کہ چوں کہ یہ حکم آگیا تھا کہ تلاوت بذاتِ خود مقصود ہے اور یہ حکم آگیا تھا،﴿یتلوا علیھم آیتہ﴾ تو انہوں نے اس قرآن ِکریم کی تلاوت کو اسی طرح محفوظ کرنے کے لیے،جیسے وہ نازل ہوئی تھی اور جیسے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوپر عمل فرمایا تھا،اس کے لیے ایک ایسا علم ایجاد کردیا جس کی نظیر پوری کائنات میں نہیں ہے اور وہ ہے”علم تجوید“اور”علم قرأت“آپ ساری امتوں کی تاریخ اور ساری اقوام کے علوم کی تاریخ پڑھ جائیے!کہیں آپ کو علمِ تجویدکے مماثل کوئی اور علم نظر نہیں آئے گا،اس کو ایسا علم وفن بنایا،اس امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام نے کہ بتادیا کہ کون سا حرف کس طرح اداکیا جائے گا،اس کا مخرج کیا ہو گا،اس کی صفات کیا ہوں گی،صفاتِ لازمہ کونسی ہیں؟اس کو غلط طریقے سے پڑھنے کے کیا انداز ہو سکتے ہیں؟کون سا غلط طریقہ لحن جلی میں داخل ہے،کون سا طریقہ لحنِ خفی میں داخل ہے،ایک ایک چیز مدوّن کرکے بتادی کہ کون سا حرف زبان کے اور تالو کے منہ کے کون سے حصے سے کس طرح نکلے گا،دیکھو!ساری دنیا میں مختلف زبانیں ہیں،ہر زبان کے کچھ حروف تہجی ہیں اور حروف تہجی کو ادا کرنے کے طریقے ہیں،لیکن کسی زبان میں آپ کو یہ علم نہیں ملے گا کہ فلاں حرف کس طرح ادا کیا جائے؟ اب دیکھو!اس وقت دنیا میں جس زبان کا سکّہ چل رہا ہے،ساری دنیا کے اندر،جس کو انٹرنیشنل زبان کہا جاتا ہے انگریزی زبان۔ اور ہے بھی واقعتاًبڑی وسیع زبان،انگریزی زبان کی وسعت اب کچھ کچھ عربی زبان کی وسعت کے قریب پہنچ رہی ہے اگرچہ ابھی تک وہاں تک نہیں پہنچی،لیکن قریب پہنچ رہی ہے،اتنی وسیع زبان،لیکن امریکی لوگ اس کو اور طرح پڑھتے ہیں،بولتے ہیں اور برطانیہ کے لوگوں کا طریقہ تلفظ اور ہے، اور حضرت مفتی صاحب(حضرت مولانا مفتی ضیاء الحق صاحب، مفتی وشیخ الحدیث دار العلوم زکریا،جنوبی افریقہ) تشریف فرماہیں، جنوبی افریقہ میں وہاں کے لوگ اس کا تلفظ کسی اور طرح کرتے ہیں،کوئی قاعدہ اگر پوچھو کہ بھئی!یہ سی(C)بھی کاف کی آواز دیتی ہے اور کے(K)بھی کاف کی آواز دیتا ہے،تو آیا ان دونوں کے مخرج میں کوئی فرق ہے؟کوئی ایسا قاعدہ،کوئی ایسی کتاب،کوئی ایسا علم،جس میں یہ بتایا گیا کہ بی(B)کا مخرج کیا ہے اور سی(C)کا مخرج کیا ہے اور ڈی(D)کا مخرج کیا ہے اور کے (K)کا مخرج کیا ہے اور ایل(L)کا مخرج کیا ہے؟کوئی ایسی کتاب اور کوئی ایسا قاعدہ موجود نہیں،زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ امریکن لہجہ ہے،یہ برٹش لہجہ ہے ،لہجوں کافرق ہے،لیکن حروف کے نکالنے کا طریقہ،مخرج،صفات،اس کا کوئی وجود نہیں،یہ تنہا قرآنِ کریم کا معجزہ ہے کہ اس امت ِمحمدیہ علی صاحبہا الصلاةوالسلام نے اتنی باریک بینی کے ساتھ،ایک ایک حرف کے مخارج کو،اس کی صفات کو، اس کی غلطیوں کومدوّن کردیا،کتابوں میں مدوّن کرنے کے ساتھ ساتھ،سینہ بہ سینہ ان کو نبی اکرم سرورِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک پڑھنے کا طریقہ﴿فاتبع قرآنہ﴾کی عملی تفسیر کر کے دکھا دی،یہ جو سند ابھی آپ پڑھ رہے تھے،کہ یہ قرآن ہے، حالاں کہ قرآن کریم تواتر کے ذریعہ پہنچاہے،اس کو کسی سند کی ضرورت نہیں۔الحمدللہ،﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون﴾اللہ تبارک و تعالیٰ نے نازل فرمایا،اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے اور حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے لے لیا،ساری کائنات مل کر، اگر خدانہ کرے قرآنِ کریم کے اندرکوئی تحریف کرنا چاہے،تو ان کی قدرت سے باہرہے،ساری دنیا میں قرآنِ کریم کے نسخے معاذ اللہ ثم معاذاللہ کسی طرح ختم کردیے جائیں،قرآنِ کریم ختم نہیں ہو سکتا،ایک دس سال کا بچہ بھی کھڑے ہو کر پورا قرآن لکھوا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے،لہٰذا سند کی ضرورت نہیں تھی،جب تواترہو جاتا ہے،توتواتر کو سند کی ضرورت نہیں ہوتی،لیکن اس امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام نے چوں کہ صرف قرآن ہی کومحفوظ کرنا نہیں تھا،قرآن کے پڑھنے کے طریقہ کو بھی محفوظ رکھنا تھا،اس لیے اس کی سند کا اہتمام بھی فرمایا۔اور آج تک الحمدللہ وہ سندِمتصل اس طرح چلی آتی ہے کہ ابھی آپ نے پڑھا کہ ہم سے لے کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کس کس طرح پڑھا گیا ہے،وہ سب کچھ الحمدللہ محفوظ ہے ،یہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کتاب کی خصوصیت رکھی ہے،وہ دنیا کی کوئی کتاب،پچھلے پیغمبروں کی کتابیں اور صحیفے، کوئی اس طرح محفوظ نہیں رہ سکے،پڑھنے کے طریقے تو در کنار،الفاظ تک محفوظ نہ رہ سکے،کوئی سند محفوظ نہیں رہ سکی،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے محفوظ رہنے کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تھا،ضمانت نہیں لی تھی،اور اس لیے نہیں لی تھی کہ اس کے بعد ”خاتم الکتب“آنے والی تھی اس کے بعد ”خاتم الرّسل“ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے والے تھے،وہ کتاب تھی جو قیامت تک باقی رہنے والی تھی،اللہ تعالیٰ نے ا س کی حفاظت کا ذمہ لیا ،لیکن اس امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام نے اس کے الفاظ کو ہی نہیں،اس کے پڑھنے کے طریقے کو بھی اِسی طرح محفوظ رکھا،یہ میں اس لیے عرض کرہاہوں کہ اگر ہم اپنے گریبان میں نگاہ ڈال کر دیکھیں توبسا اوقات یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آجائے گی کہ ہم دورئہ حدیث بھی کرگئے ،تخصص فی الحدیث بھی کرلیا،تخصص فی الفقہ بھی کر لیااور خدا جانے کیا کیا تخصّصات کرلیے،لیکن جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو تلاوت اس طرح نہیں ہوتی،جس طرح قرآن کریم نے فرمایا:﴿فَاتَّبِعْ قُرْآنَہ﴾لہٰذا جتنی اہمیت ہم دوسرے علوم کو دے رہے ہیں تو قرآن کریم کی تعلیم کو،اس کی تلاوت کو،اس کی تجوید کو کم سے کم اتنی اہمیت تو دیں،ہونا تو اس سے زیادہ چاہیے،لیکن یہ چیز اب ختم ہوتی جارہی ہے اور اس کااہتمام اچھے خاصے فارغ التحصیل علماء کے اندر بھی کم نظر آتا ہے،اس لیے الحمدللہ یہاں اس مدرسے میں چوں کہ اس کا اہتمام نظر آیا تو اس واسطے مجھے بڑی دلی مسرت ہے اور یہ ہمارے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے،کہ ہم اپنے درجاتِ حفظ کو اور درجاتِ تعلیم القرآن کو اہمیت دیں اور مجھے اس موقعے پر اپنے بزرگ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب  ،جو حضرت تھانوی کے آخری خلیفہ تھے، ہندوستان میں ابھی کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا، کی بات یاد آتی ہے اور وہ ہم سب کے لیے بڑا اہم سبق ہے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اکثر وبیشتر یہ دیکھتا ہوں کہ مدارس کے اندر جو درجات کتب ہیں اس کی درسگاہیں تو بڑی عالی شان ہیں اور ان کے اندر انتظامات بھی بڑے اعلیٰ درجے کے ہیں، لیکن اگر ان کا درجہ ناظرہ اور حفظ جاکر دیکھو جہاں بچوں کو ناظرے اور حفظ کی تعلیم دی جا رہی ہے تو وہ بالکل پھٹیچر حالت میں ہوتا ہے،ایک طرف تو وہاں کی حالت ظاہری اعتبار سے بھی خراب نظر آتی ہے اور اساتذہ کے انتخاب میں بھی کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی،درجہ حفظ وناظرہ میں تو تنخواہیں بھی درجاتِ عربی کے اساتذہ کی تنخواہوں سے بہت کم ہوتی ہیں۔فرماتے ہیں کہ بھئی اگر تمہارا ایمان ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد پر کہ ﴿خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ﴾ ایمان ہے اس پریانہیں؟اگر ہے تو جو قرآن کی تعلیم دے رہاہو،قرأت کی تعلیم دے رہا ہو،تجوید کی تعلیم دے رہا ہو، اس کو مانو کہ وہ تم میں سب سے اچھا ہے،﴿خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ﴾ اس کو مانو کہ تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو قرآن کی تعلیم دے رہا ہو،قرآن کی تعلیم میں ساری باتیں داخل ہیں، قرآن کے الفاظ کی تعلیم، قرآن کی تلاوت کی تعلیم، قرآن کے حفظ کی تعلیم، قرآن کے معنی کی تعلیم تفسیر کی تعلیم،جو کچھ ہو وہ سب،”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ“میں داخل ہے تو کیا وجہ ہے کہ معاشرے میں تم نے قرآنِ کریم پڑھانے والوں کو اتنا نچلا درجہ دے رکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی یہ بتاتا ہے کہ بھئی! میں مکتب میں بچوں کو قرآنِ کریم پڑھاتا ہوں،تو یہ کہتے ہوئے بعض اوقات شرماتا ہے،اگر یہ کہے میں بخاری پڑھاتا ہوں،اگر یہ کہے میں دورئہ حدیث کا استاد ہوں تو فخر کے ساتھ کہتا ہے،لیکن قرآن کریم کا ناظرہ پڑھانے والا،حفظ پڑھانے والا احساس کمتری کا شکار ہو تا ہے،آخر کیوں؟لہٰذا وہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے مدارس کے اندر قرآن کریم پڑھانے والوں کو، چاہے وہ مکتب میں ناظرہ و حفظ پڑھا رہے ہوں تو ان کو اعلیٰ مقام دو،ان کو ایک امتیازی مقام دو،ان کی تنخواہوں کے لحاظ سے بھی،ان کے معاشرتی رتبے کے اعتبار سے بھی،ان کو اعلیٰ مقام دو تاکہ اس کی طرف لوگوں کو توجہ ہو کہ یہ بھی بہت اہم کام ہے اور اس کی تعلیم دینے والے بھی بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔

ہمارے بہت سے ساتھی جو دورئہ حدیث سے فارغ ہوئے ہیں، ان کو بسا اوقات کتابیں پڑھانے کا موقع نہیں ملتا،تو وہ اس بات سے شرماتے ہیں کہ وہ کہیں مکتب قائم کر لیں گے،تو لوگ کہیں گے کہ آٹھ سال تو تم نے درسِ نظامی پڑھا ہے اور اس کے بعد مکتب میں بیٹھے بچوں کو پڑھارہے ہو؟تو خوب سمجھ لیں! کہ اگر کسی کو یہ موقع مل گیا ہے ، کتابیں پڑھانے کا موقع نہیں ملا تو یقین رکھو کہ تم ﴿خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ﴾ کے مصداق ہو۔ اگر نیت تمہاری قرآن کریم کی خدمت ہے ، اپنے آپ کو ان دوسرے لوگوں سے کمتر نہ سمجھو! کیوں کہ تم قرآن کے خادم ہو، قرآنِ کریم کے الفاظ کی خدمت کر رہے ہو، کسی بچے کے دل میں تم نے قرآن ڈال دیا، تمہارے لیے ساری زندگی دنیا وآخرت کا صدقہٴ جاریہ بن گیا، نیت درست ہونی چاہیے اور الله تبارک وتعالیٰ ہماری نیتیں درست رکھے ، طریقہ درست رکھے ، تو الحمدلله جو کچھ بھی ہم پڑھائیں وہ ہمارے لیے ان شاء الله ذخیرہٴ آخرت ہے۔ میں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس الله سرہ سے سنا کہ بچپن سے ا ن کا معمول یہ تھا کہ بچپن میں لوگ عصر کے بعد جب چھٹی ہوتی ، عصر اور مغرب کے درمیان تو وہ کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں ، حضرت والد صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میرا بچپن میں معمول یہ تھا کہ عصر کی چھٹی میں حضرت شیخ الہند رحمہ الله کی صحبت میں حاضر ہوجایا کرتا تھا، ان کی صحبت میں قیمتی باتیں سنتا تھا،بس یہی میری تفریح تھی ، لہٰذا جو بھی خدمت مل جائے ، اس کوذلیل نہ سمجھو، بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے اعزاز ہے جو تمہیں عطا کیا گیا ہے۔

میرے ایک ساتھی تھے ، دورہٴ حدیث سے فارغ ہو کر ایک دوسرے ملک میں گئے ،تو وہاں ان کو کوئی اور موقع نہیں ملا، نہ وہاں کوئی مدرسہ، نہ کوئی پڑھنے والا طالب علم، تو ان کو ایک مسجد میں مکتب کی خدمت سپرد ہو گئی، میرا ایک دفعہ وہاں جانا ہوا، تو ان کے منھ سے یہ بات نکلی کہ حضرت ! مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہے کہ میں نے اتنے سال تک درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ، لیکن اب یہاں بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوا ہوں ، وقت ضائع ہو رہا ہے ، یہ بات ان کے منھ سے نکل گئی ، میں نے کہا: بھئی! الله تعالیٰ سے توبہ کرو ! یہ وقت جو تم بچوں کی خدمت میں لگار ہے ہو یہ معمولی خدمت نہیں ہے، ارے! تم نے یہ پڑھا کیوں تھا؟ اس لیے تاکہ تم ” شیخ الحدیث“ کہلاؤ؟ اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ تمہارے ہاتھ چومیں؟ اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ تمہیں بڑا عالم سمجھیں؟ اگر اس لیے پڑھا تھا تو یہ پڑھنا بے کار ہے او راگر اس لیے پڑھا تھا کہ میرا الله مجھ سے راضی ہو جائے ،اگر اس لیے پڑھا تھا کہ میں اپنے دین کی خدمت ( جو بھی ہو ،جس وقت بھی ہو ، جس جگہ بھی بن پڑے) انجام دوں، یہاں کوئی اور خدمت میسر نہیں تو یہ بڑی عظیم خدمت ہے ،جو تم انجام دے رہے ہو، جو بچے تمہارے پاس پڑھنے کے لیے آرہے ہیں ان کو جب قرآن پڑھاؤ گے اور قرآن پڑھانے کے ساتھ قرآن کے آداب واحکام کے مطابق ان کی تربیت کرو گے، ان میں سے ایک ایک بچہ تمہارے لیے صدقہٴ جاریہ ہو گا۔ اور جب یہ بچہ آگے جا کر یہی آداب، یہی اخلاق، یہی علم دوسروں کو پہنچائے گا تو وہ تمہار لیے صدقہٴ جاریہ ہو گا، قیامت تک اس کا ثواب تم تک پہنچے گا اور تم کہتے ہو کہ وقت ضائع ہو رہا ہے ، یہ وقت ضائع نہیں ہو رہا ہے، بلکہ بہت بڑے کام میں لگ رہا ہے ، تو اس لیے بھئی !اس کی قدر پہچاننے کی ضرورت ہے اور یہ جو ہمارا مزاج بنتا جارہاہے ہے کہ قرآنِ کریم کے حفظ، ناظرہ اور تجوید کی طرف سے بے توجہی ہم لوگ برتتے ہیں یہ بہت بڑا جرم ہے ، الله تعالیٰ کے کلام کی جو خدمت ہے ، جس انداز سے ، جس وقت ، جس جگہ، الله تبارک وتعالی لے لے، الفاظ کی ہو ، معانی کی ہو ، اس کی دعوت کی ہو ، اس کی تبلیغ کی ہو ، وہ الله تبارک وتعالیٰ کا انعام ہے تو اس لیے جو مدارس خاص طور پر اس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ بہت عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں، الله تبارک وتعالی اپنے فضل وکرم سے ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں قرآنِ کریم کی عظمت، اس کی محبت اور اس کی صحیح خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین !
Flag Counter