فریب عقل یا فکری خام خیالی
محترم شمس الحق ندوی
انسانوں کی اکثریت ہر چیز کو عقل کے پیمانے سے ناپنا چاہتی ہے او رواقعہ بھی یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انسانوں کو عقل کی نعمت سے سرفراز فرما کر تماممخلوقات میں اس کو وہ مرتبہ عطا کیا کہ ہر اگلے دن ترقی کی حیرت انگیز منزلیں طے کرتا جارہا ہے، لیکن وہ عقل جو عام انسانوں کو عطا ہوئی ہے ، اس کا دائرہ محدود ہے او رخالق کائنات اور نظام کائنات لا محدود۔
لہٰذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ محدود لا محدود کو اپنے دائرہ عمل میں لے لے، اس لیے جو ذات لا محدود ہے اس کے ادراک وعرفان کے لیے علوم انبیا کی ضرورت ہے، جس کو الله تعالیٰ نے وحی والہام کے ذریعہ ان کو عطا کیا ہے کہ وہ ماورائے عقل وگمان باتوں کی تعلیم سے، قافلہ انسانی کو اس رخ پر لے چلیں، جس پر چل کر وہ عقل کی خام خیالی سے اپنے کو بچاسکتا ہے ، علوم انبیا کی مثال اور عام عقل انسانی کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک شخص سونا تولنے کی ترازو سے یہ امید لگائے کہ اس سے پہاڑ تول سکتا ہے۔
لیکن اس سے یہ بات تو ثابت نہیں ہوئی کہ کانٹا اپنی تول میں سچا نہیں۔ اسی طرح عقل کی حدود ہیں، جہاں اس کو ٹھہرنا پڑتا ہے وہ اپنے حدود سے آگے نہیں بڑھ سکتی کہ وہ الله تعالیٰ کی ذات وصفات کو بھی اپنے دائرہ عقل میں داخل کر لے، بلکہ بقول ابن خلدون:” بلکہ وہ الله کے پیدا کیے ہوئے بے شمار ذرات میں سے ایک حقیر ذرہ ہے۔“
لہٰذا شارع علیہ السلام کے بتائے ہوئے عقیدہ او رعمل پر قائم رہنا ہی ہوش مندی ہے۔ کیوں کہ وہ انسانوں کی بھلائی کے حریص ہیں اور انسانوں کے لیے نفع بخش چیزوں کو زیادہ جانتے ہیں ، انسان کو اپنی حقیقت ومرتبہ اور اشرف المخلوقات ہونے کے منصب کو پہچاننے کے لیے انہیں کی تعلیمات کو اپنانا پڑے گا، ان کی تعلیمات کے سامنے عقل کی ترازو سے او راس کے دائرہ کار سے نکلے بغیر وہ اپنے اصل مقام کو نہیں پہچان سکتا ہے ، جگر مرحوم نے اسی پس منظر میں کہا تھا #
نہیں جاتی کہاں تک عقل انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
اور اقبال مرحوم نے اس کو اس طرح ادا کیا ہے #
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
مگر جب دل ودماغ میں یہ بات رچ بس جائے کہ عزت ونیک نامی صرف جاہ ومنصب ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور زندگی کا مزہ صرف زمانہ اور سوسائٹی کی موافقت میں ہے، یہ وہ مادی منطق اور طرز استدلال ہے جو انسانی تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے، لہٰذا اس ذہنیت کے شکار اور ظاہری ترقی اور چمک دمک کے غلام یہ سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں کہ ان اسباب ووسائل کے سوا، جو حصول جاہ اوراونچی سوسائٹی کے تصرف میں نظر آتی ہیں، ایک سبب اور ہے ،وہ ہے ارادہٴ الہٰی، جو مختلف اوقات میں ﴿وتعز من تشاءُ وتذل من تشاء﴾ کی صورت میں اپنا جلوہ دکھاتا رہتا ہے ، پھر بھی جو مسلمان موجود ہ ماحول وتہذیب کی ظاہری چمک دمک پر فدا ہو رہے ہیں اور اس سے دور رہنے والے او ربچنے والے مسلمانوں کو کم تر وناعاقبت اندیش سمجھتے ہیں، ان کو سمجھانے او ردولت اسلام وایمان کی قدر وقیمت کو دودو چار کی طرح بتانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ کر او رکون سی یقینی اور قطعی بات بیان کی جاسکتی ہے ،جس پر روشن خیال مسلمانوں کا بھی ایمان ہے ، اس حقیقت کو قرآن سے بڑھ کر کیسے سمجھا جاسکتا ہے ، ایسے لوگوں کو دھوکا یہ ہوتا ہے کہ آخر دوسری قومیں اسلام اور پیغمبر اسلام کی منکر ہوتے ہوئے کیوں ترقی کررہی ہیں؟ وجہ وہی ہے کہ وہ سونا تولنے کی ترازو سے پہاڑ تولنا چاہتے ہیں ، وہ عقل کے اس دائرہ سے باہر نکل کر اس ارشاد قرآنی پر غور کریں تو یہ دھوکا اور فکری خام خیالی دور ہو جائے، الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ایحسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین، نسارع لھم فی الخیرات بل لا یشعرون﴾ ( مؤمنون)۔ یعنی کیا یہ لوگ گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال واولاد دیتے چلے جاتے ہیں ، تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچارہے ہیں، نہیں! بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں۔
یہ دھوکا عام وعالم گیر ہے، آج تک ہزاروں ، لاکھوں مذہب اسی میں مبتلا ہیں ۔ تکوینی عیش وراحت کو اپنی حقانیت ومقبولیت کی دلیل سمجھ رہے ہیں ، حالاں کہ نظام تکوینی میں قانون ربوبیت کے تحت سانپوں ، بچھوؤں سبھی کی پرورش وکفالت ہوتی رہتی ہے۔ ( تفسیر ماجدی)
ایک مسلمان کو جو معمولی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے ، اس فریب عقل اورفکر کی خیام خیالی سے قطعاً دھوکہ نہ کھانا چاہیے جس کو آیت بالا میں بہت کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔
ماحول کے اثر سے ہماری نئی نسل نہایت شک وتذبذب کا شکار ہے اور قوموں کی ظاہری ترقی اور بے راہ روی کی زندگی سے دھوکا کھا کر ایمان واسلام کی دولت بے بہا سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ ہمیں ترقی سے نہیں روکا گیا ہے، بلکہ ترقی کے غلط طریقوں او ران کے غلط استعمال سے روکا گیا ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:” اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اس دنیا کے کاموں کو خدا کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق انجام دینا دین ہے ۔“ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شریعت کے اصول کے مطابق دنیا داری ہی دین داری ہے، جن لوگوں نے دین میں غلو کی وجہ سے یہ سمجھا کہ تنہائی میں بیٹھ رہنا، کسی غار اور پہاڑ کے کھوہ میں بیٹھ کر خدا کو یاد کرنا دین داری ہے اور آل واولاد، دوست احباب ، ماں باپ، قوم وملک اور خود اپنی آپ مدد، روزی روٹی، ضروریات زندگی کی فکر اور پرورش اولاد دنیا داری ہے ، حالاں کہ رسول اسلام صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق ان حقوق وفرائض کو بخوبی ادا کرنا عین دین داری اور عبادت ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ دین دنیا کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، اس کے سوا او رکچھ نہیں کہ دنیا جھوٹ ودغابازی، رشوت وچور بازاری سے حاصل کی جائے ، دنیا حاصل کرنے کا یہ وہ طریقہ ہے جو لوٹ مار، قتل وغارت گری کی راہ پر لے جاتا ہے اور باہمی پیار ومحبت ، صاف ستھرا معاشرہ اور سوسائٹی، باہمی میل ملاپ سب اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، جو اس وقت ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں ۔ لہٰذا اس طرح کی ترقی کو ترقی سمجھنا او راس راہ پر چلنے اوربڑھنے والوں کود یکھ کر دھوکا کھانے کے بجائے ایک بندہٴ مومن کو اوپر ذکر کی گئی آیت شریفہ کو بار بار پڑھتے رہنا چاہیے او راس حقیقت کو آئینہ کی طرح سامنے رکھے کہ اس طرح کی ترقی پانی کے بلبلے اور سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اقبال مرحوم نے اسی پس منظر میں کہا تھا #
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق