Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1432ھ

ہ رسالہ

8 - 17
 مذہبی رواداری
	

قاری محمد حنیف جالندھری

مذاہب کے درمیان مفاہمت او رمکالمہ کی بات ایک عرصہ سے دنیا بھر میں چل رہی ہے او رمختلف مذاہب اور نظریات کے حضرات اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔

عام طور پر اس حوالہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روا داری ، مفاہمت اور مکالمہ وگفت گو کی فضا کو فروغ دینا ہر دور میں ضروری رہا ہے، مگر اب جب کہ فاصلوں کے مسلسل سمٹتے چلے جانے کے بعد دُنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر رہی ہے اس کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے، تاکہ مختلف مذاہب او رعقائد ونظریات کے لوگ مل جل کر ایک سوسائٹی میں رہ سکیں اور مذہب کے حوالہ سے جو اختلافات ہیں وہ کش مکش او رتصادم کی صورت اختیار نہ کریں۔

مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کے شدت پسندانہ اظہار کو بھی اس ضرورت کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تصادم، محاذ آرائی اور قتل وقتال کا جو سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، اس کا تسلسل آج بھی موجود ہے اور عنوان تبدیل ہونے کے باوجود وہ مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی بدستور انسانی معاشرے میں موجود ہے۔

گزشتہ صدیوں میں یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان جو کچھ ہوا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک” ہولوکاسٹ“ کے حوالہ سے بیان کی جانے والی تلخ داستان کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے او رمسیحی مذہب کے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس فرقوں کے درمیان طویل خانہ جنگی کی صدائے باز گشت شمالی آئر لینڈ کی فضاؤں میں اب بھی سنائی دیتی ہے، جب کہ مشرقی یورپ کے ممالک کے کیمونزم کے شکنجے سے نکل جانے کے بعد وہاں کی مسلم آبادی بالخصوص بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

الغرض مسلمانوں او رمسیحیوں اور یہودیوں، فلسطین میں یہودیوں او رمسلمانوں او رمختلف ادوار میں ان مذاہب کے باقی فرقوں کے درمیان داخلی طور پر خوں ریزی او رتصادم کی ایک لمبی تاریخ ہے، جو مختلف محاذوں پر اب بھی جاری ہے او راس صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے اہل مذاہب کے درمیان مکالمے اور مفاہمت کے فروغ کے لیے مختلف سطحوں پر کام ہو رہا ہے۔

اس تصادم اور خوں ریزی کو ختم کرنے کے لیے ایک حل یہ تجویز کیا گیا ہے ، جس پر دنیا کے ایک بڑے حصے میں عمل ہو رہا ہے کہ سرے سے مذہب کے وجود کی یا کم از کم سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے اس کے تعلق کی نفی کر دی جائے او رمذہب سے انکار یا ا سے محض فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس کے معاشرتی کردار کو ختم کر دیا جائے لیکن یہ سوچ اور طریق کار منفی اور غیر فطری ہونے کی وجہ سے بالآخر ناکام ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے مختلف معاشروں میں مذہب کے معاشرتی کردار کی واپسی کا عمل دھیرے دھیرے بڑھتا نظر آرہا ہے، جس نے دانش کی اعلیٰ سطح کو اس طرف متوجہ کیا کہ مذہب کی نفی کرنے کے بجائے مذہب کے کردار وعمل کو باہمی مفاہمت ومکالمہ کے ذریعہ آگے بڑھایا جائے او رمختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات ومفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہ حقیقت ایک بار پھر انسانی سوسائٹی میں خود کو تسلیم کراتی دکھائی دے رہی ہے کہ مذہب ایک فرد او رانسان کی بھی ضرورت ہے اور معاشرے اور سوسائٹی کی بھی ضرورت ہے، جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

پھر یہ مفروضہ بھی محض تکلف کی حیثیت رکھتا ہے کہ چوں کہ مذہب کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں او رباہمی تصادم او رخانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اس لیے اس کی نفی کر دی جائے۔ اس لیے کہ مذہب کے علاوہ اور بھی عوامل موجود ہیں جو انسانی سوسائٹی میں منافرت، باہمی جنگ وجدال اورقتل وغارت کا باعث بنتے ہیں ۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے اسباب میں مذہب کا کوئی تذکرہ نہیں ہے او رقومیت، رنگ ونسل ، علاقائیت، زبان اور نسلی عصبیت کا انسانوں کو لڑانے او رخون بہانے میں کردار کسی سے مخفی نہیں ہے، اس لیے مذہب کے بے دخل کرنے کا فلسفہ غیر فطری او رغیر حقیقت پسندانہ ہے اور اسی وجہ سے اسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔

مذہبی روا داری کا ایک اور فلسفہ آج کل زیر بحث ہے کہ تمام مذاہب کے مشترکات کو جمع کرکے ایک مشترکہ مذہب تشکیل دیا جائے او رجن اقدار وروایات کی سوسائٹی کو ضرورت ہے انہیں ایک ” متحدہ مذہب“ کی صورت میں فروغ دیا جائے۔ اس فلسفہ کے تحت پانچ سو سال قبل برصغیر میں مغل بادشاہ ”جلال الدین اکبر“ نے ”دین الہی “ تشکیل دیا تھا، جو انسانی سوسائٹی کے مزاج اور نفسیات سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے فیل ہو گیا تھا اوراسی کا ناکام تجربہ آج کل”بہائی مذہب“ کی طرف سے اس طرح کیا جارہا ہے کہ بعض بڑے مراکز میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں ایک چھت کے نیچے بنا کر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ”اتحاد بین المذاہب“ کی عملی صورت ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک چھت کے نیچے اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرتے ہیں مگر یہ غیر فطری تجربہ بھی ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پارہا اور ایک محدود اور مخصوص طبقہ کے سوا کسی کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔

”بین المذاہب“ مفاہمت کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر طبقہ اپنے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے اس پر عمل کرے گا، مگر دوسروں کا وجود تسلیم کرکے ان کا احترام ملحوظ رکھے اور باہمی احترام او رمفاہمت کی فضا قائم کی جائے۔

جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جوہدایات دی ہیں اور دور نبوی صلی الله علیہ وسلم او رخلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں اور اسلام کی راہ میں مزاحمت نہ کرنے والے غیر مسلموں کے درمیان جس طرح تعلقات رہے ہیں اور خلفائے راشدین نے اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق ومفادات کا جس طرح تحفظ کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جب کہ بنو عباس، بنو امیہ، بنو عثمان اور اندلس کی مسلمان حکومت کے زمانے میں غیر مسلم جس امن کے ماحول میں اسلامی ریاست میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں اسے اس روا داری او ربرداشت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور وقانون او رمعاشرتی رویہ میں غیر مسلموں کے لیے روا داری او رمفاہمت کا جوماحول پایا جاتا ہے اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو تمام وہ حقوق حاصل ہیں جو بنیادی اور شہر ی حقوق میں شمار ہوتے ہیں، لیکن دو تین معاملات ایسے ہیں جن میں تحفظات پائے جا تے ہیں اور بین المذاہب مفاہمت کے فروغ کی کوشش میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

مثلاً”دستور پاکستان“ ملک کی مسلم اکثریت اوراقلیتوں کے درمیان” معاہدہ“ کی حیثیت رکھتا ہے، جو سب کے اتفاق سے منظور اور نافذ ہوا ہے ۔ اگر سب لوگ اس دستور کے مطابق چلیں تو کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہو گا، لیکن جب اس دستور کو یا اس کے اسلامی تشخص کو چیلنج کیا جاتا ہے تو شکایات پیدا ہوتی ہیں اورمسلمان اکثریت کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہوتی کہ پاکستان کی اسلامی بنیادوں اور دستور کے اسلامی تشخص کی نفی کی جائے۔ دوسرے نمبر پر حقوق کے نام پر جب کچھ عناصر پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف عالمی استعمار کی یلغار اور مہم کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً ناموس رسالت صلی الله علیہ وسلم کے تحفظ کا قانون دیکھ لیجیے۔ جب اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ عالمی سیکولرازم کے اس ایجنڈے کی تائید ہوتی ہے جس پر وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے عمل کر رہاہے ۔ اس قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنے کی بات اس سے مختلف ہے اور سرے سے قانون کو ختم کر دینے کی بات قطعی طور پر اس سے الگ ہے۔

انبیائے کرام علیہم السلام کی توہین تمام مذاہب میں سنگین جرائم کی فہرست میں آتی ہے او راس پر موت کی سزا بائبل میں بھی مذکور ہے، اس لیے جب اسے قانون سے بالکل ختم کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے کسی مذہب کی نمائندگی نہیں ہوتی، بلکہ مذہب کی نفی کرنے والے عالمی سیکولرازم کی تائید وتقویت ہوتی ہے، جس سے مسلمانوں کو شدید اختلاف ہے۔

اسی طرح قادیانیت کا مسئلہ ہے کہ قادیانی گروہ سرے سے پاکستان کے دستور کو تسلیم نہیں کر رہا اور منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلہ کو مسترد کر رہا ہے، اس لیے جب مذہبی آزادی کے نام پر قادیانیوں کے اس غیر دستوری اور غیر جمہوری رویے کی تائید کی جاتی ہے اورانہیں سپورٹ کیا جاتا ہے تو اس سے مسلم اکثریت کے جذبات کا مشتعل ہونا فطری بات ہے۔

ان گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ بین المذاہب مفاہمت کے فروغ او رمکالمہ بین المذاہب کے لیے جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کے اہداف ہمارے سامنے ہونے چا ہییں او رابہام کی فضا میں مذہبی شدت پسندی کا عنوان دے کر مذہبی حلقوں کو خواہ مخواہ ہدف تنقید بنا کر ہمیں کنفیوژن میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ گول مول باتوں اور ابہام کی فضا سے کنفیوژن بڑھتا ہے او رمسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں ویسے تو اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے پریشر او ران کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے NGO کی پرواہ کیے بغیر قرآن سنت کو ہی اصل دستور مانا جائے اور قرون اولیٰ کی جو مثالیں مضمون کی ابتدا میں دی گئی ہیں ان کے مطابق مثالی معاشرہ قائم کیا جائے۔ ورنہ موجودہ حالات میں بین المذاہب مفاہمت کا سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ ہم جو اس وقت کے مروجہ اور قانونی طور پر تسلیم شدہ طرز حکومت کے اندر رہتے ہیں تو ہم سب اس دستور کا احترام اور اس کی حدود کی پابندی کریں جو ہمارے درمیان سوشل کنٹریکٹ کی حیثیت رکھتا ہے او رہم سب نے اس کی وفاداری کا عہد کر رکھا ہے۔

دوسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ باہمی شکایت ومشکلات کا حل ہمیں اپنے ملک کے اندر اور دستور کے دائرہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے او راس کے لیے پاکستان کے بارے میں مخصوص منفی ایجنڈا رکھنے والے عالمی استعمار کو ملکی معاملات میں دخل اندازی کا موقع دینے سے گریز کرنا چاہیے کہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مسائل ومشکلات کے حل کے لیے بھی کسی صورت میں فائدہ مند نہیں ہے۔

تیسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے مذہبی راہ نماؤں کے درمیان وقتاً فوقتاً بیٹھنے او رمشترکہ مسائل اور مشکلات وشکایات پر غور کرنے او رباہمی مشاورت واعتماد کے ساتھ ان کا حل تلاش کرنے کا کوئی ایسا نظام ضروری ہے جو نارمل حالات میں بھی قائم رہے اور ملاقاتوں او رتبادلہ خیالات کا سلسلہ اس کے ذریعہ جاری رہے۔ 
Flag Counter