Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 18
رسول اکرم ا نے رمضان کیسے گزارا؟
محترم مختار فاروقی

ماہِ صیام کی آمد آمد ہے اور اس بابرکت اور عظیم مہینے کی عبادت کی اہمیت ہر باعمل مسلمان پر واضح ہے۔ تاہم ہمارا عام تصور یہ ہے کہ اس ماہ میں اپنی مصروفیات اور ہو سکے تو ہر طرح کے میل جول کو منقطع کرکے بس دن رات عبادت میں لگے رہنا ہی شاید اس ماہِ صیام کا حق ادا کرنا ہے او راس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم عام طور پر فضائلِ رمضان المبارک میں احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم اور تفصیلات ہی وہ بیان کرتے ہیں جو اسی مزاج کی حامل بھی ہیں اور اسی سوچ کو پختہ تر کرنے والی ہیں، ہمارے ہاں گزشتہ پانچ چھ سو سال کے بزرگانِ دین کے تذکروں میں جو نقشہ ماہِ صیام کی مصروفیات کا سامنے آتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ بس اسلاف کا طریقہ یہ ہے کہ اس ماہ ہر قسم کا سفر ترک کر دیا جائے اور عوام سے میل ملاقات میں وقت لگانے کی بجائے بس عبادات الہٰی او رنیکی کرنے میں وقت گزارا جائے۔

الله سبحانہ وتعالیٰ کے کلام قرآن مجید کے سیاق کلام میں دیکھیں تو یہاں عبادتِ صوم اور ماہِ صیام کی مصروفیات او رتفصیلات کے بیان والے رکوع سے چند رکوع پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر کعبہ کا ذکر او رپھر عظیم المرتبت دعا کا، جس کے اظہار میں تو اگرچہ 2500 سال لگ گئے، مگر کامل او راکمل ترین نبی ، بلند پایہ رسول اور ختم المرسلین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے۔ بقول حالی #
        ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا
        دعائے خلیل اور نوید مسیحا

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے آغاز پر ہی اسی بیت الله کی تولیت کی ” حق بحق دار رسید“ کے مصداق، سپردگی یعنی تحویل قبلہ کا تذکرہ ہے او راس کی آئندہ مسلمانوں کی زندگی میں مرکزی اہمیت کا، کہ ہر روز نماز پنج گانہ کے لیے تم مسلمانو! جہاں کہیں بھی ہو تمہیں اس قبلہ کی طرف رخ کرنا ہو گا۔

اس اہم ہدایت کی بعد شانِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کا ذکر ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے تم حقیقت سے واقف نہیں تھے، یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں وہ باتیں عام انداز میں سکھا رہے ہیں جو یہ جانتے نہیں تھے اور اس شاندار تذکرے کے ساتھ صبر اور صلوٰة کا ذکر ہے، بالواسطہ جنگوں او رکفار سے مقابلے کا ذکر ہے او راس راہ میں شہادت کے اعلیٰ مقام کا ذکر ہے کہ شہید تو زندہ ہوتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو۔

اس پس منظر میں بات یہود کے تذکرے سے ہوتی ہوئی آیاتِ الہی او رغلط قیادتوں اورگمراہ رہنماؤں کی ملمع سازیوں کے حوالے کے بعد شیطان کے ذکر پر آتی ہے ، حلال وحرام اور یہود کے انکار قرآن مجید پر رکوع ختم ہوتا ہے ۔

اب یہاں ”نیکی کی حقیقت“ کا تذکرہ ہے، یہود کی معہود ذہنی کی نفی، کہ مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنا ہی کل نیکی نہیں، بلکہ نیکی تو الله اور آخرت کو او رپیغمبر یعنی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو ماننے میں ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم جو نیکی کا تصور لائے ہیں اس میں جہاد اور قتال ہی نیکی کی اعلیٰ شکل ہے، جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی تفصیلی روایت جو سفر تبوک سے متعلق ہے میں سامنے آتی ہے.

بعد ازاں اسی جہاد سے پیدا شدہ مسائل یعنی شہادتوں کے بعد وراثت اور دیگر تفصیلات کے بعد روزے کی فرضیت اور اس کے احکام اور حکمتیں مذکور ہیں او راس رکوع میں روزے کی عبادت کے ساتھ تنہا کی زندگی کی تخفیف اور ازدواجی متاہل زندگی کی بلند شان کا اشارہ ہے اور ساتھ ہی کسب حلال او راکل حلال کا ذکر ہے ۔ اس رکوع کے بعد حج اور ساتھ ہی پھر جنگ کا ذکر ہے ۔ گویا قرآن مجید میں سیاق وسباق ، جہاد ، جنگ اور اس کے متعلقہ مسائل ہی کے درمیان ماہِ صیام کا ذکر ہے اور اس ماہ کی فضیلت اور قرآن مجید کی فضیلت کا ذکر ہے۔

اب تک کی گفت گو کا حاصل یہ ہے کہ روزہ ایک تربیت ہے اورقرآن مجید کا تراویح میں سننا ایک روحانی ترقی کا ذریعہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ ساری محنت مشقت کس مقصد کے لیے ہے ؟ یہ تیاری آئندہ کن مشکل مراحل کی طرف اشارہ کر رہی ہیں؟، اس استخراج کی کوشش راقم خود اپنے ناقص ذہن سے کرے گا تو ایک ناپاک جسارت او رچھوٹا منھ او ربڑی بات ہو گی، جس کا راقم اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر سوچ بھی نہیں سکتا کہ دینی معاملات میں کوئی بات خیر القرون سے ہٹ کر یا بلاد لیل کی جائے۔

آئیے، اس ساری بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کے ماہ وسال اور رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کارناموں کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے رمضان المبارک کیسے گزارے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھیوں یعنی صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم نے آپ کی معیت او راتباع میں یہ وقت کیسے صرف کیا؟

یہ بات طے ہے کہ رمضان المبارک کے روزے 2 ہجری میں فرض ہوئے اور اس کے احکام دو تین سالوں میں مکمل ہوئے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورة البقرہ کا رکوع 23 خود اشارہ کر رہا ہے کہ اس کی آیات میں زمانہ نزول کا فصل موجود ہے۔

اب 2 ہجری کے رمضان المبارک سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصال مبارک یعنی ربیع الاول11 ہجری تک 9 ماہ صیام آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آئے ہیں ۔ یہ 9 ماہ صیام آپ نے کیسے اور کن حالات میں گزارے اور اپنے ساتھیوں (رضی الله عنہم) کی کیا تربیت فرمائی او رکیا پیغام دیا؟ وہ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کی کتابوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

رمضان المبارک2 ہجری
یہ پہلا ماہِ صیام ہے، بڑے ذوق وشوق سے مدینہ منورہ میں اس عبادت کا آغاز ہوا، اہتمام کیا گیا۔ ساتھ ہی مکہ میں جووادی نخلہ میں مہم حضرت عبدالله بن حجش رضی الله تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کی تھی اور ان کے ہاتھوں یکم رجب2 کو ایک کافر مارا گیا، اس کی اسارت اور ردّ عمل مکے میں جاری تھا اورنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھے ۔ ( حضرت) ابوسفیان کی زیر قیادت جو قافلہ ملک شام جارہا تھا ( جمادی الاولی2 ہجری، مطابق نومبر625ء) میں اس کے تعاقب کے لیے ایک مہم روانہ کر چکے تھے۔

اب وہ قافلہ بھی واپس آرہا تھا اور اس کی اطلاعات تھیں اور قریش بھی جو انتقام میں جل بھن کر جنگی تیاریوں میں مصروف تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک کے دوسرے ہفتے میں 313 جانثاروں کو ساتھ لے کر نہایت قلیل تیاری کے ساتھ قافلے کا راستہ روکنے کا ارادہ کرکے مدینہ سے نکلے او راس سفر میں ہی الله تعالیٰ نے فتح کا وعدہ فرمایا اور اپنی تدبیر سے اہل ایمان اور کافروں کو بدر پہنچا دیا جہاں الله سبحانہ وتعالی نے تاریخی فتح دے کر ”یوم بدر“ کو” ایام الله“ میں سے اہم دن بنا دیا ۔ یہ واقعہ17 رمضان المبارک کا ہے ۔ گویا یہ پہلا رمضان المبارک بدر کی طرف پیش قدمی اور جنگ کے بعد کے حالات سے نپٹتے نپٹتے گزر گیا۔ مسلمانوں کی پہلی عید، میدان بد رکی شان دار کام یابی، سورہٴ روم میں موعود یہود ونصاریٰ کی فتح کی خوش خبری کا مدینہ پہنچنا اور بدر کی فتح پر آس پاس کے علاقوں سے تہنیتی وفود کے جلو میں گزری #
        عید آزا داں شکوہٴ ملک دین
        عید محکوماں ہجوم مؤمنین

رمضان المبارک3 ہجری
رمضان المبارک3 ہجری آپ صلی الله علیہ وسلم او رآپ کے صحابہ رضی الله تعالی عنہم نے مدینے میں گزارا، اس دوران قریش کی سال بھر کی جنگی تیاریوں کی تکمیل کی اطلاعات آرہی تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ مشوروں میں وقت گزار رہے تھے کہ یکایک آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایک قاصد کے ذریعے مکہ سے تین ہزار افراد کا لشکر روانہ ہونے کی اطلاع ملی، جو بھرپور تیاری کے ساتھ روانہ ہوا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تحمل سے مشورے کیے اور دفاعی او رجنگی منصوبہ بندی فرمائی۔

عید الفطر اسی منصوبہ بندی میں گزاری ، قریش کا لشکر 6شوال3ھ کو مدینہ اترا ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ باہر نکل کر رات گزاری اور 7 شوال 3ھ کو جنگ اُحد کا دن ہے ۔ یہ دن یوں بھی بہت اہم ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زخمی ہوئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے۔ اس جنگ میں 70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں حضرت امیر حمزہ ، حضرت معصب بن عمیر اور حضرت حنظلہ رضی الله تعالی عنہم بھی شامل تھے۔ انہیں حالات میں شوال3 ھ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحب زادی فاطمہ رضی الله عنہا کا نکاح حضرت علی سے ہوا۔

رمضان المبارک4 ہجری
شعبان4 ہجری میں کفار کے عہد کے مطابق ایک معرکہ پیش آیا، جسے غزوہ بدر دوم کہتے ہیں ،اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ واپسی پر رمضان کا ماہ مبارک آیا، جو آپ نے مدینے میں گزارا۔

رمضان المبارک 5 ہجری
الرحیق المختوم کے مؤلف کے بقول غزوہ احزاب شوال5 ھ میں پیش آیا تھا۔ دو تین ماہ قبل سے ہی قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاعات مدینہ پہنچ رہی تھیں ، عرب بھر سے قریش کے حلیف (اتحادی ) قبائل کے لشکر تیار تھے او رمدینہ پر حملہ کے منتظر اس پس منظرمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خندق کھودنے کا حکم دیا، یہ آپ کی ذاتی بصیرت کا شاہ کار ہے۔ یہ خندق تقریباً9 کلو میٹر لمبی تھی او رمسلمانوں نے نہایت جاں فشانی سے اس کی کھدائی کی تھی، خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اس میں شریک رہے، سردی کا موسم تھا۔ ماہ رجب ، ماہ شعبان او ررمضان المبارک 5ھ کا ایک حصہ اسی خندق کی تیاری میں گزر گیا اور باقی رمضان المبارک، شوال کا مہینہ لشکر کی آمد اور حملہ کے خطرے میں گزرا۔ شوال میں 28 دن یہ محاصرہ رہا، تاہم کفار کا لشکر بغیر فتح کے نامراد لوٹ گیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بڑی کام یابی تھی ۔ یہ رمضان المبارک بھی جنگی تیاریوں اور پہروں کے جلو میں او رجہاد کے ماحول میں گزرا۔

رمضان المبارک 6 ہجری
2 شعبان کو غزوہ بنی المصطلق کے لیے روانگی ہوئی اور اواخر شعبان میں واپسی، اسی غزوہ میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا پر قذف کا واقعہ پیش آیا، جس سے 40 روز تک آپ صلی الله علیہ وسلم گھریلو معاملات میں منافقین کے رویے کی وجہ سے سنگین کیفیت سے دو چار رہے، پورا رمضان المبارک ظاہری طور پر ایک طرح کی بے سکونی میں گزرا۔

رمضان المبارک7ہجری
صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان عمرہ نہیں کر پائے تھے، اس لیے قضائے عمرہ کے لیے 7 ھ میں روانگی ہوئی۔ صلح کے بعد امن کا زمانہ رہا اور ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد یہ پہلا رمضان المبارک ہے جو نہایت سکون کے ساتھ گزارا اور صحابہ کو روزے کی برکات اور احکام سکھائے اور 130 صحابہ کو ایک مہم کے لیے مقام میفعہ روانہ فرمایا۔

رمضان المبارک8 ہجری
8 ہجری میں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی حدیبیہ کا معاہدہ قریش کی بدعہدی کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ حضرت ابو سفیان اس کی تجدید کی کوشش کے لیے مدینہ حاضر ہوئے، مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ابو سفیان سے ملاقات ہی نہیں فرمائی ۔ حضرت ابوسفیان کی واپسی کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور تیاری کے بعد سفر کا آغاز کیا اور دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ کے باہر پڑاؤ ڈالا۔ حضرت ابوسفیان رضی الله عنہ ایمان لے آئے اور پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، بغیر جنگ کے مکہ فتح ہو گیا۔ یہ واقعہ20 رمضان المبارک8 ھ کا ہے۔15 دن مکہ میں قیام رہا۔ گویا اوائل رمضان المبارک سے ہی مکہ روانگی ہو گئی تھی۔ یہ ماہ صیام بھی جہاد اور جنگ کی کیفیات میں بسر ہوا۔

رمضان المبارک 9 ہجری
یہ ماہ صیام سفر تبوک میں صرف ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے اس جنگ کی تیاری فرمائی ، نفیر عام دی، 30000 کا لشکر لے کر مقام تبوک روانہ ہوئے۔ ایک ماہ جانے میں صرف ہوا، ایک ماہ کے لگ بھگ وہاں قیام رہا ،قیصر روم جنگ میں مقابلہ پر نہیں آیا۔ واپسی کا سفر رمضان المبارک میں ہوا اور شوال کے اوائل میں مدینہ تشریف آوری ہوئی۔ یہ ماہ صیام پورا سفر جہاد میں گزرا۔

رمضان المبارک10 ہجری
یہ ماہ صیام جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً چھ ماہ پہلے آیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں گزارا اور چوں کہ 8 اور 9ھ کے ماہ صیام میں آپ صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں مقیم نہ ہونے کی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے تھے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے پورے ماہ کا اعتکاف فرمایا۔ والله اعلم

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
یہ ماہ صیام مسلمانوں کی فوجی قسم کی ایک تربیت کرتا ہے اور روحانی برکات توجو ہیں وہ ہیں، ظاہری برکات میں سے بھی ڈسپلن اور نظم وضبط کا عادی بناتا ہے، اس نظم وضبط کاہدف اور استعمال کیا ہے ؟ یہ آج کا عام مسلمان اور رہنمایانِ قوم نہیں سوچتے۔ صوفیائے کرام اپنے مریدوں کی تربیت کر رہے ہیں، مگر اس تربیت کا ہدف کیا ہے ؟ یہ بات بھی بتانا اور عام کرنا ضروری ہے ۔ اس تربیت کا ہدف سوائے جہاد فی سبیل الله کے نہیں ہے، صوفیائے کرام مصلحتاً مریدین کو یہ ہدف نہیں بتاتے کہ پھر وہ جلد یا بدیر جہاد پر جانے کا مطالبہ کریں گے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ تربیت میدان جہاد میں بھی دی اور سفر جہاد میں بھی دی اور روزے کی برکات کا صحیح مصرف اور صحیح استعمال سکھایا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مدنی دور میں 9 ماہ صیام آئے، جن میں رمضان2 ھ جنگ بدر میں اور رمضان3ھ جنگ احد سے قبل کی تیاری میں صرف ہو گئے، رمضان5ھ جنگ احزاب سے قبل خندق کی کھدائی اور جنگی تیاریوں میں گزرا، رمضان6 ھ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر منافقین کی شرارت کے نتیجہ میں واقعہ افک کے پریشان کن حالات اورکرب میں گزرا، رمضان المبارک8 ھ فتح مکہ کے سفر اور فتح مکہ اور اس کے بعد جنگی انتظامات میں صرف ہو گیا،9 ھ کا ماہ صیام قیصر روم کے مقابلے میں جنگ کے لیے لشکر کی روانگی، قیام اور واپسی میں گزر گیا۔ صرف4 ھ،7ھ،10ھ کے3 ماہِ صیام مدینے میں حالت امن میں گزرے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ماہ کی عبادت کے نتیجے میں حاصل توانائی اور روحانی جذبے او رشوق کا اصل ہدف سوائے جہاد کے اورکچھ نہ تھا۔

کاش آج ہمارا او رہمارے سارے مسلمان بھائیوں کا رمضان المبارک گزارنے اور اس کی برکات کے حصول کا ہدف ہمارے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے اتباع میں جہاد کا شوق اور جذبہ جہاداُ جاگر کرنا ہی ہو جائے تو شاید اس سے امت مسلمہ کی تقدیر بد ل جائے۔
 
Flag Counter