Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 17
یہ مٹ نہیں سکتا کسی کے مٹانے سے
مولانا سید احمد ومیض ندوی، انڈیا

اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے یہود ونصاریٰ کس قسم کی نفسیات رکھتے ہیں اس کی صحیح ترجمانی قرآن مجید میں کی گئی ہے، ایک سے زائد مقامات پراللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے یہود ونصاریٰ کی نفسیات کا ذکر فرمایا، ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾․(البقرة:120)

آپ سے یہود ونصاریٰ اس وقت تک خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں۔

قرآن نے انتہائی بلیغ انداز میں واضح کردیا کہ یہود ونصاریٰ کومسلمانوں کے گوشت پوست سے کوئی سروکار نہیں؛ انھیں دینِ اسلام سے اور ان کی فکرِ اسلامی سے دشمنی ہے؛ اگرمسلمان اس سے دست برداری کا اعلان کردیں توپھر وہ انھیں سرآنکھوں پربٹھانے کے لیے تیار ہیں، ایک اور مقام پریہود اور ان کے ہم نواوٴں کومسلمانوں کے سخت ترین دشمن قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ﴾ (المائدة:82)
ترجمہ: تم لوگوں میں ایمان والوں کے سخت ترین دشمن یہود اور مشرکین کوپاوٴ گے۔

یہود ونصاریٰ کی یہ نفسیات اس پروردگار نے ذکر کی ہے جوساری قوموں کا پیدا کرنے والا اور سب کی نفسیات جاننے والا ہے، قرآنی بیان کی صداقت کے لیے اسلام کی 14سو سالہ تاریخ پیش کی جاسکتی ہے، یہ دشمنی آغازِ اسلام سے اب تک جاری ہے، امریکا دراصل یہود ونصاریٰ کا نمائندہ ملک ہے؛ گوکہ خود یہود ونصاریٰ اپنے مذہبی عقائد کی رُو سے ایک دوسرے سے شدید خلش رکھتے ہیں؛ لیکن اسلام دشمنی کی خاطر انہوں نے اپنے اختلافات کوبالائے طاق رکھ دیا ہے، صہیونی دماغ اور صلیبی دولت کے اشتراک نے اسلام دشمنی کے نت نئے محاذ کھول دیے ہیں، امریکی حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے ایسے بیسیوں ادارے ہیں جن کا کام اسلام مخالف سازشوں کا جال بننا، اسلام اور مسلمانوں کونقصان پہنچانے کے لیے نت نئے منصوبے تیار کرنا ہوتا ہے، ہم مسلمانوں میں ایک سادہ لوح طبقہ ایسا ہے جواب بھی یہ باور کرتا ہے کہ امریکا کی اسلام دشمنی محض پروپیگنڈہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؛ گذشتہ دنوں (انڈیاکے) ایک قومی روزنامہ میں ایک مسلم دانش ور نے اپنے مضمون میں سارا زور اس پرصرف کیا کہ امریکا اسلام دشمن ملک نہیں؛ جب کہ حالیہ عرصہ میں ہوئے عالمِ اسلام کے خلاف امریکی اقدامات کے سبب بچہ بچہ جانتا ہے کہ اسلام دشمنی امریکا میں مملکتی پالیسی کا درجہ حاصل کرچکی ہے؛ حالیہ دنوں میں امریکی فوج کوتربیت دینے کے لیے استعمال شدہ مخالف اسلام مواد کی تفصیل منظرِ عام پرآئی توامریکا کے تعلق سے خوش فہمی کے شکار اس طبقہ کے کان کھڑے ہوگئے، امریکی فوج کی تربیت کے لیے جن کلاسوں کا انتخاب کیا گیا وہاں سے برآمد کردہ سیکڑوں صفحات کے درسی مواد کا جائزہ لیا گیا تواس میں امریکی فوج کمانڈرز لفٹنٹ کرنل، کپتانوں اور کرنلز پرزور دیا گیا تھا کہ وہ مخالف اسلام کورس مکمل کریں۔ اس کے ساتھ یہ بھی غلط تأثر دینے کی کوشش کی گئی کہ امریکی قومی سلامتی کواصل خطرہ انتہا پسندوں سے نہیں، اسلام سے ہے؛ نیزمذکورہ مواد میں دہشت گردی کے مکمل صفایا کے مقصد سے مسلمانوں کے خلاف مکمل جنگ پرزور دیا گیا ہے، حتی کہ اس ناپاک خواہش تک کا اظہار کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ پرنیوکلیئر حملہ کیا جانا چاہیے، یہ مواد اسلام اور اسلامی کٹرپسندی سے متعلق تناظرات کے عنوان سے پہلی مرتبہ "Wiqed-Com" نامی سائٹ پرپیش کیا گیا، حیرت ہے کہ اسلام کے خلاف فوجیوں کی تربیت کے طور پرانھیں اسلام کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہیروشیما اور ناگاسا کی طرز کے حملے کرنے کی تربیت دی جارہی ہے، ویسے یہ مواد کافی عرصہ سے زیرِتدریس تھا، یہ توحماس تحریک کے کارکنوں کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے امریکی ملٹری اکیڈمیز اور اعلیٰ امریکی ایوانوں تک رسائی حاصل کی اور اسلام کے خلاف امریکی سازش کوبے نقاب کرنے میں کام یابی حاصل کی؛ اگرچہ اعلیٰ امریکی ملٹری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام اور قرآن مخالف نصاب کی تدریس کا سلسلہ روک دیا گیا ہے؛ لیکن برطانوی جریدہ ””ڈیلی میل“ کے مطابق کچھ ہی امریکی ملٹری اکیڈمیوں میں اسلام مخالف نصاب کی تدریس کا سلسلہ روک دیا گیاہے ،جب کہ دوسرے اداروں میں یہ نصاب اب بھی پڑھایا جارہا ہے۔

امریکی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم Care نے دنیا بھر کے اخباری نمائندوں کوارسال کیے گئے اپنے ایک ای میل پیغام میں کہا ہے کہ اسلام مخالف نصاب امریکی ملٹریوں ہی میں نہیں، یہاں کے مختلف اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پڑھایا جارہا ہے، ذرائع نے ”ڈیلی میل“ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امریکی ملٹری اکیڈمیوں کے مختلف نام زد نصابوں میں واحد مرکزی نقطہ اسلام کے خلاف نفرت اور جنگ کے لیے اذھان وقلوب کوتیار کرنا ہے۔ ”الجزیرہ“ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ”نارتھ ورجینیا“ کی کارگذار ملٹری بیس میں اب بھی یہ نصاب پڑھایا جارہا ہے ”الجزیرہ“ کے ذرائع نے جب متعلقہ اساتذہ سے اس تعلق سے استفسار کیا توان کا کہنا تھا کہ مذکورہ نصاب کا انتظامیہ کی جانب سے پڑھایا جانا موقوف کردیا گیا ہے؛ لیکن اب بھی اس نصاب کی رضاکارانہ تدریس کا سلسلہ جاری ہے، ملٹری ورکشاپ اور دیگر ریفریشر کورس کی صورت میں جاری ہے۔ ”الجزیرہ“ نے اپنی رپوٹ میں کہا ہے کہ امریکی ملٹری اکیڈمیوں میں پڑھایا جانے والا یہ نصاب کسی غیر نہیں، بلکہ امریکی افواج کی چھتری تلے کام کرنے والے ادارے ”اسٹریجک انگیجمنٹ انکار پوٹیڈ“ نے بڑی محنت شاقہ سے ماہرین کی مدد سے تیار کیا تھا؛ تاکہ امریکی افواج کے زیرِتربیت افسران کی اسلام سے ڈیل کرنے کی صلاحیت کواُجاگر کیا جاسکے؛ مذکورہ ادارے کا کہنا ہے کہ وہ امریکی آئین کے تحت کام کررہا ہے اور اس کا مقصد امریکیوں کولاحق چیلنج کوسمجھنا ہے، ایک اور امریکی فوجی عہدے دار نے بھی مذکورہ نصاب کی تدریس کے سلسلہ کے جاری رہنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا واحد مقصد اسلام کے خلاف خطرہ کا ادراک کرنا ہے، ان ساری تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مخالف نصاب امریکی فوجی تربیتی نظام کا جز لاینفک ہے؛ چناں چہ فوجیوں کی اس اسلام مخالف تربیت کا نتیجہ ہے کہ امریکی فوجیوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی بے حرمتی اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حرکات کا ارتکاب وقفہ وقفہ سے مسلسل ہورہا ہے، سالِ گذشتہ نیویارک میں دو امریکیوں نے قرآن مجید کے نسخوں کو نذر آتش کیا، اس کے بعد ملعون پادری ٹیری جونز نے دوبار قرآن جلانے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا، عراق میں بارہا امریکی فوجیوں کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے؛ افغانستان سے امریکی افواج کی سفاکانہ ویڈیوز بھی منظرِعام پرآئیں، جس میں امریکی فوجیوں کوطالبان کی نعشوں کونذر آتش کرتے اور ان کا مثلہ کرتے دکھایا گیا ہے، پاکستان میں امریکی ایجنٹ ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں سرِعام دونوجوانوں کے قتل کا حادثہ پیش آیا، افغانستان میں ایک امریکی فوجی نے رات کواپنے بیس سے نکل کر درجنوں افغان خواتین مرد وبچوں کوگولیوں سے بھون دیا، یہ سارے واقعات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ برسہا برس سے امریکی فوجیوں کواسلام مخالف مواد نہ صرف پڑھایا جارہا ہے، بلکہ ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت بٹھائی جارہی ہے۔

امریکا کی اسلام دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے، بعض قابل وثوق ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ1988ء ہی سے جاری ہے، یہ کام اس وقت کے امریکی صدر کے دستخطوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا؛ البتہ 11/9 کے بعد اس میں باقاعدگی لائی گئی اور ہوم لینڈ سیکوریٹی، میٹرو پولیٹن پولیس، ایف بی آئی اور دیگر اداروں کوبھی اسلام مخالف تربیت کی مہم سے منسلک کیا گیا، امریکی خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی تھنک ٹیکنس کی نظر میں موجودہ اسلام مخالف نصاب حصول مقصد کے لیے ناکافی ہے، اس میں مزید تبدیلی کے ذریعہ شدت پیدا کرنا اشد ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ امریکی پالیسی اداروں میں جس اسلام مخالف جدیدترین نصاب اور طریقہٴ تدریس پرغور کیا جارہا ہے، اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امریکا کی مین اسٹریم میں بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والے مسلمان بھی اتنے ہی خطرناک ہیں جتنا کہ جہادی اور یہ کہ جب تک قرآن، کعبہ اور مدینہ سے ان کا تعلق ختم نہیں ہوتا یہ امریکا اور اسرائیل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے، مذکورہ تجزیہ نگار نے ایک معروف امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ رہنے والے دا نش ور کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس میں یہ امر مستقل بحث کا عنوان ہے کہ مسلمانوں کا رشتہ قرآن اور شریعت سے کس طرح ختم کیا جائے ؟اس دانش ور کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جاری توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی مہم بھی امریکی جنگی حکمتِ عملی سے الگ نہیں؛ بلکہ انھیں تھنک ٹینکس کے ریسرچ کے نتیجہ میں شروع کیا گیا نفسیاتی حربہ ہے، تاکہ بار بار کی توہین سے مسلمانوں کوحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے اور اس سے اگلے مرحلے میں حرمین کو (نعوذ باللہ) ختم کرکے پوری دنیا سے اسلام کومٹادیا جائے۔

فوج ہی نہیں، امریکی پولیس کوبھی مکمل طور پراسلام مخالف تربیت سے گزارا جارہا ہے اور اس کے لیے ”تھرڈ جہاد“ کے نام سے ایک فلم تیار کی گئی ہے، جوامریکی پولیس کے تربیتی پروگرام کا حصہ ہے، امریکا میں سفارتی خدمات انجام دینے والے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا نے مسلمانوں کوتباہ کرنے کی پالیسی کواسٹیٹ پالیسی کے طور پراختیار کیا ہوا ہے، اسلام کے خلاف ایک ٹوٹل وار کا منصوبہ امریکا نے اس وقت بنایا تھا جب 1988ء میں سوویت یونین مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھارہا تھا۔

یہ صحیح ہے کہ امریکا عرصہ دراز سے اسلام اور مسلمانوں کوصفحہٴ ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے، امریکا ہی نہیں، اس وقت سارے یورپ کواسلاموفوبیا کا مرض اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے کہ مختلف یورپی ممالک کے سیاسی قائدین کھلے عام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں؛ گذشتہ دنوں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 116صفحات پرمشتمل رپورٹ نے تویورپ کی مسلم دشمنی کوبے نقاب کرکے رکھ دیا ہے، رپورٹ کے مطابق یورپ میں مسلم خواتین کوملازمتوں سے محروم رکھا جارہا ہے، اسکارف استعمال کرنے والی مسلم طالبات کے لیے اسکولوں کے دروازے بند ہیں، بہت سے یورپی ممالک میں عبادت گاہوں کی تعمیر پرپابندی ہے، سوئزرلینڈ میں 2010ء سے مساجد پرمیناروں کی تعمیر ممنوع ہے، کئی یورپی ملکوں میں مساجد کی تعمیر پرنئی نئی تحدیدات عائد کی جارہی ہیں، اسپین کے ایک صوبے Catalonia میں مسلمانوں کومسجد کے باہر نمازیں ادا کرنی پڑ رہی ہیں، وہاں مساجد کی توسیع یانئی مساجد کی تعمیر کی اجازت اس بنیاد پرنہیں دی جارہی ہے کہ یہ صوبے کی روایات اور کلچر سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں ۔

یورپی حکام اور سیاسی قائدین کھلے عام اسلام کویورپ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں، یہ سب کچھ ہورہا ہے، لیکن کیا اسلام اور مسلمانوں کوصفحہٴ ہستی سے مٹانے کا امریکی خواب شرمندہ تعبیر ہوگا؟ اور کیا اسلام دشمن طاقتیں اپنے ناپاک مقاصد میں کام یابی سے ہم کنار ہورہی ہیں؟ عالمی حالات سے واقفیت رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ جس تیزی سے اسلام کی مخالفت کی جارہی ہے اسلام اسی شدت کے ساتھ پھلتا اور پھولتا جارہا ہے اور سب سے زیادہ قبولِ اسلام کی شرح ان ملکوں میں ہے جواسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں، امریکا کے مذہبی اداروں کی شماریاتی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں (2000ء تا 2010ء) 26لاکھ امریکی دائرہٴ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں، اس کے برخلاف کیتھولک عیسائیوں کی تعداد میں 5فیصد کمی واقع ہوئی ہے، گذشتہ دس سالوں میں اسلام امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے مذہب کے طور پرسامنے آیا ہے، الجزیرہ رپورٹ کے مطابق امریکا کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد یہودیوں کے مقابلہ میں بڑھ چکی ہے، کنٹکی یونیورسٹی کے پروفیسر کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ تمام امریکا میں اس وقت 2106مساجد ہیں، یہ تعداد گذشتہ ایک دہے کے دوران 47 فی صد سے زیادہ ہے، یہ امریکی مساجد 2011ء کے زیرعنوان رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکثر مساجد نئی صدی میں تعمیر کی گئی ہیں، سن 2000ء ہی سے قبل جومساجد تھیں ان کی تعداد بہت کم تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مساجد نماز کے اوقات میں مصلیوں سے بھری رہتی ہیں، دیگریورپی ممالک میں بھی اسلام اور قرآن کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے، جرمنی کی ایک تنظیم پچھلے چند دنوں میں اب تک جرمنی زبان کے پانچ لاکھ قرآنی نسخے تقسیم کرچکی ہے، چرچ اور مختلف حلقوں کی مخالفت کے باوجود قرآن کی مانگ بڑھتی جارہی ہے، جرمنی میں سالانہ ساڑھے چار ہزار افراد اسلام قبول کررہے ہیں، یورپ میں اسلامی حجاب کی سخت مخالفت کی جارہی ہے، حجاب کے مسئلہ پربعض مسلم خواتین کواپنی جان دینی پڑی، گذشتہ ماہ ”سان ڈباگوری“ میں حجاب کی بنا پر ایک عراقی نژاد مسلم خاتون کوشہید بھی کردیا گیا؛ لیکن اس سے اظہارِ یگانگت کرتے ہوئے دنیا بھر کی ایک ملین خواتین نے سروں پراسکارف باندھ کرنسلی منافرت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کیا، فرانس، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی تیزی سے اسلام پھیلتا جارہا ہے، اسلام میں اللہ نے ایسی تاثیر اور لچک رکھی ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے گا وہ اتنا ہی اُبھرے گا، یورپ اور امریکی حکم ران اسلام کے خلاف نفرت کا مظاہرہ کرکے غیرشعوری طور پر اسلام کو پھیلنے کے مواقع فراہم کررہے ہیں؛ اگرامریکی ویورپی حکم ران یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی معاندانہ سرگرمیوں سے وہ اسلام کوصفحہٴ ہستی سے مٹادیں گے تویہ ان کی خام خیالی ہے، یہ مذہب مٹنے کے لیے نہیں آیا ہے، اس کوتواللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں غالب کرنے کے لیے برپا کیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے: ﴿ہُوَالَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ﴾ ․(التوبة:33)

تاریخ گواہ ہے جوقومیں اسلام کومٹانے کے لیے اُٹھیں وہ خود صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں، اس وقت امریکا ابرہہ کا لب ولہجہ اختیار کررہا ہے، اپنے فوجیوں کوحرمین کومسمار کرنے اور ایٹم بموں سے اُڑادینے جیسی باتوں کی تربیت دے رہا ہے، لگتا ہے اس کی تباہی کے دن قریب آچکے ہیں، ابرہہ بھی اپنے دور کی سب سے بڑی فوج کا مالک تھا، مگرکیا حشر ہوا؟ امریکا بندروں اور خنزیروں میں تبدیل کیے گئے اسرائیلیوں کی شہ پراسلام مخالف مہم میں تیزی لارہا ہے، جب کہ اسرائیلی خود امریکا کے لیے گڑھا کھود رہے ہیں۔

ان حالات میں مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ دعوتی ذمہ داریوں کومحسوس کریں، صدیوں کے دشمن اسلام دشمنی کی خاطر ایک پلیٹ فارم پرآرہے ہیں؛ لیکن مسلمان مسالک کی بنیاد پرباہم دست وگریبان ہیں، یہ اچھی علامت نہیں ہے، ہم اپنی توانائیاں غیروں میں دعوتِ دین کے لیے صرف کرنے کی بجائے آپسی اختلافات میں ضائع کررہے ہیں، حالات کا رُخ سمجھتے ہوئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور دعوتِ الی اللہ کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے پوری جدوجہد کرنا چاہیے، مسلم ممالک کوامریکا کی جبہ سائی کی بجائے اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے معیشت واقتصاد اور دیگر معاملات میں خود کفیل ہونے کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، آخر کب تک وہ امریکا کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے رہیں گے؟ #
        مٹ گئے خود اک اک مٹانے والے
        یہ مٹ نہیں سکتا کسی کے مٹانے سے
Flag Counter