Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

9 - 15
***
کیا نماز باجماعت میں ٹخنے ملانا ضروری ہے
مولانا محمد عبدالمعبود
حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے نماز باجماعت میں صفوں کی درستگی پر خصوصی توجہ فرمائی ہے اور صفوں کو سیدھا اور درست رکھنے کو ”حسن صلوة“ اور ”اتمام صلوٰة“ قراردیا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اقیموا الصف فی الصلاة، فان اقامة الصف من حسن الصلاة“․ (صحیح بخاری:100/1)
ترجمہ: نماز میں صف کو درست کرو، اس لیے کہ صف درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک جز ہے۔“
سیدنا حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”سووا صفوفکم، فان تسویة الصف من تمام الصلاة․“ (صحیح مسلم:182/1)
ترجمہ: ” تم لوگ اپنی صفیں درست رکھا کرو، کیوں کہ صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔“
سیدنا حضرت جابر سے روایت ہے:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان من تمام الصلاة اقامة الصف“․ (مسند امام احمد:322/3 طبرانی کبیر:198/2)
ترجمہ:” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک نماز کی تکمیل صفوں کی درستی ہوتی ہے۔“
سیدنا حضرت انس سے روایت ہے:” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اتموا صفوفکم، فإن تسویة الصف من تمام الصلاة․“ (صحیح ابن حبان: حدیث:2168)
ترجمہ:” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: صفیں درست کرو، کیوں کہ صفوں کا برابر کرنا نماز کی تکمیل کا جز ہے۔“
سنت کے مطابق صفوں کو درست کرنے کی صحیح صورت یہ ہے کہ نمازی ایک دوسرے سے اس طرح مل کر کھڑے ہوں کہ درمیان میں جگہ خالی نہ رہے اور صف ایسی سیدھی ہو کہ کوئی آدمی آگے یا پیچھے نکلا ہوا نہ ہو ، محدثین عظام ، فقہائے کرام او رجمہور امت نے صفوں کی درستی کا یہی معنی مراد لیا ہے ۔ لیکن غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا خیال یہ ہے کہ نماز میں نمازی کا ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے ٹخنے اور قدم سے ملانا سنت اور ضروری ہے اور وہ لوگ ایسانہ کرنے والوں پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں او رانہیں مخالفین سنت قرار دیتے ہیں ، لہٰذا اس عمل کی وضاحت اور صراحت کے لیے احادیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور محدثین اور فقہائے کرام کی تشریحات کو بھی ملحوظ رکھاجائے گا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نماز میں صفوں کی درستگی کے سلسلہ میں کئی روایات مروی ہیں لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کسی بھی ارشاد یا آپ کے عمل سے ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور قدم سے قدم ملانا ثابت نہیں ہے ، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین بھی اپنے اپنے زمانہٴ خلافت میں صف بندی کا اہتمام تو فرماتے رہے، لیکن ان سے بھی ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور قدم سے قدم ملانا نہ قولاً ثابت ہے، نہ ہی فعلاً۔ اس کے شواہد مندرجہ ذیل ہیں: 
” عن النعمان بن بشیر قال: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بھا القداح، حتی رأی انا قد عقلنا عنہ، ثم خرج یوماً، فقام حتی کاد ان یکبرفرأی رجلا بادیا صدرہ من الصف، فقال: عباد الله، لتسون صفوفکم، او لیخالفن الله بین وجوھکم۔“ ( صحیح مسلم:182/1)
ترجمہ:” حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کرتے تھے، گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کوسیدھا کریں گے ، یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لیے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے ، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرما دیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی، جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو، ورنہ الله تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا۔“
اہل عرب شکار یا جنگ میں استعمال کے لیے جو تیر تیار کرتے تھے ان کو بالکل سیدھا اور برابر کرنے کی بڑی کوشش کرتے تھے ، اس لیے کسی چیز کی برابری اور سیدھے پن کی تعریف میں مبالغہ کے طور پر کہا جاتا تھا کہ یہ چیز اس قدر سیدھی ہے کہ اس کے ذریعہ تیروں کو سیدھا کیا جاسکتاہے، یعنی جو تیروں کو سیدھا کرنے میں معیار اور پیمانہ کا کام دے سکتی ہے۔
” عن ابن عمر ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: اقیموا الصفوف، وحاذوا بین المناکب، وسدوا الخلل، ولینوا بایدی اخوانکم، ولاتذروا فرجات للشیطان، ومن وصل صفا وصلہ الله ومن قطع صفا قطعہ الله․“ (سنن ابی داؤد:67/1)
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صفیں قائم کرو، کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو، خلا کو پُر کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہو جاؤ، شیطان کے لیے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا، الله اسے ملائیں گے اور جس نے صف کو کاٹا، الله اسے کاٹ دیں گے۔“
”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من سد فرجة فی صف رفعہ الله بھادرجة، وبنی لہ بیتا فی الجنة․“ (مجمع الزوائد:204/2، مصنف ابن ابی شیبہ:416/1)
ترجمہ:”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے صف میں خالی جگہ پُر کر دی ( یعنی ساتھ کھڑا ہو گیا) الله تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اور اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔“
”عن البراء بن عازب قال: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یتخلل الصف من ناحیة، یمسح صدورنا ومناکبنا، ویقول: لاتختلفوا فتختلف قلوبکم، وکان یقول: ان الله عزوجل وملائکتہ یصلون علی الصفوف الاُول․“ (سنن ابی داؤد:67/1)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم صف میں ایک جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لیے ہمارے سینوں او رکندھوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم مختلف یعنی آگے پیچھے نہ ہونا، ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہو جائیں گے ، نیز فرماتے تھے : الله تعالیٰ پہلی صفوں پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے اگلی صف والوں کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔“
یعنی اگر صفوں کو برابر اور سیدھا کرنے میں تم بے پروائی اور کوتاہی کرو گے تو الله تعالیٰ اس کی سزا میں تمہارے رخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا ، تمہاری وحدت اور اجتماعیت پارہ پارہ ہو جائے گی او رتم میں پھوٹ پڑ جائے گی۔
”عن انس بن مالک عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: رصوا صفوفکم، وقاربوا بینھا، وحاذوا بالاعناق، فوالذی نفسی بیدہ، انی لاری الشیطان یدخل من خلل الصف، کانھا الحذف․“ ( سنن ابو داود:67/1)
ترجمہ:”حضرت انس بن مالکرسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی صفیں ملاؤ اور انہیں نزدیک رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ میں رکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے ، گویا کہ بھیڑکا بچہ ہے ۔“
”عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:تراصوا الصفوف، فانی رایت الشیاطین تخللکم، کانھا اولاد الحذف․“ ( مجمع الزوائد:204/2)
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو ملاؤ ( کوئی جگہ خالی نہ رہے )، میں دیکھتا ہوں کہ شیاطین خالی جگہ گھس رہے ہیں، گویا وہ بھیڑ کے بچے ہیں۔“
”وروی عن عمر انہ کان یؤکل رجلا باقامة الصف، ولایکبر، حتی یخبر ان الصفوف قد استوت، وروی عن علی وعثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک، ویقولان: استووا، وکان علی یقول: تقدم یا فلان، تاخر یا فلان․“ (جامع ترمذی:31/1)
ترجمہ: سیدنا حضرت عمر کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے صفوں کی درستگی کے لیے ایک شخص مقرر فرما رکھا تھا اور جب تک وہ شخص آپ کو صفیں درست ہو جانے کی اطلاع نہیں دیتا تھا، آپ تکبیر نہیں کہتے تھے ۔ حضرت علی  اور حضرت عثمان کے متعلق مروی ہے کہ وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ : سیدھے اور برابر ہو جاؤ۔ حضرت علی فرماتے تھے کہ: فلاں! آگے ہو، اے فلاں! پیچھے ہو۔“
”عن مالک بن ابی عامر الانصاری ان عثمان بن عفان کان یقول فی خطبتہ: اذا قامت الصلاة، فاعدلوا الصفوف، وحاذوا بالمناکب․“ (موطا امام محمد:82)
ترجمہ:” حضرت مالک بن ابی عامر انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ : جب جماعت قائم ہو تو صفوں کو درست کرنا اورکندھوں کو ایک سیدھ میں برابر کر لینا۔“
”عن بلال قال: کان النبی صلی الله علیہ وسلم یسوی مناکبنا فی الصلاة․“ ( طبرانی صغیر:81/2، مجمع الزوائد:2,3/2)
ترجمہ:” حضرت بلال سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نماز میں ہمارے کندھوں کو بالکل برابر کرتے تھے۔“
علاوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت کے مطابق نمازی کا دوسرے نمازی کے ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم حقیقتاً ملانا ضروری نہیں ہے ، اس میں ظاہری معنی مراد ہی نہیں، بلکہ اس سے مقصود صفوں کو سیدھا کرنا اور درمیانی خلا کو پُر کرنا ہے ۔ جیسا کہ حضرات شارحین او رمحدثین رحمہم الله نے صحیح بخاری شریف کے مذکورہ باب او رروایات کا یہی مقصد اور مطلب بیان فرمایا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ”المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ․“ (فتح الباری:211/2)
ترجمہ:” اِلزاق: سے مقصود تعدیل صف اور خلل پُر کرنے کے لیے مبالغہ ہے ۔“
اس کی مزید وضاحت کے لیے علامہ عسقلانی اس روایت کو بطور استشہاد پیش فرماتے ہیں:
” عن عبدالله بن عمر ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اقیموالصفوف، وحاذوا بین المناکب، وسدوا الخلل، ولاتذروا فرجات للشیطان، ومن وصل صفا وصلہ الله، ومن قطع صفا قطعہ الله․“ ( فتح الباری:211، کتاب الاذان)
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ : رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : صفیں سیدھی کر واور کندھے ایک سیدھ میں رکھو اور خالی جگہ پُر کرو اور شیاطین کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو ، جو صف کو ملائے گا الله اسے اپنی رحمت سے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے کا الله اسے کاٹ پھینکے گا۔“
علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری ج:268/2 میں بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے:”المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ․“
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں:
”واشار بھذا الی المبالغة فی تعدیل الصفوف وسد الخلل․“ ( عمدہ القاری:259/5)
خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
قلت: وھو مرادہ عند الفقھاء الاربعة، ای لایترک فی البین فرجة تسع فیھا ثالثاً، وھذہ المسئلة اوجدھا غیر المقلدین فقط․“ ( فیض الباری:236/2)
ترجمہ:” میں کہتا ہوں کہ یہی فقہا اربعہ کے نزدیک مراد ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان اتنا خلا نہ چھوڑے کہ جس میں تیسرے آدمی کی گنجائش ہو اوراس مسئلہ کو یعنی ٹخنے ملانا صرف غیر مقلدین نے جنم دیا ہے۔“
جو منفی سوچ او رنامناسب طرز عمل غیر مقلدین حضرات نے اپنایا ہے اور ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کا ظاہری معنی مراد لیا ہے، اس میں تکلیف، تصنع، کلفت او رمشقت پائی جاتی ہے، حالاں کہ الله جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے ۔ جیسے کہ ارشاد خدا وندی ہے: ﴿وماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․ (حج:78)
﴿لایکلف الله نفساً الاوسعھا﴾․ (بقرہ:233)
اگر مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کو حقیقت پر محمول کرنا ہی ہے تو حضرت نعمان بن بشیر کی اسی روایت میں ”ورکبتہ برکبة“ (ابوداؤد:67/1) اور گھٹنے سے گھٹنا ملایا جائے“ کا اضافہ بھی مذکور ہے، پھر گھٹنے سے گھٹنا ملانے کو بھی ضروری قرار دیں ۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری  شارح سنن ابی داود تحریر فرماتے ہیں : ”فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب فی الصلاة مشکل․“ ( بذل المجہود:230/4)
ترجمہ: ”نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانامشکل ہے۔“
علامہ ظفر احمد عثمانی قدس سرہ فرماتے ہیں : 
”ولایخفی ان فی الزاق الاقدام مع الزاق المناکب بالمناکب مشقة عظیمة، لاسیما مع ابقائھا کذلک آخر الصلاة، کما ھو مشاھد، والحرج مدفوع بالنص․“ (اعلاء السنن:360/4)
ترجمہ:” یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا ملانے کے ساتھ قدم سے قدم ملانا میں بہت زیادہ مشقت ہے ، جب کہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو، جیسا کہ مشاہدہ بھی ہے اور حرج نص سے مدفوع ہے یعنی زائل کیا گیا ہے۔“
مذکورہ روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنے سے یعنی ٹخنے سے ٹخنا، قدم سے قدم، گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملانے سے نماز میں عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ سے طبعی وضع بدل جاتی ہے اور یہ کیفیت خشوع صلاة کے منافی بھی ہے۔
محدث العصر حضرت مولانا محمدیوسف بنوری اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقیقة، ولیس الامر کذلک، بل المراد بذلک مبالغة الراوی فی تعدیل الصف، وسدالخلل کما فی الفتح والعمدة وھذا یرد علی الذین یدعون العمل بالسنة، ویزعمون التمسک بالاحادیث فی بلادنا حیث یجتھدون فی الزاق کعابھم بکعاب القائمین فی الصف، ویفرجون جد التفریج بین قدمیھم، ما یؤدی الی تکلف وتصنع، ویبدلون الاوضاع الطبیعیة، ویشوھون الھیئة الملائمة للخشوع، وارادوا ان یسدوا الخلل والفرج بین المقتدین، فابقوا خللاً وفرجة واسعة بین قدمیھم ولم یدروا ان ھذا اقبح من ذلک․“ ( معارف السنن:297/2)
ترجمہ:” بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے ، حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خلا پر کرنے میں مبالغہ ہے، جیسا کہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے ۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے شہروں میں سنت پر عمل کے دعوے دار ہیں اور تمسک بالاحادیث کا دم بھرتے ہیں ۔ وہ اپنے ٹخنے صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں قدموں کے درمیان کشادگی کی وجہ سے بہت چوڑے ہو کر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف وتصنع تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں او رمناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ دیتے ہیں ، بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خلا پُر کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اپنے دونوں قدموں کے درمیان اس سے بھی زیادہ خلا اور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں او رانہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس سے بھی زیادہ قبیح عمل ہے۔“
غور طلب
یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کے بعد اپنے دونوں قدموں کے درمیا ن جتنا وسیع او رکشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں کیا اس کا ثبوت کسی حدیث سے اور فرمان نبوی سے پیش کر سکتے ہیں ؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے لیے خالی جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ یاللعجب․
صحابہ کرام کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی دو پاؤں کے درمیان نہ تو زیادہ فاصلہ رکھے اور نہ ہی ملا کر کھڑا ہو ، یہ کیفیت تنہا نماز میں اور جماعت کی حالت میں بھی قرار رہتی تھی۔
”وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ، ولایمس احداھما بالاخری، ولکن بین ذلک، لایقارب ولایباعد․“ (المغنی، ابن قدامہ:698/1)
علامہ محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں : 
” انا لم نجد الصحابة والتابعین یفرقون فی قیامھم بین الجماعة والانفراد، علمنا انہ لم یرد بقولہ الزاق المنکب الا التراص وترک الفرجة“․ ( فیض الباری:237/2)
امام نسائی  کی روایت میں ہے:
”عن ابی عبیدہ عن عبدالله انہ رأی رجلا یصلی قد صف بین قدمیہ، فقال أخطأ السنة ولو، راوح بینھما کان اعجب الي․“ ( سنن نسائی:90/1)
ترجمہ: ” حضرت عبدالله بن مسعود نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جس نے دونوں پاؤں ملا رکھے تھے ،انہوں نے فرمایا: اس نے سنت کوپانے میں غلطی کی ہے، اگر یہ آدمی دونوں پاؤں کے درمیان ”مراوحة“ کرتا تو مجھے زیادہ پسند ہوتا“۔
دوسری روایت میں ہے : ” لو راوح بینھما کان افضل“․
”مراوحة“ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
دونوں پاؤں میں سے کبھی ایک پر کھڑا ہونا اور دوسرے پاؤں کو آرام دینا۔
دوسرا معنی تھوڑی سی کشادگی اور تھوڑے سے فاصلہ کو بھی ”مراوحة“ کہا جاتا ہے۔
اس روایت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے، لہٰذا اس سے دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ کرنا ثابت ہوتا ہے۔ (فیض الباری :237/2)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعود  نے اس نمازی کے دونوں قدم کے ملانے پر نکیر وانکار پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ” مراوحة“ یعنی تھوڑے فاصلہ کا بھی ذکرفرمایا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں : ”ثم لم ینکر ابن مسعود الوصل فقط، بل عدم المراوحة، ولعل الغرض ھو الانکار علی المبالغة فی الزاق قدمہ بقدمہ، فالسنة ان لایفرج المصلی بین قدمیہ جداً ولایصل جداً، بل بین التفریج والوصل، فاذا لم یکن التفریج کثیرا لم یکن الزاق کعب المصلی بکعب آخر، فاذن تکون روایة الالزاق محمولة علی ماذکرہ البدر والشھاب“․ ( معارف السنن:298/1)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور الله مرقدہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری نے ترجمة الباب میں منکب ( کندھا) اور قدم دونوں میں سے ہر ایک کے ملانے کا ذکر کیا ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کندھے اور قدم کو ملانے میں محاذات اور مبالغہ فی القرب ہی کا معنی ممکن ہے، حقیقتاً کندھے کو کندھے او رقدم کو قدم سے ملانا مراد نہیں ہے ، پھر امام بخاری نے تعلیقاً حضرت نعمان کی روایت کو ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جو معنی ( محاذات اور مبالغہ فی القرب کا) پہلے دونوں میں یعنی کندھے اور قدم میں مراد ہے ، وہی معنی تیسرے میں یعنی ٹخنے میں مراد ہے ، اس لیے کہ روایات کا سیاق متحد ہے۔“ ( حاشیہ لامع الداری:228/3)
حضرت نعمان بن بشیر کی ایک روایت میں ہے:
” قال: فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ، ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ“․
ترجمہ:” میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا ملایا ہوا تھا۔“
یہ بھی حضرت نعمان بن بشیر ہی کی روایت ہے ، ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے او ردوسروں کواس پر عمل کرنے کی ترغیبکیوں نہیں دیتے ؟ بعض روایت میں ہے :”حاذوا بین المناکب“․ (ابوداؤد:68/1) اس کی تشریح میں عون المعبود میں ہے:
”ای اجعلوا بعضا حذاء بعض بحیث یکون منکب کل واحد من المصلین موازیا لمنکب الآخر، ومسامتالہ، فتکون المناکب والاعناق والاقدام علی سمت واحد․“ ( نیل الاوطار:231/3 ،عون المعبود:275/2)
ترجمہ:”کندھوں کے محاذات کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی کا کندھا دوسرے نمازی کے کندھے کے محاذی ومقابل اور ایک سمت میں ہو، اس صورت میں سب کے کندھے، گردن اور قدم ایک سمت میں ہوں گے ۔“
یہی مفہوم ومقصود تمام روایات کا ہے ، یعنی نمازی اپنا کندھا، ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے کندھے اور قدم کی محاذات اور سیدھ میں رکھے۔
صحیح بخاری شریف کی جن روایات کو غیر مقلدین حضرات اپنا مستدل ٹھہراتے ہیں اگر انہیں اپنے ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ” الزاق“ یعنی قدم سے قدم او رکندھے سے کندھا ملانا سنت مقصود ہ نہیں ہے، اس لیے کہ حضرت انس  سے ایک روایت جو معمر کے اضافہ کے ساتھ مرو ی ہے اس نے اس تمام الجھن کو حل کر دیا ہے کہ:
”وزاد معمر فی روایتہ: ولو فعلت ذلک باحدھم الیوم لنفر کانہ بغل شموس․“ ( فتح الباری:211/2)
”حضرت انس  فرماتے ہیں کہ اگر آج میں ان لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ایسا کروں یعنی اس کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملاؤں تو وہ سرکش خچر کی طرح بھاگے گا۔“․
حضرت انس  کی اس فیصلہ کن روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے بعد کندھے سے کندھا، ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم نہیں ملایا کرتے تھے، اگر ”الزاق“ سنت مقصودہ ہوتی تو صحابہ کرام  اسے کسی صورت ترک نہ کرتے اور نہ ہی کسی کی نفرت کی پروا کرتے ۔ کیوں کہ نفرت تو اس فعل سے ہوا کرتی ہے ، جو غیر ضروری ہو اور عام طور پر نہ کیا جاتا ہو ۔ جو عمل ہر ایک نمازی کرتا ہو ، اس سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ جو حکم رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیا ہو اس سے مسلمان کیسے نفرت کر سکتا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ اگر غیر مقلدین کا نظریہ درست ہوتا اور الزاق سنت مقصودہ ہوتا تو تمام صحابہ کرام اس پر عمل کرتے اور تابعین بھی صحابہ کرام کے عام اوردوامی عمل کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ یہ سنت صلاة ہے ، پھر کسی کے ٹخنے سے ٹخنا قدم سے قدم ملانے سے نفرت نہ ہوتی۔ غیر مقلدین حضرات نے حضرت انس کی بخاری والی روایت کو تو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیا ہے، لیکن حضرت انس  کی اسی مسئلہ سے متعلق دوسری روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے ، گویا کہ :﴿افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض﴾ کے مصداق ہیں۔ چاہیے کہ غیر مقلدین حضرات ناروا ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلہ میں جمہورعلمائے امت کی تحقیق کو قبول کر لیں، اسی میں ان کے لیے دارین کی کامرانی اور فلاح ہے۔
مسئلہ کی شرعی حیثیت
اگرچہ گزشتہ تفصیلات سے مسئلہ کی اہمیت اور اس کا شرعی مقام پوری طرح واضح ہو گیاہے، تاہم ائمہ، فقہاء اور محدثین کی آرا اس کی شرعی حیثیت کو پوری طرح آشکارا کرتی ہیں ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی لکھتے ہیں :
” تسویہٴ صف، ائمہ ثلاثہ: امام ابوحنیفہ ،امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نماز کیسنتوں میں سے ہے ، لیکن شرط صحت نماز سے نہیں ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ امر تو وجوب کے لیے ہے خصوصاً جب کہ ترک پر وعید بھی وارد ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وعید بطور تغلیظ وتشدید کے ہے ، جیسا کہ علامہ کرمانی  فرماتے ہیں:” تاکیداً وتحریضاً علی فعلھا“․ جب کہ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ امر مقرون بالوعید وجوب پر دلالت کرتا ہے ، لہٰذا یہ کہنا چاہیے کہ تسویہ واجب تو ہے، مگر واجبات صلاة سے نہیں ہے کہ اس کے ترک سے فساد صلاة کا حکم ہو ، البتہ اس کے ترک سے گناہ لازم آئے گا، اسی لیے حافظ ابن حجر نے بھی کہا ہے کہ وجوب مانتے ہوئے بھی اس کے ترک سے نماز صحیح ہو جائے گی۔“ ( حاشیہ لامع الدراری:279/1)
شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب زید مجدہ رقم طراز ہیں:
” جمہور کے نزدیک تسویة الصفوف نماز کی حقیقت میں داخل نہیں اور نہ ان شرائط میں سے ہے جن پر نماز کا حسن وکمال موقوف ہے۔ علامہ عثمانی  فرماتے ہیں کہ حضرات حنفیہ کے کلام کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسویة الصفوف سنت مؤکدہ ہے ، کیوں کہ ترک کو مکروہ کہا گیا ہے اور کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمہ ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک کو مکروہ تحریمی کہا جاسکتا ہے، مطلق سنت کے ترک کو مکروہ تحریمی نہیں کہا جاتا۔
علامہ شامی نے کراہت تحریمہ کی تصریح کی ہے اور استدلال حضرت ابن عمر کی اس حدیث سے کیا ہے کہ : ”من وصل صفاً وصلہ الله، ومن قطعہ قطعہ الله“․
ملا علی قاری  فرماتے ہیں:
”اس وعید کی تشدید کی بنا پر علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ” الزواجر“ میں ترک تسویہ کو کبائر میں سے شمار کیا ہے۔“ ( نفحات التنقیح، شرح مشکوٰة المصابیح:552/2)
الله رب العزت ہم سب کو سلف صالحین، محدثین عظام اور ائمہ وفقہائے کرام کی احادیث کی تشریح وتوضیح کے مطابق سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے جاہٹ دھرمی سے محفوظ فرمائے۔

Flag Counter