Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

2 - 15
***
ہر بدعت گمراہی ہے
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
الحمد لله و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
اما بعد :
فقد قال رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم : کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة و کل ضلالة فی النار․
ہر نئی چیز جو دین میں داخل کی جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام دوزخ ہے۔ کوئی ایسا کام جو دین میں داخل نہیں، اس کو کارِ ثواب بنا کر دین سے متعلق کردینا بدعت ہے اور اس کاعلم اس سے ہوتا ہے کہ وہ کام نہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا گیا ہو نہ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس کی کوئی اصل موجود ہو۔ یعنی قرونِ مشہود لہا بالخیر(خیر کے زمانوں) میں اس کا ثبوت موجود نہ ہو۔ جن زمانوں کے متعلق آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے بہتری اوربھلائی کی گواہی دی ہے وہ قرونِ مشہود لہا بالخیر کہلاتے ہیں اور وہ حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی الله عنہم ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے ہیں۔ بدعت اور سنت کو جاننے کے لیے یہی زمانے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دین اور اس کی جملہ تعلیمات عطیہٴ خداوندی ہیں۔ دینمیں کوئی شخص اپنی طرف سے کسی چیزکو داخل کرنے کامجاز نہیں۔ جس طرح قرآن کریم اللہ پاک کی وحی ہے۔ اسی طرح حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی پوری تعلیم بھی اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ آپ سید المرسلین ہیں، خاتم النبیین ہیں، لیکن تحلیل و تحریم کااختیار آپ کو بھی نہیں دیاگیا۔ نہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال قرار دے سکتے تھے اور نہ حرام کرنے کا آپ کو اختیار تھا۔ ایک مرتبہ حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے شہد کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو قرآن کریم میں آیت آئی :﴿ یااَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ الله ُلَکَ “۔﴾ ․(سورہٴ تحریم آیت:1)
ترجمہ :اے نبی (صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ نے جو چیز آپ کے لیے حلال کی ہے آپ کیوں اس کو حرام کر رہے ہیں ؟ اس سے اندازہ کر لیجیے جب حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ حال ہے تو دوسرے کسی شخص کو یہ اختیار کیسے مل سکتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی چیز دین میں داخل کرے۔
رسمِ قل ، تیجہ اور سوئم وغیرہ بدعت ہیں
میت کے سلسلہ میں قل کی رسم جس کو تیجہ بھی کہتے ہیں یا چہلم اور چالیسواں وغیرہ ایسی بدعات ہیں کہ عام تو عام اچھے پڑھے لکھے خاص دیندار لوگ بھی اس میں مبتلا ہیں۔ اگر کوئی شخص ان بدعات سے بچنا چاہے تو اس کو مجبور کردیا جاتا ہے۔ طعن و تشنیع کا سلسلہ شرو ع ہوجاتا ہے۔ دوست ، رشتہ دار سب ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ اصل مقصد ایصالِ ثواب ہے۔ اس تعین کے بغیر اگر آپ ایصالِ ثواب کرتے ہیں تو درست ہے اور اس پر شرعی نقطہٴ نگاہ سے کوئی بھی اعتراض نہیں۔ میت کے فوت ہونے کے بعد دفن تک تلاوت کی جائے یا اگلے دن ہویا کسی بھی مناسب موقع پر اہتمام کر لیا جائے تو مضائقہ نہیں لیکن تیسرے دن کی تخصیص اور وہ بھی اس طرح کہ نہ اس سے پہلے کی تلاوت کا اعتبار کیا جائے نہ بعد کی تلاوت کا، یہ صحیح نہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر تیسرے دن تیجہ اور قل ہوگیا تو ٹھیک ہے، سب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ چاہے پھر زندگی بھر ایصالِ ثواب نہ کریں اور اگر پہلے اور بعد میں حسبِ موقع و توفیق ہمیشہ ایصالِ ثواب کیا جاتا رہے مگر تیجہ اور قل نہیں کیا تو تسلی نہیں ہوتی اور طرح طرح کے اعتراض علیحدہ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے اورشریعت محمدی میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ حضور پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ خلفاء راشدین فوت ہوئے، کیا کسی کا تیجہ ، چالیسواں، برسی ہوئی؟ صحابہ رضی الله عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم الله کے مبارک زمانوں میں اس بدعت کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور ہم نے اس کو میت کے لیے لازم اور ضروری سمجھ رکھا ہے اور ثواب پہنچانے کا ہمارے پاس واحد یہی ذریعہ رہ گیا ہے جس کی خلاف ورزی کر کے معاشرے میں اطمینان کے ساتھ رہنا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔
ثواب پہنچانے کے مختلف طریقے ہیں ۔ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے بھی ایصالِ ثواب ہوتا ہے جب کہ تیجہ اور قل کی طرح دن کا تعین نہ ہو، صدقہ کر کے بھی ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ چاہے جانور کا صدقہ دیں یا نقد رقم ہو یا کپڑا ، غلہ وغیرہ کچھ بھی مساکین اور فقراء کی ضرورت کی چیز صدقہ کریں اور میت کو ثواب پہنچانے کی نیت کرلیں تو ایصالِ ثواب ہوجاتا ہے بلکہ ثواب پہنچانے کے جتنے طریقے بیان کئے گئے ہیں ان کے ذریعہ زندہ آدمیوں کو بھی ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔ کیوں ہم کسی کے مرنے کا انتظار کریں ؟ حسب توفیق اپنے ماں باپ ، رشتہ دار بلکہ تمام مسلمانوں کو ثواب پہنچایا کریں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں ۔ اس سے جہاں ان کو نفع پہنچے گا خود آپ کو بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی کااجر حاصل ہوگا۔ درود شریف ، استغفار ، سبحان الله ، الحمد لله ، الله اکبر وغیرہ جتنے اذکارِ مسنونہ ہیں ان کی تسبیح پڑھ کر بھی ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ تیجہ ، چالیسویں سے منع کر کے ایصال ثواب سے روکا جارہا ہے، صحیح نہیں بلکہ بدعت سے منع کرنا مقصود ہے۔ ایصال ثواب سے نہیں روکا جارہا ۔ ایصالِ ثواب کے صحیح اور درست بہت سے طریقے بتادیئے گئے ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے اور ہمت سے کام لے کر سنت کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
آپ جانتے ہیں چہلم میں جو دعوت کی جاتی ہے اس کی حیثیت ایک تقریب جیسی ہوتی ہے۔عام طور پر دوستوں، رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے جو نہ مسکین ہوتے ہیں نہ ضرورت مند۔حالاں کہ ایصالِ ثواب کے لیے فقراء ومساکین کو کھانا کھلانا چاہئے۔ دوسرے اس میں ریا کاری اور نام و نمود کا بھی اچھا خاصا عمل دخل نظر آتا ہے۔ یہ بھی بجائے ثواب الٹاگناہ ہوتا ہے۔ چالیسویں دن کی تخصیص علیحدہ ایک غلط طریقہ ہے۔ اس لئے اس کو بھی ختم ہونا چاہئے۔ یہی حال برسی کا بھی ہے، شریعت میں اس کی بھی اجازت نہیں۔ اس قسم کے تمام کام ثواب کے بجائے گناہ کا سبب بنتے ہیں اور نیکی برباد گناہ لازم والی مثال صادق آتی ہے۔
دین در اصل اللہ تعالیٰ کا عطاء فرمودہ ہے، کسی کو اپنی طرف سے اس میں نہ کسی عقیدے کو شامل کرنے کی اجازت ہے نہ عمل کو حتی کہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے بھی اس کو روا نہیں رکھا گیا۔ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے دین کے بارے میں جتنی تعلیم امت کودی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ دی ہے۔ اس لئے اگر ہم کسی چیز کو اپنی طرف سے رسم کی وجہ سے یا غیر قوموں کی نقالی کر کے دین میں داخل کریں گے تو وہ قابل قبول نہیں ہوگی اور گناہ سر پر آئے گا تو سوچ لیجیے کہ پھر اس گناہ کے کام سے میت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو فہم ِسلیم عطا فرمائے اور سنت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Flag Counter