Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

5 - 15
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
کرایہ دار بھاگ جائے تو بجلی کابل کس کے ذمہ ہو گا
سوال … کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید عمارتیں، دکانیں وغیرہ بنا کر فروخت کرتا ہے ، اسی طرح زیدنے ایک مارکیٹ بنائی، جس میں بہت سی دکانیں تھیں۔ ان میں سے اس نے ایک دکان خالد کو فروخت کر دی ۔ اس قسم کے معاملات میں زید کے ہی ذمے تھا کہ وہ بجلی کے میٹر وغیرہ کا بندوبست بھی کرکے دے، چناں چہ زید نے جس نمبر کی دکان خالد کو فروخت کی تھی اس کا میٹر اسے نہ دیا مثلاً دکان نمبر10 فروخت کی تھی تو میٹر 20 اس کے سپرد کیا، خالد نے غور نہ کیا،اب آگے خالد نے یہ دکان بکر کو کرایہ پر دی دس سال تک بکر نے کرایہ ادا نہ کیا اور نہ ہی بکر نے بل ادا کیا اور دس سال بعد وہ دکان چھوڑ کر بھاگ گیا، اب بجلی کے بل تقریباً 90 یا 92 ہزار روپے خالد پر آئے، لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دکان کے ساتھ جو بجلی کا میٹر ملا تھا اس دکان کا نہیں کسی اور دکان کا ہے ، چنان چہ یہ مالک اول زید کے پاس گیا کہ آپ نے ہمارے ساتھ غلط کیا ،یہ کسی اور دکان کا بل ہے، لہٰذا یہ بل آپ ہی ادا کرو گے میں نہیں، زید کا کہنا ہے کہ ایسا غلطی سے ہوا ہے ۔ لیکن! چلو تم نے یا تمہارے کرایہ دار نے جتنے بل ادا کیے ہیں ان کی رسیدیں دکھا دو تاکہ معاملہ صاف ہو لیکن خالد کے پاس وہ رسیدیں نہیں ہیں، کیوں کہ کرایہ دار تو بھاگ گیا اور اس نے بل ادا کیے نہیں تھے۔اب دریافت یہ کرنا ہے کہ شرعاً بجلی کا یہ بل زید ادا کرے گا یا خالد؟
براہ کرم مسئلہ واضح فرماکر مشکور فرمائیں۔
جواب… صورت مسئولہ میں جب زید نے دکان خالدکو فروخت کر دی تو زید کا ذمہ بری ہو گیا۔ لہٰذا خالد کا زید سے مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، باقی رہ گئی یہ بات کہ خالد کو اس کی دکان کا میٹر نہیں دیا گیا تو واضح ہو کہ میٹر تو پیمانہ ہے ” اس مقدار بجلی کے بتانے کا جو استعمال کی گی۔“ اصل چیز بجلی کا استعمال ہے جو پایا گیا، اب اس استعمال شدہ بجلی کی قیمت کیا ہے تو اس کا معلوم کرنا آسانی سے ممکن ہے، وہ اس طرح کہ جس دکان کا میٹر اس کو ملا ہے اس دکان دار کے پاس خالد کا میٹر ہو گا لہٰذا اس دکان دار سے بلوں کی رسیدیں لے کر قیمت معلوم کی جاسکتی ہے، اس کے بعد خالد اپنے کرایہ دار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے بلوں کی رقم اس سے وصول کرے۔
کالے علم کے ذریعے علاج 
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں کہ کالے علم کی اجازت شریعت کس صورت میں دیتی ہے یعنی اگر کوئی آدمی ایسا بیمار ہو جائے کہ کوئی دوائی یا تعویذ وغیرہ سے ٹھیک نہ ہو سکے اس کا علاج کالے علم سے ہو سکتا ہے تو کیا یہ جائز ہے ؟
جواب… بیماری کا علاج، کسی دوا یا جائز اعمال سے نہ ہو یہ ممکن نہیں، خود جناب رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کے اوپر کیے گئے جادو کے توڑ کے لیے معوّذتین کانزول ہوا ، اس لیے علاج کے لیے جائز وحلال طریقہٴ علاج اختیار کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا سحر اور جادو وغیرہ کے توڑ کے لیے ایسا عمل اختیار کرنا یا کوئی ایسا عقیدہ رکھنا جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہو ناجائز اور حرام ہے، اس کے سیکھنے، کرنے اور کرانے سب سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
اجتماعات کے بعد دعاء کا حکم
سوال… تبلیغی حضرات کوئی اجتماع وغیرہ یا جوڑ وغیرہ کرتے ہیں تو دعا کے وقت اور دن متعین کر دیتے ہیں دن متعین کرنا اور دعا کے لیے مجمع اکھٹا کرنا کیا بدعت نہیں ہے؟ اور شب جمعہ اور تین دن کہاں سے ثابت ہیں۔
جواب… تبلیغی اجتماعات میں دعا ، بالذات، مقصود نہیں ہوتی ، یعنی صرف دعا کے لیے ہی یہ اجتماعات منعقد نہیں ہوتے بلکہ مقصود اصل لوگوں کو دین اور دین کی محنت کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے اور ا سکے لیے بیانات کی مجالس کا انعقاد ہوتا ہے ، دعا تو بالتبع اور ضمناً ہوتی ہے، اس لیے ان اجتماعات کے بعد دعا ہونے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
اور شب جمعہ، تین دن اور جملہ ترتیباتِ تبلیغی جماعت دین میں بدعت نہیں ہیں، بلکہ یہ تجرباتی اور انتظامی ترتیبات ہیں، مثل مدارس وخانقاہی نظام کے، احداث للدین ہیں نہ کہ احداث فی الدین، اس لیے کوئی اشکال کی بات نہیں۔
کاروبار میں شریکہوئے بغیر نفع لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مثلاً زید کا ہوٹل کا کاروبار ہے وہ اس کی توسیع کیے دوسرے شخص مثلاً عمر کے پیسے اس کی مرضی سے کاروبار میں لگانا چاہتا ہے لیکن عمرو کہتا ہے کہ میں پیسے دے دوں گا لیکن آپ مجھے اس کاروبار میں شریک کر لیں جب کہ زید کہتا ہے کہ میں آپ کی شراکت کو قبول نہیں کرتا بلکہ مالک میں ہی ہوں گا، آپ کو ان پیسوں کا نفع دیتا رہوں گا، اب سوال یہ ہے کہ ایسا کوئی طریقہ بتائیں کہ مالک بھی میں رہوں اور نفع اس کو دیتا رہوں اور اگر اس کو نفع دیتا ہوں تو کس بنیادپر او رکتنا نفع دوں ، کوئی شرعی طریقہ بتا کر ثواب دارین حاصل کریں۔
جواب… صورت مسئولہ میں بہتر تو یہی ہے کہ زید او رعمر باہمی اتفاق سے شرعی طریقے پر شراکت کی صورت اپنائیں۔
بصورت دیگر جواز کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ زید ہوٹل کے اندر جس چیز کااضافہ کرنا چاہتا ہے عمر اپنی رقم سے وہ چیز مہیا کرے ، مثلاً زید اگر ہوٹل میں سامان کا اضافہ کرنا چاہتا ہے تو عمر اپنی رقم سے وہ سامان خرید کر ہوٹل میں رکھ دے او رپھر زید سے اس سامان کا ہر مہینے کا کرایہ متعین کر لے کہ آپ مجھے اس سامان کا ماہوار اتنا کرایہ دیتے رہیں، باقی ہوٹل کے کاروبار اور آمدنی کے آپ مالک ہوں گے میرا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو گا ( اس صورت میں دونوں کا فائدہ ہو گا)
باقی اس طرح کی صورتوں (جواوپر ذکر ہوئیں) کے علاوہ محض قرض پر نفع لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔
اصل مال کے بجائے صرف پرچی کی خرید وفروخت
سوال…ایک آدمی نے گودام میں مال جمع کیا ہے پھر پچیس پچیس بوریوں کے لیے ایک گیٹ پاس( پرچی) بناتے ہیں جس پر مال کا وزن او رتعدادلکھا ہوا ہے ،اب یہ آدمی ان گیٹ پاسوں ( پرچی) کو فروخت کرتا ہے، لوگ مالک سے بھی صرف یہ پرچی خریدتے ہیں مال کو دیکھتے ہیں نہ قبض کرتے ہیں اور آپس میں بھی اسی طرح بیچنے اور خریدتے ہیں اور اگر کوئی مال اس گودام سے نکال دے تو نکالتے وقت وہ پرچی اس سے لی جاتی ہے۔ وہ گودام سے نکالا ہوا مال پھر اگر آگے فروخت کرنا ہو تو اصل مال فروخت کرے گا جس کی وجہ سے قیمت بھی گر جاتی ہیں کیوں کہ اصل مالک نے اپنے گیٹ پاس ( پرچی) کی اتنی تشہیر کی ہے کہ لوگ اس گیٹ پاس (پرچی) پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں بنسبت اصل مال کے ۔ اس مندرجہ بالا صورت کے بارے میں نقطہ نظر باحوالہ واضح کریں۔
جواب… صرف گیٹ پاس ( پرچی) کو خرید کر مبیع ( خریدا جانے والے مال) پر قبضہ کے بغیر آگے فروخت کرنا ناجائز ہے، کیوں کہ حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم نے قبضہ سے پہلے چیز کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اور پرچی کو اس طرح مشہور کرنا کہ اصل مال چھوڑ کر اس کی خرید وفروخت کی جائے اور اصل مال وصول کرکے فروخت کرنے کی صورت میں مشتری کا نقصان ہوتا ہو تو یہ دھوکہ وغرر ہے جوکہ ناجائز ہے۔
شادی شدہ غیر مسلم خاتون اسلام قبول کرےتو اس کا نکاح کیسے فسخ کیاجائے؟
سوال…ایک ہندولڑکی نے 17 ستمبر2008ء کو اسلام قبول کر لیا ۔ قبل ازیں اس کا تعلق ہندوخاندان سے تھا اور ا سکے والدین نے ہندو مذہب کے مطابق اس کی شادی ایک ہندو لڑکے سے کر دی تھی۔
اس لڑکی کا جس علاقے اور خاندان سے تعلق ہے ، وہ اپنے ہندو مذہب کے بارے میں کافی سخت گیر ہیں او راس علاقے میں ہندوکافی طاقت اور اثرورسوخ والے ہیں، اسلام لانے کے بعد اس لڑکی نے اپنے دین اور ایمان کے تحفظ کی خاطر خاندان اور علاقے سے راہ فرار اختیار کی۔
شوہر اور دیگر تمام رشتہ داروں کو اس تمام صورتِ حال کا علم ہو چکا ہے اور لڑکی کو تلاش کر رہے ہیں اور شوہر مسلسل لڑکی کو مرتد کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اب لڑکی اپنے دین ، ایمان اور جان وآبرو کے تحفظ کے لیے مسلمان گھرانے میں نکاح کی خواہش رکھتی ہے، لیکن مسلمان ہونے سے قبل اس کی شادی ایک ہندو لڑکے سے ہو چکی ہے۔ اس بارے میں جب علماء کرام سے رہنمائی لی گئی تو معلوم ہوا کہ اسلامِ زوجہ کی صورت میں شوہر پر اسلام کو پیش کرنا اور انکار کی صورت میں تفریقِ قاضی ضروری ہے۔ اگر اس کو اختیار کریں اور عدالت سے رجوع کریں تو قوی خدشہ ہے کہ ان کو لڑکی کی رہائش یا جگہ کا علم ہو جائے گا اور وہ لڑکی کو پکڑ کرو دوبارہ جبراً ہندوبنا ڈالیں گے یا قتل کر دیں گے، لہٰذا مذکورہ صورتِ حال میں :
قاضی یا عدالت کے بجائے علاقے کے بااثر افراد بطور پنچایت اس معاملے کو شوہر پر اسلام پیش کرنا معتبر ہو گا یا نہیں ؟
شوہر کا مسلسل ارتداد زوجہ کی کوشش میں لگے رہنا، انکار عن الاسلام کے قائم مقام ہے یا نہیں؟
اگر عدالت یا پنجایت کی صورت میں لڑکی کے مرتد ہونے یا شوہر کے حاصل کیے جانے کے بعد قتل کا قوی اندیشہ ہو تو کیا اس صورت میں مذہب غیر پر عمل کرنے کی گنجائش ہے کہ نفسِ اسلام سے ہی فرقت ثابت ہو جائے اور عرضِ اسلام علی الزوج اور تفریق کی ضرورت نہ ہو؟
لڑکی کی عدت کی ابتدا قبول اسلام سے ہو گی یا تفریق سے جب کہ قبول اسلام کے بعد لڑکی تین حیض گزار چکی ہے؟
مہربانی فرماکر جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں کہ معاملہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
جواب… اگر شادی شدہ غیر مسلم عورت اسلام لانے کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کرنا چاہے ، تو پہلے کافر شوہر کے نکاح سے نکلنا ضروری ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے ۔ عدالت غیر مسلم شوہر کو بلاکر اس پر اسلام پیش کرے، اگر وہ انکار کر دے ، تو قاضی ان کے درمیان تفریق (جدائی) کر دے ۔ جو طلاق کہلائے گی۔
اگر ملکی قانون کے طریقہ کار میں شوہر پر عرضِ اسلام کی صورت موجود نہ ہو، پنچایت کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے، جس میں علاقے کے بااثر، دین دار مسلمان ہوں، جن کی تعداد کم از کم تین ہو اور ان میں ایک متدین ماہر عالم دین بھی ہو ، جو شوہر کو بلاکر اس پر اسلام کو پیش کرے اور اس کے انکار کی صورت میں تفریق (جدائی) کر دے۔
ان دونوں صورتوں میں تفریق کی بعد عورت عدت گزارے اور عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
لیکن اگر پنچایت کی صورت بھی ممکن نہ ہو اور عورت کے مرتد ہونے یاہلاک ہو جانے کا قوی اور یقینی خطرہ ہو ، تو ایسی شدید مجبوری کی صورت میں حضرات علمائے کرام نے امام شافعی رحمہ الله تعالیٰ کے مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے کہ عورت کے اسلام لانے سے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اور جدائی ثابت ہو جائے گی اور اسلام لانے کے بعد عدت یعنی تین حیض گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
لہٰذا مذکورہ مسئلہ میں حالات کے پیش نظر فقہ حنفی کے مطابق پنچایت والی صورت مناسب نظر آئے ، تواس پر عمل کیا جائے، لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو، اور عورت کے مرتد ہونے یا جان ومال کے ہلاک ہونے کا قوی اور یقینی خطرہ ہو تو اس ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے امام شافعی رحمہ الله تعالیٰ کے مذہب پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
شوہر کا بیوی کے ارتداد کی کوشش میں لگے رہنا، انکار عن الاسلام کے قائم مقام نہیں۔

Flag Counter