Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1432ھ

ہ رسالہ

5 - 18
دستار بندی کے موقع پر طلبہ کو حضرت شیخ الحدیث کی نصیحتیں
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ

الحمد لله و کفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد !

فأَعوذ بالله من الشیطان الرجیم ۔ بسم الله الرحمن الرحیم

﴿ إِِنّ الدِّیْنَ عِنْدَ الله الاِسْلاَم ﴾․( آل عمران:19)

آپ حضرات نے اساتذہ کرام کی نصیحتیں سنیں۔ امید ہے کہ آپ ان کے مطابق عمل بھی کریں گے۔ کافی وقت گزر چکا ہے، آپ کو مجلس کے اختتام کا انتظار بھی ہے۔مگر اساتذہ کرام کا اصرار ہے کہ میں ضرور بیان کروں۔ میں جب اپنی حالت پر نظر کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا اور کیسے بیان کروں؟ خود نصیحت کا محتاج ہوں، میں علماء اور فضلاء کو کیا نصیحت کروں؟ ساری زندگی غفلت اور معصیت میں گزاردی، مجھے نصیحت کرنے کا حق ہی نہیں اور میری نصیحت کا کچھ فائدہ بھی نہیں۔ یہ سوچ کر میری ہمت پست ہوجاتی ہے اور حوصلہ نہیں ہوتا لیکن آپ کا اصرار ہے اور شرعا گنجائش بھی ہے اور یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ شاید اس وقت کی نصیحت بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوجائے اور میرے اور آپ کے حق میں فائدہ کا ذریعہ بن جائے۔

اس لئے عرض کر رہاہوں کہ جب مجھے دینی مدرسہ میں داخل کیا گیا تھا تو قلب و دماغ بالکل سادہ تھے، کم عمری کا زمانہ تھا وہاں اساتذہ نے تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا تو بہت سی باتیں جو پہلے معلوم نہ تھیں علم میں آئیں، جذبات اور رجحانات کی تربیت ہوئی، بہت سی چیزوں کو دل و دماغ نے پسندیدہ قرار دیا اور بہت سی چیزیں ناپسندیدہ ٹہریں۔ ایک خاص ماحول ملا،وہ بطورِ خاص اس تربیت میں موٴثر ہوا، اسلامی اعمال واخلاق کو اس فضا میں اس طرح سمودیا گیا تھا کہ ان اچھے اخلاق و اعمال کو اختیار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔

ہمارے اساتذہ نے تو بہت کچھ ہمیں دینا چاہا، لیکن ہم اپنی استعداد اور صلاحیت کے بقدر ہی لے سکے، جو ان بزرگ علماء کی نسبت سے تو بہت کم ہے مگر پھر بھی ہم کورے جاہلوں کی نسبت سے بہت ہے۔ نہ پڑھنا جانتے تھے، پڑھنا سیکھ گئے، لکھنا نہیں آتا تھا لکھنے لگے، نحو و صرف ، ادب و بلاغت ، منطق و فلسفہ ، فقہ ، اصولِ فقہ ، حدیث و تفسیر اور ان کے اصول کسی کے نام کی بھی کچھ خبر نہ تھی، انہوں نے ان علوم اور ان کی اصطلاحات سے واقف کرایا ۔ لکھے ہوئے کو پڑھنے ، اس کو سمجھنے اور اس کا مفہوم بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا۔

اسی زمانہ میں ان اساتذہ کرام نے نصاب تعلیم کی مدد سے کائنات ہستی کی حقیقت و غایت سمجھائی اور خالقِ کائنات کا تعارف کرایا ۔ اسلام و کفر کا فرق بتایا ، حق و باطل کو واضح فرمایا اور ان کی کشمکش سے آگاہ کیا، اعمال خیر و شر کی تفصیلات بیان کیں اور ان پر جزاء و سزا کے نتائج سے خبردار کیا، اخلاقِ حسنہ اور سیئہ کا فرق واضح کیا، اخلاقی قدروں کی عظمت بتائی اور بد اخلاقی کی برائی سمجھائی اور اس سب کے ساتھ یہ ذہن نشین کرایا کہ آپ لوگوں کو آئندہ زندگی میں اسی نہج پر کام کرنا ہے اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرنا ہے، یہی تمہاری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے اور اسی میں پوری زندگی کو خرچ کرنا چاہئے۔

وہاں سے آکر ہم نے بظاہر تو ان کی ہدایت پر عمل کیا لیکن ہر عمل کے لئے کچھ شرائط اور لوازم ہوتے ہیں جن سے عمل میں جان پڑتی ہے اور پھر وہ عمل قبولیت کا درجہ پالیتا ہے۔ اس صورت کے اختیار کرنے کی توفیق پر بھی میں اپنے آپ کو شکر ادا کرنے پر قادر نہیں پاتا۔ بالکل ممکن تھا کہ اس سے بھی محروم رہتا، اپنی حالت بھی ایسی ہی تھی مگر حق تعالیٰ کے فضل نے دستگیری فرمائی۔

ساٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے کہ اسی میں لگا ہو ں اور الحمد لله کبھی دوسرے مشاغلِ زندگی کواختیار کرنے کا خیال تو کیا وسوسہ بھی نہیں آیا۔ مگر عزیزو! اخلاص کی دولت نہ مل سکی اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کام کرنے کے شرف سے محروم رہا، اس کا بہت دکھ ہے۔ کئی مرتبہ تصحیحِ نیت کا اہتمام بھی کرتا ہوں لیکن پھر غیر کا خیال در آتا ہے اور عمل کی اصل روح موجود نہیں ہوتی۔ اسی اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے اعمال میں کوتاہی اور کئی مرتبہ غلط روی کا ارتکاب بھی ہوتا ہے، پھر یہ سوچ کر کچھ اطمینان سا ہوتا ہے کہ جب ”ارحم الراحمین“ نے ظاہر کو اختیار کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے اور اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں پر تشویش و ندامت کا احساس بھی عطا ء فرمادیا ہے تو شاید وہ بخشش فرمادیں گے لیکن خطرہ بہر حال موجود ہے۔

یہ میں نے اپنا حال آپ کے سامنے اس لئے رکھا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی زمانہ طالب علمی میں وہی کچھ ہوا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا تھا، لہذا آپ بھی اب جا کر اسی مشن کو اپنا مقصد زندگی بنائیں اور پوری زندگی اسی میں گزاردیں اور ان کوتاہیوں سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرور فکر فرمائیں جو میری زندگی میں داخل رہی ہیں۔ اس کے لئے اہل الله سے تعلّق بہت مفیدِ اور کار آمد ہوتا ہے اس کو اختیار فرمائیں ۔ مجھ سے اس معاملے میں بہت کوتاہی ہوئی ہے۔

آخر میں ضرور یہ یاد رکھیں کہ اس خدمت کو انجام دینے کے لئے باقاعدہ کتابیں پڑھانا ہی ضروری نہیں بلکہ دین کی دعوت و تبلیغ کے لئے بڑے وسیع امکانات اور کشادہ میدان موجود ہیں۔ افتاء و تدریس ، تصنیف و تالیف، وعظ و تقریر، دعوت و تبلیغ ، جہاد و قتال اور امامت و خطابت کے معروف طریقے تو آپ جانتے ہی ہیں ۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میدان اس سے بھی زیادہ وسیع ہے، آپ جہاں جس حال میں ہوں آپ کی ذات اسلامی اعمال و اخلاق کا نمونہ بن کر جب خلقِ خدا کے سامنے آئے گی تو وہ بھی دینِ اسلام کی ترغیب کا ذریعہ بنے گی۔ اکثر حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کی زندگی میں اس کے نمونے موجود ہیں۔ و اٰخر دعوانا أَن الحمد لله رب العالمین
Flag Counter