نوجوانوں کے لئے نقشِ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم
مولانا فضل الرحیم اشرفی
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم وتکریم کی توالله تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقررکرے گاجواس کی تعظیم کرے گا۔……(جامع ترمذی:2022)
زمانہ جوانی میں انسانی قوتیں بھی اپنے عروج پر ہوتی ہیں ،سوچنے کی طاقت ،عمل کی قوت، غصہ کی طاقت اور ہر قسم کی قوت پراسے نازبھی ہوتا ہے، اس لیے جوانی میں انسان سر کشی کی طرف بھی زیادہ مائل ہوتاہے،لیکن اگر انسان زمانہ جوانی میں سنبھل جائے تو یہ واقعی ایک مثالی جوان ہوتا ہے، غالباً اسی لیے شیخ سعدی علیہ الرحمة نے فرمایا:
در جوانی توبہ کردن شیوئہ پیغمبری
جوانی میں پرہیز گاری کی زندگی گزارنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور واقعی بہت بڑا کمال ہے،رسول صلی الله علیہ وسلم کواور بہت سے کمالات میں سے ایک کمال الله تعالیٰ نے یہ بھی عطا فرمایا تھا کہ جوانی ہی میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا لوگوں سے اعتراف کروالیا ۔ نبّوت ملنے سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم چالیس سال تک کی جوانی کی زندگی اپنی قوم میں گزار چکے تھے ، اس زندگی کی پوری تصویر اور اس کا ہر رخ آج تک محفوظ ہے۔ یہ چالیس سالہ زندگی سچّائی ، دیانت اور خدمتِ خلق جیسے اعلی اوصاف سے بھر پور ہے، جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو دشمنوں نے بھی صادق اور امین کے لقب سے پکارا ، جب آپ کو نبّوت ملی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سچّائی کے ثبوت میں اپنی اُسی چالیس سالہ زندگی کو پیش فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی جان کے دشمن، آپ کے دین اور دعوت کے دشمنوں کو بھی اس بات کی ہمت نہ ہو سکی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھا سکیں۔
رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی جوانی کی حالت میں پاکیزہ زندگی ہے، ایسی صاف ستھری اور اخلاق سے آراستہ زندگی، جس کے دوست ودشمن سب ہی معترف ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو جھوٹ بولتے نہیں سنا اور اسے کبھی گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔
آج ہماے معاشرے میں نوجوانوں کے سب سے زیادہ عیب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہوتے ہیں ۔ اس لیے معاشرے کے بزرگ آج کے نوجوانوں پر کوئی ذمہ داری ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، جبکہ نبیِ کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے زمانے میں حجر اسود کی تنصیب جیسے ذمہ دارا نہ کارنامے انجام دیے۔
جب بارشوں کی وجہ سے سیلاب آیا، کعبہ کا کچھ حصہ گر گیا تو مختلف قبیلوں نے مل کراسے دوبارہ تعمیر کیا ،حجرِ اسود لگانے کا سوال اٹھا تو فساد کا خطرہ ہوا ، طے ہوا کہ جو سب سے پہلے کل صبح بیت الله میں داخل ہوگا وہ رکھے گا، سب نے پہلے پہنچنے کی کوشش کی،لیکن نبیِ کریم صلی الله علیہ وسلم پہلے سے موجود تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی عمدہ تدبیر کے ساتھ حجرِ اسودر کھوایا اور ایک بہت بڑا مسئلہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نوجوانی میں حل فرمایا۔ جوانی میں آپ صلی الله علیہ وسلم محبت اور رحمت کی مثال تھے ، کسی کی تکلیف کو دیکھ کر مدد کے لیے تیار ہو جاتے ، ایک بڑھیا کو دیکھا، بوجھ اٹھائے جارہی تھی ، کمر بوجھ تلے جھکی جارہی تھی ، پتھر دل لوگ ہنس رہے تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر بوجھ اپنے کندھے پر رکھا اور لوگوں سے کہا:ایک کمزور بڑھیا کا مذاق اڑانا جوانوں کا شیوہ نہیں، مردانگی یہ ہے کہ اس کا بوجھ اٹھا دو۔جوانی میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے وقت کا کافی حصہ بوڑھوں، بیماروں اور معذور لوگوں کی دیکھ بھال پر صرف فرماتے تھے۔ ان کے چھوٹے بڑے کام کرتے ، ایک روز ایک قریشی سردار نے کہا کتنی شرم کی بات ہے، تم اپنے خاندان کو بٹہ لگاتے ہو ،تم اونچے گھرانے کے چشم وچراغ ہو اور اس طرح غریبوں کے کام کرتے ہو۔ رحمتِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میرا پردادا ہاشم قریش کا سردار تھا، مگر وہ بھی سب کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو یتیموں سے بھی بڑی محبت تھی ،ایک بچّے کو کمزور لباس میں دیکھا، اس سے وجہ پوچھی، وہ رو پڑااور بھوک کی شکایت کی،آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، آپ صلی الله علیہ وسلم لڑکے کو گھر لے گئے، کھانا کھلایا اور کپڑے پہنائے۔
جوانی میں معاشرتی ذمہ داریاں پیش آئیں تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، تجارت کی کام یابی کاعلم مکہ کی مال دارخاتون بی بی خدیجہ کو ہوا توکار ندوں کے ذریعہ شام کے سفرِ تجارت پر بھیجا، اپنے معتبر غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسی دیانت او رمحنت سے کام کیا کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو توقع سے زیادہ منافع ہوا۔ میسرہ کے ذریعہ نیکی اور دیانت کا معیار سنا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر25 سال او رحضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی عمر40 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی صورت میں ایک نیک اور خدمت گزار بیوی ملی، ان کے ہم راہ بڑی پرسکون او رخوش گوار جوانی میں خانگی زندگی گزاری، ان سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں، بیٹے چھوٹی عمرمیں وفات پاگئے ، باقی ان چاروں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں، کام یاب جوانی کی زندگی میں ایک کام یاب انسان، ایک کام یاب باپ، خاوند اور پھر کام یاب تاجر کی زندگی گذاری، یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو نقوش ملتے ہیں ان میں بنیادی اور بہت گہرا نقش تو یہ ہے کہ آج کا جوان اپنی جوانی میں سچائی اور دیانت اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں، جن کے ہم راہ وہ دن رات گذارتا ہے، پھر اس کے رشتہ دار اس کی خوبیوں کے معترف ہوں اور آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمہ داریاں آجائیں تو یہ کام یابی سے ان ذمہ داریوں کو نبھائے اور یہی خوبیاں اس قدر کمال کی ہوں کہ وہی اس کی شادی کا سبب بن جائیں او راس کے بعد خاوند اور باپ بننے کے بعد اپنی پوری زندگی میں ہر مرحلہ کے اندر رسول صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے راہ نمائی حاصل کرتا رہے۔