Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

4 - 17
 میں پیوں تو حلال تم پیو تو حرام
	

محترم الیاس ندوی بھٹکلی

تین چار سال پہلے کی بات ہے ، میں اپنے گھر سے جمعہ کے لیے اپنے اسکوٹر پر جامع مسجد جارہا تھا، شمس الدین سرکل سے پہلے پیٹرول پمپ کے پاس ایک دوست سے راستہ چلتے ملاقات ہو گئی، جیسے ہی انہو ں نے مجھے سلام کیا تو جوابی سلام کے بعد میری زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ ارے بھائی! یہ تمہاری اسکوٹر ہے یا آٹورکشا؟ وہ دراصل اپنے تین بچوں کے ساتھ چارسواریوں کا بوجھ اس مظلوم گاڑی پر ڈھو رہے تھے، میرے اس بے تکلف تفریحی، لیکن طنزیہ جملے سے ان کے شرمندہ ہونے کا اندازہ مجھے اس بات سے ہوا کہ وہ ہنستے ہوئے اپنی گاڑی کو بڑی تیزی سے آگے بڑھا گئے، ایک دو مہینے بعد رات کے وقت میں اپنے آفس سے گھر جارہا تھا کہ میرے اسی دوست کا اسی راستہ میں اتفاق سے پھر سامنا ہوا، آج وہ اپنی گاڑی پر اکیلے تھے، میرے قریب آکر انہوں نے اس کی رفتار دھیمی کی اور بڑی آواز سے مجھے سلام کیے بغیر صرف یہ جملہ سنا کر آگے بڑھ گئے ارے یہ کیا! میں نے تو اپنے اسکوٹر کو بقول آپ کے چند ہفتے پہلے رکشہ بنایا ہوا تھا،آج تو آپ اپنی اسکوٹر کو ٹرک یا بس بنائے ہوئے ہیں، ان کے اس جملہ کے فوراً بعد میرا ان سے زیادہ شرمندہ اور بور ہونا فطری امر تھا، میں نے جیسے ہی اپنی گاڑی کا جائزہ لیا تو میری گاڑی پر سامنے دو اور پیچھے دو میرے بچے بیٹھے ہوئے تھے اور پانچواں میں تھا، قریب سے گزرنے والوں کے لیے کسی چھوٹے ٹرک سے کم میری گاڑی کا نظارہ نہیں تھا، یہ واقعہ اگر چہ ایک تفریحی مکالمہ پر ختم ہوا، جس کو میرے دوست شاید بھول گئے، لیکن میں اس کو اپنے حافظہ سے محو نہیں کر سکا، حدیث کی روشنی میں اس میں میرے لیے بڑا سبق تھا جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مسلمان مسلمان کا آئینہ ہے۔“

آج ہمارا حال کچھ یوں ہے، میں روزانہ غلطیاں کرتا ہوں، مجھے اس کا احساس تک نہیں ہوتا، لیکن سامنے والے کی ایک چھوٹی غلطی بھی مجھے پہاڑ کے مانند نظر آنے لگتی ہے اور میں اس کا چرچا کرنے لگتا ہوں میں خود برابر ناجائز کاموں میں مبتلا ہوں ، مجھے اس کا اعتراف بھی نہیں، لیکن میرے مقابل ساتھی کا مکروہ عمل بھی میری آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتا ہے، میں فرائض وواجبات میں کوتاہی کرتا ہوں، اس پر مجھے ندامت بھی نہیں ، لیکن اپنے حریف کی سنتوں اور نوافل کی کمی بھی مجھے کھٹکتی ہے او رمیں اس کو اس پر طعنہ دیتا ہوں، میں روزانہ بد زبانی کروں اس کی شدت کا مجھے احساس نہیں، لیکن اپنے دوست کی زبان سے خلاف مروت وخلاف ادب نکلنے والا جملہ بھی میرے لیے بھاری ہے ، میں کسی کا دل دکھاؤں، کسی کو طعنہ دوں، کسی کو سب کے سامنے رسوا کروں، اس کو عار دلاؤں، جائز ہے ، لیکن میرا کوئی ساتھی اصلاح کی نیت سے بھی مجھے اپنی غلطی پر ٹوکے ، مجھے سمجھانے کی کوشش کرے تو میں چراغ پا ہو جاتا ہوں ، میں فضول خرچی کروں تو یہ سخاوت ، میرا مقابل یہی کرے تو اسراف ، میں کسی کو سب کے سامنے ڈانٹوں تو یہ حق گوئی اور سامنے والا کرے تو یہ طعنہ زنی وتوہین #
        خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
        جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہ ویسے ہی ہے جیسے اوپر کے واقعہ میں آپ نے دیکھا، میرے اس دوست کا تین چھوٹے بچوں کو لے کر اپنے اسکوٹر پر جانامجھے معیوب لگا، حالاں کہ وہ اپنی مالی حیثیت سے مجبور تھا، لیکن میری مالی حیثیت مستحکم او راس سے دس گنا اچھی تھی، اس کے باوجود میرے لیے یہ حالت معیوب نہیں تھی، اس پر راستہ چلتے مسافر اور راہ گیر مجھے دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے، مجھے اس کی فکر بھی نہیں تھی #
        میں پیوں تو حلال تم پیو تو حرام

ایسے واقعات ہماری زندگی میں روزانہ پیش آتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم نبوی ہدایات کی روشنی میں اس کا تجزیہ کرکے اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے، اگر ہم صرف اسی ایک حدیث کو جس میں مسلمان کو مسلمان کا آئینہ کہا گیاہے اپنے لیے مشعل راہ بنائیں تو ہمارے معاشرہ میں پائی جانے والی دو تہائی تلخیوں کا ازالہ ہو اور ہر دن ہم دسیوں گناہوں سے بچیں۔
Flag Counter