Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 17
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

شریعت میں مہر کی حیثیت
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے سلسلے میں:
1.   شریعت میں مہر کی کیا حیثیت ہے؟ فرض؟ واجب؟ سنت یا مستحب؟
2.  مہر فاطمی132 تولہ چاندی کو بھی معیار بناسکتے ہیں؟ جب چاندی سستی تھی تب ہماری برادری مہر فاطمی ہی تجویز کرتی تھی لیکن اب چاندی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ غریب کے لیے ناممکن ہے اب اگر برادری ایک خاص رقم کم از کم15500 روپے طے کرتی ہے تاکہ ہرکوئی آسانی سے ادا کر سکے ، ایسا کرنا کیا صحیح ہو گا؟
3.  مہر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں کیا ہے؟
4.  منگنی، نکاح، ولیمہ، عقیقہ یا کسی او رموقع پر دولہا اور دلہن کو مختلف لوگ مختلف تحائف دیتے ہیں جن میں سونا چاندی بھی ہوتا ہے او رمعمولی چیزیں بھی ۔ اگر خدا نخواستہ لڑکی کو طلاق ہو جاتی ہے یا خلع وغیرہ تو ایسی صورت میں مذکورہ تحائف کس کس کے ہوں گے، کیا جانبین ایک دوسرے سے ان چیزوں کا تقاضہ کر سکتے ہیں ؟ ۔
5.  نکاح اور مہر کے بارے میں چند ضروری ہدایات شریعت تحریر فرما دیں تاکہ ہماری برادری کی آنے والی نسلیں شریعت کے مطابق ان امور کو سر انجام دے سکیں۔

جواب…1.   واجب ہے۔
3,2۔ مہر فاطمی کو معیار بنانا مستحب ہے۔ کم سے کم مہر کی مقدار دس درہم (تقریباً دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی) ہے اور زیادہ کی کوئی مقدار نہیں ، البتہ بہتر یہ ہے کہ اتنا زیادہ مہرمقر رنہ ہو جو شوہر کے لیے دینا مشکل ہو جائے یا پھر اس زیادتی سے شہرت مقصود ہو ۔ مذکورہ رقم ( 15500 روپے) کو مہر بنانا صحیح ہے۔
4.  جو تحائف خاص دولہا یا پھر خاص دلہن کے ہوں تو وہ ان کی علیحدہ علیحدہ ملکیت شمار ہوں گے ، البتہ جو چیز مشترکہ ہو تو اس میں جو چیز عموماً عورتوں کے استعمال کی ہو وہ عورت لے لے اور جو مردوں کے استعمال کی ہو وہ مرد لے لے۔
5.  نکاح ایک عبادت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے ۔ جس طرح دیگر عبادات میں ہم اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہیں ، اسی طرح نکاح میں بھی اسلامی تعلیمات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اس خوشی کے مبارک موقع پر غیروں کے بجائے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور سلف صالحین کی اتباع لازم ہے۔

الله جل شانہ کی ناراضگی سے بچا جائے اور سنت کے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے، فضول خرچی او ردکھلا وے سے اجتناب ہو، سادگی سے تقریب منعقد ہو، لہو ولعب اور غلط رسومات سے بچا جائے۔

رشتہ طے کرتے وقت دینی بنیاد پر ترجیح دینا مستحب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دینی بنیاد پر رشتہ قائم کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایسے رشتہ کے لیے برکت کی دعا دی ہے۔

نیز مہر میں بھی اس بات کی کوشش کی جائے کہ مہر متوسط او رمعجل مقرر ہو ۔ ہمارے یہاں عموماً مہر میں دو کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں:

مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کا خیال نہیں رکھتے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے بسااوقات تنازع او رجھگڑے کی شکل پیدا ہو جاتی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرنا کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ ایک مسلمان کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہی باعث افتخار ہونا چاہیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی اور کسی بیٹی کا مہر پانچ سو درہم( مہر فاطمی، تقریباً132 تولہ چاندی) سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔

دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ مہر ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی، بلکہ بیویوں سے حق مہر معاف کرا دیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ بیوی کا مہر بھی شوہر کے ذمے ایک طرح کا قرض ہے ۔ اگر بیوی خود اپنی مرضی اور خوشی سے کل مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے توٹھیک ہے ، لیکن شروع ہی سے مہر کو واجب الادا نہ سمجھنا بڑی غلطی ہے ایسے شخص کے لیے احادیث میں بڑے سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔

لہٰذا ان کو تاہیوں سے اجتناب کیا جائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اس خوشی اور مبارک تقریب کا انعقاد کیا جائے۔

بغیر نکاح کے فوت ہونے والے کے جنازے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ ( خواہ مرد ہو یا عورت) فوت ہو جائے بغیر نکاح کے تو لوگوں کے ہاں یہ مشہور ہے کہ اس کا جنازہ نہیں پڑھا سکتے اور وہ مخلد فی النار ہو گا! کیا یہ مسئلہ صحیح ہے یا نہیں؟ دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ نکاح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بغیر کسی شرعی عذر کے اس کو نہیں چھوڑنا چاہیے اس لیے کہ نکاح کرنا نفلی عبادت میں مشغول ہونے سے افضل ہے مگر جو آدمی بغیر نکاح کے فوت ہو جائے تو اس پر قطعاً یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور وہ مخلد فی النار ہو گا، بلکہ امت کے بہت سارے صلحاء نے نکاح نہیں کیا، یہ لوگوں میں غلط بات مشہور ہے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا شرعی حق کس کو ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام ذیل کے مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی اپنے خاندان وقوم سے باہر ایک لڑکے سے نکاح کر رہی ہے واضح رہے کہ ڈیڑھ دو سال پہلے اس کے شوہر نے اس کو تین طلاقیں دی اور اس شوہر سے اس لڑکی کی ایک چار سالہ بچی بھی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس بچی کی پرورش کا شرعاً کس کو حق حاصل ہے؟ آیا شوہر کو یا بیوی کو؟ نیز اس بچی کا خرچہ کتنی مدت تک باپ پر واجب ہے۔

جواب… نو سال سے کم عمر کی بچی کی پرورش، دیکھ بھال او راپنے ساتھ رکھنے کا حق والدہ کو ہے ، مذکورہ مدت گزرنے سے پہلے والد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ والدہ سے بچی کو لے لے، البتہ مذکورہ مدت کے دوران بچی پر خرچ ہونے والا نان نفقہ وغیرہ والد کو ادا کرنا ضروری ہے اور والد کو بچی کے ساتھ ملاقات کرنے سے نہیں روکا جائے گا، لیکن اگر ان نو سال کے دوران والدہ نے کسی ایسے شخص سے نکاح کر لیا جو اس بچی کا ذی رحم محرم( کہ اس بچی او راس شخص کا نکاح کرنا آپس میں ہمیشہ کے لیے حرام ہو ) نہ ہو ، تو اس صورت میں نو سال کی مدت گزرنے سے پہلے بھی والد کو بچی کے لینے کا حق ہو گا ، بچی لینے کے بعد اس بچی کا ہر قسم کا خرچ والد ہی برداشت کرے گا، نانی کو پرورش کا حق حاصل ہو گا۔

چہرے پر تھپڑ رمارنے کا حکم
سوال… آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ پیش ہے التماس ہے کہ احادیث مبارکہ اور قرآن کریم کی روشنی میں اس مسئلے کا حل فرمائیں۔

مسلمان یا کسی بھی انسان کے چہرے پر تھپڑ مارنا کیسا ہے؟ کیا اس سے متعلق حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے اگر ہے تو اس کا مکمل حوالہ بھی تحریر فرمائیں اسی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا حدیث کا عملی یا قولی انکار مسلمان کو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے ایسے شخص کو کیا کرنا چاہیے۔

جواب…الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اسی طرح اعضا میں سے چہرے کو مجمع المحاسن بنایا ہے چہرہ چاہے انسا ن کا ہو یا حیوان کا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اس کو داغنے سے منع فرمایا ہے ، چناں چہ مسلم شریف میں حدیث ان الفاظ سے مروی ہے: ”عن جابر رضی الله عنہ قال : نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن الضرب فی الوجہ وعن الوسم فی الوجہ“ اور اس کے علاوہ یہ حدیث ترمذی ، ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ میں بھی مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔

اگر کوئی شخص عملاً حدیث کا انکار کرے ، سستی وکاہلی کی وجہ سے عمل نہ کرے ، جیسے نماز روزہ حج، زکوة ادا نہ کرنا تو ایسا شخص فاسق تو کہلائے گا کافر نہیں ہاں ! اگر کوئی شخص قولاً انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنتوں میں سے کسی سنت کا مذاق اڑائے یا حدیث متواتر کا انکار کرے یا کسی بھی حدیث کا بطور استہزاء واستخفاف انکار کرے تو ایسے شخص کا ایمان خطرے میں ہے اسے چاہیے کہ وہ تجدید ایمان بھی کرے اور تجدید نکاح بھی۔

مسلمان ڈاکٹر کے لیے قادیانی مریض کا علاج
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں قادیانی گروہ کافی مضبوط اڈا بنائے ہوئے ہے اور اہل سنت والجماعت کہلانے والے اکثر بیشتر لوگوں کا اُن سے میل جول بہت زیادہ ہے اور حال ہی میں ایک ڈاکٹر صاحب سے جو کہ ان قادیانیوں کا علاج معالجہ کرتے رہتے ہیں ان سے جب قادیانیوں سے بائیکاٹ کی بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ” علاج ایک انسانی حق ہے لہٰذا کسی بھی کافرکا علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“

تو کیا ان ڈاکٹر صاحب کی یہ دلیل شرعی لحاظ سے صحیح ہے یا قادیانیوں سے بالکل بائیکاٹ ضروری ہے، براہ کرم مفصل واضح جواب دے کر عندالله ماجور ہوں۔

جواب… واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی الله علیہ وسلم اور فقہ اسلامی کے مطابق قادیانی اسلامی اخوت اور اسلامی ہم دردی کے ہر گز مستحق نہیں ہیں، مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کے ساتھ سلام وکلام نشت وبرخاست اور لین دین وغیرہ تمام تعلقات ختم کر دیں ، کوئی ایسا تعلق یا رابطہ ان سے قائم کرنا، جس سے ان کی عزت واحترام کا پہلو نکلتا ہو، یا ان کو قوت وآسائش حاصل ہوتی ہو ، جائز نہیں۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ ڈاکٹر صاحب پر قادیانیوں کا علاج معالجہ ترک کرنا او ران سے مکمل بائیکاٹ کرنا لازم ہے اور ڈاکٹر کی دلیل غلط ہے۔

تصویر بنانے پر اجرت لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کسی کے ہاں ملازم ہے وہ مالک مثلاً کسی پیپسی بنانے والی کمپنی کی مشہوری کی غرض سے اپنے ملازم کو کہتا ہے کہ کمپیوٹر کے اندر لڑکی کی پہلے سے بنی ہوئی تصویر جو محفوظ ہے اس کے ہاتھ میں پیپسی کی بوتل بنا کر کسی خاص پروگرام کی مدد سے پکڑا دو، پھر وہ اس تصویر کو مشہوری کے طور پر شائع کرنے والی پیپسی بنانے والی کمپنی کے حوالہ کر دیتاہے۔

تو پوچھنا یہ ہے کہ آیا ملازم مذکور کی یہ ملازمت جائز ہے یا نہیں؟ اور ملازم مذکور کو اس پر اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانا اور بنوانا خواہ وہ ہاتھ سے بنائی جائیں یا کمپیوٹر وغیرہ سے سخت گناہ ہے ، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ، اس لیے ہر مسلمان کو تصویر سازی سے بچنا چاہیے، باقی رہا صورت مسئولہ میں مذکور ملازم کی ملازمت وتنخواہ کا حکم تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مالک نے اس کو تصویر کشی ہی کے لیے ملازم رکھا ہے اور وہ اس قسم کی تصویریں بنا کر اس پر تنخواہ لیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر مالک نے اس کو ملازم تو دوسرے جائز کاموں کے لیے رکھا ہے ، مگر کبھی کبھار تصویر بنانے کی نوبت بھی آتی ہے، تو تصویر بنانے کا گناہ تو اس پر ہو گا، مگر اس کی وجہ سے پوری ملازمت اور تنخواہ کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، مگر پھر بھی اگر وہ اپنے لیے دوسری بے غبار ملازمت کا بندوبست کرلے تو بہتر ہے۔

والدین کا بیٹے سے بلاوجہ بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی ہمشیرہ بکر کے نکاح میں ہے اور بکر کی ہمشیرہ زید کے نکاح میں ہے ، اب بکر نے زید کی ہمشیرہ کو طلاق دے دی ہے او راب زید کے والدین نے زید کو کہا ہے کہ بکر کی ہمشیرہ کو طلاق دے یا ہم سے جدا ہو جائے جب کہ زید کی بیوی کی کوئی غلطی بھی نہیں ہے اور یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر راضی بھی ہیں او ران کے دو بچے بھی ہیں تو ایسی صورت میں زید اگر اپنی بیوی یعنی بکر کی ہمشیرہ کو طلاق دے اس وجہ سے کہ بکر نے زید کی ہمشیرہ کو طلاق دی ہے تو اس صورت میں زید ظالم تو نہیں ہو گا؟

اور اگر طلاق نہ دے اور والدین سے جدا ہو جائے تو اس صورت میں زید والدین کا نافرمان ہو گا یا نہیں؟

جواب… صورت مسئولہ میں والدین کا زید سے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں، بیوی کو طلاق نہ دینے سے زید گناہ گار نہیں ہو گا، والدین کو چاہیے کہ وہ اس غیر شرعی مطالبہ وضد سے باز آجائیں او راپنے بیٹے کے بسے بسائے گھر کو نہ اجاڑیں، زید پر والدین کے اس حکم کی اطاعت لازم وضروری نہیں، زید اپنے والدین کے ادب واحترام کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں سمجھائے اور الله تعالیٰ سے دعا کرے کہ ان کے دل میں اس کی بات ڈال دے۔ 
Flag Counter