Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 17
گستاخانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا عبرت ناک انجام
محمد عبدالله العرفانی

سلطان نورالدین زنگی  ایک عبادت گزار، شب بیدار بادشاہ تھا، ایک عظیم الشان سلطنت کا فرماں روا ہونے کے باوجود ایسا مردِ درویش تھا جس کی راتیں مصلیٰ پر گزرتی تھیں اور دن میدان جہاد میں۔ مصر کے اس مجاہد، دین دار بادشاہ کی حکومت حرمین شریفین تک تھی اور یہ سارا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا۔ وہ عظمت وکردار کا ایک عظیم پیکر تھا ،جس نے اپنی نوک شمشیر سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب لکھا۔ سلطان نورالدین زنگی رات کا بیشتر حصہ عبادت ومناجات میں گزارتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ نماز عشا کے بعد بکثرت نوافل پڑھتا او رپھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر سینکڑوں مرتبہ درود شریف بھیج کر تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ جاتا تھا۔ چند ساعتوں کے بعد پھر نماز تہجد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا تھا او رصبح تک نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتا۔

خواب میں زیارت رسول صلی الله علیہ وسلم
557ھ،1162ء کی ایک شب وہ اورادوفضائل سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹا تو خواب میں تین بار حضور انور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ سلطان نے متواتر تین رات حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ ہر مرتبہ دو آدمیوں (انسانی شیطانوں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرور کونین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نور الدین ! یہ دو آدمی مجھے ستارہے ہیں۔ ان کے شر کا استحصال کرو۔“ نور الدین یہ خواب دیکھ کر سخت مضطرب ہوا، بار با ر استغفار پڑھتا اور رو رو کر کہتا۔ ” میرے آقا ومولا کو میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ نہیں ہو سکتا۔ میری جان ، مال، آل واولاد سب آقائے مدنی صلی الله علیہ وسلم پر نثار ہے۔ خدا اس دن کے لیے نو رالدین کو زندہ نہ رکھے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم غلام کو یاد فرمائیں اور وہ دمشق میں آرام سے بیٹھا رہے۔“ #
        ایک عشقِ مصطفی ہے اگر ہو سکے نصیب
        ورنہ دھرا ہی کیا ہے جہان خراب میں
        فاتح کون ومکاں ہے جذبہ عشقِ رسول
        کچھ نہیں ہوتا یہاں بے گرمئی سوزِ بلال

سلطان کی بے چینی
نورالدین زیارت رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رارشاد رسول کے بعد بے چین ہو گیا او راسے یقین ہو گیا کہ مدینہ طیبہ میں ضرور کوئی ایسا ناشدنی واقعہ ہوا ہے، جس سے رحمت دارین صلی الله علیہ وسلم کی روح اقدس کو تکلیف پہنچی ہے ۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی اس نے بیس اعیانِ حکومت کو ساتھ لیا اور بہت ساخزانہ گھوڑوں پر لدوا کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ دمشق کے لوگ سلطان کے یکا یک عازمِ سفر ہونے سے بہت حیران ہوئے، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ اصل بات کیا ہے؟

اہل مدینہ کی دعوت
دمشق سے مدینہ منورہ پہنچنے میں عام طور پر بیس پچیس دن لگتے تھے لیکن سلطان نے یہ فاصلہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا اور سولہویں دن ہی مدینہ طیبہ جا پہنچا۔ اہل مدینہ اس کی اچانک آمد پر حیران رہ گئے۔ سلطان نے آتے ہی شہر میں آنے جانے کے دروازے بند کر دایے۔ پھر منادی کرادی کہ آج تمام اہل مدینہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں، تمام اہل مدینہ نے نہایت خوش دلی سے سلطان کی دعوت قبول کی۔ اس طرح مدینہ منورہ کے تمام لوگ سلطان کی نظر سے گزر گئے، لیکن ان میں وہ دو آدمی نہ تھے جن کی شکلیں اسے سچے خواب کے ذریعے دکھائی گئی تھیں۔

بزرگ صورت شیطان
سلطان نے اکابر شہر سے پوچھا کہ کوئی ایسا شخص تو باقی نہیں رہا جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکا ہو؟ انہوں نے کہا کوئی ایسا تو نہ رہا، البتہ دو خدار رسیدہ مغربی زائر، جو مدت سے یہاں مقیم ہیں، نہیں آئے۔ یہ دونوں بزرگ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر کچھ وقت بچتا ہے تو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ،سوائے اس کے کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔

سلطان کا خون کھول گیا
سلطان نے حکم دیا ان دونوں کو بھی یہاں لاؤ۔ جب وہ دونوں سلطان کے سامنے حاضر کیے گئے تو اس نے ایک نظر ہی میں پہچان لیا کہ یہی وہ دو ( شیطان صفت) آدمی ہیں جو اسے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سلطان کا خون کھول اُٹھا، لیکن تحقیق حال ضرور ی تھی، کیوں کہ ان (مکاروں) کا لباس زاہدانہ اور شکل وصورت مومنوں کی سی تھی۔ سلطان نے پوچھا تم دونوں کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے بتا یاکہ روضہٴ اقدس کے پا س ایک مکان کرایہ پر لے رکھا ہے اور اسی میں ہر وقت ذکر الہٰی او رعبادت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں۔

خوف ناک انکشاف
سلطان نے وہیں ان دونوں کو اپنے آدمیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور خود اکابر شہر کے ہم راہ اس مکان میں جا پہنچا، یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا، جس میں نہایت مختصر سامان مکینوں کی زاہدانہ زندگی کی خبر دے رہا تھا، اہل شہر (دھوکے سے) ان دونوں کی تعر یف میں رطب اللسان تھے اور بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نظر نہیں آتی تھی، لیکن سلطان کا دل مطمئن نہ تھا اس نے مکان کافرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع کیا۔ یکا یک سلطان کو ایک چٹائی کے نیچے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا، چٹائی ہٹا کر دیکھا تو وہ ایک چوڑی سل تھی، اسے سر کایا گیا توا یک خوف ناک انکشاف ہوا۔ یہ ایک سرنگ تھی جو روضہٴ اقدس کی طرف جاتی تھی ۔سلطان سارا معاملہ آناً فاناً سمجھ گیا اور بے اختیار منہ سے نکلا: صدق الله وصدق رسولہ النبی الکریم․

بھیڑ نما بھیڑئیے
سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئے، سلطان اب قہر وجلال کی مجسم تصویر بن گیا اور اس نے دونوں ملعونوں کو پابہ زنجیر کرکے اپنے سامنے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے ان سے نہایت غضب ناک لہجے میں مخاطب ہو کر پوچھا۔ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو ؟ اور اس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے ؟ ۔ دنووں ملعونوں نے نہایتبے شرمی اور ڈھٹائی سے جواب دیا۔” اے بادشاہ! ہم نصرانی ہیں ( بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یہ دونوں یہودی تھے) اور اپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کی لاش چرانے پر مامور ہوئے ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کار ثواب نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہمارا کام بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا تم نے ہمیں گرفتارکر لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ سرنگ حضرت عمر  فارق اعظم رضی الله عنہ کے جسد مبارک تک پہنچ چکی تھی، یہاں تک کہ ان کا ایک پاؤں ننگاہو گیا تھا۔

گستاخانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا انجام
سلطان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا، اس نے تلوار کھینچ کر ان دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑا دیں اور ان کی لاشیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں ڈلوادیں۔ یہ کام انجام دے کر سلطان پر رقت طاری ہو گئی اور شدت گریہ سے اس کی گھگی بندھ گئی۔ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا تھا او رکہتا تھا: زہے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس غلام کا انتخاب فرمایا #
        منت منہ کہ خدمت سلطان ہمیں کنی
        منت شناس ازوکہ بخدمت گذاشت
﴿یختص برحمة من یشاء والله ذوالفضل العظیم﴾․

جب ذرا قرار آیا تو سلطان نے حکم دیا کہ روضہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے گرد گہری خندق کھود کر اسے سیسہ سے بھر دیا جائے، چناں چہ اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا ،اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا، تاکہ زمانے کی دست بر دسے ہر طرح محفوظ رہے، آج بھی اہل مدینہ سلطان نورالدین کا نام نہایت محبت واحترام سے لیتے ہیں او راس کا شماران نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پر سید البشر صلی الله علیہ وسلم نے خود اعتماد کااظہار فرمایا اور ان کے محب رسول ہونے کی تصدیق فرمائی #
        یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
Flag Counter