Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

11 - 17
 کیا فرماتے ہٰن علمائے دین؟
	

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

وصیت لکھنے کا حکم
سوال… بالغ ہونے کے بعد وصیت لکھنا فرض یا واجب؟ نہ لکھے تو گناہ ہے یانہیں؟

جواب… واضح رہے کہ جس شخص کے ذمے حقوق العباد ہوں مثلاً کسی کا قرض ہو یا کسی سے کوئی چیز غصب کی ہو ، یا کسی کی امانت اس کے پاس ہو اور ورثاء میں سے کسی کو اس کے بارے میں علم نہ ہو ، یا حقوق الله میں سے کوئی قرض یا واجب ذمہ پر باقی ہو ، (مثلاً فرض یا واجب نمازیں، روزے، نذر، فطرانے، یمین کے کفارے، زکوٰة وغیرہ) اس شخص پر وصیت کرنا واجب ہے اور وصیت نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ گار ہو گا اور جس شخص کے ذمے فرائض یا واجبات میں سے کچھ باقی نہ ہو ( خواہ حقوق الله کے قبیل سے ہو یا حقوق العباد میں سے ) اس شخص کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے اور وصیت نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہو گا۔

مکروہ اوقات کا دورانیہ او را س میں نماز کا حکم
سوال… کیا فرماتے مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں :

جن اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے وہ اوقات کتنی دیر تک باقی رہتے ہیں ؟ یعنی طلوع شمس، زوال شمس اور غروب شمس کا کتنا وقت ہے؟ گھڑیوں کے اعتبار سے جس میں نماز ممنوع ہے اور یہ بھی واضح فرمائیں کہ کون کون سی عبادات ان اوقات میں ممنوع ہیں؟

اوقات مکروہہ ( بعد از نماز فجر اور قبل المغرب) کا وقت گھڑی کے اعتبار سے کتنا ہے؟

جواب… واضح رہے کہ وہ اوقات جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے ان کے دورانیے میں تفصیل ہے ، چناں چہ طلوع شمس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ سورج طلوع ہونے کے بعد جب تک اس کیفیت پر رہے کہ اس کی طرف دیر تک دیکھنے میں آنکھوں کو دشواری نہ ہو، یہ تمام وقت طلوع کے حکم میں ہے ، لیکن یہ معیار اس وقت ہے جب مطلع پر ابراورغبار نہ ہو، علماء نے ایک دوسرا معیار بھی بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ سورج کا کنارہ طلوع ہونے کے بعد ایک نیزے کے برابر بلند ہو جائے اور یہ وقت موجودہ گھڑیوں کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ تقریباً بارہ تیرہ منٹ بنتا ہے اور زوال شمس تو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہو جاتا ہے لیکن احتیاطاً پانچ منٹ پہلے او رپانچ منٹ بعد تک نماز نہ پڑھی جائے اورغروب کے اندر وہی تفصیل ہے جو طلوع میں گزر چکی ہے یعنی کہ جب سورج اتنا پھیکا پڑجائے کہ اس کی طرف دیر تک دیکھنے میں دشواری نہ ہو، یہ تمام وقت غروب کے حکم میں ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ غروب سے سولہ منٹ پہلے شروع ہو جاتا ہے ۔

ان اوقات میں تمام نمازیں فرائض، واجبات، قضاء فوائت، سنن، نوافل، نماز جنازہ او رسجدہ تلاوت میں سے کسی کی اجازت نہیں ، البتہ غروب کے وقت اس دن کی عصر کی نماز جائز ہے اسی طرح اس نماز جنازہ کی ادائیگی بھی بلا کراہت جائز ہے جو اس وقت حاضر ہوا اور تازہ سجدہ تلاوت کی کراہت تنزیہیہ کے ساتھ اجازت ہے۔

صبح صادق کے بعد طلوع شمس اور عصر کے بعد اصفرار شمس (سورج کے زرد ہونے) تک نوافل ادا کرنا مکروہ ہے ، قضاء نمازیں، سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ کی بلاکراہت اجازت ہے ، باقی گھڑی کے اعتبار سے ان اوقات کی تعیین کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ یہ اوقات موسم اور علاقے کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں، اس کے لیے بہتر اور آسان صورت یہ ہے کہ مستند علماء کی طرف سے تصدیق شدہ کیلنڈر لے لیا جائے ، پھر اس میں دیے گئے نقشے کے مطابق عمل کیا جائے۔

جی، سی ، آئی کمپنی کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں:

آج کل ملک کے دوسرے شہروں کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک کمپنی جس کانام ( جی سی آئی) ہے یہ کمپنی عام طریقہ کار سے ہٹ کر ایک نئے سسٹم کے تحت کام کرتی ہے، جس کو” ریفرل مارکٹنگ سسٹم“ کہا جاتا ہے یہ کمپنی ایک موبائل جسے قرآن ڈیجیٹل موبائل کہتے ہیں فروخت کرتی ہے فروخت کا طریقہ کار کچھ یوں ہے مثلاً زید کمپنی سے یہ موبائل8500 روپے میں خریدتا ہے تو موبائل اسی وقت زید کو ملتا ہے البتہ زید کمپنی کے مزید1400 روپے دینے کا پابند ہوتا ہے۔ باقی ماندہ یہ1400 روپے زید اس طرح ادا کرتا ہے کہ زید کمپنی کے مزید دو موبائل عمرو او ربکر کو فروخت کر ے گا اگر زید کے کہنے پر ان دونوں نے موبائل خرید لیے تو اس وجہ سے زید کو 750 روپے بونس ملے گا اور چوں کہ زید پہلے سے کمپنی کا1400 کا قرض دار ہے لہٰذا یہ 750 روپے کمپنی اپنے قرضے میں وصول کر لے گی اب عمر و اور بکر دونوں اسی قسم کاموبائل فروخت کرنے کے پابند ہو ں گے۔ فروخت کی صورت میں ان دونوں کو 750,750 روپے ملیں گے۔ جب کہ زید کو اس بیع میں 900 روپے کا بونس ملے گا اور اسی طرح مزید آگے چل کر بونس750 سے900 پھر 1200 پھر 2000 اور پھر 2000 سے 4000 تک ملیں گے اور زید نے چوں کہ موبائل8500 میں خریدا تھا اورکمپنی کا 1400 روپے کا قرض دار تھا تو ان بونس کی رقوم سے کمپنی کٹوتی کرکے اپنے1400 روپے وصول کرے گی اور باقی بونس زید کو حوالہ کر دے گی۔ اس طرح اگر زید کے دائیں بائیں جانب 31 جوڑے بن گئے تو زید کو بونس کے علاوہ 70cc موٹر سائیکل بھی ملے گی۔

دوسری صورت!
دوسری صورت یہ ہے کہ موبائل کی قیمت9900 روپے ہے تو زید4000 روپے میں کمپنی کے ساتھ انٹری کر ے گا انٹری کرنے کے ساتھ وہ کمپنی کا 5900 روپے قرض دار رہتا ہے اب زید کو اس وقت موبائل نہیں ملے گا۔ اس کے بعد وہ عمر اور بکر کو موبائل خریدنے پر ابھارے گا او ران دونوں کی انٹری کرا دے گا وہ بھی اس طرح 4,4 ہزارمیں انٹری کریں گے۔ تو اس وقت 750 روپے زید کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجائیں گے ان میں سے 345 روپے اسے 15 دن بعد ملیں گے او رمزید345 روپے اس قرض کی مد میں کٹ جائیں گے جوکہ کمپنی کا اس کے ذمہ ہے اب عمراو ربکر مزید دو آدمیوں پر موبائل فروخت کریں گے تو عمر اور بکر کو 750,750 روپے بونس ملے گا۔ جب کہ زید کو اس میں سے 900 روپے بونس ملے گا۔ اب ان900 میں سے 450 روپے پندرہ دن بعد ملیں گے جب کہ 450 روپے موبائل کی باقی ماندہ رقم میں وصول ہوں گے یہ سلسلہ مزید آگے چلے گا اور زید چوں کہ پہلے سے بائع تھا تو اس کو پہلے مرحلے میں 750 دوسرے میں 900 پھر1200، پھر1600 پھر2000 اور آخر میں 4000 روپے کا بونس ملے گا اور چوں کہ جب زید نے کمپنی سے موبائل خریدنے کا ارادہ کیا تھا تو اس نے 4 ہزار ادا کیے تھے اور کمپنی کا5900 روپے کا قرض دار تھا لیکن جب وہ موبائل وصول کرنے کا حق دار بن جائے گا تو 5900 روپے کے ساتھ ساتھ اسے مزید5900 روپے بونس کی شکل میں ملیں گے یعنی فری موبائل کے ساتھ 1900 روپے بھی۔

اب یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ کاروبار جائز ہے ؟ اس کاروبار کا حصہ دار بننا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟ او راس موبائل میں چوں کہ مکمل قرآن ، کتب حدیث ، مسنون دعائیں اور دیگر بیش بہا خصوصیات ہیں اس کو اپنے ساتھ مختلف حالات میں رکھنا، مثلا بے وضو ہونا ،جنابت میں ہونا، سوتے وقت موبائل کو سرہانے رکھنا، جیب میں رکھ کر ٹوائلٹ جانا اور جنابت کی حالت میں موبائل پر بات چیت کرنا شرعی لحاظ سے کیسا ہے ؟ مدلل جواب دے کر راہ نمائی فرمائیں۔

جواب…، سوال میں ذکر کردہ ”جی سی آئی“ کمپنی کے طریقہ کار پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی کے طریقے کار میں درج ذیل مفاسد ہیں جن کی وجہ سے کمپنی کا کاروبار اور اس کاروبار کا حصہ دار بننا دونوں ناجائز ہیں۔

الف: مذکورہ کمپنی کا کاروبار”بیع بشرط“ پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی زید کو موبائل اس شرط پر فروخت کرے گی کہ زید اس کمپنی کا تعارف کراکر مزید خریدار ( کسٹمر، ممبر) بنائے اور یہ شرط فاسد ہے جو ناجائز ہے۔

ب: او راس کمپنی کا کاروبار”صفقة في صفقة“ پر مشتمل ہے، یعنی ایک سودے میں دو سودے کرنا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ زید ایک ہی معاملے میں کمپنی کا خریدار ( کمپنی سے موبائل خریدنے والا) بھی ہے اور دلال ( کسٹمر اورممبر بنانے میں کمیشن ایجنٹ) بھی، تو ایک ہی معاملے میں بیع او راجارہ دونوں لازم آئیں گے جو ناجائز ہے۔

ج: ممبروں کے ذریعہ موبائل کی تشہیر کرکے اس کوفروخت کرنا دراصل اجارے کی ایک قسم دلالی ہے او رکمپنی کی طرف سے دلال( ممبر) بننے کے لیے موبائل خریدنا شرط ہے اور یہ اجارے میں ایک شرط فاسد ہے جو ناجائز ہے۔

د: ممبر سازی میں پہلے ممبر کا حق صرف اتنا ہے کہ اس نے براہ راست جو دو ممبر ( عمر ووبکر) بنائے ان کی وجہ سے اس کو متعین کمیشن مل جائے ، آگے اس کے بنائے ہوئے دو ممبر ( عمرووبکر) جب آگے اور ممبر بنائیں گے اور اسی طرح وہ آگے ممبر بنائیں گے ان سب کا کمیشن بھی زید کو ملے گا یہ شرعاً سود ہے ، کیوں کہ زید کی محنت کا دخل فقط عمرو اوربکر کو تیار کرنے میں تھا آگے ممبر در ممبر میں نہیں ، لہٰذا ان کی وجہ سے ملنے والا معاوضہ عوض سے خالی ہونے کی وجہ سے سود ہے۔

خلاصہ یہ کہ : ”جی سی آئی“ کمپنی کا کاروبار او راس کاروبار کا حصہ دار بننا مذکورہ مفاسد کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے۔

… وہ موبائل جس میں قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور ادعیہ ہوں اس کو اپنے پاس رکھنا او راس کا استعمال کرنا جائز ہے، البتہ اگر قرآن پاک، احادیث مبارکہ او رادعیہٰ سکرین پر نمایاں نظر آتے ہوں تو اس کو بیت الخلاء لے جانا مکروہ ہے، البتہ اگر موبائل جیب میں ہو، یا کسی سانچے میں تو بیت الخلاء لے جانے کی گنجائش ہے، تاہم اجتناب بہتر ہے۔
 
Flag Counter