Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1432ھ

ہ رسالہ

4 - 18
اے اللہ! ہمیں رمضان کی بر کتیں عطا فر مائیے
محترم افتخار احمد قاسمی بستوی

اللہ کے آخری نبی حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا مجمع الزوائد جلد2 صفحہ165 پر منقول ہے : اللّٰہم بارک لنا في رجب وشعبان، وبلِّغْنَا رَمَضَان۔ (مجمع الزوائد 165/2)

خدایا ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں بر کت کے فیصلے فر ما اور (ہماری زندگی بڑھا کر ) ہمیں رمضان کے مہینے تک پہونچا دیے۔

اس حدیث پاک کو دوبارہ پڑھیے جو بشکل دعا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ اس حدیث سے کیا پتہ چلتا ہے ؟ اللہ کے آخری نبی جو سیدالانس والجن ہیں، جن کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے گئے ہیں،لیکن رمضان کے مہینے کا اس قدر اشتیاق واہتمام ہے کہ ابھی رجب اور شعبان بھی نہیں آیا دو ماہ قبل ہی اللہ کے حضور دست بدعا ہیں کہ اے اللہ ! ہمارے رجب اور شعبان میں بر کت عطا فر مائیے اور ہماری عمر کے لمحات میں ایسا اضافہ فر ما دیجیے کہ رمضان کی مبارک ساعتیں پھر ہمارا مقدر بن جائیں ، پھر ایک سجدہ کا ثواب ستر 70 سجدوں کے برابر ملنے لگے ، ایک بار سبحان اللہ کا ورد 70 بار سبحان اللہ کے ورد کے برابر ہو جائے ۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کے لمحات کے اہتمام کی کس قدرفکر ہے کہ رمضان کا انتظار فر ما رہے ہیں اور عمر کے اضافے کی دعا کر رہے ہیں۔

اس حدیث کے مضمون سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی مسلمان اپنے لیے عمر میں اضافے کی دعا کر تا رہے تو یہ جائز ہے ، بشرط کہ اس کی دعا اس مقصد سے ہو کہ اس کی عمر آخرت کے کام آئے ، مرضیٴ مولیٰ کے مطابق بقیہ زندگی گزرے اور اپنے نامہٴ اعمال میں نیکیاں بہت ہی کم ہیں،زندگی بڑھ جائے تو نیکیوں میں اوراضافہ کر لوں اور کتابِ زندگی کے اوراق میں خیروسعادت کی روشنائی سے اللہ کی مرضی کے احکام واعمال لکھ ڈالوں، تاکہ جب نامہ اعمال کا دفتر آدم سے ایں دم تک کے انسانوں کے سامنے کھلے تو ندامت وشرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنے اعمال کے دفتر میں سیئات کے بجائے حسنات کا ڈھیر ہو ۔ اگر یہ مقصد ہے تب تو زندگی میں اضافے کی دعا کرنا اس حدیث کے مضمون سے جائز ثابت ہو تا ہے ۔

زندگی میں موت کی دعا کرناجائز نہیں، بعض لوگ اپنی عمر میں اضافے کی دعا کے بجائے یہ دعا کر نے لگتے ہیں کہ اے اللہ ! اب حالات ابتر ہیں ، اب زندگی اجیر ن ہو گئی ہے ، اب سب بدل گئے ، رُت بد ل گئی ، مزاج بد ل گیا ، اب کون جانے کس گھڑی وقت کا مزاج بدلے گا اور اپنے اور شریعت کے مطابق ہو گا ، اس لیے جینا دو بھر ہے ، اب اٹھا لے ۔ یہ دعا کرنا شریعت میں منع ہے ، اس لیے کہ آخرت کی تیار ی کتنی ہے ؟ کسی کو کیا معلوم ؟ ابھی آخرت کے اعمال کو بڑھانا چاہیے ، وہاں تو ایک آدمی ایک نیکی کے لیے ترسے گا، نہ اس کا دوست ایک نیکی دینے کے لیے تیار ہوگا ، نہ بھائی ، نہ باپ ، نہ بیوی اور نہ کوئی اور ۔

اس لیے بجائے زندگی کم کروانے کی دعا کرنے کے رمضان کی برکتوں اور اس کے لیل ونہار اور شب وروز سے مستفیض ومستفید ہو نا چاہیے ۔ جس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوب مستفیض ہوئے ، اہتمام کیا، دعائیں کیں ، عبادات کی مقدار بڑھا دی، اپنے اہل عیال کو جگایا ، تراویح کے لیے صحابہ کو اہتمام پر لگایا اور ہر طرح سے فضیلت واہمیت پر ابھارا۔

ہاں! اگر کسی کو زندگی میں پریشانیوں سے حد درجے اُچاٹ کی کیفیت در پیش ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اس لمحہ بھی شریعت کے اس اصول کویاد رکھیں جو اللہ کے رسول سے منقول ہے کہ اپنی زندگی وموت کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دیں اور اس طرح دعا کریں۔

اے میرے خدا! زندگی جب تک میرے لیے نفع بخش ہے اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو میرے لیے موت کا فیصلہ فر ما اور مجھے موت عطا کر دے ۔(مسند احمد: 104/3)

بہر حال بندہ اپنے لیے نہ تو اپنی زیست کا مالک ہے نہ اپنی موت کا، نہ اپنے اعضاوجوارح کا مالک ہے ،نہ اپنے اوقات وساعات کا ، ا س کو یہ بدن ، یہ روح، یہ اعضا، یہ اوقات اور یہ زندگی امانت کے طور پر دی گئی ہے کہ اسے اپنے مولیٰ کی خوش نودی کے حصول کے لیے استعمال کر کے مولیٰ کے پاس آئے۔ اس لیے اپنی طرف سے کسی کو اپنے اختیار سے اپنی موت کا فیصلہ کر نے کا حق نہیں دیا گیا، کسی کو اسی لیے خو د کشی کی اجازت نہیں دی گئی کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے، امانت میں خیانت ہے۔ یہ زندگی تو اس لیے دی گئی تھی کہ اس کے لمحات کی تم قدر کر تے ، ہر ہر پل کو عبادت بنا دیتے، کچھ عبادات تو ہم نے فر ض کی تھیں وہ تو عبادات مقصودہ ہیں، لیکن تم اپنی زندگی کو مر ضیٴ مولیٰ کے مطابق پوری کرکے، مجازی عبادت کر کے آتے، اس طرح تمہاری زندگی عبادت کا مجسم ِ پیکر بن جاتی۔ قر آن میں ہم نے اعلان کر دیا ہے :

﴿وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ والإنسَ إلَّا لِیَعْبُدُون﴾․(الذاریات : 56)ہم نے انسان و جنات کوبس اپنی عبادت کے لیے تخلیق فرمایا۔اس لیے اب رمضان کا مہینہ آیا ہے۔زندگی کوعبادت بنا ڈالو۔عبادت کے اوقات تو عبادت کے لیے منحصر ہیں ہی، کھانے کو بھی عبادت بناوٴ، سونے اور جا گنے کو بھی عبادت بناوٴ، بولنے ٹہلنے کو بھی عبادت بناوٴ اور ہنسنے کھیلنے کو بھی عبادت بناوٴ۔ یعنی اپنی تمام حرکات کو سنت نبوی کے سا نچے میں ڈھال لو۔ ایک مہینے میں صرف 30 دن شب وروز تم عبادت کی عادت ڈالو ، بقیہ سال ہم توفیقِ اہتما م دیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اسی لیے رمضان کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے ، اللہ کے بندے گیارہ ماہ غفلت شعاری میں پڑے رہے ، نماز وعبادت کا اہتمام نہ کر سکے ، حلا ل وحرام کی تمیز میں کوتاہی کرتے رہے ، غیبت و چغل خوری جیسی دین خور ی کا شکار رہے ، فضول گوئی اور بکواس اور وقت کے ضیاع میں انہماک کے ساتھ لگے رہے ،لیکن اب رمضان آگیا ہے، یہ اللہ کا مہینہ ہے ،اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ، اب میرے مہینے میں تمہاری زندگی آ گئی ہے، اب تو قرب پیدا کر لو ، اب تو لو لگا لو، اب تو اپنے بن جاوٴ ، آوٴ میر ے پاس چل کر آوٴ، میں دوڑ کر آوٴں گا، تمہارے ہاتھ پاوٴں سب بن جاوٴں گا #
        تو من شدی من تو شدم

کا نظارہ ہو گا ۔ میرے اس مہینے کی قدر کر لو ، بقیہ سال دیکھنا ، تمہارے پاوٴں بد دینی کے اڈوں کی طرف نہ چلیں گے ،تمہاری آنکھیں برائیاں نہ دیکھیں گی ، تمہارے ہاتھ رشوت وسود کے مہلک مال کی طرف نہ بڑھیں گے، تمہاری زبان جھوٹ، کذب گوئی ، غیبت، عیب جوئی اور نااتفاقی پیدا کر نے کے لیے نہ کھلے گی۔ تمہارا پیٹ حرام مال کا مخزن نہ بنے گا ، تم عفت و پاک دامنی کے پیکر بن جاوٴ گے ۔ تم نے بڑے علاج کیے، اب رمضان میں میرے احکام کے ذریعے بھی علاج کر لو، سکون وآرام کی دوائیں بہت کھائیں، اب اپنے مولیٰ کی بتا ئی ہوئی سکون کی دوائیں بھی لے لو۔ تم سال بھر عفت وپاک دامنی، عدل وانصاف ،سلامتی وتقویٰ، توکل وایثار ، شکر ورضا اور صبر واستقامت کا پہاڑ بن جاوٴ گے ۔

لیکن افسوس !خدا کاغلام خواہشات کا غلام بن گیاہے، اللہ کا بندہ شیطان کابندہ بن گیا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہزار برکتوں کا اعلان کرتاہے، لیکن مسلمان کے گھر میں رمضان کے مہینے میں، دن میں چولھا جلتاہے۔ پہلے90فیصد مسلمان روزے دارہواکرتے تھے اور اب 90 فیصد مسلمان روزہ خور ہوا کرتے ہیں ، پہلے غیر مسلم گواہی دیتے تھے کہ مسلمان دین دار ہے ، اب غیر مسلم گواہی دیتے ہیں کہ مسلمان بد دین ہے ۔

زندگی کو اجیرن بنا نے والی ہر طرح کی خرافات مسلمان رمضان ہی میں کرتا ہے ، کیرم بورڈ ، تاش کے پتے ، کرکٹ ، والی بال، کبڈی اور کھیل کی تمام مروجہ قسمیں رمضان کے لیل ونہار میں رُوبہ عمل لائی جا تی ہیں ۔ دن میں بے محابا ، بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ شہروں کی شاہ راہوں اور محلوں کی گلیوں میں گٹکا، پان، سگریٹ ، تمباکو اور آئس کریم تک کھاتے ہو ئے مسلمان نوجوانوں کو دیکھا گیا ہے ۔ اور رات میں مختلف چوراہوں اور راستوں کے کناروں پر بیٹھ کر اور ہوٹلوں میں جلوہ افروز ہو کر ، امریکہ، ایران ،عراق ، فلسطین اور اسرائیل کی ظالمانہ جنگوں کا ایسا تفصیلی تذکرہ ہو تا ہے جیسے کہ جناب اس میں شرکت کرکے گھر واپس لوٹے ہیں۔

اب یہ سب حرکات ہم کر تے ہیں تو کس کے حکم سے ؟ اپنے نفس کے حکم سے ، جس نے ابلیس کو بھی بہکایا تھا ، اپنے رب کے حکم سے تو کر تے نہیں، ہمیں اپنے رب کا حکم بجا لانا چاہیے تھا جس نے ہم کو پیدا کیا، اعضا درست کیے، آنکھیں اور دل بنایا اور ذہن ودماغ کی مشین تیار کی، پھر گویائی عطا کی ۔

لہٰذا اللہ کی نعمتوں کا احسان بجالا وٴ ، رمضان آرہا ہے ، اس کی قدر کر و، اپنے رب کے چہیتے بن جاوٴگے ، دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی ۔ خدا مجھے ، آپ کو اور تمام لوگوں توفیق دے۔ آمین!
Flag Counter