رمضان ۔۔۔ آرام طلبی یا جُہدِ مسلسل
عبیدالله خالد
اس دنیا میں انہی قوموں اور انہی افراد نے کامیابی حاصل کی ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے روزوشب کو نظم وضبط اور سخت کوشش کا پابند بنایا۔ جن قوموں اور افراد نے محنت ومشقت سے جان چھڑائی اور آرام طلبی کو اپنا وطیرہ بنایا، نہ الله تعالیٰ نے ان کی مدد ونصرت کی اور نہ ہی اسباب عالَم ان کے لیے مسخر ہوئے۔
آج من حیث المجموع مسلم دُنیا کا مزاج کچھ اسی قسم کا بن چکا ہے مسلمان جہد مسلسل کو پسند کرتے ہیں اور نہ زندگیوں میں نظم وضبط کے کوئی آثار ہیں، البتہ امید یہ رکھتے ہیں کہ کب ہمارے دشمن زوال پذیر ہوں اور ہم ترقی یافتہ اقوام کی صف میں آموجود ہوں۔
صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت تمام مسلمانوں سے کہیں زیادہ متقی، زیرک اور مدبر تھی انہوں نے اپنے اردگرد کے حالات کو بدلنے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے سب سے پہلا جو قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ اپنی زندگی کو اس نظم وضبط کا پابند کیا جس کا تقاضا ان سے اسلامی تعلیمات کرتی تھیں۔ چناں چہ اُن کی زندگیوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقرار توحید اور دخول اسلام کے بعد ان کی زندگیاں یک سر بدل جاتیں پھر وہ لوگ سخت کوشش اور جان فشانی کے ساتھ اپنے شب وروز کے معمولات گزارنے لگتے۔
اسلام، ہمیں آرام پسند اورعیش پرست بنانا نہیں چاہتا جیسا کہ مسلمانوں نے آج اپنی زندگیوں کو بنا رکھا ہے بلکہ اسلام تو ہر لمحہ اور ہر آن مسلمانوں کو مشقت، جدوجہد اور انتہائی منظم معمولات کے مطابق زندگی گزارتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ رمضان اس کا ایک بہترین عنوان اور ذریعہ ہے۔ مگر افسوس مسلمانوں نے رمضان کے اصل سبق کو یک سر مسترد کر دیا اور رمضان اور روزے کو آرام، لذت آفرینی اور آرام طلبی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا رمضان جہاد اور مشقت سے عبارت ہوا کرتا تھا، کیوں کہ یہ مہینہ مسلمانوں کو تربیت کا بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس لیے رمضان کی حقیقی روح سے سیراب ہونے کے لیے رمضان کے روزوں کو انتہائی کوشش اور مثالی نظم وضبط کے ساتھ گزارئیے۔