Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

11 - 15
***
شرعی پردہ کیا ہے؟
مفتی عبدالرحمن، کراچی
بے پردگی دین کی کھلی بغاوت ہے
بے پردگی اعلانیہ گناہ ہے ۔ یعنی کھلی بغاوت ہے۔ رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”میری پوری امت معافی کے لائق ہے مگر اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں۔“
دیوث جنت میں داخل نہیں ہو گا
حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ دیوث، مردوں کی طرح شکل بنانے والی عورتیں ہمیشہ شراب پینے والا۔
صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین نے عرض کیا”دیوث کون ہے ؟“
فرمایا : وہ شخص جس کو اس کی پروا نہیں کہ اس کے گھر کی عورتوں کے پاس کون شخص آتا ہے اور کون جاتا ہے ۔ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر مطولا)
ایک موقع پر حضرت سعد بن عبادہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیر مرد ( نامحرم) کے ساتھ دیکھوں تو اس کو اپنی تلوار سے قتل کردوں گا۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے صحابہ! کیا تمہیں سعد رضی الله تعالیٰ عنہ کی غیرت پر تعجب (حیرت) ہے ۔ سنو)! میں سعد رضی الله تعالیٰ عنہ سے زیادہ غیرت مند ہوں اور خدا مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ ( مشکوٰة)
عورتوں کے باہر نکلنے کا ضابطہ
سب سے بڑی چیز جو ایک مرد کو عورت کی طرف یا عورت کو مرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظر ہے۔
قرآن پاک میں دونوں فریق کو حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں ۔ سورہ نور، رکوع نمبر چار میں اول مردوں کو حکم فرمایا: ” آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے ۔ بے شک الله تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے، جو کچھ لوگ کیاکرتے ہیں۔“
اس کے بعد عورتوں کو خطاب فرمایا:” او رمسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں او راپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنے حسن وجمال کو ( کسی پر ) ظاہر نہ ہونے دیں ( سوائے ان کے جو شرعا محرم ہیں)اور مسلمانوں ( تم سے جوان احکام میں کوتاہی ہو تو ) تم سب الله تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ ( سورہ نور،آیت نمبر31)
الله عزوجل سورہ احزاب آیت 33 میں خواتین اسلام کو حکم فرماتے ہیں : ﴿وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الاولی﴾شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ اس آیت شریفہ کے ذیل میں لکھتے ہیں : ” اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتیں اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بد اخلاقی اور بے حیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے ؟اس نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر اپنے حسن وجمال کی نمائش کرتی نہ پھریں۔“
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 626 از طبرانی)
تشریح: اس حدیث میں اول تو عورت کا مقام بتایا ہے یعنی یہ کہ وہ چھپا کر رکھنے کی چیز ہے۔ عورت کو بحیثیت عورت گھر کے اندر رہنا لازم ہے، جوعورت پردہ سے باہر پھرنے لگے وہ حدود نسوانیت سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظریں اٹھا ٹھا کر دیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب عورت باہر نکلے گی تو شیطان کی یہ کوشش ہو گی کہ لوگ اس کے خدوخال اور حسن وجمال اور لباس وپوشاک پر نظر ڈال ڈال کر لطف اندوز ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ کے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ گھر کے اندر ہوتی ہے جن عورتوں کو الله تعالیٰ کی نزدیکی کی طلب اور رغبت ہے وہ گھر کے اندر ہی رہنے کو پسند کرتی ہیں اور حتی الامکان گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عورتیں اپنے گھر کے اندر ہی رہیں کسی مجبوری سے باہر نکلنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں متعدد پابندیاں لگائی گئی ہیں مثلاً یہ کہ خوش بو لگا کر نہ نکلیں اور یہ بھی حکم فرمایا کہ عورت راستے کے درمیان نہ چلے بلکہ راستے کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم ( رش یا بھیڑ) میں داخل نہ ہو ۔ اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر برقعہ یا لمبی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر لپیٹ کر چلے ( راستہ نظر آنے کے لیے ایک آنکھ کا کھلا رہنا کافی ہے ) یا برقعہ میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں یا برقعہیا چادر اس طرح اوڑھ لیں کہ ماتھے تک بال وغیرہ ڈھک جائے اور نیچے سے چہرہ ناک تک چھپ جائے۔ صرف دونوں آنکھیں ( راستہ نظر آنے کے لیے ) کھلی رہیں ۔ آج کل جوان لڑکیاں برائے نام چادر اوڑھ لیتی ہیں اور چادر بھی باریک چکن کی ہوتی ہے اور تنگ بھی ، اس سے ہرگز شرعی پردہ نہیں ہوتا اور ان کا اس چادر کے ساتھ باہر نکلنا بے پردہ نکلنے کی طرح ہے، جو سرسراناجائز اور حرام ہے ، قرآن کریم میں جس چادر کا ذکر ہے، اس سے ہر گز ایسی چادر مراد نہیں۔ عورتیں جب گھر سے کسی مجبوری کی وجہ سے نکلیں تو بجنے والا کوئی زیور نہ پہنا ہو ۔ کسی غیر محرم سے اگر ضروری بات کرنی پڑے تو بہت مختصر کریں، ہاں ناں کا جواب دے کر ختم کر ڈالیں ۔ گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقے پر بات نہ کریں ۔ جس طرح چال ڈھال اور فتار کے انداز سے دل کھنچتے ہیں اسی طرح گفتار ( باتوں) کے نزاکت والے انداز کی طرف بھی کشش ہوتی ہے ۔ عورت کی آواز میں طبعی اور فطری طورپر نرمی اور لہجہ میں دل کشی ہوتی ہے ۔ پاک نفس عورتوں کی یہ شان ہے کہ غیر مردوں سے بات کرنے میں بتکلف ایسا لب ولہجہ اختیار کریں جس میں خشونیت اورروکھا پن ہو، بقول مفتی رشید احمد صاحب رحمہ الله کے کہ ” بے تکلف ایسا لہجہ بنائے کہ سننے والا یوں محسوس کرے کہ کوئی چڑیل بول رہی ہے۔ “ ( بحوالہ: شرعی پردہ) تاکہ کسی بدباطن کا قلبی میلان نہ ہونے پائے اور عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، محرم بھی وہ ہو جس پر بھروسہ ہو۔ فاسق محرم جس پر اطمینان نہ ہو اس کے ساتھ سفر کرنا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح شوہر یا محرم کے علاوہ کسی نامحرم مرد کے ساتھ تنہائی میں رہنے یا رات گزارنے کی بالکل اجازت نہیں ہے اور محرم بھی وہ جس پر اطمینان ہو ۔ یہ سب احکام درحقیقت عفت وعصمت محفوظ رکھنے کے لیے دیے گئے ہیں۔
شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں
عورتوں کے گھر سے نکلنے کے لیے ایک ادب یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلیں۔
حضرت معاذرضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جو عورت بھی الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے ۔ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں کسی کو آنے دے اور شوہر کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے اور اس بارے میں وہ کسی کی اطاعت نہ کرے ۔“ ( مستدرک حاکم، طبرانی)
فائدہ: حقیقت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے لیے شوہر سے اجازت لینا ایک ایسا اصول ہے جو عورت کو عفیف وپاک دامن رہنے میں بڑی مدد دیتا ہے ۔ جو عورتیں اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے آتی جاتی ہیں اور جسے چاہے شوہر کی غیر موجودگی میں گھر بلالیتی ہیں، ان کا اخلاق وکردار آہستہ آہستہ بگڑتا چلا جاتا ہے اور وہ گناہوں کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہیں۔
ایک حدیث میں حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جوعورت بھی گھر سے شوہر کی اجازت کے بغیر نکلتی ہے الله رب العزت اس سے ناراض رہتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ گھر واپس آجائے۔ یاشوہر اس سے راضی ہو جائے۔ (کنزالعمال)
عورت کا خوش بو لگا کر نکلنا
برقعہ کے اوپر یا اندرونی لباس ( یعنی کپڑوں پر ) کسی قسم کی مہکنے والی، پھیلنے والی خوش بو لگا کر باہر نکلنا شریعت کے نزدیک اتنی بُری بات ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کرنے والی عورت کو زنا کارفرمایا۔ (نسائی)
اگر ایسی خوش بو لگی ہو جس کی مہک باہر نہ آئے، بلکہ اندر ہی محدود رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ چوں کہ عورت کو صرف اپنے شوہر سے ہی قریب تر ہو کر رہنا ہے۔ اس لیے شوہر نزدیک تر ہو کرہلکی خوش بو کو سونگھ لے گا۔ شوہر کے علاوہ کسی اور کو جب خوش بو سونگھانی ہی نہیں ہے توتیز مہکنے والی خوش بو کی ضرورت نہیں ۔ کیوں کہ خوش بو اور وہ بھی عورت کی … جنسی جذبات بھڑکانے میں خاص اثر رکھتی ہے۔
بغیر محرم کے عورت لمبا سفر نہ کرے
عورت کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے شریعت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جب عورت لمبا سفر کر ے تو اکیلی(تنہا) نہ کرے، بلکہ محرم کے ساتھ کرے۔ اس طرح وہ فتنوں سے محفوظ رہ سکتی ہے اور محرم بھی وہ جس پر بھروسہ ہو۔ فاسق محرم جس پر اطمینان نہ ہو اس کے ساتھ سفر کرنا درست نہیں کیوں کہ ایسا محرم نامحرم کے حکم میں ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اسے چاہیے کہ تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر … باپ، بھائی شوہر، بیٹے یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے ۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
تین دین کے سفر سے مراد شرعاً وہ مقدار ہے جس پر نماز قصر کرنا جائز ہو۔ اگر عورت کا سفر کے لیے باہر نکلنا شہر کے اندر ہو تو اس کے ساتھ محرم ہونا بہتر ہے ۔ لیکن ضروری نہیں ۔ اسی طرح اگر وہ سفر (48 میل) یا تقریباً77 کلومیٹر سے کم ہو تو بھی محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں، بشرطے کہ اکیلے سفر کرنے میں کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو اور اگر کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو پھر اکیلے سفر سے بچنا چاہیے ، اگر عورت (48 میل) یا تقریباً77 کلومیٹر سے زیادہ دور کہیں سفر میں جانا چاہتی ہے ۔ چاہے کراچی سے حیدر آباد یا سکھر یا لاہور تک کا سفر کرنا چاہتی ہے یا حج کے سفر پر جانا چاہتی ہے تو دیگر تمام پابندیوں کے ساتھ ساتھ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا محرم مرد یا شوہر ضرور ہو۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی اجنبی(نامحرم) مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ ہی کوئی عورت بغیر محرم کے سفر کرے۔ ایک شخص یہ سن کر کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا : یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! میرا نام فلاں فلاں غزوہ (جہاد) کے لیے لکھا جاچکا ہے ۔حالاں کہ میری بیوی حج کے لیے نکل چکی ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ! اپنی بیوی کے ساتھ حج اداکرو۔ (بخاری)
اتفاقی حادثات میں پردے کا حکم
اتفاقی حادثات مثلاً کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا کہیں سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے یا کوئی عورت ڈوب رہی ہو یا کسی وقت جنگ کے درمیان عورتوں کی خدمات کی ضرورت پڑ جائے تو ایسی صورتوں میں عورتوں سے ستروحجاب (پردہ)، استیذان (اجازت لے کرگھر میں جانا وغیرہ) اور اجازت شوہر کے احکام حسب ضرورت ختم ہو جائیں گے۔
عورت کی آواز کا پردہ
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے اپنے جسم کونامحرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی آواز کو بھی نامحرم مردوں تک پہنچنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں نامحرم مرد سے پردہ کے پیچھے سے بات کرسکتی ہے، اسی طرح ٹیلی فون پر بھی ضرورت کے وقت بات کر سکتی ہے ، البتہ ادب یہ ہے کہ نامحرم سے بات کرتے وقت عورت اپنی آواز کی قدرتی لچک اور نرمی کو ختم کرکے ذرا خشک لہجے میں بات کرے، تاکہ قدرتی لچک اور نرمی ظاہر نہ ہونے پائے اور نامحرم مرد کو عورت کے نرم انداز گفتگو سے بھی کسی گناہ کی لذت لینے کا موقع نہ ملے سکے۔ اس سے شریعت کی احتیاط کا اندازہ لگائیے، الله اکبر!
آج کل ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں کچھ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، وہاں بھی عورت کی آواز کے سلسلے میں عموماً کوئی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات چیت ہوتی رہتی ہے او ران سے گفتگو میں ایسا انداز ہوتا ہے جیسے اپنے محرم کے ساتھ گفتگو کاانداز ہوتاہے، مثلاً جس بے تکلفی سے انسان اپنی ماں کے ساتھ، اپنی بیٹی کے ساتھ، اپنی بیوی کے ساتھ اوراپنی سگی بہن کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور ہنستا بولتا ہے اوراس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات یہ انداز نامحرم عورتوں کے ساتھ گفتگو کے وقت بھی ہوتا ہے ۔ اور نامحرم عورتیں نامحرم مردوں کے ساتھ یہی انداز اختیار کر لیتی ہیں اور گفتگو کے دوران ہنسی مذاق، دل لگی اور چھیڑ چھاڑ سبھی کچھ ہوتا ہے ، آج یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں ۔ یاد رکھیے! جس طرح عورت کے جسم کا پردہ ہے، اسی طرح اس کی آواز کا بھی پردہ ہے، جس طرح عورت کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نامحرم مرد کے سامنے آنے سے بچائے ، اسی طرح اس کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی آواز کو بھی بلاضرورت نامحرم مردوں تک جانے سے روکے ، البتہ جہاں ضرورت ہے وہاں بقدر ضرورت (ضرورت کی حدتک) گفتگو کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح نامحرم مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا ضرورت نامحرم عورت کی آواز کی طرف کان نہ لگائیں ۔ ( یعنی نہ سنیں)
اور نامحرم عورت کی آواز یا نامحرم مرد کی آواز کو خواہش نفس (شہوت ) کی تسکین کی خاطر سننا یقینا ناجائز اور گناہ ہے ۔ حج جو کہ فرض ہے اورحج میں زور سے تلبیہ ( یعنی لبیک اللھم لبیک) پڑھا جاتا ہے، لیکن عورتوں کے لیے حکم یہ ہے کہ عورتیں تلبیہ زور سے نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ آواز میں پڑھیں۔
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کی دینی تقریات، اجتماعات وغیرہ میں اسپیکر لگے ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے عورتوں کی تقاریر ، نعتوں وغیرہ کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ، کیوں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بند مکان میں عورتوں کا اجتماع ہو او راگر عورتوں کے رش یا کثرت کی وجہ سے ان سب تک بات پہنچانے کے لیے اسپیکر بھی لگانے پڑیں تو عورتوں کی آواز باہر نہ جائے۔
فیشنی برقعہ کا حکم
موجودہ دور میں فیشنی برقعہ رائج ہے ، اگر وہ تنگ ہو کہ جسم کے ساتھ چپکا ہوا ہو اور اس سے جسم کی ساخت اور ہیئت ظاہر ہوتی ہو یا اتنا باریک ہو کہ اس سے سر کے بال یا چہرہ اور دیگر اعضا نظر آتے ہوں یا برقعہ کا نقاب اتنا چھوٹا رکھا کہ دونوں طرف کے رخسار صاف نظر آسکیں یا ایسا باریک نقاب برقعہ میں لگایا جو خدوخال اور حسن وجمال کو اور بھی نمایاں کر دے اور خود برقعہ ہی بجائے پردے کے کشش کا سامان بن گیا ہو ۔نیز برقعہ پھولوں کا بنانا ، چمک دار یا باریک کپڑے کا برقعہ ہونا یا کڑھائی وغیرہ سے برقعے کو مزین کرنا بد نفس لوگوں کو برقعہ والی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، برقعے کیا ہوئے پردے کے بجائے نظروں کے کھنچنے کا سامان بن گئے اور وہی مثل ہو گئی کہ جو نہ دیکھے وہ بھی دیکھے۔ العیاذ بالله۔ شرعاً ایسے برقعے استعمال کرنا جائز نہیں۔
چادر اور برقعہ کیسا ہونا چاہیے؟
شریعت میں برقع اور چادر کے لیے کوئی خاص وضع قطع یا رنگ منقول نہیں ہے، بلکہ جس رنگ کا بھی ہو درست ہے، البتہ اس کے لیے چند شرائط ہیں اور جس برقعہ میں ذیل میں ذکر کردہ یہ شرائط موجود ہوں وہ شرعی برقعہ ہے، اسی طرح جس چادر میں یہ شرائط موجود ہوں اس سے پردہ کا حکم پورا ہو جائے گا۔ شرائط یہ ہیں:
پورے بدن کو چھپائے ہوئے ہو۔
برقعہ یا چادر بذات خود سادہ اور باوقار ہو ، پُرزینت نہ ہو اور جاذب نظر رنگوں سے یا کڑھائی وغیرہ سے مزین نہ ہو۔
برقعہ یا چادر اتنا دبیز ( موٹا یا گہرارنگ) ہو کہ اس میں جسم کے اعضا نہ نظر آتے ہوں۔
برقعہ یا چادر اتنا کشادہ اور فراخ ہو ( کُھلا ہو) جس سے جسم کے نشیب وفراز اور اعضا کی بناوٹ وہیئت ظاہر نہ ہو۔
راستہ دیکھنے کے لیے ایک آنکھ یا بوقت ضرورت دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی گنجائش ہے ، لیکن واضح رہے کہ ہر ممکن کوشش کریں کہ آنکھوں کے علاوہ چہرہ یا اُس کا کچھ حصہ ( رخسار، ماتھا وغیرہ) بالکل ظاہر نہ ہو او راگر آنکھوں کے آگے جالی وغیرہ لگالی جائے، جو برقعہ میں لگائی جاتی ہے کہ آنکھیں چھپ جائیں تو یہ بہت ہی بہتر ہے۔ اور بدن پر موجود کپڑوں کو چھپانا بھی ضروری ہے۔
دونوں ہاتھ گٹوں تک اور دونوں پیراگر کھلے رہیں ، یعنی ظاہر ہوں تو کوئی حرج نہیں، البتہ انہیں بھی دستانوں اور موزوں سے اگر چھپالیا جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔
مروجہ لباس کی خرابی
آج کل ایسے کپڑوں کا رواج ہو گیا ہے کہ کہ کپڑوں کے اندر سے جسم نظر آتا ہے، بہت سے مرد اور عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ ایسے کپڑوں کی شلوار بنا کر پہن لیتے ہیں جس میں پوری ٹانگ نظر آتی ہے ایسے کپڑے کا پہننا نہ پہننا برابر ہے اور اس سے نماز بھی نہیں ہوتی ،عورت کی نماز درست ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کے چہرے اور گٹھوں تک دونوں ہاتھ اور دونوں قدموں کے علاوہ پورا جسم ڈھکا (چھپا) ہوا ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر عورتوں کی نماز اس لیے نہیں ہوتی کہ سر پر ایسا باریک دوپٹہ ہوتا ہے جس سے بال نظر آتے ہیں اور بعض عورتوں کی نماز اس لیے نہیں ہوتی کہ بانہیں کھلی ہوتی ہیں ، اگر ڈھانکی ہوئی ہیں تو اسی باریک دوپٹے سے ڈھانک لیتی ہیں جس سے سب کچھ نظر آتا ہے ، بعض عورتیں ساڑھی باندھتی ہیں اور بلاؤزر اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ناف پر ختم ہو جاتا ہے اور آدھا پیٹ نظر آتا ہے۔ اس سے نماز نہیں ہوتی۔
ابوداود کی حدیث میں ہے کہ عورت کو ایساباریک دوپٹا نہ اوڑھنا چاہیے کہ سر کے بال اور جسم نظر آئے۔
عورتو ں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا کپڑا پہنیں جس کی آستینیں پور ی ہوں۔ آدھی آستین کا کرتہ یا قمیض پہننا سخت گناہ ہے اور ایسا باریک لباس بھی پہننا منع ہے جس سے بدن نظر آتا ہو، ایسی عورتیں قیامت میں برہنہ (ننگی) اٹھائی جائیں گی۔
اس کو خوب سمجھ لیں اور دنیا کے رواج کو نہ دیکھیں، دین کو دیکھیں ، دنیا میں تھوڑی سی گرمی کی تکلیف ہو ہی گئی اور فیشن والوں نے کچھ کہہ ہی دیاتو اس سے کیا ہوتا ہے ۔ جنت کے عمدہ کپڑے اور طر ح طرح کی نعمتیں تو نصیب ہوں گی۔ جہاں سب کچھ ہی ہماری خواہش کے مطابق ہو گا۔
سسرال والے مردوں سے پردے کی خاص تاکید
حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (نامحرم) عورتوں کے پاس مت جایا کرو۔ ایک شخص نے عرض کی، یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! عورت کے سسرال کے مردوں کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سسرالی رشتہ دار تو موت ہیں۔ (بخاری ومسلم)
اس حدیث میں جو سب سے زیادہ قابل توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے عورت کے سسرال کے مردوں کو موت سے تشبیہ دی ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے جیٹھ، دیور اور نندوئی وغیرہ سے اور اسی طرح سسرال کے دوسرے مردوں سے گہرا پردہ کرے، یوں تو ہر نامحرم سے پردہ کرنا لازم ہے، لیکن جیٹھ، دیور او ران کے رشتہ داروں کے سامنے آنے سے اسی طرح بچنا ضروری ہے جیسے موت سے بچنے کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنا سمجھ کر بلا لیا جاتا ہے اور بلا تکلف جیٹھ، دیور اور شوہر کے عزیز واقارب اندر چلے جاتے ہیں ۔اور بہت زیادہ گھل مل جاتے ہیں ۔ اور ہنسی دل لگی تک نوبتیں آجاتی ہیں ۔ شوہر یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اپنے لوگ ہیں ۔ ان سے کیا روک ٹوک کی جائے ۔ لیکن جب کسی کی طبیعت بھاوج ( بھابھی) پر آجاتی ہے تو! افسوس ناک حالات وجود میں آجاتے ہیں ۔ اور جب دونوں طرف سے یگانگت کے جذبات ہوں، کثرت سے آنا جانا ہو، بھرپور نظریں پڑتی ہوں اور شوہر گھر سے غائب ہو تو پھر نہ ہونے والے کام تک ہو جاتے ہیں ۔ ایک پڑوسی کسی عورت کو اتنی جلدی اغوا نہیں کر سکتا ۔ جتنی جلدی اور با آسانی دیور یا جیٹھ اپنی بھابھی کو اغوا کرنے اور برُے کام پر آمادہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
انہیں حالات کے پیش نظر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سسرال کے مردوں سے بچنے اور پردہ کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے اور ان لوگوں کوموت بتا کر یہ سمجھایا ہے کہ ان سے ایسا پرہیز کرو، جیسے موت سے بچنے کو طبیعت چاہتی ہے۔ او ران لوگوں کو بھی حکم ہے کہ اپنی بھاوج ( بھابھی) اور سالے کی بیوی سے میل جول نہ رکھیں اور اس پر نظر نہ ڈالیں۔
تنبیہ
پردہ حق شرعی ہے، شوہر کا حق نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شوہر جس سے پردہ کرائے اس سے پردہ کرنا ضروری ہے اور جس کے سامنے آنے کو شوہر کہے اس کے سامنے آنا چاہیے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ کسی بھی نامحرم کے سامنے آنے کی اجازت نہیں اور خلاف شرع شوہر کی اجازت اور اس کے حکم کا کچھ اعتبار نہیں۔
حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ الله اپنے ایک مطبوعہ وعظ میں فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں پردہ نہ کرنے سے کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے۔ ماشاء الله ہماری بیوی بہت نیک ہے ، بیٹیاں، بہنیں، بہوئیں بہت نیک ہیں۔ بہت شریف ہیں، ان کی آنکھ میں تو برائی آہی نہیں سکتی۔ تو دل میں کہاں سے آئے گی؟ یہ تو بہت بعید ہے اور ہمارے بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار ہمارے چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد، ماموں زاد سارے زاد شامل کر لیں، بہت ہی شریف زادے ہیں ، اس برائی کا تو ہمارے یہاں تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی ہی اس معاملہ میں زیادہ غفلت پائی جاتی ہے۔ عوام کے علاوہ خواص میں، علماء میں بھی بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے صریح حکم پر عمل بالکل نہیں ہو رہا ہے ۔ گویا کہ یہ حکم قرآن میں نازل ہی نہیں ہوا۔ ان کے عمل اور حالات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا پردہ کا حکم قرآن میں ہے ہی نہیں۔
میں چند خاندانوں کے واقعات بتاتا ہوں جو آپ سے زیادہ پارسا ہیں۔ آپ کی طرح ان کو بھی اپنی پارسائی پر بڑا ناز اور غرور ہوا۔ اور الله کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور پردہ نہیں کیا تو انجام کیا ہوا ؟ یہ کوئی گزشتہ زمانے کا قصے نہیں ہیں۔ یہ واقعات ابھی کے ہیں اور کراچی کے ہیں ، اگر ان کی خاندانوں کی بے عزتی کا خطرہ نہ ہوتا تو ان کے نام اورپتے بھی بتا دیتا، تاکہ خود جاکر دیکھ لیں اور پوچھ لیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پردہ کے بارے میں الله تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر خاندان کو خود ہی بے عزت وذلیل کیا ہے۔ اب قصے سنیے! خدا کرے کہ بات دلوں میں اتر جائے۔
پہلا واقعہ
ایک حاجی صاحب تھے ۔ بہت نیک ، بہت ہی پارسا ، لوگوں کو ان سے اتنی عقیدت اور اعتماد تھا کہ لاکھوں کی امانتیں ان کے پاس رکھی ہوئی تھیں، ایک باران کے کچھ عزیز میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ قصہ سنایا کہ اس کے اپنی سالی سے ناجائز تعلقات ہو گئے، بیوی کے ہوتے ہوئے۔ اُسی گھر میں بیوی موجود، سسرال کے سب لوگ موجود اور سالی سے ناجائز تعلق ہو گیا ۔ اور کیا کیا چپکے سے پاسپورٹ بنوایا اور کسی ملک کا ویزا لگوالیا، ڈاڑھی منڈوائی، کوٹ پتلون پہنا اور کسی غیر ملک بھاگ گئے اور لوگوں کی امانتیں بھی سب کی سب لے گئے ، مگر ان کی صورت اور دینی حالات ایسے کہ کسی کو دور تک وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ شخص بُرا ہو سکتا ہے۔ مگر کیا ہوا ، اب آپ اندازہ لگائیں کہ لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں تو ایسی بد کاری کا کوئی امکان ہی نہیں۔ میرا گھر انہ اور ماحول تو بڑا ہی پاک وصاف ہے۔ اب اس خوش فہمی اور خام خیالی کا کیا علاج؟
دوسرا واقعہ
یہ واقعہ بھی کراچی ہی کا ہے۔ ایک صاحب جو ماشا ء الله بہت دین دار تھے اور دینی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انہیں حج بیت الله کی بھی سعادت حاصل تھی۔ اس کے باوجود محض اس وجہ سے کہ ان کے یہاں سالی سے پردے کا رواج نہ تھا۔ ان کا اپنی سالی سے خفیہ تعلق ہو گیا۔ کئی سالوں تک یہ تعلق رہا، وہ مانع حمل( حمل نہ ہونے والی گولیاں) استعمال کرتی رہی ، یہاں تک کہ اس کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔
تیسرا واقعہ
ایک صاحب نماز روزے کے پابند، ان کی اہلیہ بھی شریف گھرانے کی چشم وچراغ، انہوں نے پردے کا اہتما م نہیں کیا۔ دوست احباب کے یہاں ان کا جانا اور دوستوں کا ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا،اسی دوران ان کے ایک دوست سے ان کی بیوی کی آنکھ لڑ گئی۔ آہستہ آہستہ تعلق بڑھتا گیا، چوں کہ دن میں شوہر تو اپنے کام پر چلا جاتا، بچے اسکول چلے جاتے اور بیوی صاحبہ اپنے شوہر کے دوست کے ساتھ اپنے ہی گھر میں خلوت( تنہائی) کے مزے لوٹتی رہی۔ کچھ عرصے کے بعد شوہر کو بھی پتہ چل گیا۔ اصلاح کی کوشش کی۔ جب ناکامی ہوئی تو مجبوراً بیوی کو طلاق دے دی۔
نمونہ کے لیے یہ تین واقعات لکھے، ورنہ اس طرح کے واقعات کا کوئی شمار نہیں ، ظاہر ہے کہ ابتدا بے پردگی ہوتی ہے ۔ بے پردگی زینہ ہے ، اگر پردہ کا اہتمام کیا جائے تو پہلے ہی قدم پر رو ک تھام کی جاسکے۔
(جاری ہے)

Flag Counter