ترغیب وآداب ادائیگی زکوٰة
مولانا انیس احمد مظاہری
الله جل شانہ نے بنی نوع انسان کو تمام مخلوقات کا سردار بنایا اور سب سے زیادہ عزت سے نواز کرانواع واقسام کی نعمتوں سے سر فراز فرمایا ہے، بالخصوص صرف ایک نعمت ایسی ہے جس سے نبی کریم، خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے صرف مسلمانوں ہی کو مالا مال فرمایا ہے۔ اس کے ثمرات سے مسلمان ہی دنیا وآخرت میں نفع حاصل کرتا ہے۔ وہ عظیم نعمت ایمان اور اسلام کی نعمت عظمیٰ ہے۔
ایمان واسلام کی حفاظت کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس نعمت کو ایک عمارت کے ساتھ تشبیہ دے کر سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ” اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ (۱)لا الہ الا الله محمد رسول الله کی گواہی۔ (۲)نماز قائم کرنا۔ (۳) زکوٰة ادا کرنا۔ (۴) رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ (۵) الله نے مال واسباب دیے ہوں تو حج کرنا۔
جہنم سے نجات او رجنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے الله جل شانہ کی توحید والوہیت ونبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صداقت ورسالت کی صدق دل سے گواہی، صحت وبدن کی نعمت کی قدردانی وشکرانے کے لیے نماز، روزہ اور مال کی نعمت کے شکرانے، پاکیزگی کے لیے زکوٰة او رجان ومال میں خیروبرکت وشکرانے کے لیے حج کرنے کا الله جل شانہ نے تمام مسلمان بندوں کو ذمہ دار ومکلف بنایا ہے۔ ان اعمال واحکام کے ادا کرنے سے مسلمان کی جان ومال میں کمی نہیں ہوتی، بلکہ اضافہ کے ساتھ ایمان والوں کا مال ومنال محفوظ بھی رہتا ہے او ران کے ذریعہ الله جل شانہ کا قرب ورضا بھی حاصل ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ زکوٰة اسلام کا بہت بڑا پل ہے۔ جو شخص زکوٰة ادا کر دے تو اس مال کا شر اس سے جاتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ مالوں کو زکوٰة کے ذریعہ سے محفوظ بناؤ یعنی صحیح طور پر زکوٰة ادا شدہ مال عذاب وہلاکت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تین کام کر لے اس کو ایمان کا مزہ آجائے (ا) صرف اور صرف الله وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرے۔ (ب) الله کے سوا کسی کو الہ نہ جانے ۔(ج) ہر سال خوش دلی سے زکوٰة ادا کر لے ( بوجھ نہ سمجھے)۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانہ میں ایک شخص نے مکان فروخت کیا، حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ” اس کی قیمت کوا حتیاط سے اپنے گھر میں گڑھا کھود کر اس میں رکھ دینا۔“ اس نے عرض کیا کہ ” اس طرح کنز (خزانہ) کے بارے میں قرآن کریم میں وعید آئی ہے ، ﴿والذین یکنزون الذھب والفضة ولا ینفقونھا فی سبیل الله…﴾ (سورہ توبہ پ10) میں داخل نہ ہو جائے گا؟
حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ” جس مال کی زکوٰة ادا کر دی جائے وہ کنز میں داخل نہیں ہوتا۔“ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کا فرمان عالی ہے کہ ” مجھے اس کی پروا نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو ۔ میں اس کی زکوٰة ادا کرتا رہوں اور اس میں الله جل شانہ کی اطاعت کرتا رہوں۔“
تمام فرائض کی ادائیگی کا طریقہ، معیار اور مقدار، نیز حکم او رالغرض اس سے متعلق تمام احکام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کی سہولت کے لیے بہت ہی واضح اور آسان انداز میں بیان کر دیے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے فرائض کو اس طریقہ کے مطابق ادا کریں، زکوٰة بھی اپنے اموال تجارت اور سونے چاندی کا صحیح حساب لگا کر اس کا ڈھائی فی صد ادا کریں۔ محض اندازہ سے کل مال کی زکوٰة ادا نہیں ہوتی، بلکہ کچھ زکوٰة باقی رہ جاتی ہے او رجتنی مقدار ذمہ میں رہ جائے گی ، وہ بقیہ کل مال کی ہلاکت کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور فریضہ کی وہ مقدار بھی واجب الادا رہے گی، جیسا کہ علمائے امت نے لکھا ہے اور پھر بقیہ مال کی زکوٰة ادا نہ کرنے کا گناہ علیحدہ ہو گا۔ الله کریم غفلت ومعصیت سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مسجد حرام، کعبة الله وحطیم میں تشریف رکھتے تھے۔ کسی نے تذکرہ کیا کہ فلاں ، فلاں آدمیوں کا بڑا نقصان ہو گیا۔ سمندر کی موج نے ان کے مال کو ضائع کر دیا۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگل ہو یا سمندر، کسی جگہ بھی جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰة ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
الله جل شانہ عم نوالہ نے قرآن کریم میں کام یاب ایمان والوں کی صفات کے بیان میں زکوٰة ادا کرنے والے مؤمنین کو بھی ذکر فرمایا ہے۔
قابل صد احترام مسلمان بھائیو!
الله جل شانہ عم نوالہ نے ہم مسلمانوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے واسطہ سے اپنا پسندیدہ وپاکیزہ نظام معاشرت ومعیشت عطا فرمایا ہے۔ اس نظام کی خوبی وتاثیر یہ ہے کہ اگر کافر بھی اس کو اختیار کر لے تو وہ دنیا میں اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے اور مسلمان کے لیے تو دنیا کی خیروں، ترقیات کے ساتھ آخرت کی دائمی زندگی کی کام یابیاں، ہر نوع کی ترقیات کے علاوہ الله کریم کی سب سے عظیم نعمت رضا وقرب الہٰی کا ذریعہ ہے۔ ہم مسلمانوں کا ماضی نہایت روشن وخوش حال تھا مسلمان اپنی معیشت وتجارت زراعت وغیرہ میں الله کریم کے احکام پورے کرنے والے تھے۔
پہلا واقعہ
ماضی کی خوش حالی کی ایک جھلک تاریخ کے اس واقعہ میں دیکھی جاسکتی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے زمانہ میں ایک شخص دس ہزار اشرفیاں لے کر مدینہ طیبہ کی گلیوں میں چکر لگاتا او رگھر گھر جا کر رات بھر دستک دیتا ہے کہ کوئی ضرورت مند اس رقم کو قبول کرکے اپنی ضرورت پوری کر لے ۔ مگر جس دروازہ پر پہنچتا ہے وہاں سے جواب ملتا ہے ”انا غنی لا حاجہ لی“ کہ الله کا دیا میر ے پاس سب کچھ ہے۔ ضرورت مند نہیں ہوں۔ پوری رات گزر گئی اور کوئی قبول کرنے والا نہیں ملا ، مجبور ہو کر صبح کو امیر المؤمنین کی خدمت میں رقم پیش کر دی اور مکمل صورت حال سے مطلع کیا۔ پھر یہ رقم بیت المال میں داخل کر دی گئی۔
دوسرا واقعہ
برکة العصر، قطب الاقطاب، حضرت شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی نور الله مرقدہ نے سنایا” ضلع سہارن پور میں بہٹ سے آگے، جہاں حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمہ الله کا قیام ہوتا تھا۔ انگریزوں کی کچھ کوٹھیاں تھیں، جن میں ان کے کاروباری دفتر تھے اورمسلمان ملازمت کیا کرتے تھے۔ انگریز خود دیگر بڑے شہروں کلکتہ، دہلی میں رہتے ، آمد ورفت رہتی، ایک مرتبہ اس کے قریب جنگل میں آگ لگی اور اکثر لگتی رہتی تھی، تقریبا سب کوٹھیاں جل گئیں۔ ایک کوٹھی کے ملازم نے اپنے افسر کو دہلی جا کر اطلاع دی کہ سب کوٹھیاں جل گئیں اور آپ کی کوٹھی بھی جل گئی ۔ تووہ انگریز کچھ لکھ رہا تھا، سننے کے بعد بھی اطمینان سے لکھتا رہا ، ملازم نے دو تین مرتبہ کہا، حضور سب کچھ جل گیا۔ اس انگریز افسر نے بہت ہی لاپرواہی سے کہا کہ میری کوٹھی نہیں جلی، میں تو مسلمانوں کے طریقہ پر مال کی زکوٰة دیتا ہوں، اس لیے میرے مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ وہ ملازم تو اپنی ذمہ داری نبھانے اورجواب دہی کے خوف سے گیا تھا کہ مالک کہے گا تم نے خبر ہی نہ دی۔ مگر ملازم اس کا جواب سن کر واپس آگیا۔ آکر دیکھا تو واقعی میں اس کی کوٹھی نہیں جلی تھی۔
ہم مسلمانوں کے لیے بڑی عبرت کا قصہ ہے کہ دیکھیے! اس غیر مسلم انگریز کو زکوٰة کے فائدے پر کیسا یقین تھا!
ادائیگی زکوٰة کے آداب
الله تعالیٰ نے ہر عمل کے آداب میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ ان کے اہتمام سے عمل میں اخلاص اور خشوع وخصوع پیدا ہو جاتا ہے، جو درحقیقت ہر عمل کی روح او رجان ہے، جس کی برکت سے وہ عمل الله جل شانہ کی پاک بارگاہ میں شرف قبولیت پالیتاہے۔
برکة العصر، مخدوم العالم، قطب الاقطاب، شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور الله مرقدہ واعلیٰ الله مراتبہ نے حضرت امام غزالی قدس سرہ کی احیاء العلوم کے حوالہ سے فضائل صدقات میں تفصیل سے ان کو ذکر کیا ہے۔ انتہائی اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
زکوٰة کی ادائیگی میں جلدی کرے، اس میں الله جل شانہ کے امتثال حکم ( حکم پورا کرنے ) میں رغبت وشوق کا اظہار ہے ، فقرا کے دلوں میں مسرت وخوشی کا ذریعہ ہے ، دیر کرنے میں اپنے او رمال پر کسی قسم کی بیماری وآفت آجانے کا بھی احتمال ہے۔ جن علمائے امت کے نزدیک بلاتاخیر ادائیگی ضرور ی ہے ۔ ان کے نزدیک تاخیر کا گناہ مستقل ہے ۔
زکوٰة کی ادائیگی مخفی طریقہ پر کی جائے، تاکہ دکھلاوے وغیرہ سے امن رہے اور لینے والے کی پردہ پوشی رہے۔ فقیر ومحتاج ذلت سے بچے ،بلاکسی شرعی وجہ کے مخفی ہی دینا افضل ہے۔
اگر کوئی دینی مصلحت( ترغیب یا اپنے کو تہمت سے محفوظ رکھنا) ہو تو اظہار بقدر ضرورت ایک دو یا حسب حال چند اشخاص کے سامنے کر دیا جائے۔
زکوٰة مستحق کو دے کر نہ احسان جتلا یا جائے او رنہ ہی ایذا وتکلیف دے کر فریضہ کو برباد کیا جائے ۔
اپنے عمل وصدقہ کو حقیر جانے او ر اپنے پر الله کا فضل سمجھے کہ اس نے فریضہ کی ادائیگی کی توفیق دی۔
زکوٰة کی ادائیگی کے بعد الله جل شانہ سے قبولیت کی دعا کر لے۔
الله کی راہ میں صدقہ بالخصوص زکوٰة کی ادائیگی میں جو اسلام کا اہم فریضہ ہے خود سے عمدہ مال خوش دلی سے ادا کیا جائے ۔ الله کریم خود پاکیزہ ہیں او رپاکیزہ، عمدہ طیب مال قبول فرماتے ہیں ۔
اپنے مال زکوٰة وصدقات کو ایسے مواقع ومصارف پر خرچ کرے جس سے اجر وثواب میں زیادتی ہو۔
(ا) متقی، دنیا سے بے رغبت آخرت کے کاموں میں مصروف لوگوں کو دے ۔ (ب) اہل علم پر خرچ کرے کہ فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ اشاعت علم اور اہل علم کی اعانت کا ذریعہ ہو گا۔ (ج) جن کو صدقہ وزکوٰة دی جائے وہ اپنی حاجات وضروریات کا اخفا کرنے والے ہوں ۔ قلت معاش کا لوگوں سے تذکرہ نہ کرتا ہو ۔ لوگوں سے چمٹ کر نہ مانگتا ہو، یعنی سفید پوش ہو۔(د) عیال دار ہو ، کسی بیماری ومصیبت میں مبتلا ہو کہ خود کما نہیں سکتا۔ (ھ) مستحق رشتہ دار کو بھی دے کہ ادائیگی فریضہ ( زکوٰة)، صدقہ کے ساتھ صلہ رحمی کا بھی اجر وثواب شامل ہوتا ہے۔
الله کریم اس تحریر کو بندہ اور ہر پڑھنے والے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کے ساتھ دارین کی خیروں، نعمتوں میں برکتوں کا ذریعہ بنائیں، نیز قبولیت ومقبولیت نصیب فرمائیں۔
آمین بحرمة النبی الامی الکریم، علیہ الصلوٰة والتسلیم.