ایمان کی بہاریں
محترم یرید احمد نعمانی
مدارس دینیہ مرکز رشدوہدایت ہیں۔اسلام کی آفاقی ،ابدی اورسچی تعلیمات کے تعلیم وتعلم میں مصروف یہ ادارے پورے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں ان روحانی درس گاہوں میں جاری تعلیمی سال قریب الاختتام ہے۔جگہ جگہ ختم ِبخاری اوردستار فضیلت کے عنوان سے اجتماعات وتقریبات منعقد ہورہی ہیں۔اورپورے ایمانی ولولے اورجوش وخروش سے ہورہی ہیں۔اکابرین واساطین ِعلم وعمل کے ایمان افروز اورروح پرور بیانات وتقاریر سے ہر سو ایمان کی بہاریں پھیل رہی ہیں۔مادہ پرستوں اورظاہربینوں کی عقلیں دنگ ہیں کہ جن مذہبی تربیت گاہوں کے متعلق ان کی زبانیں غلیظ پروپیگنڈا کرکر تھک گئی تھیں۔آج خلقت اسی کو اپنے درد کا درماں سمجھ کے ٹوٹی پڑی ہے۔بے خبر غفلت سے بیدار ہورہے ہیں۔راستہ بھٹک جانے والوں کو نشان ِمنزل کا پتاچل رہاہے۔فتنوں سے آگاہی اوربچاؤ کی تدبیریں معلوم ہورہی ہیں۔ابلیس اوراس کی ذریت اپنی محنتوں پر پانی پھر جانے سے غمگین وحزین ہے۔
اس گھڑی جب ہم ایک نظر رک کر ،اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں توبظاہر یوں محسوس ہوتاہے کہ معاشرے میں خیرو بھلائی کی قوتیں کمزور اورطاغوتی تدابیر مضبوط وقوی ہیں۔گھرگھر پھیلی برائیاں اوربستی بستی موجود فتنے دیمک کی طرح ہمارے دین وایمان کو چاٹ رہے ہیں۔لیکن کیا واقعتا ایسا ہی ہے؟کیا حقیقت میں ہر نیکی کی شمع بجھ چکی ہے؟کیا ہر طرف کفروضلالت اورالحاد وتشکیک کے اندھیرے ڈیراڈالے ہوئے ہیں؟ زمینی حقائق ان سوالوں کے جواب نفی میں دیتے ہیں۔قدم قدم پر موجود کوئی نہ کوئی مدرسہ ،مسجد اوردعوتِ دین کا مرکزہمیں اس بات کا احساس دلاتاہے کہ :”ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں“اگر موجودہ وقت میں ہمارے ذہن وفکر،قلب ونظر اوراخلاق میں سچائی ،دیانت اورایفائے عہد کی کوئی رمق باقی ہے تو بلاشبہ وہ انہی بوریا نشین مولویوں اورفاقہ مست خدام ِدین کی محنتوں اورقربانیوں کا ثمرہ ونتیجہ ہے۔
کوئی بھی قوم ،جماعت اورفرد ایمانی تنزل اوراخلاقی گراوٹ کا شکار اسی صورت میں ہوسکتاہے ،جب اس کا دل خوف خدا،فکرآخرت اوراعمال کے محاسبے سے لاپروااوربے فکرہو۔اخلاقی قدروں کی پامالی وہاں ہوتی ہے جہاں انسانیت اپنا جوہر اصلی کھوبیٹھے۔جہاں آدمیت وحی کے نور اور خدا شناسی سے محروم ہو۔حکیم الاسلام قاری محمدطیب قاسمی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:”علم الٰہی کی نعمت مستقل طورپر انسان ہی کودی گئی ہے۔جس کو اس کی بنیادی خصوصیت اورامتیازی شان سمجھنا چاہیے۔اورسب جانتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی خصوصیت اس میں سے نکال دی جائے تو ،وہ چیز باقی نہیں رہ سکتی۔اس لیے اگر انسان کا اصلی مجسمہ سامنے ہومگر اس میں یہ انسانی جوہر اورانسانی خصوصیت نہ ہوتو وہ انسان کی صورت تو ہوسکتی ہے۔حقیقی انسان نہیں ہوسکتا۔“
اس پرفتن دور میں مدارس اسلامیہ اورجامعات دینیہ کی جانب سے عوامی سطح پر ایسے مبارک اجتماعات ومحافل کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ ان کی دینی خدمات کو اجاگر کرتاہے،بلکہ عوام میں پائے جانے والے فکری ارتداد کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کا موٴثر ذریعہ بھی ثابت ہوتاہے۔الحمدللہ! اکابرین کی توجہات اورایمانی فہم وفراست کی بدولت ہر سال مدارس میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہورہاہے۔جوا س بات کی واضح دلیل ہے کہ اندرہی اندرخاموش اورصالح انقلاب کی بیداری اورتیاری کے لیے کی جانے والی محنت اپنارنگ واثر دکھارہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے صاحب ایمان کا رشتہ جب تک کتاب وسنت ،دین اورشعائردین سے مضبوط وپختہ نہیں ہوگا،اس وقت تک ہم دنیاوی پستی سے بلندی اوراخروی تنزلی سے ترقی کی طرف گام زن نہیں ہوسکتے ۔
یہاں ہم پورے خلوص اوردرد دل کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں یہ گزارش ضروری سمجھتے ہیں کہ خدارا! اپنی اوراپنی اولادونسل کے ایمانوں کی فکر کیجیے۔دجالی تہذیب اوراس کے ہرکاروں کے خفیہ مکر کوپہچانیے۔ باطل کی سازشوں اورریشہ دوانیوں کا ادراک کیجیے۔طاغوت خیر کے مراکز کو دہشت گردی کے اڈے بتلاکر،تاریخ کا سب سے بڑاجھوٹ بول رہاہے۔اس فریب سے بڑھ کر کیا فریب ہوگا کہ سچ کو جھوٹ اورجھوٹ کو سچ کہاجارہاہے۔قرب قیامت کی علامات میں سے ایک واضح نشانی ”اہل علم“کا اٹھ جاناہے۔کہیں ایسانہ ہو کہ ہم شیطانی چیلوں اورچالوں کے جال میں پھنس کر اپنے ایمان وایمانیات سے ہاتھ دھو بیٹھیں اورہماری آنے والی نسلیں نام کی مسلماں رہیں نہ کام کی۔یہ فیصلہ ہم نے آج اورابھی کرنا ہے کہ ہماری حیات مستعار کن اصولوں اورضابطوں کے مطابق گذرے گی؟ہم نے مغرب کی مادرپدرآزاد تہذیب کوگلے لگانا ہے یا اسوہ نبوی علیٰ صاحبھاالصلوة والسلام میں اپنے لیے آسودگی تلاش کرنی ہے ۔ہمارے لیے نجات وسلامتی اورتحفظ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑ لیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے علم دیاہے۔جنہیں رب کائنات نے انبیاء علیھم الصلوة والسلام کا جانشین ووارث بنایاہے۔جن کے قلوب نور معرفت سے تابندہ اورجن کی فکریں قرآن وحدیث کے انوارات سے رخشندہ ہیں۔
فی الواقع پوری دنیا میں پاکستان کو حق تعالیٰ نے یہ اعزاز دیاہے کہ یہاں علوم وحی کی حامل درس گاہوں کا جال بچھاہواہے۔اہل وطن اس نعمت خداوندی پر جتنا بھی شکر اداکریں کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن وسنت کے ان سرچشموں کا بھرپور دفاع کیا جائے۔ان کے استحکام میں دامے، درمے، سخنے حصہ ڈالاجائے۔جو یقینا ہمارے لیے باعث نجات اورخوش نودی ٴ حق کا پروانہ ہوگا۔اہل نظر اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ پاک سرزمین پر موجود یہ نظریاتی تعلیم گاہیں یہود ونصاریٰ کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دشمنان دین بے بنیاد افواہوں کے ذریعہ مدارس اوراہل مدارس کی کردار کشی کرکے، عامة المسلمین کو جہالت وضلالت کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ان حالات میں ایک عام مسلمان پر یہ بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ ان خطرات ومفاسد کوبھانپنے اوردین ووطن کی سلامتی کی خاطر اہل اللہ سے تعلق،عقیدت اورمحبت کو مضبوط بنیادوں پر استوارکرے ۔دوسری صورت میں اس کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے کہ #
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں