Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 17
گلوبل ولیج
عبید اللہ خالد
آج کی دنیا علم کی دنیا ہے؛ آج کی دنیا معلومات کی دنیا ہے؛ آج کی دنیا شعور کی دنیا ہے؛ آج کی دنیا آگہی کی دنیا ہے۔ اس علم اور شعور نے انسان کو زمین کی سرحدوں سے آگے بڑھادیا، وہ مریخ تک پر قبضہ جمانے کے قابل ہوگیا، میڈیا نے زمین کے چپے چپے کی معلومات اس کی جھولی میں بھردیں، پل پل کی خبریں اسے ملنے لگیں۔ انسان نے اسے ”انفرمیشن ایج“ کا نام دیا۔

انفرمیشن ایج میں انفرمیشن کی لا محدود اور لاتعداد بہتات نے انسان کو بہت سی ضروری اور بے شمار غیر ضروری معلومات سے بھی آگاہ کردیا اور آج یہ بحث چھڑگئی کہ کون سی معلومات کا حصول ضروری ہے اور کون سی معلومات کا حصول غیر ضروری۔ نیز، لامحدود اور لامتناہی معلومات نے بلا تخصیص عمر ہر ایک کا گھیراؤ کرلیا۔ آج کا کم سن بچہ بھی ایسی بہت سی معلومات رکھتا ہے جو فطری اور نفسیاتی اعتبار سے اس کی آئندہ زندگی اور اس کی ذہنی اورجسمانی صلاحیتوں کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔ لیکن اسے یہ معلومات فراہم کی جارہی ہیں اور اس کے والدین اور اس کے اساتذہ کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ ان کے بچوں کو ملنے والی انفرمیشن ان کے لیے مفید ہے یا خطرناک؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کون سی معلومات کس کے لیے مفید ہیں اورکون سی معلومات کس کے لیے نقصان دہ؟ تاہم اس سے بھی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایک درمیانی سطح کا آدمی جتنی معلومات صبح سے رات تک حاصل کرتا ہے، وہ اس کے لیے ضروری ہیں؟ کیا ان معلومات کے بغیر اس کا زندہ رہنا اور زندگی گزارنا ممکن نہیں ؟ کیا یہ معلومات جو الیکٹرانک میڈیااور دیگر ذرائع اس تک پہنچا رہے ہیں، اگر اس تک نہ پہنچیں تو کیا اس کی زندگی کو کوئی خطرہ ہوگا؟ کیا یہ معلومات اس کی بڑھوتری اور ترقی میں کوئی کردار ادا کررہی ہیں؟

ان تمام سوالوں کا جواب ہے: نہیں!
تو پھر اس انفرمیشن ایج کے گورکھ دھندے میں پھنس کر ہم اپنا ہی نقصا ن کررہے ہیں․․․ دنیا کا بھی اور دین کا بھی۔

آج کا انسان دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا علم تو رکھتا ہے، لیکن اپنے بنانے والے کا علم نہیں رکھتا۔ آج کے آدمی کو ایسی بے شمار معلومات حاصل ہیں جو اس کے کام آنے والی نہیں، لیکن وہ زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانے والی معلومات سے بے بہرہ ہے۔ اسے یہ شعور تو حاصل ہے کہ وہ اور یہ پوری کائنات کیسے کام کررہے ہیں، لیکن اسے یہ شعور نہیں کہ اسے اور اس پوری کائنات کو کیوں پیدا کیا گیا ہے۔ وہ زمین کے دوسرے کونے پر ہونے والے حادثے سے تو آگاہ ہے، مگر خود اپنے وجود پر اس کی کیا ذمے داری ہے، اس سے ناواقف۔ آج کا انسان کائنات کی پیدائش کی تاریخ تو (بہ زعم خود) جان چکا ہے، لیکن اپنے خالق سے نا آشنا ہے۔

معلومات کے اس دور میں ہر طرف معلومات کا انبار ہے، مگر زیادہ تر یہ معلومات انسان سے متعلق نہیں کہ جو اسے آگے سے آگے بڑھاسکیں۔ بہ قول شخصے، چیزوں پر محنت کی گئی تو چیزوں کی اہمیت اور وقعت دلوں میں آگئی؛ انسان پر محنت نہ کی گئی، اس لیے انسان کی اہمیت و وقعت کھوگئی۔ انفرمیشن ایج نے انسان کو اپنے ارد گرد چیزوں کی معلومات تو خوب فراہم کردیں اور پھر یہ چیزیں بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتی چلی گئیں، لیکن خود انسان اپنے آپ سے ناواقف اور جاہل ہوتا چلاگیا۔ اسے آج کائنات کے چپے چپے کا علم تو ہے مگر اسے خود اپنے آپ کی شناخت نہیں۔ وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ دنیا کے دوسرے کونے پر کیا ہورہا ہے، مگر اسے یہ خبر نہیں کہ اس کے قلب میں کیا بگاڑ اور تباہی واقع ہوچکی ہے۔ انفرمیشن ایج نے پوری دنیا کو سمیٹ کر گلوبل ولیج تو بنادیا ، مگر خود انسان کو اپنے آپ سے بہت دور کردیا ہے۔ 
Flag Counter