Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

9 - 17
 جمال حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم
	

مولانا حذیفہ وستانوی

جب گفتگو فرماتے تونہایت واضح کلام فرماتے ‘یہاں تک کہ پاس بیٹھنے والا اس کو یاد کرلیتا اور بات کو تین دفعہ فرماتے تاکہ پورے طور پر سمجھ میں آجائے، زبان مبارک کو محفوظ رکھتے، بلا حاجت کلام نہ کرتے اور کلام فرماتے تو جوامع الکلم فرماتے، آپ کا کلام فصل ہوتا تھا، جس میں نہ مقصود سے زیادتی ہوتی نہ کمی، کبھی بطور مثال کے کوئی شعر بھی پڑھتے، یہ شعر بھی پڑھتے:
        وَیاَٴتِیْکَ بِالاَٴخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوّدِ

اس کے علاوہ اور بھی شعر آپ نے پڑھے ہیں ۔

آپ کی ہنسی عا م طو ر پر مسکراہٹ کی صورت میں ہو تی تھی اور کسی عجیب چیز کی وجہ سے آپ کو ہنسی بھی آ گئی اور دندان مبارک ظاہر ہوگئے، مگر کھل کھلا کر قہقہہ کی طرح آپ نہیں ہنستے تھے۔

کبھی کسی کھا نے کا آ پ نے عیب نہیں بیان فرما یا ، رغبت ہو ئی تو نوش فرما لیا ، ورنہ نہیں۔آپ تکیہ لگا کر کھا نا تناول نہیں فرما تے تھے ،نہ خوان پر تناول فر ما تے تھے ، کسی مباح (جائز) چیز سے بلا وجہ انکا ر نہ فرماتے تھے ، ہدیہ استعمال فرما تے، اس کی مکافات (بدلہ دینا) فرماتے، صدقہ استعمال نہیں فرما تے تھے ، کھانے پینے میں کوئی خاص اہتمام نہیں فرما تے تھے ، جو مل جاتا تناول فرما لیتے ، کھجور مل جاتی وہی کھالیتے، روٹی ملتی، گوشت ملتا، وہی تناول فرمالیتے، دودھ ملتا تو اسی پر اکتفا فرما لیتے، چپاتی تو وفات تک استعمال نہیں فرمائی۔

حضرت ابوہریرہفرماتے ہیں کہ :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیاسے تشریف لے گئے اور جو کی روٹی بھی سیر ہوکر تناول نہیں فرمائی،آپ کے گھر والوں پر مہینہ دو مہینہ کا عرصہ گذرجاتا اور آپ کے کسی گھر میں آگ تک جلنے کی نوبت نہ آتی ، ان کا گذران کھجور اور پانی پر تھا ۔

بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے ،حا لا نکہ اللہ جل جلا لہ وعم نوالہ نے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ کو عطا فرمائیں،مگر آپ نے ان کے قبول کرنے سے انکار کردیا اور ان کے مقابلہ میں آخرت کو اختیار فرمایا۔

آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لاتے تو دریافت فرماتے کہ : ”کچھ کھانے کو ہے؟“ وہ عرض کرتیں کہ : کچھ نہیں ، تو آپ فرماتے کہ :”اچھا میر ا روزہ ہے “ایک روز تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمارے پاس تو ایک ہدیہ آیا ہے ، آپ نے فرمایا کہ: ”کیا ہے؟“ عرض کی کہ حَیْس (کھجور، ستو، اور گھی سے تیار شدہ ایک قسم کا کھانا) ہے ،ارشاد فرما یا کہ: ”میں نے تو روزہ کی نیت کرلی تھی “، حضرت عائشہ فرماتی ہیں :پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تناول فرمایا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی سرکہ سے بھی تناول فرمائی اور فرمایا :”سرکہ بڑا چھا سالن ہے “۔ آپ نے مرغی اور تیتر کا گوشت بھی تناول فرمایا ، لوکی رغبت سے کھاتے تھے ،بکری کا بونگ (بکری کے دست کا گوشت)کا گوشت بھی مرغوب تھا اور یہ بھی ارشاد فرما یا کہ :” بہترین گوشت ،کمر کا گوشت ہے“۔ ارشاد فرمایا کہ:

”روغن زیتون کھا ؤ اور اسے مالش میں بھی استعما ل کرو۔ یہ شجرئہ مبارکہ سے نکلا ہے“۔ آپ کو کھرچن بھی مرغوب تھی،آپ تین انگلیوں سے کھاناکھا تے اور ان کو چاٹ بھی لیتے۔

حضرت سلمی رضی اللہ عنہا زوجہ ابی رافع سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور ابن عباس اور ابن جعفر(رضی اللہ عنہم)ان کے پاس آئے اور فرمائش کی کہ:ہمارے لیے ایسا کھانا تیار کرو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومرغوب تھااورخوش ہوکر اسے نوش فرمایا کرتے تھے، وہ کہنے لگیں کہ: بیٹھو! وہ کھانا آج ہمیں مرغوب نہیں۔ انہوں نے کہاکہ:نہیں، ضرور تیار کرو ،چناں چہ وہ اٹھیں اور جوَ پیس کر ہانڈی میں ڈال دیے اور اوپر سے کچھ روغن زیتون ڈال دیا اور سیاہ مرچ اور لونگ کوٹ کراس پر چھڑک دی اور سامنے لاکررکھ دیا، اور کہا: یہ کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب تھا اور خوش ہو کر نوش فرمایا کرتے تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوَ کی روٹی خشک کھجور سے نوش فرمائی اور فرمایا:”یہ(یعنی کھجور) اس کا سالن ہے“ اور تربوز تر کھجور سے اور ککڑی تر کھجورسے اورچھوارہ مکھن سے اور آپ کو شیرینی وشہد مرغوب تھا۔

آپ پانی بیٹھ کرپیا کرتے اور بعض دفعہ کھڑے ہوکر پیا اور آپ پینے کے درمیان پانی کے برتن کو تین بار منہ سے جدا کرکے سانس لیتے اور جب چاہتے کہ بچا ہوا پانی صحابہ کو عنایت فرما دیں، تو اپنی داہنی جانب سے ابتدا فرماتے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا اور ارشاد فرمایا :”جب اللہ کسی کو کوئی کھانا عطا فرماوے تو اس طرح دعا فرمائے: ”اللہم بارک لنافیہ واطعمنا خیرا منہ “اور جس کو اللہ تعالی دودھ پلائے وہ اس طرح دعا کرے: ”اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ“ اورفرمایا کہ:” دودھ کے علاوہ کوئی چیز کھانے اور پینے دونوں کے قائم مقام نہیں ہوتی۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صوف کا لباس بھی استعمال فرماتے اور پیوند لگی ہوئی جوتی بھی پہن لیتے تھے، لباس میں کوئی خاص اہتمام نہیں فرماتے تھے،جو مل جاتا پہن لیتے ، کبھی پرانی چھوٹی چادر، کبھی یمانی سبزسرخ چادر، کبھی صوف کا جبہ ، سِبْتِیْ(سبتی جوتہ: بغیر بالوں کے چمڑے کا جوتہ) جوتہ پہنتے تھے اور اسی میں وضو بھی کرلیتے ، پہلا وہ شخص جس نے جوتے میں گرہ لگائی حضرت عثمان  ہیں ،یمنی چادر آپ کو زیادہ پسند تھی، جس میں سفیدی وسرخی ہوتی تھی، کپڑوں میں کرتہ زیادہ پسند تھا۔

جب کو ئی نیا کپڑاستعمال فرماتے تو اس کا نام : عمامہ یا کرتہ یا چادراور یہ دعا پڑھتے:” اللہم لک الحمد کما البستہ، اسألک خیرہ وخیر ما صنع لہ، وأعوذ بک من شرہ وشر ما صنع لہ “․

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سبز دھاری کا کپڑا بھی پسند تھا، آپ کو یہ بات بھی پسند تھی کہ آپ کے کرتہ کی گھنڈی (گریبان کا بٹن) کھلی رہے، کبھی محض صوف کا کمبل آپ نے اوڑھا اور اس میں نماز پڑھی اور لنگی باندھ کر بغیر کسی دوسرے کپڑے کے آپ نے نماز پڑھی اور لنگی اس طرح باندھی کہ اس کے دونو ں کنارے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان باندھ لیے ۔

عمامہ کے نیچے آپ ٹوپی بھی پہنتے اور کبھی صرف ٹوپی پہنتے بغیر عمامہ کے اور کبھی صرف عمامہ استعمال کرتے بغیر ٹوپی کے ۔لڑائی کے موقعہ پر کانوں والی ٹوپی استعمال فرماتے، کبھی اس ٹوپی کو اتار کر سامنے رکھتے اور سترہ بنا کر نماز پڑھتے ‘ کبھی بلا ٹوپی، بلا عمامہ، بلا چادر پیدل چل کر مدینہ منورہ کے آخری حصہ تک جاکر بیماروں کی عیادت کرتے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ باندھتے اور شملہ دونوں کندھوں کے درمیان چھوڑتے تھے ‘حضرت علی فرماتے ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا اور اس کا شملہ میرے کندھوں پر چھوڑا اور فرمایا کہ ”عمامہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق کرنے والاہے “ ۔ جمعہ کے روز آپ عمامہ باندھتے اور سرخ دھاری والی چادر اوڑھتے تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاندی کی انگوٹھی پہنتے اور اس کا نگ بھی چاندی کا تھا ،اس کا نقش ”محمد رسول اللہ“تھا، یہ انگوٹھی داہنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں ہوتی تھی، کبھی بائیں ہاتھ میں بھی پہنتے تھے، اس کا نگ ہتھیلی کی طرف ہوتا تھا ۔

آپ کو خوش بو مرغوب تھی ، بدبو سے نفرت تھی ، فرمایا کرتے تھے کہ : ”اللہ تعالی نے میری لذت عورتوں اور خوش بو میں رکھ دی ہے ا ور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں بنادی“ ۔ غالیہ اور مشک کی خوش بو استعمال فرمایا کرتے ، حتی کہ اس کی چمک سر مبارک میں مانگ کی جگہ محسوس ہوا کرتی تھی ، عود بھی سلگایا کرتے ا ور اس پر کافور بھی ڈالتے تھے ،شب ِ تاریک میں خوش بو کی مہک کی وجہ سے پہچان لیے جاتے تھے۔

اِثمد کا سرمہ استعمال فرمایا کرتے تھے، ہر شب تین تین سلائی ہر آنکھ میں لگاتے ، کبھی تین داہنی آنکھ میں اور دو بائیں میں ،روزہ کی حالت میں بھی سرمہ لگایا ہے اور فرمایا کرتے تھے کہ” اثمد کا سرمہ لگایا کرو، وہ بینائی کو جِلا دیتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے “ ۔ سراورریش مبارک میں تیل کثرت سے لگاتے اور کنگھا تیسرے روز کرتے، کنگھا کرنے ، جوتا پہننے ، وضوء کرنے، بل کہ تمام کام داہنی جانب سے شروع کرنے کو پسند فرماتے۔

آئینہ بھی دیکھا کرتے ،کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں پیالہ میں پانی رکھا ہوتاتو اس میں دیکھ کر بالوں کو درست فرما لیتے۔ سفر میں یہ چیزیں ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں :تیل کی شیشی ، سرمہ دانی ، آئینہ ،کنگھا قینچی،مسواک ، سوئی ،تاگہ۔اپنے کپڑے بھی سی لیتے اور اپنی جوتی بھی گانٹھ لیتے ۔اراک کی مسواک کرتے، جب نیند سے اٹھتے تودہن مبارک کو مسواک سے صاف کرتے،رات میں تین مرتبہ مسواک کرتے :سونے سے پہلے،سوکر اٹھ کر، نماز فجر کے لیے نکلتے وقت۔

دونوں کندھوں کے درمیان (اور گردن کی دونوں جانب ) دورگوں میں آپ نے پچھنے بھی لگوائے (فاسد خوان نکلوانا)، بحالتِ احرام پشت پرموضع مَلَلَ(مدینہ طیبہ سے 28 میل دور مکہ معظمہ کے راستہ پر ایک جگہ)میں بھی پچھنے لگوائے ہیں ،17،19،21تاریخ کو پچھنے لگواتے تھے۔

آپ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے، مگر بات سچی ہی فرمایا کرتے ایک روز ام سلیم کے پاس تشریف لائے، ان کا ایک بیٹا ابوطلحہ سے تھا، اس کا نغیر(نُغیر ایک قسم کا چھوٹا پرندہ) مر گیا تھا ، آپ نے فرمایا:

یا أباعمیر! مافعل النغیر؟ اے ابو عمیر ! کیا کیا لال چڑیانے؟

ایک عورت خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ : یا رسول اللہ مجھے سواری کے لیے ایک اونٹ دے دیجیے ، فرمایا کہ : ”اونٹنی کا بچہ تجھ کو سواری کے لیے دوں گا “۔ اس نے کہا کہ : وہ تو مجھے اٹھا بھی نہیں سکے گا ! آپ فرمایا کہ :” میں تجھے سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ ہی دوں گا۔ “ اس نے کہا :وہ تو مجھے اٹھا بھی نہیں سکے گا ! پھر لوگوں نے اسے کہا کہ : اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے ۔

ایک عورت آئی او ر عرض کیا کہ :حضور! میرا خاوند بیمار ہے اور آپ کی زیارت کو تڑپ رہا ہے، آپ نے فرمایا کہ :” تیرا شوہر و ہی ہے نا،جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ! “ ۔ عورت واپس آئی اور شوہر کی آنکھ کھول کر دیکھنے لگی، شوہر نے پوچھا :کیا دیکھتی ہے ؟ اس نے کہا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی ہے ، اس پر شوہر نے کہا کہ : ناس گئی ! سفیدی تو سب کی آنکھ میں ہوتی ہے۔

ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں بھیجے ، ارشاد فرمایا : ” اے امّ فلاں ! جنت بوڑھی عورتوں کی جگہ نہیں، وہاں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی۔“ وہ عورت روتی ہوئی واپس ہونے لگی ، تو ارشاد فرمایا کہ : ” اسے کہہ دو، یہ بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائے گی ، اللہ پاک نے فرمایا کہ : ہم نے ان کونئی پیدائش عطا کی اور ان کو کنواری محبوبہ ہم عمر بنا دیا ہے اصحاب یمین کے لیے “۔ (سورہٴ واقعہ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دفعہ دوڑی تو میں حضور صلی الله علیہ وسلم سے آگے نکل گئی، ایک عرصے بعد دوبارہ ہم دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر مار کر فرمایا کہ : ”یہ اس کا بدل ہو گیا ،،۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لاتے، ایک شخص کی پشت کی طرف سے، جس کا نام زاہر تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت محبت فرما تے تھے ، آپ نے دونوں ہاتھ اس کی دونوں آنکھوں پر رکھ دیے اور اس نے نہیں پہچانا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا :” کوئی ہے جواس غلام کو خرید لے ؟ “ وہ اپنی کمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگا اور کہنے لگا کہ : حضور ! آپ مجھے نکما (سستا اور کم قیمت) پائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ :” لیکن تو اپنے خدا کے نزدیک تو نکما نہیں ہے“۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین کو بچوں کے ساتھ گلی میں دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے تو حضرت حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنساتے تھے، یہاں تک کہ ان کو پکڑلیا اور ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا ، دوسرا ان کے سرکے اوپر۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہ پاس تشریف لے جاتے اور لڑکیاں ان کے پاس کھیلتی ہوتیں ، جب وہ آپ کو دیکھتیں تو ادھر ادھر متفرق (جدا جدا ہو جاتیں) ہو جاتیں ، پھر آپ ان کو گھیر کر ان کے پاس بھیجتے۔

ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”عائشہ کیا ہے ؟“ کہنے لگیں کہ: یہ حضرت سلیمان بن داود کا گھوڑا ہے ، آپ کو ہنسی آگئی اور دروازہ کا رُخ کیا ، حصرت عائشہ رضی اللہ عنہا جھپٹیں اورآپ کو لپٹ گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حمیرا کیا بات ہے؟عرض کیا:یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں، دعافرمائیں کہ اللہ تعالی میری اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرمادے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اس طرح کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگی، اور دعا کی :”اللھم اغفر لعائشة بنت أبی بکر مغفرة ظاھرة وباطنة لا تغادر ذنبا ولا تکسب بعدھا خطیة ولااثما“ اور ارشاد فرمایا :”عائشہ خوش ہوگئی ؟ “عرض کیا:جی ہاں !اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! آپ نے فر مایا کہ : ” اس پاک ذات کی قسم! جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے ،میں نے اس دعا کے ساتھ تجھے خاص نہیں کیا اپنی امت میں سے ، بل کہ میری تو رات دن اپنی امت کے لیے یہ دعاہے ، گز شتہ لوگوں کے لیے بھی ، موجودہ کے لیے بھی ، آئندہ قیامت تک آنے والوں کے لیے بھی ، میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں اور فرشتے میری دعاپر (آمین) کہتے ہیں“ ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور سید المر سلین تھے ، اللہ پاک نے آ پ کو علم الاولین عطافرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مناقب کاتمام عالم میں کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔

صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین

صلوة دائمة الی یوم الدین، آمین․

یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ وکریمہ۔ رب ذوالجلال کی قسم! اس زمین کے اور اس نیلگوآسمان کے سایہ میں آدم علیہ الصلاة والسلام سے لے کر آج تک، بل کہ قیامت تک نہ کوئی آپ کاسا حسین پیدا ہوا ہے اور نہ پید ا ہوگا اور نہ آپ کا سا خلیق ہی سراپا اخلاق حمیدہ کا مجسم نہ پیدا ہوا اور نہ ہو گا، ان بد باطنوں کے پرو پیگنڈے سے کیا ہوگا قرآن اعلان کر چکا ہے: ﴿انا کفینا ک المستہزئین﴾ کہیں قرآن نے کہا ﴿فسیکفیکہم اللہ﴾ اللہ ضرور ان مردودوں سے نمٹے گا اور انہیں دنیا اور آخرت مین عذاب الیم سے دو چار کرے گا اور قرآن کوئی انسانی کتا ب نہیں بل کہ آسمانی اور خدائی کتاب ہے ،جب اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت لے لی تو اب کیا باقی رہ گیا اور جب اللہ وعدہ کر چکا تو ﴿ان اللہ لا تخلف المیعاد ﴾ اس میں شک کی گنجائش ہی نہ رہی، قرآن چوں کہ ایسی ذات کی کتاب ہے جو علام الغیوب ہے اور وہ عندہ مفاتیح الغیب کی حامل صفات ذات کی طرف سے نازل ہوا لہٰذا اللہ نے اپنے علم غیب کی بنیاد پر پہلے مسلمانوں کو اہل کتاب ومشرکین کے بارے میں کثرت دل آزا ری کا معاملہ در پیش ہونے کا اعلان کر دیا اور وہ سچ ثابت ہوا، قرآن نے اعلان کیا :﴿لتبلون فی اموالکم و انفسکم ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکو ا کثیرا﴾ کہ تم اہل کتاب ومشرکین سے کثرت سے دل آزاری کی باتیں سنتے رہو گے اور یہ سب کچھ ہو ہی رہا ہے، مگر اللہ کا بڑا احسان وشکر ہے ہمارے مسلمان بھائیوں نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت اس موقعہ پر فراہم کیا اور ڈٹ کر اس کے خلاف سینہ سپر ہو چکے ہیں، امید ہے کہ امت میں اس واقعہ سے ایک انقلاب بر پا ہوگا، علامہ اقبال نے بالکل ٹھیک کہا #
        خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے

یااللہ! ہم دست بدعا ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق کو ہمارے رگ وریشے میں سرایت کر دے اور ہم آپ کے طریقے اور نام پہ اپنا سب کچھ مٹا دینے کو سعادت اور نیک بختی سمجھیں، ایسی توفیق مرحمت فرما اور ہمیں اس شعر کا سچا مصداق بنا دے جو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد رحمة اللہ علیہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا ۔
        دمکتارہے تیرے روضے کا منظر
        سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
        ہمیں بھی عطا ہو وہ شوق ابو ذر 
        ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہٴ بلالی

اور نبی کا ایسا عشق عطا کر جیسا ظفر علی خاں نے کہا #
        دیار یثرب میں گھومتا ہوں
        نبی کی دہلیز چومتا ہوں
        شراب عشق پی کر جھومتا ہوں
        رہے سلامت پلانے والا

اے اللہ! ہمیں وہ عشق عطاکر جو شیخ الہند کو عطا کیا، شیخ عشق میں مست ہوکر جنت کو خطاب کرکے کہتے تھے۔
        تجھ میں حور و قصور رہتے ہیں
        میں نے مانا ضرور رہتے ہیں
        میرے دل کا طواف کرجنت
        میرے دل میں حضور رہتے ہیں

اب میں کہاں کہاں تک جمال مصطفی، اخلاق مجتبیٰ، عشاق مرتضی کی مد ح خوانی کوبیان کروں اب میں ان اشعار پر اپنے قلم کو با دل نا خواستہ روکتا ہوں جو ایک عربی شاعر نے چالیس ہزار اشعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہنے کے بعد کہے اور ایک اردو شاعر نے اس کا ترجمہ کیا، شاعر کہتا ہے #
        تھکی ہے فکر رساں ، مدح باقی ہے
        قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
        ورق تمام ہوا ، مدح باقی ہے
        اورعمر تمام لکھا، مدح باقی ہے

”اللھم صل وسلم دائما ابدا علی حبیبک خیر الخق کلھم “․
Flag Counter