روشنی کے مینار، فضلاء دیوبند
مولانا ساجد احمد صدوی
زمانہ دیکھے ہوئے لوگ زندہ تاریخ ہواکرتے ہیں ،ان کی باتیں، ان کی معلومات ،خیالات اس عہد کی یاددلاتے ہیں جس کووہ پیچھے چھوڑکرآئے ہوتے ہیں، ان کی زندگی ، ان کے مشاہدات ، تجربات اس ماحول، مجالس ، معاشرہ کی جھلک پیش کرتے ہیں، جس کو اب صرف تاریخ کے بے جان اوراق میں ہی دیکھاجاسکتاہے، جوشخصیات لمبی عمر پاتی ہیں، و ہ پچھلی زندگی، اس کی روایات، ا س کے مسائل ، چھوٹے بڑے واقعات ، حالات ، تجربات ، قصے کہانیوں اور سربستہ رازوں کی جیتی جاگتی کتابوں کادرجہ رکھتی ہیں؛بلکہ کتابوں میں مذکورموادکی بھی تصدیق وتردید ، مبہم کی توضیح ، اجمال کی تفصیل انہی سے حاصل ہوتی ہیں؛ تاریخی پیچیدگیوں کووہی حل کرتے ہیں، واقعات ، تاریخ ان کے سامنے رقم ہوئی ہوتی ہے ، وہ اس کے عینی شاہد اورداخلی رموز واشارات کے شناسا ہوتے ہیں۔
مستقبل کے لیے تیاری حال میں ہوتی ہے اورحال کے لیے ماضی سے مضبوط رشتہ استوار رکھنا، اس کی ہراونچ نیچ سے واقف ہونا ہرزندہ قوم کے ہاں ایک بدیہی اور ضروری امر تصورکیاجاتاہے ؛ مگر عموما ماضی کوپڑھنے کے لیے انسان کوبعدمیں لکھی ہوئی تحریروں سے ہی اپناکام نکالناپڑتاہے ، پھر جس قدرراوی کی ثقاہت ، اس کی عدالت ہوتی ہے ، اسی کے بقدرتاریخ کافنی مرتبہ متعین ہوتاہے، بسااوقات ماضی کوپڑھنے کے لیے بعدمیں لکھی ہوئی ایسی تحریروں پراعتمادکرناپڑتاہے جن میں زبان وبیان کے طبعی فرق کے ساتھ ساتھ صاحب ِقلم کی ترجیحات کا بھی پورا اثرہوتاہے ، ایسی صورت میں ایک سنجیدہ قاری تاریخی روایات میں باہم مقابلہ کرنے اورتنقیدی نظر سے دیکھنے کامحتاج ہوتاہے ، جس کے لیے پچھلے دور کودیکھی ہوئی شخصیات سب سے بڑا سہاراہواکرتی ہیں، وہ فنی سوالات کاجواب دیتی ہیں ، اشکالات کو دورکرتی ہیں اور کھرے کھوٹے کافرق بہ آسانی سمجھادیتی ہیں ۔
علمی ، فنی اور تاریخی جہات کے علاوہ بھی ان طویل العمر شخصیات کی اہمیت ، قدردانی اورمقام ومرتبہ شناسی کے کئی پہلوہیں، امت مسلمہ کا تاب ناک ، مثالی دور وہ ہے ، جو گزرچکاہے ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ کاعظیم دورانیہ بھی وہی ہے ، جس میں انسانیت کی عظیم شخصیات حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام، بالخصوص سید الانس والجان حضرت حبیب خدا رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم المرتبت شخصیت موجودتھی ، کام یابی وکام رانی ، انسانیت شناسی ، معرفت خداوندی ، رفع درجات ، ترقی حقیقی کے لحاظ سے وہی دور انسانیت کاسب سے تاب ناک اورحسین دو رتھا؛ اس لیے جولوگ اس کے قریب ہیں، ان کی نسبتیں عالی سمجھی جاتی ہیں، وہ خیروبرکت کے سرچشمے، علوم ومعرفت کے خزانے ہو ا کرتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند متحدہ ہندوستان کی پچھلی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتاہے ، اگریوں کہاجائے کہ اس خطے کی پچھلی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ بلکہ اسلامی دنیاکی تاریخ کو، اس کے پیچ وخم کو، اس کے اہم واقعات، عوامل کوسمجھنے کے لیے جنوبی ایشیاکے اس عظیم ادارے اور اس سے وابستہ افراد وشخصیات کی تاریخ، ان کی زندگی، کارنامے اورخدمات کی طویل فہرست سے واقفیت ضروری ہے، تواس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا، بلاشبہ دارالعلوم دیوبند اپنے زبردست کردار، عظیم شخصیات کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سوسال سے مسلم دنیاپر واضح اثرات رکھتارہاہے ، اسی درس گاہ کی تعلیم وتربیت اورکارناموں کی بدولت برصغیرکے مسلمان عجمی ہونے کے باوصف دنیاکے نئے منظرنامے پرایک بڑے عامل کے طورپراپنی شناخت رکھتے ہیں، راسخ العقیدہ مسلمانوں کی اِس عظیم جمعیت کامستقبل جن خطوط پراستوارہوگا اور اس کے لیے جولوگ میدان عمل میں کام آئیں گے، ان کے لیے اپنی موجودہ حالت کواُس رخ پر لے جاناہوگا، جس طرف دیوبند کی قدسی صفات شخصیات لے جانا چاہتی تھیں۔
آج کے مقتدایانِ قوم وملت کواپنا رشتہ متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات سے وابستہ کرناہوگاجواس عظیم جمعیت کے لیے پیشوا کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان کی زندگی ، کار کردگی ، اثرات ونتائج میں” تائید غیبی“ اور”اجتباءِ خاص“ کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کرناہوگا؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند اوراس سے وابستہ رجال کار کی تاریخ کا تعلق براہ راست جنوبی ایشیا کے مسلمانوں سے ہے ، جو اللہ تعالی کی خاص توفیق وتائیدسے اپنی علمی صلاحیت ، عملی قوت ، ایمان وغیرت کی دولت اورکثرتِ تعدادکی بدولت عرب وعجم کے مسلمانوں کواپنے زیراثر رکھے ہوئے ہیں اور یوں پوری مسلم و غیر مسلم دنیا ان کے لیے محنت کامیدان بنی ہوئی ہے اوربرابراپنی جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ہرجگہ ان کی رسائی ہوچکی ہے اور دنیا کی تمام قومیں ان سے ایمان واسلام کا درس لے چکی ہیں۔
نسبتِ دیوبند کامقام واحترام
دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ رجال ِکارکی اس تاب ناک تاریخ کی بناپرآج بھی دیوبند اوردیوبندی تمام تر سازشوں، پروپیگنڈوں اوردھونس دھمکیوں کے باوجود، مسلم دنیا میں عظمت واحترام اورغیرت وحمیت کانام ہے، اوراس کے بالمقابل کفر ونفاق کی دنیامیں وہ اسلام اورمسلمانوں کے محافظ ہونے کی وجہ سے حسد، کینہ اورعداوت کے سب سے بڑے موردہے ، جس کے اثرات کوختم یا کم کرنے کے لیے وہ اپنے تمام تروسائل کوبروئے کارلائے ہوئی ہے ۔
جولوگ اس عظیم ادارے سے وابستہ رہے ہیں، جن کی جد وجہد، لگن، خون پسینے کانا م دیوبند ہے ، خود ان کاوجود، ان کی زندگی بھی مسلم دنیامیں عظمت واحترام کی بڑی علامت ہے ؛یہی وجہ ہے کہ فضلاءِ دیوبند سے رشتہ تلمذکوقابل فخرسمجھاجاتاہے، ان کی رائے کووقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، ان کے قول وفعل سے راہ نمائی لی جاتی ہے، ان سے نسبت جوڑنے کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں، آج بھی عرب وعجم میں جہاں جہاں لوگ اسلامی علوم وفنون سے وابستگی رکھتے ہیں اوراس کے درس وتدریس، تصنیف و تالیف کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح اپنی علمی نسبت فضلائے دیوبند واکابرِدیوبند کی طرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، متحدہ ہندوستان سے جولوگ حجازِ مقدس یا دوسرے بلادِعربیہ کاسفر اختیار کرتے ہیں، علم کے سچے طالب بڑے شوق ورغبت سے ان کے آگے زانوئے تلمذطے کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے امنڈآتے ہیں اور ان سے اجازت ِحدیث وعلوم حاصل کرکے یوں فرحا ں وشاداں ہونے لگتے ہیں، جیسے برسوں کی متاعِ گم گشتہ اُن کے ہاتھ لگی ہے ۔
حاسدوں ، دشمنوں نے طرح طرح کی ترکیبیں کیں، سازشوں کے جال بُنے، لوگوں کوبدگمان کرنے کی ہزارتدبیریں کیں، بڑوں نے”مجہول التعریف“ بغاوت، دہشت گردی کاواویلا کیا، چھوٹوں نے ”حسام“ اور”الدیوبندیہ “کاراگ آلاپا، کسی نے محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ عشق ومحبت کاٹنے کی ناکام کوشش کی ، توکسی نے ختمِ نبوت پر کامل یقین کی سزادیناچاہی ، کسی کو اہلِ بیت نبوت سے دور کرنے کی سوجھی ، تو کسی کو حدیث نبوی سے الگ کرنے کی ترکیب مفید نظر آئی، کسی نے لوہے کی سلاخیں دکھاکر دھمکا یا ، توکسی نے زر وزن کی ہتھکڑیاں ڈالنے کی کوشش کی ، کوئی ان کوترقی معکوس کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا رہا، توکوئی حریتِ بدفکری وبدعملی کامخالف ہونے پر نشانہ بنائے رہا، کوئی تقلید کاطعنہ دیتارہا، توکوئی غیرت وحمیت ِدینی کوفلسفہ عدمِ برداشت باورکراتارہا ، کفر و نفاق کی فوجوں نے، ان کے زرخرید غلاموں، چندٹکوں میں بکنے والے سیاست دانوں اوراے بی سی کی چادراوڑھے ہوئے پل بھر میں بدلنے والے دانش وروں سب نے اپنااپناحصہ ڈالا، زور آزمائی کی، اوربرابرکرتے رہے ، مگراللہ تعالی کی تدبیرسب پرغالب رہی ، اس نے شیطانوں کے تمام ترمنصوبے ، پروگرام خاک میں ملادیے ۔
سچ ہے # جسے اللہ رکھے ، اسے کون چکھے
ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام اہم دینی اداروں اورموٴثرشخصیات کا”علمی اورروحانی نسب نامہ “دیوبندکی اسی عظیم درس گاہ سے جاملتاہے ، علمیت و روحانیت کے لبالب چشموں کے سوتے اسی خاک ِ دیوبند میں ہیں، جہاں علم وعمل کے دریا بہتے ہیں، جس کے باغ وبہار کی مہک اقصائے عالم کوپہنچی ہے ، جس کے بلند قامت درخت آسمانِ بلند ی کوچھوتے ہیں، آفتاب ختم نبوت کی ضیا پاشیوں سے جس کی آب یاری کی جاتی رہی ہے۔
آج ہم اس عظیم مرکزکی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ کواپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرکے یہ جرات کرسکے ہیں؛ مگریہ ظاہربین نگاہوں کی باتیں ہیں، 15محرم الحرام، 1283ھ ، مطابق 30مئی 1866ء ، پنجشنبہ کے روزنہایت بے سروسامانی کے عالم میں چھتے کی قدیم مسجد کے کھلے صحن میں، انارکے ایک چھوٹے درخت کے سایہ میں، جس ادارہ کی کردار وعمل سے بنیاد رکھی جارہی تھی اور ایک استاد، ایک شاگردسے جس کاخ فقیری کی عمارت بلندکی جارہی تھی، ابھی اس کوتیرا سال ہی گزرے تھے ، کہ اس کی عظیم برکات ، فیوضات کا سلسلہ اتناعام ہوا، کہ یکم صفر1296ھ کو ایک مرد بیناحضرت مولانامحمدیعقوب صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالی نے، جواس کے بانی ارکان میں شامل تھے ،جلسہٴ انعام کے موقع پر ارشاد فرمایا:
”خداوندکریم کاشکرکس زبان سے ادا کیاجائے، کہ تیرھواں سال اس مدرسہ کا،جس کودارالعلوم کہنابجاہے، بہ خیر وخوبی پورا ہوا، اس تھوڑے سے عرصے میں اسلام اوراہل اسلام کوبے شمارنفع پہنچا، بے اختیار اس کے حق میں یہ شعرپڑھنے کوجی چاہتاہے #
تم سلامت رہو، ہزار برس
اور ہر برس کے ہوں دن، پچاس ہزار
(روداد 1295ھ ص: 16، و1296ھ ص:11، بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند، ازسید محبوب رضوی، ص:188، طبع اول)
اللہ تعالی کی طرف توجہ ، تواضع وانکساری اوردور بیں نگاہی کی حامل مردِ بینا کی یہ بات کس قدرواقعہ وحقیقت کے مطابق ہے، ہم جیسے ظاہربینوں کوبھی روزروشن کی طرح نظر آرہی ہے ۔
وطن ِعزیزمیں موجودقدیم فضلاء ِدیوبند
نبوی علوم کے وارث ، قدیم فضلائے دیوبند کی تعداد اب بہت کم ہوتی جارہی ہے ، ماضی قریب میں بھی نہایت اہم شخصیات ، قدیم فضلاءِ دیوبندہم سے رخصت ہوچکے ہیں ، رفتہ رفتہ ان کے وجودِ مسعود سے سرزمین خالی ہوتی جارہی ہے ، تاہم اب بھی روشنی کے چند مینارایستادہ ہیں، جن کی نورانی شعاعوں سے مسافرانِ منزل ظلمتوں میں راہ پاتے ہیں، جن کے دم قدم سے علم وعمل اور خیر وبرکت کی مجلسوں کی رونقیں بحال ہیں، ”حریتِ بدفکری“ اور ”حریت بدعملی “کے لیے” پرکشش نام ولیبل“ استعمال کرنے والوں کومسلسل ناکامی کا سامنا ہے ، فتنوں، آزمائشوں کے گھٹاٹوپ اندھیریوں میں ”حق وثبات“ کے دیے روشن کیے ہوئے ہیں، یاس ونا امیدی کی گھڑیوں میں امید کی آخری کرن ہیں، تمام علوم وفنون ، بالخصوص حدیث وعلوم حدیث میں سلف ِصالحین سے نسبتیں جوڑنے کاواسطہ و وسیلہ ہیں، اجازت کے مبارک، متوارث سلسلے کے حصول کے لیے مرجع ہیں اوربے شمارخوبیوں کے ساتھ قوم ، ملک و ملت کے لیے ان کاوجود اللہ تعالی کی طرف سے عطیہ ، انعام اوربرکت کا سبب ہے۔
ان میں سے چندحضرات تووہ ہیں ، جن کی شہرت چاردانگ عالم میں ہے ، ایک بڑی دنیا ان سے وابستہ ہے ، ان کے افادات وفیوضات کامبارک سلسلہ برابرجاری ہے اور کچھ نام ایسے بھی ہیں ، جواپنی قدامت ، عمراورطبقہ کے اونچاہونے کے باوصف شہرت وناموری سے دورہیں، میڈیا کے زیراثرماحول میں رہتے ہوئے بھی گوشہ گمنامی میں رہتے ہیں، خال خال ہی ان کاذکر ہوتاہے اورکسی کسی کا ان کی مجلس سے گزرہوتاہے ، ان سے فیض پانے والوں کا کوئی تانتانہیں بندھا ہوتا، اس میں ان کی طبیعت کی نزاکت ، صحت وضعف کے اثرات ، سہولیات کافقدان اورشہرت کے رسمی مقامات سے ازخود یابہ مجبوری وابتلائے دوری جیسے امور کوبھی دخل ہوتاہے ؛ مگر ان سب سے بڑھ کرہم جیسوں کی نااہلی اورناقدری بھی ایک معلوم سبب ہے ، جس کی وجہ سے محرومی ہوتی ہے ۔
روشنی کے ایستادہ مینار
وطن عزیز میں قدیم بزم دیوبندوسہارنپور کی جوشمعیں اس وقت جلی ہوئی ہیں، ان میں سے چند حضرات یہ ہیں:
1…شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب لوہاروی دامت برکاتہم ، جامعہ فاروقیہ ، کراچی ، صدروفاق المدارس العربیہ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان ۔
2… حضرت مولانا محمد عبد الحلیم صاحب چشتی دامت برکاتہم ، جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن، کراچی، سندھ ۔
3…حضرت مولانامحمداحمدصاحب انصاری دامت برکاتہم، پیپلز کالونی ، بہاول پور، پنجاب۔
4…حضرت مولانامحمد جمشیدعلی صاحب دامت برکاتہم، مدرسہ عربیہ، رائے ونڈ، پنجاب۔
5…حضرت مولاناعبدالحنان صاحب دامت برکاتہم، ہانگیرہ، ضلع صوابی، خیبرپختونخواہ۔
6… حضرت مولانامحمدعبید اللہ صاحب اشرفی دامت برکاتہم، جامعہ اشرفیہ، لاہور، پنجاب۔
7…حضرت مولاناعبدالستار صاحب تونسوی دامت برکاتہم، تونسہ شریف ، ضلع ڈیرہ غازی خان، پنجاب۔
8…حضرت مولاناخالد محمودصاحب دامت برکاتہم ، اسلام آباد (مانچسٹر)۔
9…حضرت مولانامحمدنافع صاحب دامت برکاتہم، محمدی شریف ، ضلع جھنگ، پنجاب۔
10…حضرت مولاناعبد الکریم صاحب دامت برکاتہم ، کلاچی، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، خیبرپختونخواہ۔
11…حضرت مولانامحمداحسان الحق صاحب دامت برکاتہم ، مدرسہ عربیہ، رائے ونڈ، لاہور، پنجاب۔
12… حضرت مولانااحمداقبال صاحب دامت برکاتہم، جامشورو، حیدرآباد، سندھ(کلفٹن۔کراچی)۔
13… حضرت مولانامجاہدخان صاحب دامت برکاتہم ، نوشہرہ کلاں، ضلع نوشہرہ ، خیبرپختونخواہ۔
14… حضرت مولانااللہ بخش صاحب دامت برکاتہم ، کوٹ قیصرانی، تونسہ شریف ، ضلع ڈیرہ غازی خان، پنجاب ۔
15…حضرت مولاناحاجی غلام حیدرصاحب دامت برکاتہم، چھوٹالاہور، ضلع صوابی، خیبرپختونخواہ۔
16… حضرت مولانا حمداللہ جان صاحب دامت برکاتہم، ڈاگی، ضلع صوابی، خیبرپختونخواہ۔
17… حضرت مولانامحمدا سلم صاحب دامت برکاتہم، چھوٹا لاہور، ضلع صوابی ، خیبرپختونخواہ۔
18…حضرت مولانا قاری آصف صاحب قاسمی دامت برکاتہم، جامع مسجد فاروق اعظم ، ناظم آباد، کراچی(کینیڈا)۔
19…حضرت مولانا غریب اللہ صاحب دامت برکاتہم ، مانکی ، جہانگیرہ، ضلع صوابی ، خیبرپختونخواہ۔
20…حضرت مولانانعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم، پراچہ ٹاوٴن، کوہاٹ، خیبرپختونخواہ۔
21…حضرت مولانا حضرت علی صاحب دامت برکاتہم، سوکڑی کریم خان، بنوں، خیبرپختونخواہ۔
22…حضرت مولانامطلع الانوارصاحب دامت برکاتہم، شیرپاوٴ، پشاور، خیبرپختونخواہ۔
23… حضرت مولانا مفتی محمد اشرف صاحب چانڈیو،دامت برکاتہم، گھارو، ٹھٹھہ، سندھ۔
24… حضرت مولاناحبیب اللہ صاحب دامت برکاتہم، کشروٹ، گلگت بلتستان۔
25… حضرت مولاناحکیم عبد الرشیدخان صاحب لوہاروی دامت برکاتہم، نارتھکراچی، کراچی، سندھ۔
26… حضرت مولاناعبد الغفورصاحب دامت برکاتہم، جبر، ضلع دیر بالا، خیبرپختونخواہ۔
27… حضرت مولاناعلاوٴ الدین صاحب دامت برکاتہم، دار العلوم نعمانیہ ، ڈیرہ شہر، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، خیبرپختونخواہ۔
28… حضرت مولاناگل محمد صاحب دامت برکاتہم، بستی ہیرمنڈی، تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان، پنجاب۔
29… حضرت مولانا الله داد صاحب دامت برکاتہم لہتری، تونسہ شریف، ضلع ڈیڑہ غازی خان، پنجاب۔
ان حضرات کے تفصیلی حالات جمع ہونے تک یہ موضوع تشنہ تکمیل ہے، ضرورت ہے کہ ان عظیم شخصیات سے استفادہ کیاجائے، ان کے اعذار ، مصروفیات کاپورا پورا خیال کرکے ان کی خدمت میں بصدادب واحترام حاضری دی جائے اوران کی چاہت ، طبیعت کے مطابق خدمت کرکے دعائیں لی جائیں۔
بزرگانِ دیوبندکافہم وبصیرت
یہ حضرات ہمارے نجی ، اجتماعی ، تعلیمی ، تربیتی ، ملکی ، بین الاقوامی مسائل ، مشکلات اور نئے چیلنجز کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں، ان کی باتوں میں ، ان کے طرز واندازمیں سادگی، بے تکلفی وبے ساختگی کا فرق نمایاں ہوگا، یہ اونچے لوگوں کی شان ہواکرتی ہے، اصحاب ِ بصیرت جانتے ہیں کہ ان کی سادہ گفت گو، تجاویز اورمشوروں میں کیاکیابرکتیں، حقائق پوشیدہ ہیں، جس کوظاہربین نگاہیں نہیں پا سکتیں۔
برکت کے ان سرچشموں سے فیض پانا، ان کی رائے کووقعت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کی تجاویز کوتائیدغیبی کاحصہ سمجھنا، ان کے وجود کوبرکت ورحمت کاباعث گردانناامت مسلمہ کی تعلیم وتربیت کالازمی حصہ ہے ، جس پر طبقہ در طبقہ عمل ہوتاچلاآیاہے ، اور اسی کی وجہ سے ہمیشہ امت گرداب سے نکلی ہے ، مصیبتوں اورآزمائشوں میں گرکربھی اپنی جداگانہ شناخت ، شان وشوکت اورآن بان کو کھویا نہیں ۔
بزرگانِ دیوبند سے ادنی نسبت رکھنے والابھی علواسناد، بڑے مشائخ سے نسبت اور اس کے نتیجہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب کی عظیم سعادت کو نظر انداز نہیں کرسکتا، اس قرب کے حصول کی طلب میں بھی دوسروں کی عظمت ِشان اورعلوِدرجات کا اقرار پوشیدہ ہے ، جوحقیقی رفعتِ شان رکھنے والے متواضع لوگوں کی خصلت ہے ، نسبتوں کا احترام، اُس کی قدربجائے خود ایک بڑی سعادت اورہمیشہ خوش نصیب لوگوں کاشیوہ رہا ہے۔
مغرب زدہ یا خودپسندی کے شکارلوگ اس کو”قدامت پسندی“، اور”شخصیت پرستی“ سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ ان زمانہ سازلوگوں کوراہ کی سب سی بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ، کیوں کہ ان کے ہوتے ہوئے خود ان کو ترقی نہیں ملتی ، لوگ ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے ، ان کی دانش وری سے استفادہ کرنے پرراضی نہیں ہوتے ۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو ان کی ملمع سازیوں اورخودپسندیوں کے لیے میدان خالی مہیاہو، پھرجس طرح چاہیں، مذہب کی ترویج، ضرورتِ زمانہ ، تعمیر و ترقی ، درپیش چینلجز، اتحاد امت ، وقت کی پکار، مفاہمت، عالمی برادری، حالات کی نزاکت ، انسان دوستی، خدمتِ خلق ، مکالمہ ، ڈایئلاگ ، مراعات،مفادات، وسیع ترتناظر، مصلحت وپالیسی اور بیسیوں نام وعنوانوں سے لوگوں کاشکارکرسکیں، مسلک ومذہب کاتیاپانچہ کر سکیں، تصلب وپختگی کی مسلکی شناخت کا سودا کرکے مغرب سے داد ودہش پاسکیں اور دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کراپنے تئیں ترجمانِ اسلام، سفیر اسلام، خادمِ دین ، لیڈر، ممتازمذہبی اسکالر، محقق ، دانشور، خادم قوم وملت، رہبر وراہ نما اورامت کے پُشتی بان بن سکیں !
بدیہی بات ہے جب بڑی شخصیات ، ان کی علمیت وروحانیت نگاہ میں نہیں ہوتی ، توبے وقت مشیخت وفضیلت کے خواب دیکھے جاتے ہیں، جس کااثریہ ہے کہ ہم جیسے کمزور لوگوں کودیکھ کر اب معمولی منشی درجہ کے لوگ بھی اسلامی جماعتیں بناتے ہیں، تحریکوں، انجمنوں کے سربراہ بنتے ہیں، درسِ قرآن، درسِ حدیث کی اپنے تئیں مجلسیں سجاتے ہیں، مختلف فیہ مسائل میں رائے دیتے ہیں، عربی بول چال سیکھنے سکھانے والے مفسر قرآن، اردوتراجم پرگزارہ کرنے والے محدث، ڈاکٹر اورفقہ سے نابلد مذہب ِ خامس کانام وعنوان استعمال کرتے نظرآتے ہیں؛بلکہ منجھے ہوئے اہل علم وفن، مسلمہ ارباب تقوی وبصیرت کو بھی اپنی راہ چلنے کے مشورے دیتے ہیں، ان کے طرزو انداز کی شکایتیں کرتے ہیں۔
شخصیات وتاریخ دیوبند پرمزید کام کرنے کی ضرورت
قدیم فضلائے دیوبند کی یہ فہرست ابھی ناتمام ہے ، جوحضرا ت اس حوالے سے مزید شخصیات کے بارے میں جانتے ہیں، یاکسی نام کے بارے میں اشکال رکھتے ہیں، کسی کے تفصیلی حالات معلوم ہیں، وہ اس سلسلہ کی تکمیل کرسکتے ہیں، اس میں مزیداضافہ کرسکتے ہیں، جس سے طالبانِ علم ، موٴرخین اورسوانح نگارسب کوفائدہ ہوگا۔
فضلائے دیوبند و سہارن پورکی ایک دوسری فہرست بھی ہے ، جس میں ان حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے حضرت مولانا فخر الدین احمد صاحب اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہمااللہ تعالی کے بعد دوسرے حضرات سے پڑھا، ایسے ہی ”مدرسہ شاہی مرادآباد“ اور ڈابھیل کے فضلاء بھی ہیں، جوقدامت سمیت دوسری روحانی اور علمی وعملی خصوصیات میں ممتاز مقام رکھتے ہیں؛ مگریہاں پر ان کی تعداد کم رہی ہے۔
تقسیم کے کچھ عرصہ بعدتوایسے حالات بنائے گئے کہ دونوں طرف علم کے نقل وحمل پر گویاپابندی لگا دی گئی ؛تحصیلِ علم کی خاطرنہ وہاں کے لوگوں کو ادھرآنے دیا گیانہ اِدھرکے عاشقان دیوبندکووہاں جانے کے لیے کوئی رو رعایت رکھی گئی ؛ البتہ ڈول باجے والے دونوں طرف آزادانہ آتے جاتے رہے، ادب و ثقافت کے نام پرلوگوں کو”مصروف “ رکھنے کے لیے کبھی اِدھر کبھی اُدھرچکرکاٹتے ، رعایتیں لوٹتے رہے، علم والے حسرت ویاس کی صورت بنائے انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہونے کاتماشہ دیکھتے رہے!
کتنے ہی اس شوق ومحبت کودل میں چھپائے راہی عالم آخرت ہوگئے ، یونیسیکو ، ہیومن رائٹس سمیت کوئی اس علم دشمن پالیسی کے خلاف نہیں بولا ؛ کیوں کہ ”مہذب “بنئے کی کوئی حرکت ”انتہا پسندی “ نہیں ہوتی ، اس کو”مظلوم اسرائیل“ کی طرح اپنے دفاع کے لیے دوسروں کے تمام ”حقوق“ بھی حاصل ہیں۔
اگرقلم وکتاب اورعلم و روحانیت کے قدردان لوگ بااثر ہوتے، ان کی کوئی قدر ہوتی تواس سے دونوں طرف کے ملکوں کا، عوام کاکس قدر فائدہ ہوتا، کتنے اچھے نتائج سامنے آتے ،اندازہ نہیں لگایا جاسکتا !
متاخرین فضلاء کے حالات زندگی ، ان کی خدمات سے واقفیت کی اہمیت اپنی جگہ؛ مگراس سے پہلے اُن حضرا تِ قدماء سے باخبر ہوناضروری ہے ، جنہوں نے تقسیم سے پہلے تحصیل علم کیا، انفرادی طورپرمشائخ سے پڑھتے رہے،یانسبتاکم معروف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے،اسی طرح وہ حضرات جوتقسیم کے بعد کے چند سالوں میں یہیں رہ کر فارغ التحصیل ہوئے ہیں، انہوں نے بھی اپنے وقت کے مشاہیرسے استفادہ کیاہے، ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے دیوبند ، سہارن پور، امروہہ، مرادآباد وغیرہاقدیم مدارس کے سابق اساتذہ و حضرات مشائخ سے پڑھاہے اوراپنی علمی، روحانی خصوصیات میں دوسرے فضلائے دیوبند وسہارن پور کی طرح ممتازمقام رکھتے ہیں۔محدثین کے یہاں ایسے موقعوں پر”الموافقة“ ، ”البدل “ ، ”المساواة “ اور ”المصافحة“ نامی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، عہد رسالت، عہد رشد وہدایت سے صوری ومعنوی قربتیں پانے کی تلاش میں رہنے والوں کے نزدیک ان ثانوی خصوصیات کی بھی اہمیت ہے ۔
ہرشخصیت کے حوالے سے دوسری تفصیلات جاننے سے پہلے یہ چند بنیادی سوانحی معلومات فراہم ہونا ضروری ہے ۔
صحیح نام ونسب، عرف:
سن ولادت، مہینہ (ہجری، عیسوی ):
وطن، ابتدائی تعلیم وتربیت:
دارالعلوم یامظاہرِعلوم سے وابستگی، تاریخ( ہجری، عیسوی):
مدت تعلیم اورسن فراغت ، (ہجری ، عیسوی):
اساتذہ ومشائخ بالخصوص دارالعلوم یامظاہرِعلوم کے زمانہ تعلیم میں:
بعدازفراغت اہم مصروفیات، مشاغل:
جائے سکونت، طریقہ کارافادہ واستفادہ:
استاد محترم حضرت اقدس مولاناچشتی صاحب دامت برکاتہم (فاضل دیوبند)کی رائے ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ، طبقات ِرجال، انواعِ خدمات ، اثرات اور عظیم کارناموں کے حوالے سے سندی اورفنی کام کرنے کی ضرورت ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، اس حوالے سے کئی طرح کے خطے اورخاکے تیارکیے جاسکتے ہیں، جوفنی ، تاریخی ضرورتوں کے پیش ِنظر اہم عنوانات پر مشتمل ہوں، اس کی رعایت رکھتے ہوئے صاحب ذوق ، معاصر علمی اسلوب اورتحقیقی کاموں سے عملی واقفیت رکھنے والے ارباب ِقلم بہترشکل میں کام کرسکتے ہیں، جو حضرات موجودہیں، ان کی معلومات کوتحریری شکل میں محفوظ کیاجائے اورجوتحریریں افراد ، اداروں کے پاس ،جہاں جہاں، جس جس شکل میں موجود ہیں، ان کوسامنے رکھا جائے ، پھر اس میں عقیدت واحترام کے اظہار سے پہلے فنی اورسوانحی ضروریات ، تاریخی حوالوں پرنگاہ مرکوزکی جائے، جس طرح اسماء الرجال اورطبقات کی کتابوں میں ہوتارہاہے۔
اس عظیم کام کے لیے پہلے مصادر اورمراجع کی تعیین کرنی ہوگی، اورہرمصدر ومرجع کی فنی ، تاریخی حیثیت پرگفت گوہوگی، اسی طرح یہ مصادر ومراجع ، جوتحریرات اورشخصیات کی صورت میں موجودہیں، ان کے اماکن، دست یابی کی یقینی اورممکنہ جگہوں ، شخصیات کے نام وپتے، طریقہ استفادہ وغیرہ کوبتایاجائے گا، متعلقہ افراد کووسعت ظرفی اور عالی ہمتی کا مظاہرہ کرناہوگا، تبادلہ معلومات کی نئی نئی شکلوں کواختیارکرناہوگا، جس کے نتیجہ میں دیوبند کاوہ تذکرہ، تاریخ مرتب ہوسکے گی، جس کی سندی، فنی اہمیت ہوگی، یہ خطے اورخاکے ، مصادر ومراجع کاتعارف ، طبقاتی تاریخ، معلوماتی فہرستیں اور تذکرے عربی، اردو اورانگریزی زبانوں میں تیارکرنے کی چیزیں ہیں، اس کی ضرورت سب کوہے اورہرجگہ ہے ۔
دو ہم عصروں کی ایک صدی
تاریخ حیرتوں ا ورعجائبات کاسمندراپنے اندر رکھتی ہے، معاصرعظیم شخصیاتِ دارالعلوم دیوبندمیں ایک ایسی جوڑی بھی ہے، جس کی رفاقت و ہم عصری ایک صدی پرمحیط ہے، جونہ صرف ایک ہی سال دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، ایک ہی درس گاہ میں برابرپڑھتے رہے، آپس میں خوب دوستی ، تعلق رہا، ایک ہی سال ان کی فراغت ہوئی ؛ بلکہ ان کی پیدائش کا سال بھی ایک ہی ہے اوراس سے بھی بڑھ کر دونوں ساتھیوں کوایک صدی پر محیط طویل عمربھی نصیب ہوئی، یہ جوڑی دارالعلوم دیوبند اور اکابردارالعلوم دیوبند کے حالات ، واقعات ، روز وشب ، نشیب وفراز کی شاہداور چلتی پھرتی تاریخ ہے۔
ان دونوں میں سے ایک سے تو دنیاواقف ہے، ان کے جاننے والے بہت ہیں، لوگ ان کوحضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نام نامی سے یاد کرتے ہیں، جودارالعلوم دیوبند کے اہتمام کے منصبِ جلیل پرفائز تھے اورحضرت مولانا اسعد مدنی صاحب رحمہ اللہ تعالی کے بعد ”امیر الہند“قراردیے گئے تھے، ابھی حال ہی میں ان کا یکم محرم الحرام، 1432ھ، مطابق 8دسمبر2010ء، بدھ کے روزاپنے وطن بجنور میں انتقال ہوا، جمعرات کی شب دارالعلوم میں ان کی نمازجنازہ اداکی گئی اور قبرستان قاسمی میں اکابردیوبندکے پاس آسودہ خاک ہوئے۔
دوسرے جو،اب اکیلے رہ گئے ہیں، ان کے جاننے والے کبھی بہت تھے، ان کے قدردان بھی بڑے لوگ تھے، مگران سے واقف لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں، کبھی توان پر شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالی کی شفقتیں ہوتی تھیں، حضرت کشمیری کی زیارتیں ، حضرت محدث دیوبندی ، حضرت حکیم الامت علامہ تھانوی ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ، حضرت شیخ الأدب صاحب ، حضرت بلیاوی صاحب ، حضرت قاری صاحب ، حضرت ابو المحاسن سجاد صاحب ، آزاد صاحب ، حضرت میرٹھی صاحب ، حضرت عثمانی صاحب ، حضرت لاہوری اور اس عہد کے دوسرے بزرگوں کی صحبتیں، مجلسیں اورعنائتیں ہواکرتی تھیں اورحضرت سیوہاروی ، حضرت مولانا محمد میاں صاحب، حضرت شیخ الحدیث صاحب، حضرت بدرعالم صاحب میرٹھی، حضرت عبدالحق انفع صاحب ، حضرت عبد الحق نافع صاحب، حضرت بنوری صاحب ، حضرت پھول پوری صاحب (رحمہم اللہ جمیعا)کی رفاقتیں ہوتی تھیں، اس دور کے دوسرے بزرگوں ، مشائخ کی نیاز ومحبت پانے کی شکلیں ہوتی تھیں، مگرگئے وقتوں کے ساتھ ان کی باتیں بھی جاتی رہیں، صرف یادیں باقی رہ گئیں ۔
تاہم اب بھی حضرت اقدس مولاناچشتی صاحب دامت برکاتہم، حضرت اقدس صدر وفاق دامت برکاتہم اور ان کے متعلقین اپنے بزرگوں کی نسبتوں کے احترام میں ان کے پرسان حال رہتے ہیں، زیارت وملاقات کرتے ہیں،یہ ان کاظرف ہے اور اپنے بزرگوں کی نسبتوں کے احترام اورقدردانی کی عملی تعلیم جووہ اپنے متعلقین کودیناچاہ رہے ہیں ۔
ایک شمع فروزاں
”تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میں مہتمم دارالعلوم، حکیم الاسلام، حضرت مولاناقاری محمدطیب صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اِس شاگرد کا”اسمائے گرامی حضرات مدرسین درجہ فارسی “ کی فہرست میں اٹھارویں نمبر پر یوں ذکر کیاہے، ”مولانا اصلح الحسینی مدظلہ، گلاوٴٹھی ، ابتدائی سن 1362ھ تاآخری سن 1367ھ“ ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند، ازحضرت حکیم الاسلام ، مہتمم دارالعلوم ، ص:116 طبع:دار الاشاعت ، کراچی، ستمبر1972ء) اس فہرست میں حضرت مولانا محمدیاسین صاحب دیوبندی ، رحمہ اللہ تعالی ، حضرت مولاناخلیفہ منشی عاقل صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نام نامی بھی موجودہیں، حضرت والااِس وقت بھی الحمدللہ اپنی نقاہت وعلالت ، پیرانہ سالی کے باوصف ہمارے درمیان موجو د ہیں، موصوف کی ولادت حضرت اقد س مولاناسیدمحمد صالح صاحب مرحوم کے گھرضلع بلندشہر کے قصبہ گلاوٴٹھی میں بروزجمعرات، 26محرم الحرام1332ھ، مطابق 25 دسمبر1913ء کو ہوئی ، والدصاحب حضرت اقدس گنگوہی سے بیعت تھے، حضرت کے دادا حضرت مولاناصوفی محمدحسن صاحب رحمہ اللہ تعالی گلاوٴٹھی میں حضرت سالارمسعودغازی رحمہ اللہ تعالی کی جامع مسجد میں واقع اس مدرسہ منبع العلوم کے بانیوں میں شامل تھے، جہاں ان کے بقول حجة الاسلام علامہ نانوتوی رحمہ اللہ تعالی دہلی سے تکمیل کے بعدتدریس سے وابستہ ہوئے تھے ، حضرت اقدس مولانا عبد الغنی صاحب پھول پوری رحمہ اللہ تعالی بھی اسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے، شایداسی وجہ سے موصوف کا ان سے تعلقِ خاطر تھا، گلاوٴٹھی کا علاقہ تحریک آزادی کے مجاہدین کاتھا، جس کی وجہ سے حضرت نانوتوی کو ان سے خاص تعلق تھا، محل وقوع کے اعتبارسے بھی شاملی، میرٹھ وغیرہ جہاد ومجاہدین کے دوسرے مراکز قریب ہی واقع تھے ۔
خود فرماتے ہیں:(غالبا)تیرہ سال کی عمر تھی ، فارسی پڑ ھ رہاتھا، شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالی گلاوٴٹھی تشریف لائے تھے، موصوف کے والدحضرت کے پیر بھائی اورعمر میں ان سے چارسال چھوٹے تھے، دونوں ایک ہی سال قطب عالم حضرت گنگوہی سے بیعت ہوئے تھے، حضرت مدنی نے ازراہ شفقت ، وخوش طبعی درجہ فارسی کی مناسبت سے کچھ سوالات بھی کیے تھے، جس کوکبھی کبھی بڑی محبت سے سناتے ہیں۔یہ پہلی زیارت و ملاقات تھی، جس کے بعد عمربھرکے تعلق اورنسبتوں کی سبیل پیداہوئی ، تقریبا 1927ء کے لگ بھگ دارالعلوم دیوبند آئے، حضرت علامہ کشمیر ی صاحب ڈابھیل چلے گئے ، تو1932-31ء میں حضرت مدنی ، حضرت میاں اصغرحسین صاحب، حضرت بلیاوی صاحب ، حضرت شیخ الادب صاحب ، حضرت قاری صاحب رحمہم اللہ تعالی و غیرہم اکابر ین سے دورہ حدیث پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
حالات و واقعات
دورہ حدیث میں حضرت مولانازاہد الحسینی صاحب ، حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب مہاجر مکی بن حضرت لاہوری، حضرت مولاناایو ب جان صاحب بنوری ، حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی، حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب ، رحمہم اللہ تعالی اورحضرت اقدس مولانا عبد الحنان صاحب دامت برکاتہم (غالباً) ان کے ہم درس رہے ، جوبجائے خودعظیم شخصیات ہیں، ان کی اپنی ایک تاریخ ہے ، کیاعجیب پر نور ماحول ہوتاہوگا، جب اس طرح کی عظیم شخصیات شاگردوں کی نشستوں پر بیٹھے زانوئے تلمذ طے کرتی ہوں گی، تو مسنددرس پر بیٹھنے والے اساتذہ کامقام کیا ہوگا !ہے کوئی درس گاہ روئے زمین پر جوپچھلے ڈیڑھ سوسال میں اس طرح کی تاب ناک تاریخ رکھتی ہو؟
حضرت مولانا سید محمداصلح الحسینی صاحب دامت برکاتہم بائیس برس کی عمر میں نواب حمید اللہ خان کے زمانہ میں ریاست بھوپال میں شرعی عدالت علیاکی مجلس علماء کے لیے منتخب ہوئے تھے، اس عالی منصب کے لیے مطلقاً انتخاب بھی بڑے فخر کی بات ہواکرتی تھی، بڑے بڑے اہل علم ہی اس منصب کے لیے اہل قراردیے جاتے تھے؛ چہ جائے کہ بائیس سال کی عمر میں اس کے لیے منتخب ہوجانا!؛ مگربدخواہوں کی بات چل گئی، تواس پر رنجیدہ خاطر ہوئے، حضرت شیخ الاسلام کوخبردی ، حضرت شیخ الاسلام نے جوا ب میں جو خط لکھا، ا س میں جس شفقت آمیز لہجہ میں ان کو صبرکی تلقین کی، وہ خط ان کی زندگی قیمتی متاع ہے ، اس میں” عزیزم“ کامحبت بھرا خطاب بھی ہے ، جو ان کے بقول بہت کم کسی کے نصیب میں ہے۔
موصوف دار العلوم دیوبندمیں1362 ھ سے لے کر1367ھ تک درجہ فارسی کے مدرس رہے، حضرت شیخ الحدیث مولاناعبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالی بھی اسی عرصہ میں مدرس عربی مقررہوئے تھے، جن کے پاس دورہ حدیث تک کے اسباق تھے، فہرستِ مذکور کی کئی نامورشخصیات بھی ان کے تلامذہ میں شامل ہیں، ”مدرس درجہ فارسی“ اور”مدرس عربی “ دارالعلوم کی اپنی خاص اصطلاحات ہیں، درجہ فارسی میں مثنوی ، سکندر نامہ وغیرہ پڑھاتے رہے ، کئی شخصیات ان کے شاگردوں کی فہرست میں آتی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند اورحضرت شیخ الاسلام سے جو تعلقِ خاطر تھا، اس قربت کے پیش نظرکبھی جدائی کاخیال نہیں آسکتا، حضرت کی خدمت میں رہتے ، حضرت ہی نے شادی کرائی ، تقریب میں شریک رہے؛ بلکہ اخراجات تک کابندوبست کیا، لیکن بعض اضطراری حالات کی بناپراس جدائی کوبرداشت کرناپڑا، تقسیم ہند کے بعد پہلے اپنے چھوٹے بھائی مفتی اکمل صاحب رحمہ اللہ تعالی کوساتھ لے کر ہمشیرہ صاحبہ کوپاکستان چھوڑنے آئے ، اس کے بعد واپس چلے گئے، پھران کی بیماری کی خبر آئی، چوں کہ، بچپن میں والدہ محترمہ کاانتقال ہوا تھا، ہمشیرہ سے تعلق ماں جیساتھا؛ اس لیے ان کے پاس آگئے، اس وقت تک بغیرپرمٹ آمدورفت ہواکرتی تھی ، دوبارہ پاکستان آنے کے بعد پرمٹ کاسلسلہ شروع ہوا، حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب” انفع“ رحمہ اللہ تعالی کی طرح موصوف کے لیے بھی دوبارہ بہ آسانی جانے کے راستے تقریباً مسدود ہوگئے ؛ اس کی وجہ سے چاروناچار دیوبند اور حضرت شیخ الاسلام کی حسرتیں دل ہی دل میں رکھ کریہیں کے ہورہے ، ان دنوں نقل مکانی کے دوران دونوں طرف نہایت خون خرابہ ہواتھا، حضرت سے خاص تعلق خاطر ، ان کی شفقت الگ سے تھی ، اپنی خاص مجلسوں میں نہایت دردبھرے لہجے میں ان کے لیے دعاکی۔
نقل مکانی کے بعدذوق ومزاج کے برخلاف نئے ماحول کی زندگی میں کئی نشیب وفرازآئے ، اپنوں اورپرایوں کودیکھاپرکھا، شغل ومصروفیت کے کئی سلسلو ں سے وابستگی کاخیال باندھا ، دارالتصنیف حب ریورروڈ سے منسلک رہے، حضرت علامہ بنوری رحمہ اللہ تعالی نے بینات میں کام کرنے کا کہا، بعض جگہ درس حدیث کی بھی بات چلی ؛ مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا، علمی مصروفیت کا کوئی ایک جلی عنوان قائم نہ ہوسکا، ویسے بھی ہم لوگوں کامزاج یہ ہے کہ استفادہ کے لیے تو مسندوں کوتلاش کرتے ہیں، مگرمسندوں کے لیے شخصیات کو ڈھونڈنکالنا ، گویاکسی ابھری ہوئی شخصیت سے اغماض برتناخیال کرتے ہیں ، خود دارالعلوم دیوبند میں چوٹی کے اساتذہ حضرت کشمیری ، حضرت مدنی ، حضرت مہدی حسن صاحب وغیرہم کا انتخاب رسمی تکمیل کے کئی سال بعد ہوا تھا اوراصحاب ِمسندمشائخ نے ہی بلاکر کیاتھا۔
صحافت حضرت کاخاص موضوع رہاہے، کلکتہ میں مولا نا ابو المحاسن سجاد صاحب کی سرپرستی میں ”البلاغ“ میں کام کرتے رہے، ان کی غیرت ایمانی اورجذبہ جہاد کا ذکر فرماتے ہیں، مولاناآزاد صاحب سے صحبتیں رہیں ، ان کاانٹرویولیاتھا، الجمعیة دہلی میں بھی لکھتے رہے، جمعیت علمائے ہند سے تعلق تھا، تحریک آزادی میں حصہ لیا ، جیل بھی جانا پڑا ، لیگ وکانگریس کے داخلی معاملات سے بھی خوب واقفیت رہی ، بایں ہمہ حضرت تھانوی ، حضرت سلیمان ندوی ، حضرت شیخ الاسلام عثمانی، وغیرہم حضرا ت کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے، دوسری طرف(جمعیت علماء ہند) کے بزرگوں میں توگویا وہ جی رہے تھے، انہی کاذوق ومزاج پایا۔
حضرت شیخ الاسلام کے سیاسی مسلک کے حوالے سے ان کی معلومات اس وقت سند کا درجہ رکھتی ہیں، وہ ایک مکمل ڈائری ہیں، سفر وحضر کے اتنے قریب سے دیکھے، سنے ہوئے واقعات ، حالات کے بارے میں بالخصوص حضرت شیخ الاسلام اورجمعیت علمائے ہند کے دیگر اکابر و اصاغر کے ذوق ومزاج ، طرز وطریقہ کار کوسمجھنے والے کم ازکم پاکستان میں باستثنا حضرت مولانا مجاہدخان صاحب دامت برکاتہم العالیہ شاید اب کوئی نہ ہو ۔ماضی میں دارالعلوم دیوبند بالخصوص شیخ الاسلام اورجمعیت علمائے ہند کے دوسرے اکابرکے بارے میں جو کچھ لکھاگیاہے، یاحال میں ڈائریاں مرتب ہوئی ہیں ، اس کے بارے میں اِن” قدماء“ کے مختصر جملے، محتاط آرا نہایت بالغ نظری کانمونہ ہوتی ہیں، جن میں اختصار واجمال کے باوجود تاریخی جرح وتعدیل کامزاج رکھنے والے محققین کے لیے نہایت اہمیت کے حامل اشارے ہواکرتے ہیں، کئی باتوں کی کڑیاں مل جاتی ہیں ، لکھنے والوں کے قدکاٹھ کا اندازہ ہوجاتاہے اور واقعات وحالات کے نئے نئے گوشے سامنے آجاتے ہیں۔
امیر الہند حضرت مولانامرغوب الرحمان صاحب بن حضرت مولاناحکیم مشیت اللہ صاحب رحمہما اللہ تعالی بجنوری، مہتمم دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی بن حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہما اللہ تعالی، امیر شریعت بہار اورحضرت مولانامحمد اصلح صاحب الحسینی دامت برکاتہم تینوں حضرات کا سن ولادت(1332ھ مطابق1913ء ) ایک ہونے کے علاوہ فراغت کی تاریخ(1352ھ مطابق1932ء) بھی ایک ہے، چندمہینوں کے فرق کے ساتھ موٴخر الذکر بڑے بھی ہیں اورطویل العمر بھی، ان بزرگوں میں خوب محبت ، تعلق کارشتہ قائم رہا، خودفرماتے ہیں: مولانا مرغوب الرحمان صاحب سے کبھی نوک جھونک ہوتی تومیں کہتا: میں تم سے عمرمیں بڑا ہوں؛ کیوں کہ میری پیدائش محرم میں ہوئی ہے ، تمہاری بعد میں۔ امیر شریعت حضرت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی کاانتقال3رمضا ن 1411ھ مطابق 19مارچ 1991ء کو ہوا، ان دوحضرات کی جوڑی باقی رہی ، حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب رحمہ اللہ تعالی کی وفات یکم محرم الحرام، بدھ کے روز ہوئی ، منگل کے روز 7 دسمبر کو ان کے صاحب زادے مولاناانوار الرحمان صاحب سے فون پر بات ہوئی ، موصوف اس وقت اپنے وطن بجنور میں والد گرامی قدر کی خدمت میں حاضرتھے، دونوں ساتھیوں نے ایک دوسرے کی خیرخیریت دریافت کی اور دعاوٴں کے لیے ملتجی ہوئے ، یہ گفت گوآخری ثابت ہوئی۔
حضرت والا گلشن اقبال ، کراچی میں برخوردار محترم جناب سیدطہ صاحب کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، تفصیلی حالات ہنوزمرتب ہوناباقی ہیں، حضرت مفتی مظہر اسعدی صاحب (بہاول پور)،شریفی صاحب اوردیگر کئی حضرات کی ان سے ملاقاتیں ہیں، یہ سب معلومات جمع ہونے کے بعد تنقیح وترتیب دے کرجامع سوانحی خاکہ تیارہوسکتاہے، جس کے لیے قارئین سے معلومات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ دعاوٴں کی بھی درخواست ہے، کہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
اللہ کرے کہ ہمیں ِان تمام مذکورہ وغیرمذکوربزرگوں کی برکات ، علوم ومعارف سے بیش ازبیش مستفید ہونے کی توفیق عنایت ہو اورتادیراِن حضرات کاسایہ ہمارے سروں پرقائم رہے، اللہم آمین!