Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 17
شوقِ علم یوں ہوتا ہے
مولانا سخی داد خوستی

ایک حدیث میں آیا ہے: ”منھومان لا یشبعان، منھوم فی العلم لا یشبع منہ، ومنھوم فی الدنیا لا یشبع منھا․ وقال عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ: ولا یستویان، اما صاحب العلم فیزداد رضی الرحمن، واما صاحب الدنیا فیتمادیٰ فی الطغیان، ثم قرأ عبدالله: ﴿کلاّ ان الانسان لیطغیٰ ان راٰہ استغنیٰ ﴾․ (مشکوٰة، ص:37)

دو بھوکے کبھی سیرنہیں ہوتے، ایک علم کا بھوکا علم سے سیر نہیں ہوتا، دوسرا دنیا کا بھوکا، اس کا دنیا سے پیٹ نہیں بھرتا۔

حضرت عبدالله بن مسعود نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں ( بلکہ ان کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے)جو علم کا بھوکا ہے ،اس کے لیے مسلسل رحمان کی رضا میں اضافہ ہوتا رہتا ہے او رجو دنیا کا حریص ہے تو وہ سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے ، حضرت عبدالله بن مسعود  نے ( اس پر دلیل کے طور پر ) یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿کلا ان الانسان لیطغیٰ ان راٰہ استغنیٰ﴾ ہر گز نہیں ،بے شک انسان سرکش ہو جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو غنی پاتا ہے ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی علم کی زیادتی کے لیے دعا مانگنا
ہمارا یقین ہے کہ الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اتنا علم عطا فرمایا ہے کہ اتنا بڑا عالم نہ دنیا میں آج تک آیا ہے اور نہ قیامت تک آسکتا ہے کیوں کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾․ (النحل آیت:89)
ترجمہ:” اور تجھ پر ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے۔“

تو دنیا میں جتنے علوم ہیں خواہ کتابوں میں ہیں یا انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں ہیں ، وہ سارے علوم قرآن مجید فرقان حمید میں اجمالاً موجود ہیں اور قرآن مجید کو الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دل مبارک پر نازل کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وَإِنَّہُ لَتَنزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ،عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْنَ﴾․ (الشعراء، آیت:194-192)
ترجمہ:” یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ، تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو۔“

تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل مبارک منبع علوم ہے، اسی بنا پر احادیث کا جتنا ذخیرہ ہے یہ سب قرآن کریم کی تفسیر ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہیں رب زدنی علماً اے میرے رب میرے علم! اور اضافہ فرما۔

حضرت عبدالله بن عباس کا شوق علم
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں ایک رات گزاری ہے ،اس واقعے کو امام بخاری نے صحیح البخاری میں غالباً دس مرتبہ مختلف انداز او رمختلف الفاظ میں ذکرکیا ہے، اسی طرح دیگر صحاح خمسہ میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہوا ہے، ان سب روایات کو اگر مرتب کیا جائے تو مفصل واقعہ اس طرح بنتا ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رات گزارنے کی نوبت حضرت میمونہ کے گھر میں ہو گئی ۔ اس موقع پر حضرت عباس  نے اپنے بیٹے عبدالله  کو کہا کہ بیٹا ! آج رات آپ نے حضرت میمونہ کے گھر میں گذارنی ہے اور وہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ساری رات کے اعمال ملاحظہ کرکے مجھے بتانا ہے، تاکہ میں بھی رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اتباع کے مطابق گذاروں ۔ حضرت عباس  نے عبدالله کے لیے حضرت میمونہ کے گھر کا انتخاب اس لیے کیا کہ یہ عبدالله کی خالہ ہیں، کیوں کہ عبدالله بن عباس کی والدہ لبابة الکبریٰ اور خالد بن ولید کی والدہ لبابة الصغریٰ دونوں حضرت میمونہ کی بہنیں ہیں اور یہ تینوں حارث بن حزن کی بیٹیاں ہیں۔

چناں چہ عبدالله بن عباس حضرت میمونہ کے گھر میں رات گزارنے کے لیے تشریف لائے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور حضرت میمونہ کا یہ خیال تھا کہ خالہ ہونے کی وجہ سے آیا ہے، کیوں کہ بسا اوقات بھانجا خالہ کا مہمان بنتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بچہ صرف خالہ ہونے کے ناطے نہیں آیا، بلکہ ایک عظیم مقصد لے کر خالہ کا مہمان بنا ہے۔ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم حسب معمول عشا کی نماز کے بعد جب سونے لگے تو گھر میں صرف ایک سرہانہ ہے جب کہ سونے والے تین ہیں، ایک سید الکونین ہیں ، دوسری ان کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ ہیں ، تیسرا ان کا مہمان حضرت عبدالله بن عباس  ہیں، ان تینوں نے ایک ہی سرہانے پر سر لگائے وہ اس طرح کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رحضرت میمونہ نے سرہانے کے طول پر سر رکھے اور عبدالله بن عباس نے سرہانے کے عرض پر۔

اس کے بعد رسول صلی الله علیہ وسلم عادت کے مطابق تہجد کے لیے اٹھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا خیال تھا کہ بچہ سویا ہوا ہے ( مگر عبدالله بن عباس  نے تو ساری رات جاگنے کا تہیہ کر رکھا تھا) اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم ایسے انداز میں اٹھے کہ اس کی آہٹ سے کوئی سویا ہوا بیدار نہ ہو جائے چناں چہ آپ سب سے پہلے بیت الخلا تشریف لے گئے، عبدالله بن عباس نے سوچا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہو جائیں گے تو استنجا کے لیے وضو کا برتن لیں گے، پھر پانی سے بھر یں گے، پھر بیت الخلا جائیں گے۔ تو یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے بہت تکلیف دہ ہے، کیوں نہ یہ کام میں کروں ۔ چناں چہ عبدالله بن عباس اٹھے، وضو کا برتن پانی سے بھرا اور بیت الخلا کے دروازے پر رکھا او رواپس آکر لیٹ گئے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب بیت الخلا سے باہرآ ئے تو دروازے کے سامنے وضو کا برتن پانی سے بھرا ہوا دیکھا، پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ حضرت میمونہ نے بتایا کہ یہ کام اس چھوٹے بچے نے کیا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم بچپنے کی حالت میں ایسی بہترین خدمت پر بہت خوش ہوئے، اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے جو دعا فرمائی ہے، بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ”اللھم فقھہ فی الدین“․ (بخاری، ص:26)”اے الله !اس کو دین کی سمجھ عطا فرما۔“

اسی دعا کی برکت تھی کہ یہ بچہ بعد میں رئیس المفسرین اور حبر الامة کے القاب سے مشہور ہوا۔

ایک حدیث کے لیے مدینہ منورہ سے شام تک جانا
کثیر بن قیس تابعی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابودرداء رضی الله عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا او رکہا کہ میں مدینہ منورہ سے صرف ایک حدیث سننے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے وہ حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہے۔ حضرت ابو درداء نے پوچھا کوئی تجارتی کام تو نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت ابو درداء نے پھر پوچھا کوئی دوسری غرض تو نہیں تھی ؟ کہا نہیں صرف حدیث معلوم کرنے کے لیے آیاہوں ۔ حضرت ابو دردا نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے ، الله تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اورفرشتے اپنے پر طالب علم کی خوش نودی کے لیے بچھا دیتے ہیں اور طالب علم کے لیے آسمان و زمین کے رہنے والے استغفار کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی اس کے لیے مغفرت کی دعا مانگتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے کہ چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر او رعلماء انبیاء کے وارث ہیں اورانبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بناتے، بلکہ علم کاوارث بناتے ہیں تو جو شخص علم حاصل کرتاہے وہ ایک بڑی دولت حاصل کرتا ہے ۔ ( ترمذی، ج2 ص:97، ابن ماجہ ، ص:20)

ربیعة الرائے کا حصول علم
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن فروخ اہل مدینہ منورہ کے فقہاء میں سے ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت سے مل چکے ہیں ، تابعین میں بہت بڑے امام الفقہ والحدیث تھے، بڑے مجتہدین میں ان کا شمار ہوتا ہے ، اس لیے ان کا لقب رائے پڑ گیا۔ امام مالک  نے ان سے روایت کی ہے ، ربیعہ کے والد فروخ بنو امیہ کے دور میں فوج کے ساتھ خراسان گئے ربیعہ اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے ،ابو عبدالرحمن فروخ سفر پر روانہ ہونے کے وقت اپنی بیوی کے پاس تیس ہزار دینار چھوڑ گئے او رپھر ستائیس سال کے بعد مدینہ منورہ واپس آئے۔ گھوڑے پر سوار تھے، نیزہ ہاتھ میں تھا۔ اپنے گھر جب پہنچے تو گھوڑے سے اتر کر دروازہ پاؤں سے دھکیلا۔ ربیعہ نکلے او رکہنے لگے ، اے الله کے دشمن !تو میرے حرم میں کیوں داخل ہوا؟ فروخ نے جوابا کہا کہ الله کا دشمن توتو ہے کہ میرے حرم میں داخل ہوا ہے، دونوں آپس میں الجھ گئے۔ دنوں ایک دوسرے سے کہتے ہیں ، ” میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“

ادھر ہمسائے ربیعہ کی مدد کے لیے پہنچ گئے ۔ اس کی اطلاع امام مالک کو پہنچی، وہ جلدی سے موقع پر تشریف لائے، جب امام مالک کو دیکھا تو خاموش ہو گئے، امام مالک  نے کہا کہ چاچا محترم! آپ کے لیے کسی اورمکان میں گنجائش ہو سکتی ہے ۔ آپ زبردستی اس مکان میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں ؟ بڑے میاں نے جواب دیا کہ میں فروخ ہوں اور یہ میرا مکان ہے ۔ بیوی نے ان کی بات سنی تو نکل آئیں اور کہنے لگیں، یہ میرے خاوند ہیں اور یہ میرے بیٹے ہیں، جنہیں حمل کی حالت میں چھوڑ گئے تھے۔ اب باپ بیٹا گلے ملے او ربہت روئے ۔ اس کے بعد ربیعہ تومسجد نبوی میں چلے گئے، وہاں اپنے درس میں بیٹھے اور فروخ گھر کے اندر آئے،بیوی سے پوچھاکیا یہ میرا بیٹا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ تیرے بیٹے ہیں۔ فروخ نے بیوی سے پوچھا کہ میں سفر پر جاتے وقت تمہارے پاس جو مال چھوڑ گیا تھا وہ کہاں ہے؟ بیوی نے کہا اب آپ مسجد نبوی تشریف لے جائیں، وہاں نماز پڑھیں وہاں سے واپس آئیں پھر آپ کو جواب دوں گی۔ فروخ مسجد نبوی میں آئے تو وہاں ایک بڑا حلقہ دیکھا جس میں امام مالک ، حسن بصری جیسے بڑے بڑے علماء بیٹھے ہیں ، کھڑے ہو کر صاحب درس کو وہاں سے دیکھنے لگے ۔ اپنے بیٹے کا شک ہوا۔ ربیعہ نے بھی اس انداز سے سرجھکا یا کہ وہ گمان کریں کہ میں اس کو نہیں دیکھ رہاہوں۔ فروخ نے دریافت کیا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن فروخ ہیں۔ کہنے لگے سبحان الله! ان کو الله تعالیٰ نے کتنی بڑی شان عطا فرمائی ہے ۔ گھر آکر بیوی کو کہا کہ میں نے تمہارے بیٹے کو ایسے بلند مرتبے میں دیکھا ہے جو اہل علم وفقہاء میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ربیعہ کی ماں نے کہا کہ آپ کو تیس ہزار دینار زیادہ پسند ہیں یا اپنے بیٹے کی یہ شان! کہنے لگے والله! مجھے اپنے بیٹے کی یہ شان زیادہ پسند ہے۔ بیوی نے کہا کہ وہ ساری رقم میں نے اس پر خرچ کی تو فروخ نے کہا کہ والله! تم نے وہ مال ضائع نہیں کیا ہے۔ ( فضل الباری ، ج2، ص:70، بحوالہ دائرة ، المعارف، فرید وجدی، ج4، ص:185)

امام محمد کا مطالعہ میں انہماک
ایک دفعہ امام محمد کسی سڑک کے کنارے پر بیٹھے ہوئے کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ، اسی اثنا میں ایک بہت شان دار بارات گزری، جس میں گانے باجے بھی بج رہے تھے۔ امام محمد رحمہ الله کو اس بارات کا کوئی پتا نہیں چلا اوربرابر اپنے مطالعہ میں مشغول رہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد چند آدمی جو بارات سے پیچھے رہ گئے تھے امام صاحب کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ یہاں سے کوئی بارات تو نہیں گذری ؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو پتا نہیں چلا ، البتہ کتاب پر اچانک گردوغبار پڑ گیا، اس کو میں نے پھونک مار کر اڑا دیا، اس سے زیادہ مجھے بارات کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ( میری نماز، ص:53)

میر سید شریف کا علوِ سند کے لیے سفر کرنا
آٹھویں صدی ہجری میں ایک بہت بڑے عالم گذرے ہیں، جو میر سید شریف سے مشہور ہیں، جنہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن میں صرف میر، نحو میر او رمیر ایساغوجی بہت مشور ہیں ،ان کو یہ شوق ہوا کہ میں شرح مطالع خود مصنف سے پڑھوں، چناں چہ اس مقصد کے لیے وہ ہرات گئے اور علامہ قطب الدین رازی ( تحتانی) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، علامہ رازی نے ان سے پوچھا، کون ہو ؟ کہاں سے آئے ہو ؟ کس مقصد کے لیے آئے ہو ؟ آپ نے جواب دیا کہ میرا نام محمد بن علی ہے اور میر سید شریف سے معروف ہوں، جرجان سے آیا ہوں اور آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اگرچہ شرح مطالع ایک دفعہ پڑھ چکا ہوں، مگر میری خواہش ہے کہ خود آپ سے پڑھوں۔

علامہ رازی کو میر سید کی باتوں سے ان کی ذہانت کا اندازہ ہو گیا، اسی بنا پر فرمایا کہ میں پیر فرتوت ہو چکا ہوں ،اس لیے اب میں شرح مطالع پڑھانے کے قابل نہیں ہوں۔ آپ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ میرے خاص شاگرد مبارک شاہ کے پاس جائیں، ان سے شرح مطالع پڑھنا ایسا سمجھو گویا مجھ سے پڑھ لیا ہو۔ تو میر سید صاحب خراسان سے چل کر مصر پہنچے، وہاں قاہرہ میں مبارک شاہ کی خدمت میں حاضرہو کر اپنا مدعا بیان کیا ، مبارک شاہ نے فرمایا میں آپ کو شرح مطالع پڑھاؤں گا، مگر تین شرطوں کے ساتھ ، ایک یہ کہ آپ روزانہ ایک اشرفی دیں گے ، دوسری یہ کہ آخری صف میں بیٹھیں گے، تیسری یہ کہ کوئی بات نہیں پوچھیں گے ۔

میر سید شریف نے عرض کی کہ یومیہ ایک اشرفی دینے کی شرط میں اتنی ترمیم فرمائیں کہ جب بھی میں ایک اشرفی دوں گا آپ سبق پڑھائیں گے ۔ مبارک شاہ نے کہا صحیح ہے، ایسا ہی کروں گا۔ اب میر سید صاحب سوچ میں پڑ گئے کہ فی سبق ایک اشرفی کہاں سے لاؤں۔ مزدوری کروں یا جھولی پھیلا کر بھیک مانگوں ۔ وہ اسی فکر میں تھے کہ ایک رئیس کو پتا چلا کہ یہاں ایک سید طالب علم آیا ہے، جو بہت مفلس او رپریشان حال ہے تو اس نے میر سید کو بلایا او ران سے حال احوال پوچھا۔ میر سید نے پورا ماجرا سنایا۔ رئیس نے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، آپ ہر روز مجھ سے ایک اشرفی لے لیا کرو اور دل جمعی سے اپنا سبق پڑھ لیا کرو ۔

چناں چہ میر سید شریف نے شرط کے مطابق سبق پڑھنا شروع کیا تو ایک ہفتہ کے بعد مبارک شاہ نے لی ہوئیں ساری اشرفیاں واپس کر دیں اور فرمایا کہ اشرفی لینے سے میرا مقصد یہ تھا کہ آپ کا شوق علم معلوم کروں، سو معلوم کر لیا۔ اس لیے آئندہ یہ شرط نہیں ہے، البتہ باقی دو شرطیں اب بھی برقرار ہیں۔ میر صاحب کے لیے تیسری شرط بھی بڑا امتحان تھا، کیوں کہ وہ میر سید تھے، سبق کے دوران بے شمار شکوک شبہات پیدا ہوتے تھے، ان کے ازالہ کے لیے جوش میں آجاتے تھے ، مگر اجازت نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہوجاتے۔

مبارک شاہ ایک دفعہ چپ چاپ مدرسہ کے احاطے میں آئے، تاکہ معلوم کریں کہ طلباء تکرار یا مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں تو ایک حجرے میں ایک طالب علم اپنے ساتھ عجیب انداز سے سبق دہرا رہا ہے، کہتا ہے کہ مصنف نے یوں لکھا ہے، شارح نے اس طرح تشریح کی ہے، استاذ نے یوں پڑھایا ،مگر میری توجیہ اس میں یہ ہے۔ استاذ نے جب اس کی توجیہ پر غور کیا تو بہت عمدہ پایا، اس پر استاذ بہت زیادہ خوش ہوئے، طالب علم کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ میرسید شریف ہے اور ہر رات اس قسم کا تکرار کرتا ہے ۔ اگلی صبح جب مبارک شاہ مسند درس پر بیٹھے تو میر سید کو آخری صف سے بلاکر پہلی صف میں اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ جو پوچھنا چاہو، پوچھو! اس کے بعد میر سید شریف کو وہ رتبہ ملا جو سب کو معلوم ہے ۔ (فضل الباری، ج2 ص:65 ظفر المحصلین، ص:326)

شیخ سعدی نے بالکل سچ فرمایا #
        چو شمع پئے علم باید گداخت
        کہ بے علم نہ توان خدا را شناخت
علم کے لیے موم بتی کی طرح پگھلنا چاہیے، کیوں کہ علم کے بغیر الله تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ 
Flag Counter