Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

12 - 17
 عقل پرستی کا فتنہ
	

مولانا سمیع الرحمن

عَالَم تمدن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو قومیں سیاسی طور پر غالب ہو جاتی ہیں ، ان کا تمدن انتہائی تیزی کے ساتھ مفتوح قوموں کو مرعوب کرتا ہوا پھیل جاتا ہے، کیوں کہ مفتوح قومیں نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر فاتح قوم کے نظریات، عادات واطوار کو ترقی کا مدار سمجھ لیتی ہیں، مسلمان جب سے اپنے سیاسی مرکز ”خلافت“ سے محروم ہوئے اور یورپ نے دنیا کی قیادت کا علَم اپنے ہاتھ میں لیا ہے ، تب سے مسلمان معاشرہ ان عقل پرست تحریکوں کی زد میں ہے، جو یورپ کی ”نوروحی“ سے محروم ”عقل محض“ کے عمل بردار ہیں، مسلمان معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اسلام سے بے زاری کا اعلان کرنے کی سکت تو نہیں رکھتے، لیکن امور دینیہ کے مادی فوائد بتا کر یورپ کے عقلی سانچے میں ڈھالنے کے لیے مصروف کار ہیں ، چناں چہ ان کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ:

”نمازورزش اور ڈسپلن کا ذریعہ ہے، بالخصوص نماز فجر صبح سویرے کاروبار ِزندگی شروع کرنے کا ترغیبی بہانہ ہے، روزے سے معدے کی اصلاح ہوتی ہے اور ایک ماہ کے آرام سے گیارہ ماہ نظام ہاضمہ درست رہتا ہے ، زکوٰة ٹیکس ہے ،جس سے اسلامی سرکار اپنے اخراجات پورا کرتی ہے ،جہاد فقط دفاعی جنگ کا نام ہے حج اہل اسلام کی عالمی کانفرنس ہے ، سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔( یہ بعینہ وہی نعرہ ہے جو یورپی عوام نے کلیسا کے ظالمانہ نظام کی بغاوت میں بلند کیا تھا ، اس احتجاجی تحریک نے بالآخر پوپ اور کلیسا کو ہمیشہ کے لیے سیاسی جد وجہد سے محروم کر دیا، آج یہی نعرہ مسلمان ممالک میں زور شور سے اٹھایا جارہا ہے، بلکہ بنگلادیش میں مذہبی جماعتوں کی سیاسی جدوجہد پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔) کوئی ان دانش وروں سے پلٹ کر یہ پوچھے کہ اگر نماز ورزش ہے تو مرد وعورت، بچے و بوڑھے کے لیے یکساں کیوں ہے؟ دنیا کا کون سا جیم خانہ ہے جہاں دن میں پانچ بار ورزش کرنے کی ترغیب دی جاتی ہو ؟ پھر اس ورزش کے لیے ، طہارت، وضو کی شرائط چہ معنی دارد؟ معدے کی صحت کے لیے مسلسل ایک مخصوص مہینے میں ہی روزے کیوں؟ ایسے دانش وروں کا ایک اور لطیفہ سنیے۔

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی  فرماتے ہیں کہ وہ اور ان کے رفیق محترم حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی  ایک جگہ گئے ہوئے تھے ،کچھ ہی دنوں پہلے ”الفرقان“ کے حج نمبر میں مولانا موصوف کا ایک مضمون(اپنے گھر سے بیت الله تک) نکلا تھا ،واقعہ یہ ہے کہ حج کے موضوع پر الله تعالیٰ نے مولانا سے یہ عجیب وغریب مضمون لکھوایا تھا، عجب تاثیر اور عجب سوز سے بھرا ہوا ہے ، خود میرا حال یہ ہے کہ میں نے بارہا اسے پڑھا، لیکن ہر دفعہ اس نے رلایا، ایک بڑے اچھے تعلیم یافتہ دوست، جن کا دینی مطالعہ بھی اچھا خاصا رہا ہے وہ، ملنے آئے، انہوں نے مولانا کے مضمون کی تعریف کی اور آخر میں کہا:

” لیکن اس میں ایک بڑی کمی رہ گئی ہے کہ حج کے اجتماع کا خاص مقصد اور فائدہ ہے، اس کا آپ نے بالکل ذکر نہیں کیا، میں نے عرض کیا وہ کیا؟ فرمایا دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تیرہویں تاریخ تک منی کے میدان میں سارے حجاج کو ٹھہرنے کا حکم ہے ،اس کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ شہر کے شور وشغب اور ہنگاموں سے بالکل الگ رہ کر اطمینان کے ساتھ وہاں کی پرسکون فضا میں دنیا کے اہم مسائل میں غور کریں۔“

میں نے دریافت کیا جناب حج کر چکے ہیں اور آپ نے منی میں حجاج کے ٹھہرنے کا منظر دیکھا ہے ؟ فرمایا ابھی تو نہیں، الله نصیب فرمائے۔ میں نے عرض کیا جب الله تعالیٰ نصیب فرمائیں گے تو آپ کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ آپ کتنی بڑی غلطی پر تھے؟ حیرت ہے حج کا یہ مقصد سمجھنے والے یا اس قسم کی چیزوں کو حج کا خاص فائدہ بتانے والے اور ان باتوں کو زیادہ اہمیت دینے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس مقصد کا تقاضا تویہ ہے کہ ہر ملک کے خواص اور نمائندے اور اہل الرائے حضرات کو بلایا جاتا یا کم از کم ان کے جمع ہونے پر خاص زور دیا جاتا، حالاں کہ ایسا نہیں، بلکہ ہر اس مسلمان پر حج فرض کیا گیا ہے۔ جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو اور عمر میں صرف ایک دفعہ فرض کیا گیا ہے پھر غور کرنے کی بات ہے کہ احرام، طواف، سعی، قربانی، مکہ سے منی جانا، منی سے عرفات دوڑنا، عرفات سے رات کو مزدلفہ آنا، وہاں سے پھر منی او رمنی سے پھر مکہ بھاگنا اور مکہ سے منی واپس جانا اور پھر ٹھہر کر روزانہ رمی جمار کرنا، آخر دیوانوں کے سے ان اعمال اور اس مجنونانہ دوڑ بھاگ سے اور عالم اسلام کی کانفرنس والے مقصد سے کیا ربط اور جوڑہے؟ (اسلام ص:204)

حقیقت یہ ہے کہ اگر امور دینیہ کو روحانی قالب سے نکال کر خالص مادی تناظر میں دیکھا جائے تو پھر نہ حل ہونے والے سوالات کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ قربانی ایک عظیم اسلامی شعار ہے، جس کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ خدا کے احکام میں حکمتوں اور مصلحتوں کے درپے نہیں ہونا چاہیے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب بیٹے کی قربانی کا حکم ملا تو انہوں نے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ اس میں کون سی حکمت ومصلحت ہے، بلکہ فوراً حکم خداندی پر عمل کرتے ہوئے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی، لیکن عقل پرستوں نے یہاں بھی قربانی کے حقیقی مقصد کے نام سے ایک من گھڑت فائدہ”غربا پروری“ نکال لیا، عید الاضحی کے موقع پر مضمون نگاروں کا ایک پورا قبیلہ ملکی اخبارات کے ذریعے عوام کو یہ ترغیب دیتا نظر آتا ہے کہ” قربانی کا گوشت غریب کے فاقے ختم نہیں کرسکتا، اس لیے قربانی کے بجائے نقدی دے کر اس کے معاش کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے “ نت نئے ذرائع ابلاغ اس فکری کج روی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ہر اسکرین پرکوئی نام نہاد دانش ور آن لائن ہے اور فکرونظر کی گتھیاں سلجھا رہا ہے، اسلام”تماشہ عوام “بن چکا ہے، ہر شخص حکم خدا میں فائدے پوچھتا پھرتا ہے ، اب تو دینی کتابوں کے نام تک یوں رکھے جارہے ہیں” نماز اور سائنس“ ”وضو اور سائنس۔“ گویااب نجات کا دار مدار ایمانِ سائنس پر ہے، نہ کہ ایمان شرعی پر ، ارباب فتاوی کے نزدیک تو ایسا ایمان عقلی معتبر ہی نہیں ہے ، جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے بجائے محض عقلی بنیادوں پر استوار ہو۔

اہل علم کی ذمہ داریاں
اس فتنے کی سرکوبی تو درحقیقت یورپ کے قائدانہ علَم کے سرنگوں کرنے میں مضمر ہے، تاہم اس کے سدباب کے لیے اگر علمائے کرام، فقہائے امت، آئمہ عظام، اساتذہ کرام، تزکیہ نفس کے منصب پر فائز صوفیا اور مشائخ عظام، دعوتی، اصلاحی اور تبلیغی کام سے وابستہ افراد اپنے اپنے حلقوں میں توجہ رکھیں تو یہ گمراہی زیادہ پنپ نہیں سکتی، اس تربیتی سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ:

امور دینیہ کے اہتمام کا اصل مقصد معبود حقیقی کی قربت اور رضائے الہی کا حصول ہے، جو صرف آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کیبتائے ہوئے طریقوں سے ہی ہو سکتی ہے۔

امور دینیہ کے مادی فوائد جو محسوس ہوتے ہیں وہ ہر گز مقصود نہیں۔
چوں کہ عوام الناس کی ذہنی سطح، مقصود بالذات، مقصود بالعرض، علّت، سبب، فائدہ، اسرار کا فرق سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے، اس لیے عوامی مجمع میں فقط اتنا ہی بتا دیا جائے کہ خدا کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہو سکتا، اگرچہ ہمیں اس فائدے کا علم نہ ہو۔

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ”علما درحقیقت مُنادی کرنے والے ہیں اور ناقل احکام ہیں، خود موجد احکام نہیں، اس لیے ان سے علتیں پوچھنا حماقت نہیں تو کیا ہے؟ پھر جب آپ نے ایک فن سیکھا نہیں اور آپ اس سے محض ناواقف ہیں تو آپ کو سمجھانا بھی تو ایسا ہی ہو گا جیسے ایک سائیس کو اقلیدس کی اشکال سمجھانے لگیں تو وہ کیا سمجھے گا؟… علما آج کل لوگوں کی رائے پر چلنے لگیں ہیں ،جس سے عوام کی جرات بڑھ گئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، علماء کیا نوکر ہیں کہ بے فائدہ دماغ خالی کریں؟ (مجادلات معدلت نمبر8 ،حصہ سوم دعوات عبدیت)

جس علّت کے وجود پر قطعی دلائل نہ ہوں اس کے بیان سے گریز کیا جائے، بالخصوص جب وہ جامع اور مانع نہ ہو، مثلا حرمتِ زنا کا یہ سبب بیان کرنا کہ اس سے اختلاطِ نسب کا اندیشہ رہتا ہے ، درست نہیں، کیوں کہ اگر خاتون حاملہ ہو یا بانجھ پن میں مبتلا ہو تو اختلاطِ نسب کا اندیشہ نہیں رہتا، اسی طرح سود کی حرمت میں یہ علت بیان کرنا کہ یہ انسان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے ، درست نہیں، کیوں کہ یہ علّت تجارتی سود جو بڑے بڑے تاجر اپنی تجارت کے فروغ کے لیے بینکوں سے قرض اٹھاتے ہیں ان، پر کسی طرح صادق نہیں آتی، اسی طرح خنزیر کی حرمت میں یہ بیان کرنا کہ وہ گندگی کھاتا ہے یا اس کے گوشت میں مضر صحت جراثیم پائے جاتے ہیں، درست نہیں۔ کیوں آج کل انہیں صاف ستھرے فارموں میں پالا جاتا ہے، نیز مضر صحت جراثیم کسی وقت بھی ختم ہو سکتے ہیں اور سائنسی تحقیق بھی بدل سکتی ہے۔ اس لیے ایسی علت ہر گز نہ بیان کی جائے جو جامع اور مانع نہ ہو۔

حکمت واسرار بیان کرنے میں پہلی ترجیح قرآن کریم اور حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دی جائے، جہاں جہاں نفس عبارت کے ساتھ اس کی حکمت ومنفعت کا بیان ہوا ہے ، اسے بیان کیا جائے ، مثلاً نماز کے متعلق قرآن کریم میں ہے ۔ ﴿واقم الصلوٰة لذکری﴾․(طہ:14) (اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔) نماز یاد خدا کا بہترین ذریعہ ہے۔

دوسرے مقام پر ہے۔﴿ان الصلوٰة تنہی عن الفحشآ والمنکر﴾․( عنکبوت:45)

بے شک نماز بے حیائی او ربرے کاموں سے روکتی ہے ) روزے کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ یاٰیھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾․ (البقرة:183)

(اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے امید ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ گے)۔

زکوٰة کے متعلق ارشاد ہوا ہے :﴿ خذمن اموالھم صدقة تطھرھم وتزکیھم بھا وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم﴾․ (التوبة:103)

(اے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کر لو، جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردوگے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے اوران کے لیے دعا کرو، یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے۔ زکوٰة کی حکمت بیان ہوئی کہ یہ مالی فریضہ ہے۔ تطہیر ہے ، تزکیہ ہے ۔

حج کے متعلق ارشاد ہے: ﴿واذن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم الله فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمة الانعام﴾․(الحج:27)

(اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں او ردوردراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو لمبے سفر میں دبلی ہو گئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر الله کا نام لیں جو الله نے انہیں عطا کیے ہیں۔ )

حدیث شریف میں ہے۔
الله کے گھر کا طواف، صفا ومروة کے درمیان سعی اور کنکریاں مارنا الله کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے ہے۔ ( ابوداؤد)

ہدی اور ذبیحہ جانوروں کے متعلق آیا ہے ﴿لن ینال الله لحومھا ولا دماؤ ھا ولکن ینالہ التقوی منکم کذالک سخرھا لکم لتکبرو ا الله علیٰ ماھدکم﴾ (الحج:37)

(الله کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، ہم نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں، تاکہ تم اس بات پر الله کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔

شراب کے متعلق ارشاد فرمایا: ﴿رجس من عمل الشیٰطن﴾ (مائدہ:9) (یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ایک دوسرے مقام پر اس کی علت یوں بیان کی گئی: ﴿إنما یرید الشیٰطن ان یوقع بینکم العداوة والبغضآء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر الله وعن الصلوٰة﴾․ (المائدة:91)

(شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے او رتمہیں الله کی یاد او رنماز سے روک دے ) ۔

دیکھیے !اس آیت میں شراب کے نقصان میں یہ بات بیان نہیں کی گئی کہ اس سے عقل میں خلل پڑتا ہے ، کیوں کہ اس صورت میں ایک دو گھونٹ او رمخصوص مقدار میں پینے والے اپنا جواز ڈھونڈ نکالتے۔

فضول خرچی اور اسراف کے متعلق بیان ہوا:﴿ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین وکان الشیٰطن لربہ کفوراً﴾․ (اسراء:26)

(بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے)۔

قتل اولاد پر روک ٹوک کرتے ہوئے بیان فرمایا گیا:﴿ ان قتلھم کان خطاءً کبیراً﴾․ (اسراء:31)

(یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔) زنا کے قریب جانے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا ہے ﴿ انہ کان فاحشة وساء سبیلاً﴾․ (اسراء:32) (وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی او ربے راہ وری ہے۔)

کلام الہٰی کا یہ اعجاز ہے کہ مختصر سا جملہ زنا سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی معاشرتی برائیوں کا احاطہ کرتا چلا جاتا ہے۔

یتیموں کے مال کھانے پر فرمایا گیا﴿ انہ کان حوبا کبیراً﴾․ (نساء:2) (بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔) قرآن وحدیث کا یہ سادہ طرز تخاطب حکمتوں کے بیان میں انتہائی مؤثر ہے ۔

معاملات ومعاشرت کے دیگر احکام جن میں اس طرح حکمتوں کا تذکرہ نہیں ہوا ان کے متعلق یہی عقیدہ رکھا جائے کہ خدا اپنے احکام کی حکمتوں او راسرار کو ہماری نظر سے پوشیدہ رکھ کر ہمارا امتحان لیناچاہتا ہے کہ کون عقل کے گھوڑے دوڑا کر اس کے پیچھے سرپٹ دوڑتا چلا جاتا ہے او رکون تسلیم ورضا کے جذبے سے سر شار ہو کہ سر تسلیم ختم کر لیتا ہے اور سراپا نمونہ بن جاتا ہے،آیت قرآن کا ﴿سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر﴾․ ( بقرة:285)

( ہم نے الله اور رسول کے احکام کو توجہ سے سن لیا ہے او رہم خوشی سے ان کی تعمیل کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کی مغفرت کے طلب گار ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے ۔

اسرار وحِکم اور فتنہ عقل پرستی کی تردید پر مشتمل اہم کتب
اہل علم، درس وتدریس سے وابستہ افراد، دعوت وارشاد کے جذبے سے سر شار طلبائے کرام اپنی فکر ونظر میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اسرار وحکم کے موضوع پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کریں، علامہ غزالی رحمہ الله، علامہ خطابی رحمہ الله اور علامہ ابن سلام دمشقی رحمہ الله کی کتابیں اس موضوع پر بڑی اہمیت رکھتی ہیں ، برصغیر کے نام ور عالم، محدث کبیر، علامہ، شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله نے اس موضوع پرسب سے پہلی مدون ومرتب کتاب ”حجة البالغہ“ تحریر فرمائی ہے، جسے حضرت مولانا محمد منظورنعمانی رحمہ الله تعالیٰ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ قراردیا ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ظاہر ہو ا ہو۔( مقدمہ حجة الله البالغة ص:16) اس کا اردو ترجمہ بمع تشریحات دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری کے ہاتھوں ہو کر چھ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے، زمانہ قریب کے ایک طرابلسی عالم دین، فقیہ وادیب حسین بن محمد بن مصطفی رحمہ الله نے ایک رسالہ ”الرسالة الحمیدیة“ کے نام سے تحریر فرمایا، جو ایک عرصے تک پاکستان کے مدارس میں داخل نصاب رہا او راس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بھی اس موضوع پر دو کتابیں تحریر فرمائی ہیں ، ۱ انتباہات مفیدہ۔۲۔ احکام اسلام عقل کی نظر میں۔ یہ دونوں کتابیں اردو زبان میں ہیں ، پہلی کتاب کا عربی ترجمہ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ ادب مولانا نور عالم خلیل الامینی دامت برکاتہ نے فرمایا، جب کہ پاکستان میں اس کا عربی ترجمہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے استاذ حدیث ، معروف محقق اور محدث حضرت مولانا نورالبشر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا ہے، جو پاکستان کے دینی مدارس میں داخل نصاب ہے، حقیقت یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ الله نے یہ دونوں کتابیں تحریرفرماکر یورپ کے عقلی سیلاب کے سامنے بند باندھ دیا ہے الله تعالیٰ عالم اسلام کی طرف سے انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

اس کے علاوہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله تعالیٰ نے ایک مختصر مگرجامع رسالہ عقل ونقل کے نام سے تحریر فرمایا ہے، جس میں انتہائی اہم اور مفید بحثیں ہیں۔

اس سلسلے کی آخری گزارش یہ ہے کہ صحبت اولیاء کا اہتمام کیا جائے، قیل وقال کے مریضوں کے لیے تویہ نسخہ شفا ہے۔ الله کے برگزیدہ بندوں کی صحبت وہ بھٹی ہے جہاں قلب وفکر کی آلودگیاں جھڑتی ہیں او رعشق الہٰی کا رنگ چڑھتا ہے، خدا کی معرفت کے لیے عشق ومحبت سے زیادہ آسان اور بے خطر راستہ کوئی اور نہیں ہے، عشق آتش نمرود میں بے خطر کو دجاتا ہے اور عقل دربام رہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ الله نے ایک خط میں امام المتکلمین فخر الدین رازی رحمہ الله کو ان کی حمیت دینی کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”عقل مند کو چاہیے کہ وہ وخدا کی جودو کرم کی خوشبوؤں سے فائدہ اٹھاتا رہے، ہمیشہ نظر واستدلال کی قید میں نہ پھنسا رہے، کیوں کہ خدا کی معرفت کے لیے استدلال عقلی کا سہارا لینے والا ہمیشہ شک وشبہ میں رہتا ہے ، حال ہی میں مجھے آپ کے ایک دوست نے آپ کے متعلق بتایا کہ ایک دن اس نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا، حاضرین مجلس نے آپ سے اس آہ وزاری کی وجہ دریافت کی تو آپ نے بتایا ”جس مسئلے پر میں عرصہ تیس سال سے اعتقاد جمائے بیٹھا تھا، اس کے خلاف واقعہ ہونے کا عقدہ اب مجھ پر کھلا ہے ، اب میں نئے استدلال پر کب تک اطمینان کر سکتا ہوں ، وہ بھی تو پہلے کی طرح کسی وقت غلط ہو سکتا ہے۔“ یہ تو آپ کا اپنا اقرار ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جو شخص عقل واستدلال سے آگے بڑھ کر وادی عشق میں قدم نہیں رکھتا، اس کے لیے راحت وسکون او راطمینان قلب کی دولت حاصل کرنا ناممکن ہے، بالخصوص خدا کی معرفت تو اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ، تو پھر میرے بھائی آپ کیوں اس گرداب میں پڑے ہیں ، ریاضات، مجاہدات، مکاشفات او رخلوت کا وہ طریقہ کیوں اختیار نہیں کر لیتے جیسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مشروع فرمایا ہے، جس کے نتیجے میں آپ اس چشمہ معرفت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں، جو خدا اپنے محبوب بندوں کی سیرابی کے لیے کھولتا ہے، جس کے متعلق فرمایا گیا﴿اتینٰہ رحمة من عندنا وعلمنہ من لدنا علماً﴾ (الکھف:65) (جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا)․ (رسائل ابن عربی ص:185)
Flag Counter