Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1432ھ

ہ رسالہ

3 - 18
حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں خراجِ عقیدت
محترم محمد عبدالله صدیقی

خلیفة المسلمین، امیر المومنین، حضرت عمر فاروق ِ اعظم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے سامنے خلیفة الرسول، افضل البشر بعد الانبیا، حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی الله عنہ کا ذکر خیر کیا گیا تو حضرت عمر رضی الله عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور اپنے پیش روکی خوبیوں کے ساتھ رطب اللسان ہو گئے۔ روتے روتے فرمایا کہ میں دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ میری تمام عمر کے اعمال حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے مبارک ایام زندگی کے ایک ہی دن کے عمل کے برابر اوران کی زندگی کی راتوں میں سے ایک ہی رات کے عمل کے برابر ہو جائیں ( یعنی مجھ کو میری زندگی بھر کے اعمال کا الله تعالیٰ وہ اجر عطا فرما دیں جو حضرت ابوبکر کے ایک دن او رایک رات کی نیکیوں کے عوض ان کو عطا کیا جائے گا)۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت فاروق اعظم نے فرمایا” ابوبکر کی رات سے میری مراد وہ خاص رات ہے جب وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کے سفر میں ( اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق روپوشی کے ارادے سے) غار ( یعنی غار ثور) کی طرف چل کھڑے ہوئے تو جب غار کے پاس پہنچے ( اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے غار کے اندر جانا چاہا) تو انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتے ہوئے عرض کیا کہ آپ ابھی غار کے اندر تشریف نہ لے جائیں۔ پہلے میں خود غار کے اند رجاؤں گا، تاکہ اگر وہاں کوئی موذی چیز ہو گی ( مثلاً درندہ یا سانپ بچھو جیسا زہریلا جانور یا حشرات الارض) تو جو گزرے گی مجھ پر گزر جائے گی، آپ (صلی الله علیہ وسلم) تو محفوظ رہیں گے۔

پھرابوبکر غار کے اندر چلے گئے۔ چاروں طرف سے صفائی کی۔ غار کے اندر ایک طرف کچھ کچھ سوراخ نظر پڑے تو اپنے تہہ بند کو پھاڑا، اس کے ٹکڑوں اور چیتھڑوں سے سوراخوں کو بند کیا۔ لیکن دو سوراخ باقی کھلے رہ گئے (تہہ بند میں سے جو کچھ پھاڑا تھا اس میں سے اتنا کپڑا نہ بچا کہ ان سوراخوں کو بھی بند کر دیتے ) تو ( حضرت) ابوبکر  نے ان دو سوراخوں میں اپنے دونوں پاؤں اڑادیے۔ اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب آپ (صلی الله علیہ وسلم) اندر تشریف لے آئیں۔ تب حضور صلی الله علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے۔ ( رات کا بڑا حصہ گزر چکا تھا اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر نیند کا غلبہ تھا) آپ صلی الله علیہ وسلم ابوبکر کی گود میں سرِ مبارک رکھ کر سو گئے۔ ( اسی حالت میں ) ابوبکر کے پاؤں میں سانپ نے کاٹ لیا( اگر چہ اس کے اثر سے حضرت ابوبکر کو سخت تکلیف ہونے لگی ) لیکن اس اندیشہ سے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھ نہ کھل جائے اور آپ بیدار نہ ہو جائیں، اسی حالت میں بیٹھے رہے اور حرکت تک نہ کی، یہاں تک کہ تکلیف کی شدت کے سبب ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور چند قطرے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ اقدس پر بھی گِر پڑے(تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی ،آپ نے ابوبکر کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے دیکھے تو ) دریافت فرمایا کہ اے ابوبکر! تم کو کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا آپ صلی الله علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان! مجھے سانپ نے کاٹ لیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ( اس جگہ پر جہاں سانپ نے کاٹا تھا) اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو ابوبکر کو جو تکلیف ہو رہی تھی وہ اس وقت چلی گئی۔ آگے حضرت عمر  مزید فرماتے ہیں پھر ( ابوبکر کی وفات سے کچھ دن پہلے) اس زہر کا اثر لوٹ آیا اور وہی ان کی وفات کا سبب بنا۔ اس طرح ان کو شہادت فی سبیل الله کی سعادت وفضیلت بھی نصیب ہو گئی اور یہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ جنگ خیبر کے موقعہ پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبانِ اقدس پر زہر آلود لقمے کا اثر خیبر کے واقعے کے تقریباً چار سال کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کی رفیق اعلیٰ کی طرف تشریف لے جانے اور داعیٴ جل کو لبیک کہتے وقت لوٹ آیا تھا اور وہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی عالمِ بالا کی طرف اپنے مالکِ حقیقی سے ملاقات کا ایک ظاہری سبب بنا تھا، اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی دلی مراد او رتمنا، یعنی شہادت کی طلب بھی پوری فرما دی گئی تھی۔ تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے حضرت ابوبکر کے سفرِ ہجرت کی اس رات کے اس عمل کا ذکر فرمایا۔

اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے اُس دن کا او راس دن کے حضرت ابوبکر کے اس عمل کا ذکر فرمایا جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھاکہ میں دل سے چاہتا ہوں کہ میری ساری عمر کے اعمال ان کے ایک دن کے عمل کے برابر ہو جائیں۔ اس سلسلے میں حضرت عمر نے فرمایا کہ دن سے مراد حضرت ابوبکر کی زندگی کا وہ دن ہے جب سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم اپنے خالقِ حقیقی کی طرف کوچ فرما گئے اور عرب ( کے بعض علاقوں کے لوگ) مرتد ہو گئے۔ اور انہوں نے فریضہ زکوٰة ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ تو ابوبکر نے ان کے ارتداد اور زکوٰة کے انکار پر کہا کہ اگر یہ لوگ اونٹ کا پاؤں باندھنے کی رسی دینے سے بھی گریز کریں گے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اے خلیفہٴ رسول الله! اس موقعے پر لوگوں کے ساتھ تالیف اور نرمی کا معاملہ کیجیے تو انہوں نے غصہ کے ساتھ مجھ سے فرمایا کہ ”تم زمانہٴ جاہلیت میں تو بڑے زور آور او رغصہ ور تھے۔ کیا اسلام کے دور میں بزدل اور ڈرپوک ہو گئے ہو؟ ( یہ کیا انقلاب ہے) وحی کا سلسلہ ( حضور صلی الله علیہ وسلم کے عالمِ بقا کی طرف تشریف لے جانے کے بعد) ختم ہو چکا۔ دین مکمل ہو چکا، کیا دین میں نقص پیدا کیا جائے گا، اس میں کمی کی جائے گی اس حالت میں کہ میں زندہ رہوں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ (اینقص الدین واناحی) ۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ کبھی نہیں ہو سکتا“ (رزین)

حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اپنے اس بیان میں حضرت ابوبکر صدیق کی ان گونا گوں خوبیوں، صلاحیتوں او راستقامتوں کا عقیدت مندانہ خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اظہار کیا کہ جب باعثِ تخلیق کائنات صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانے کے بعد یہ خوبیاں صدیق اکبر کی ظاہر ہوئیں اور وہ مکمل شرح صدر کی دولت کے ساتھ صبر واستقامت کا پہاڑ بن گئے۔ تن تنہا چو مکھی جہاد کے لیے عزم بستہ ہو گئے۔ مرتدین کا قلع قمع کرنے کے لیے مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کا اعلان کرنے والوں کے لیے ، زکوٰة جیسے ارکانِ اسلام پر عمل نہ کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے او رجیش اسامہ کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مخالفت کے باوجود روانہ کیا ۔ ان سارے محاذوں پر حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے اپنی ایجابی فراست، دوربینی، استقامت او رشجاعت کے ساتھ جو بے مثال کردار ادا کرکے دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم کرنے میں دن رات کی محنتوں، مشقتوں اور کوششوں سے کام لیا ان کی مبارک زندگی کا انتہائی روشن باب ہے۔ محبوبِ ربّ کائنات کی جدائی کا غم اوّل وہلے میں برداشت کرتے ہوئے دیگر بے شمار عاشقانِ نبی اور شمعِ رسالت کے پروانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے پامردی کے ساتھ امورِ خلافت کو انتہائی احسن طریقے پر چلانا۔ امن وامان کی فضا قائم کردینا اور ترویج اسلام کے لیے سبھی غم زد گان وپسماند گان کو کام یابی سے ہم کنار کرنا حضرت صدیق اکبر کے کارناموں میں سے شان دار کارنامہ تھا، جس نے تاریخ اسلام کو زندہ وپائندہ کر دیا #

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
Flag Counter