Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 17
 دینِ اسلام اور راہِ اعتدال
	

محترم محمد شفیق اعوان

اس کارخانہٴ قدرت میں سب سے مؤثر وفعال عنصرانسان ہے، اس عالم امکان کے سارے ہنگامے، نوبہ نوحسن آفرینیاں او رجہان رنگ وبو کے سارے نقش ونگار اس کے وجود کے کرشمے ہیں۔

عقل واختیار کی دولت سے مالا مال اورالله تعالیٰ کے قول: ﴿ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً﴾․(بنی اسرائیل:70)

﴿انی جاعل فی الارض خلیفة﴾․ (بقرہ:30)

بڑے بڑے تمغوں کا تن تنہا مالک یہ انسان بھی دوسری مخلوقات کی طرح ﴿ألا لہ الخلق والامر﴾․ (اعراف:54) کے تکوینی نظام طاعت کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام کا بھی پابند ہے ، انسان کو ”خلیفة الله فی الارض“ قرار دینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ تصرف واستفادے میں آزاد نہیں، بلکہ محکوم ونائب ہے۔

شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰت والتسلیمات افراط وتفریط کے درمیان ایک معتدل شریعت ہے ، جس میں نہ بالکل کھلی چھوٹ ہے اور نہ ہی بالکل مواخذہ ومطالبہ ہے۔ اسلام انسان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ فکر سے کام لے کر، جس چیز کو چاہے اپنے قبضہٴ قدرت میں لائے، مگر اسے اخلاقی ذمہ داری کا پابند بناتا ہے کہ وہ فکری آزادی سے وہ کام لے جو دوسروں کے لیے مفید ہو اور اس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو ، چناں چہ الله تعالیٰ نے جہاں انسان کے لیے کائنات کی سب چیزیں مسخر کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں ”لکم“ کی قید لگائی ہے، یعنی یہ تسخیر فائدہ اٹھانے اور پہنچانے کے لیے ہے ، نہ کہ نقصان اور ضرر پہنچانے کے لیے ۔

لہٰذا وہ تمام صنعتیں اور فیکٹریاں ممنوع ہوں گی جن سے نسل انسانی کی بقا کو خطرہ لاحق ہو۔ ایسی تمام نشہ آور اشیا ممنوع ہوں گی جن سے انسان کی عقل وفکر متاثر ہوتی ہو ، اسی سے فیملی پلاننگ کا مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کسی کے آنے جانے، کھانے پینے اور کاروبارکرنے پر اس وقت تک پابندی نہیں لگاتا جب تک اس کی کوئی بنیادی قدر مجروح نہ ہوتی ہو، یا کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔

اسلام اپنے ماننے والوں کوجائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے، مگر ودسری طرف ﴿لاتسرفوا﴾ ( یعنی دائرہ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھنے) کی بھی تاکید کرتا ہے ، نفس انسانی میں لذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے ، عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے اور خواص جب گمراہ ہوتے ہیں تو رہبانیت کے گڑھے میں جاپڑتے ہیں، مگر اسلام لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہونے کا نام رہبانیت رکھتے ہوئے دونوں سے منع کرکے راہ اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے،اسلام ہر انسان کی بنیادی ضروریات یعنی دین ، جان، نسل ، مال اور عقل کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے ، موافقات شاطبی (ج4، ص:24) میں ایک اصول مذکور ہے کہ ”مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین ، والنفس، والنسل، والمال، والعقل․“ اس اصول کے تحت ہر ایسا طریقہ اختیار کرنے سے اسلام روکتا ہے جس سے انسان کے دین ومذہب، جان ومال اورنسل وعقل کو نقصان پہنچتا ہو۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے فکر وخیال کی آزادی ہو ، اس کی جان، اس کی عزت وآبرو اور مال محفوظ ہو ، اس نقطہٴ نظر سے آپ اسلام پر نظر ڈالیں گے تو ان حقوق کے ادا کرنے میں اسلام کا سینہ دنیا کے دوسرے دنیوی ومذہبی نظاموں سے زیادہ کشادہ نظر آئے گا۔ اگر آپ ایک طرف یونایٹڈنیشن (UNO) کا منشور پڑھیں اور پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے آخری حج یعنی حجةالوداع کا خطبہ پڑھیں تو ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا۔

اسلام بے سوچے سمجھے کسی کو ماننے پر مجبور نہیں کرتا، حتی کہ بنیادی عقائد توحید وآخرت جن کو اصول مسلمہکی طرح مان لینا چاہیے ، ان کے لیے بھی اسلام عقلی دلائل فراہم کرتا ہے ۔ اسلام ہر شخص کو دنیا میں اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے یا غلط عقیدہ قائم کرکے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر بھٹکتا پھرے، بہرحال اس دنیا میں اسے کوئی نظر یہ یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبو رنہیں کیا جاسکتا۔

قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی﴾․ ( بقرہ:256)
ترجمہ:” دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے ، بھلائی اور گمراہی دونوں واضح ہو چکی ہیں۔“

اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ پیش نہیں کیا ہے، بلکہ عملی اور قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے ۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ” امرنا بترکھم وما یدینون“ یعنی ہمیں کفار او ران کے دین کو چھوڑنے یعنی مجبور نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چناں چہ اسلامی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کسی کافر کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا۔

حضرت ریحانہ جو بنوقریظہ کی جنگ میں گرفتار ہو کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مِلک میں آئیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا ، بلکہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئیں، چناں چہ امام طبری اپنی تاریخ کی کتاب میں فرماتے ہیں:” وقد کانت حین سباھا تعصبت بالاسلام، وکانت یھودیة، فلم یکرھھا حتی اسلمت من تلقاء نفسھا“․

نیز اہل نجران او رمدینہ کے یہودیوں کو مذہبی آزادی اورجان ومال کی حفاظت کی تحریر عطا فرمانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہاں! اسلام کی دعوت دینے کو جائز قرار دیا ہے تو بھی وہ دعوت عمدہ پیرائے میں ہو اور اخلاق حسنہ کی بھی شرط لگائی گئی ہے ۔

الله تعالیٰ کا رشاد ہے :﴿ادع الی سبیل ربک بالحکمة﴾․ (نحل:125)
ترجمہ: اور بلاؤ اپنے رب کی طرف حکمت کے ساتھ۔

اسلام کو سختی اور تنگ نظری کا طعنہ دینے والوں کا زیادہ تر نشانہ جہاد ہوتا ہے کہ جہاد کا مطلب غیر مسلماوں کو مسلمان ہونے پر مجبور کرنا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جہاد کاکا مقصد امن عامہ اور عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا وار فساو وظلم کو ختم کرنا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر جب موذی مرض اور بدنی فساد کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کرے تو کوئی اسے سختی نہیں سمجھتا، بلکہ اس کی تحسین کرتا ہے، مگر جب اسلام امن عامہ کی بحالی اور فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جہاد کا حکم دیتا ہے تو وہ سب کو سختی اور ظلم نظر آتا ہے۔

لطیفہ یہ کہ اسلام کو تنگ نظری اور سختی کا طعنہ دینے والے وہ ہیں جن کے یہاں حق ، قوت وطاقت کا نام ہے ، جن کے ہاں طاقت ور ہر قسم کے حق کا مالک ہے او رکمزو رکے سارے حقوق طاقت ور کے لیے مباح ہیں، جن کے ہاں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا قانون رائج ہے او رجن کے ظلم کے سامنے خود ظلم بھی شرماجائے او رجن کے ہاں انصاف عنقاء ہے #
        شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے
        دیوار آہنی پہ حماقت تو دیکھیے

روشن خیال اور تجدد نواز ( جو جاہلیت فرنگ سے مرعوب افراد کا دوسرا نام ہے ) اسلامی سزاؤں کو سخت او رانسانی حقوق کے خلاف کہہ کر اسلام کو بدنام کرنے اور یہود ونصاری ٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا مصداق ہیں ، کیوں کہ خودشریعت موسویہ اور عیسویہ میں بھی ایسی ہی سزائیں مقرر رہی ہیں ، حتی کہ تورات میں چو رکو قتل کرنے اور زانی کو رجم کرنے کا حکم بھی ملتا ہے ، شریعت موسویہ میں بھی نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے ، کوئی اسے قتل کر دے تو اس سے بدلہ نہ لیا جائے گا۔

توراة میں ہے کہ:
”اگر چور سیند مارتے ہوئے دیکھا جائے اور اسے کوئی مار بیٹھے او ر وہ مر جائے تو اس کے لیے خون نہ کیا جائے گا۔“ ( خروج:2:22)

موجودہ تورات میں اتنے تحریفی انقلابات کے باوجود بھی حکم قصاص ان الفاظ میں موجود رہ گیا ہے :
”اگر وہ اس صدمہ سے ہلاک ہو جائے تو جان کے بدلہ میں جان لے اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ، دانت کے بدلہ میں دانت۔“ (خروج:25:23-21)

تورات میں ایک جگہ نقب زن کے قتل کا حکم بھی ملتا ہے:
”اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے او راس کا بیوپار کرے یا اسے بیچ ڈالے تو چور ما ڈالا جائے اورتُو شرکو اپنے درمیان سے دفع کر۔“ ( استثناء:7:24)

نیز رجم کا حکم تو تورات وانجیل دونوں میں ہی موجود ہے ، چناں چہ تورات میں ہے کہ:”اگر یہ بات سچ نکلے اور لڑکی کے کنوارے پن کی نشانیاں پائی نہ جائیں تو وہ اس لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر کے باہر دروازہ پر نکال لائیں اور اس کی بستی کے لوگ اس پر پتھراؤ کریں کہ وہ مر جائے۔“ (استثناء:23:22)

انجیل میں ہے کہ:”تورات میں موسی علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کردیں تو ایسی عورت کی نسبتکیا کہتا ہے؟“ (یوحنا:604:7)

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی سزائیں، جن پر یہ روشن خیال او راہل مغرب اعتراض کرتے ہیں، وہ تو شریعت موسویہ عیسویہ میں بھی رہی ہیں اور ویسے بھی مجرمین کی سزا کا مقصد اصلی ”نکال“ یعنی عبرت حاصل ہو ، پھر عبرت وموعظت کے لیے سزاؤں کا محض جسمانی حیثیت سے سخت اور تکلیف دہ ہونابھی کافی نہیں ہے، رسوائی، دماغی وقلبی تکلیف کا پہلو بھی ان میں نمایاں ہونا چاہیے۔

اسلامی فلسفہ تعزیر میں یہ بھی خوبی ہے کہ سزا کے تجویز کرنے میں دو بڑے پہلو پیش نظر رہتے ہیں:

ایک انتقامی یعنی مظلوم یا مستغیث کے جذبات کی تسکین۔

دوسرے انتظامی یعنی آئندہ کے ممکن مجرموں کی حوصلہ شکنی۔ تو یہ ساری چیزیں سزا کو سخت تو بناتی ہیں، مگر ان میں فوائد بھی ہیں، لہٰذا سختی کا اعتراض بے جا ہے۔

نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ الله تعالیٰ حاکم مطلق ہے ، وہ جس جرم کی جو سزا مقرر فرمائے، اس کی مرضی ہے، کسی کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا اور الله تعالیٰ کا حکم حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا ہے تو حاصل یہ ہے کہ سزاؤں کا سخت ہونا درحقیقت کوئی قابل اعتراض ہے ہی نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائی جائے۔

الله تعالیٰ کی صفت عدالت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ سزاؤں میں کچھ سختی ہو تبھی تو عدل وانصاف قائم ہو گا، ان تمام عقلی اور قیاسی دلائل کے باوجود بھی ممکن ہے کچھ لوگ سزاؤں کی ان سختیوں پر چیں بجبیں ہوں تو ان سے گزارش ہے کہ ساری عقلی اور قیاسی بحثوں سے قطع نظر صرف عملی او رتجرباتی حیثیت سے ہی دیکھ لیں کہ جن ملکوں نے اپنے ہاں قانون نرم کرکے سزائیں ہلکی سے ہلکی کر دی ہیں ، ان کے ہاں بدامنی اور جرائم کا کیا حال ہے؟ او رجن کے ہاں اب تک اسلامی تعزیرات وحدود کا نفاذ جاری ہے وہاں کا کیا حال ہے؟ یہی فرق بھی ان معترضین کے منھ پر زور دار طمانچہ ہے۔

دین اسلام کو عبادات احکام کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو دین اسلام میں سہولت اور آسانی ہی ہے، اس کے احکام میں عزائم بھی ہیں اور رخصتیں بھی ، جو اعمال رخصت ہیں ان میں تو سہولت ہے ہی اور جو اعمال عزیمت ہیں ، ان میں بھی چوں کہ میانہ روی اور اعتدال کی رعایت ہے ، اس وجہ سے یہ کہنا درست ہے کہ دین اسلام اپنے احکام کے اعتبار سے سہولت والا دین ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․(حج:78) یعنی الله تعالیٰ نے دین اسلام میں مشقت اور تعب نہیں رکھی ، حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے : ”ان الدین یسر“ ․ (بخاری ص:10)

یعنی دین آسان ہے ۔ ایک اور حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :”احب الدین الی الله الحنیفیة السمحة“․ (بخاری ص:10) یعنی آسان او رتوحید والی شریعت الله تعالیٰ کے ہاں محبوب ہے۔

شریعت کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام پر کوئی عمل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اس کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو ، بظاہر ایسا لگتاہے کہ شر میں سہولت اور خیر میں دشوار ی ہے، مگر دراصل بات یہ ہے کہ شر میں فی نفسہ سہولت نہیں ہے، مگر عادت کے غلبہ سے وہ سہل ومرغوب معلوم ہوتا ہے اور خیر میں فی نفسہ دشواری نہیں ہے، مگر عادت نہ ہونے سے اس میں عارضی دشواری معلوم ہوتی ہے۔

آسان ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی عمل کے کرنے میں کچھ بھی تکلیف نہ ہو اور جو چاہے کر لے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق ہونا آسانی نہیں اور تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسی تنگی نہیں ہے کہ انسان اسے برداشت نہ کرسکے، اگر بالفرض کچھ محنت اٹھانی بھی پڑتی ہے تو یہ قابل اعتراض بات تو نہیں ہے ، دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کس قدر کوشش او رتکلفات سے کام لیا جاتا ہے تو الله تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے، اس کے لیے تھوڑی سی محنت برداشت کرنا کون سا مشکل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ؟ ویسے تھوڑی بہت محنت تودنیا کے ہر کام میں کرنی ہی پڑتی ہے، تعلیم حاصل کرنے، ملازمت اور تجارت وصنعت میں کسی کیسی محنتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں؟ مگر ان کی وجہ سے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کام سخت ہیں او ربعض اوقات تو ماحول کے غلط اور مخالف ہونے یا ملک وشہر میں اس کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے بعض احکام مشکل نظر آتے ہیں ،مگر دراصل وہ مشکل ہوتے نہیں، بلکہ کرنے والے کو بھاری اس لیے معلوم ہوتے ہیں، کہ ماحول میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں ہوتا جس ملک میں روٹی کھانے اور پکانے کی عادت نہ ہو وہاں روٹی حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے ، یہ سب سمجھتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روٹی پکانا، کھانا بڑا سخت کام ہے۔

بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ھو اجتباکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾ ․ (حج:78) یعنی الله تعالیٰ نے تمہیں چن لیا اور تم پر دین میں کوئی حرج نہیں رکھا تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ جو چاہو کرو تو اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ اجتباء یعنی چن لینے کا مطلب یہ نہیں کہ اب عمل نہیں کرنا ہے، بلکہ عمل بھی ضروری ہے، الله تعالیٰ نے تو اجتباء کا سامان مہیا کر دیا ہے ، اب عمل خود کرنا پڑے گا، جیسے دعوت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ منھ میں نوالہ بھی میزبان ڈالے گا۔

نیز دین کے آسان ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پچھلی امتوں پر جو سختیاں تھیں ، وہ اس امت پر نہیں ، چناں چہ یہود پر پچاس نماز یں فرض تھیں ، زکوٰة چوتھائی حصہ کا نکالنا فرض تھا، نجاست لگنے پر کپڑے کو کاٹنا ضروری تھا، بھول چوک پر سزا ہوتی تھی ، گناہ کے جرم میں بعض حلال چیزیں حرام ہو گئیں تھیں، وغیرہ ، اسی سلسلہ میں قرآن مجید میں حضور صلی الله عیہ وسلم کی صفت یوں بیان کی گئی کہ ﴿ویضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم﴾(انفال)

ترجمہ… اور وہ ( یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم) ان سے وہ بوجھ اور بیڑیاں ( یعنی سختیاں) دو رکرتے ہیں جو ان (یہودیوں اور امم سابقہ) پر تھیں۔

یہودیوں کی شرارت اور نافرمانی کی وجہ سے کئی حلال اشیا ان کے لیے حرام قرار دی گئی تھیں اور کئی خبائث ( حرام) کو انہوں نے اپنے لیے حلال قررار دے دیا تھا، اس بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم․“

ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی طیبات (یعنی حلال چیزوں) کو حرام قرار دیا تھا جو ان کے لیے حلال تھیں۔ جب کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے طیبات کی حلت کا اعلان فرمایا۔ معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں وہ سختیاں نہیں ہیں جو سابقہ امتوں پر تھیں ، چناں چہ انجیل میں پطرس ( حواری مسیح علیہ السلام) کا قول غیر اسرائیلی مسیحیوں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ : ” اب تم ان کی گردن پر ایسا جوارکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو ؟ (اعمال:10:15)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر کیسی سختیاں تھیں ، اگرچہ انجیل کے اس قول میں مبالغہ ہے، کیوں کہ سختیاں ناقابل برداشت نہ تھیں، بہرحال یہ تمام سختیاں پہلے ادیان میں تھیں، مگر دین اسلام میں نہیں ہیں۔

اسلام ایک آفاقی وبین الاقوامی مذہب ہے، اس کے احکام وتصورات کی بنیاد نہ تو محض چند مشترک مادی اغراض پر ہے او رنہ ہنگامی اورعارضی حالات نے انہیں جنم دیا ہے اور نہ اس میں کسی خاص گروہ یا قوم ہی کی سیاسی برتری یا معاشی بہبود پوشیدہ ہے ، بلکہ اس کے واضع الله تعالیٰ نے اس کی فطرت وساخت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ ہر انسان کے لیے ، ہر وقت اور ہر زمانہ میں قابل عمل ہے ، الله تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی ہے تو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے اور نظام چل رہے ہیں ، ایک وہ جوالله تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے او رایک وہ ہے جو انسان نے خود اپنے لیے طے کیا ہے، یا یوں کہیے کہ گھڑ لیا ہے ۔ الله تعالیٰ نے جونظام انسانوں کو دیا ہے ، وہ اسلام ہے اور دوسرے نظام مختلف ناموں سے اس دنیا میں موجود ہیں، بعض تو اپنے وجود مستعار کو بھی کھو چکے ہیں اور کئی نظام ختم ہونے کو ہیں ، الله تعالیٰ نے اسلام کو انسانی ، مزاج وفطرت کے مطابق تشکیل دیا ہے، اسلامی نظام میں انسان کی تمام خوبیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے ، چناں چہ خطا ونسیان پر مواخذہ نہ ہونا او رمشقت والے احکام مقرر نہ ہونا اس کی دلیل ہے۔

شریعت کے احکام کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ مختلف نظاموں میں یہ بات تو مشترک ہے کہ وہ زندگی کے ایک شعبے یا ایک شعبے کے چند مسائل پر تو بحث کر سکتے ہیں اور وقتی حل نکال سکتے ہیں، مگر مجموعی طور پر کوئی بھی انسانی نظام اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرسکے اور اس کے مسائل کو بخوبی حل کر سکے۔

مسلمانوں کا ایک طبقہ، جن میں مغرب زدہ دین دار طبقہ بھی ہے، اس دھوکے میں ہے کہ اسلام چند مخصوص عبادات کا نام ہے او ردنیاوی معمولات کے طے کرنے کے لیے ہمیں ایک عقلی طریقہ کار یا نظام کی ضرورت ہے ، یہ وہ عام خیال ہے جس کی وجہ سے لوگ اسلام کو مسجد تک محدود رکھتے ہیں او رمسجد سے باہر اپنی عقل لڑاتے ہیں، گویا نعوذ بالله! خدا صرف مسجد میں ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اسلام پوری زندگی پر محیط تو ہے مگرچودہ سو سال پرانا ہونے کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں ، آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے ، لہٰذا اسلام کی عام زندگی پر من وعن عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے ، لہٰذا اجتہاد کیا جائے اور اجتہاد کا معیار ان حضرات کی خواہش کے مطابق ہو ، مگر یہ بھی الله تعالیٰ پر بہتان ہے کہ نعوذ بالله! الله تعالیٰ نے انسان کو تخلیق تو کر دیا مگر وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی ضرورتوں کے لیے موثر لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہا ، سچ یہ ہے کہ اسلام مسجدکی طرح باہر بھی ایک لائحہ عمل فراہم کرتا ہے ، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کو ترک کرکے الله تعالیٰ کی خواہش کی پیروی کرے ، وہ جدید سائنسی دور میں سائنسی کرشموں کو اپنا خالق نہ بنائے ، بلکہ الله تعالیٰ کی مخلوق بن کر اسی کو معبود برحق سمجھے۔ جو لوگ یہ شرط پوری کرنے کو تیار ہیں اسلام انہیں لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔

اسلام کے احکام میں ایسی لچک ہے جو انہیں ہر زمانہ میں ہر ایک کے لیے قابل عمل بناتی ہے ، الله تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین ہی حقوق انسانی کا بہترین مصدر ہو سکتے ہیں، مگر انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں خامی رہتی ہے ، کیوں کہ انسانوں کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا ایک انسان کا وضع کردہ قانون دوسرے انسان کے مزاج سے متصادم ہو گا، وہ اسے توڑنے کی کوشش کر ے گا، لیکن الله تعالیٰ کے قانون میں کوئی خامی ونقصان کی گنجائش نہیں ہے ، لہٰذا ہر انسان جو سلیم الفطرت اور عقل مند ہو، وہ اسے بخوشی قبول کرے گا۔

دین اسلام کی عبادات کے سلسلہ میں غور کیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں آسانی ہی آسانی ہے ۔ ایک سلسلہ تو انعامات خداوندی کا ہے او رایک عبادات کا ہے ، انعامات تو بے شمار ہیں:﴿ وان تعدوا نعمة الله لا تحصوھا﴾․ ( براہیم:34)

ترجمہ:… او راگر تم الله تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔ اس رب السموات والارض کے احسانات کا کیا شمار ہے ؟ جس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ تمام ضروریات مہیا فرما دیں جن پر حیات انسانی کا مدار ہے ، پیدائش سے بلوغ تک کی طویل مدت احسانات کی طویل حکایت ہے ، جس کے صلہ میں کوئی چیز مطلوب نہیں ہے ، کوئی خدمت وعبادت متعلق نہیں ہے او ربلوغ کے بعد جو عبادات متعلق ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان انعامات کے مقابلہ میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمہ وقت بغیر انقطاع کے الله جل شانہ کا شکر بجا لایا جاتا اور عبادات کا سلسلہ قائم رہتا ، لیکن جوسلسلہ عبادات ہے وہ بھی سہل و آسان ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الله تعالیٰ خالق کائنات ہے ، سب سے پہلے اسے وحدہ لاشریک ماننے کاحکم ہوا، پھر ہر وقت کی عبادت فرض کرنے کے بجائے نماز صرف پانچ وقت فرض ہے ، پھر اس میں بھی اوقات نشاط کا لحاظ کیا گیا ہے چوبیس گھنٹوں میں سے نمازوں کے اوقات کو نکالا جائے تو مشکل سے تقریباً گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بنتا ہے۔ گویا الله رب العزت نے چوبیس گھنٹے عبادت فرض کرنے کے بجائے صرف گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ اپنی بارگاہ میں حاضری دینے کے لیے فرمایا اورباقی وقت (تقریباً23 گھنٹے) آرام وراحت اور کاروبار کرنے کی اجازت دے دی۔

اسی طرح زکوٰة کا معاملہ سراسر سہولت پر مبنی ہے کہ ہر شخص پر فرض نہیں ہے ، بلکہ صاحب نصاب پر فرض ہے ، پھر ہر قسم کے مال پر بھی زکوٰة نہیں، بلکہ اس مال پر ہے جو نامی اور ضرورت سے زیادہ ہو ، پھر جو زکوٰة مقرر ہے وہ بھی صرف چالیسواں حصہ ہے۔

رمضان المبارک کے روزے ہیں ، ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے ، سال بھر میں صرف ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں ،پھر صرف دن میں تو روزہ ہے مگر رات کو کھانے ، پینے او رجماع کی اجازت ہے ۔ نیز سحری کرکے روزے کا حکم او ربیمار کے لیے افطار کی اجازت ، یہ سب سہولت نہیں تو او رکیا ہے ؟

حج کو لے لیں ، پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے ، وہ بھی صرف ان لوگوں پر جو صاحب مال اور اصحاب ثروت ہوں، گھر کے اخراجات کے علاوہ آمدورفت کا خرچہ او ر راستہ کا امن ہو تو حج فرض ہو گا ، ورنہ نہیں ۔ یہ سہولت ہی تو ہے۔

معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ تو بے شمار ہے، مگر ان کے مقابلے میں عبادات بہت کم ہیں او رپھر ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے ۔

دین میں آسانی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود شریعت کا حکم مسلمان کو یہ ہے کہ وہ اعمال میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرے ، لہٰذا لازم ہے کہ دین کے اعمال وعبادات میں ایسی شدات کو اختیار نہ کیا جائے کہ آدمی اصل عمل سے ہی رہ جائے۔

مسند احمد کی روایت ہے کہ:” ان ھذا الدین متین فاوغلوا فیہ برفق“ (مسند احمد)
ترجمہ:… دین بہت مضبوط ہے ، اس میں نرمی اور آہستگی سے داخل ہو ۔ پھر آگے ارشاد ہے:” فسددوا وقاربوا“ یعنی درست طریقہ اختیار کرو اور قریب قریب چلتے رہو، یعنی اگر تم اکمل پر عمل نہیں کر سکتے یا طریق اعتدال پر کلی طور پر نہیں چل پائے تو کم از کم یہ کوشش کرو کہ اس کے قریب قریب رہو۔
Flag Counter