Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

7 - 15
***
مجرم کون: مسٹر یا مُلّا؟
مولانا سعید احمد جلالپوری
کچھ عرصے سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور دنیا کو ان سے متنفر کرنے کے لیے باقاعدہ مہم اور منصوبے کے تحت مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جارہے ہیں ۔
چوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نمائندے علما ، دینی مدارس اور ان میں پڑھنے والے طلبا ہیں، اس لیے اسلام اور مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے مدارس ، طلبا اور علمائے کرام پر طعن وتشنیع کے نشتر برسائے جاتے ہیں، انہیں منھ بھر کر گالیاں دی جاتی ہیں اور ان کو دنیا جہاں کی تمام برائیوں اور شرارتوں کا منبع قرار دیا جاتا ہے ۔
چناں چہ کبھی انہیں ملک دشمن کہا جاتا ہے تو کبھی امن وامان کا مخالف، کبھی انہیں ملکی ترقی کی راہ میں حارج قراردیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گرد ، کبھی انہیں فسادی کہا جاتا ہے تو کبھی شرارتی، کبھی انہیں تشدد پسند کہا جاتا ہے تو کبھی ملک اور قوم کے باغی ۔ غرض اس وقت طعن وتشنیع اور توہین وتضحیک کی تمام توپوں کا رخ ملا، مولوی، دینی مدارس اور طالبان ( طلبہ) کی طرف ہے ، دوسری طرف یہ مظلوم ، بھری دنیا میں بے یارومددگار، اکیلے مخالفت کی بادِ سموم کے تھپیڑے برداشت کرنے اور ہر قسم کی تنقید وتنقیص سننے اور سہنے کے لیے موجود ہیں۔
صرف یہی نہیں ! بلکہ اب تو نوبت بایں جارسید کہ قریب قریب پوری قوم کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کر لیا گیا ہے کہ اگر ملکی سلامتی اور امن وامان درکار ہے تو ان ” شرارتیوں“ سے جان چھڑانی ہو گی او ران کے خلاف منظم جدوجہد کرنی ہو گی ، چناں چہ اس ناپاک منصوبہ کو پروان چڑھانے کے لیے کسی مسجد، مدرسہ اور علمی مرکز پر بمباری کرکے ان معصوموں کو خاک وخون میں تڑپایا جاتا ہے اور اس کے بعد بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ : ” اس جگہ مظلوم انسانوں کو ذبح کیا جاتا تھا، یایہاں جہادی تربیت کا مرکز اور اسلحہ کا ذخیرہ تھا وغیرہ وغیرہ۔“
اسی طرح کہیں دھماکا کرکے یہ کہانی گھڑ لی جاتی ہے کہ: ” یہ طالبان کا اڈہ تھا اور یہاں بارود کا ذخیرہ تھا، جو قبل از وقت پھٹ گیا“ چناں چہ میاں چنوں کے ماسٹر ریاض کے مکان میں بم دھماکہ کو مدرسہ میں دھماکہ قرار دینا، اس کا واضح ثبوت ہے ، جب کہ اس کے برعکس وفاق المدارس کی قیادت چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ مدارس کو بدنام کرنے کی سازش ہے، چناں چہ وفاق المدارس کے اکابر کی مبنی برحقیقت وضاحت ملاحظہ ہو:
”اسلام آباد ( نمائندہ جنگ) میاں چنوں کے جس مکان میں دھماکہ ہوا وہ کوئی مدرسہ نہیں ، بلکہ حاضر سروس اسکول ٹیچر ماسٹر ریاض کا مکان تھا ۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی کے ہر واقعے کا ملبہ مدارس پر ڈال کر درس گاہوں کو بدنام کیا جارہا ہے، جوافسوس ناک ہے ۔ میڈیا اس سازش کو ناکام بنائے ۔ وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے علما ومشائخ کے ایک نمائندہ وفد نے دارالعلوم کبیر والا کے استاذ الحدیث حضرت مولانا حامد حسن کی سربراہی میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور مرکز کو اطلاع دی کہ اس واقعے کو سراسر غلط رپورٹ کیا گیا ، وہاں کوئی مدرسہ نہیں ، بلکہ ایک حاضر سروس اسکول ٹیچر ماسٹر ریاض کا گھر تھا، جس میں اس کی بہن محلے کی چند بچوں کو پڑھایا کرتی تھی۔ اس سے قبل اس اسکول ٹیچر کی مشکوک سرگرمیوں کی پولیس کو اطلاع دی گئی، وہ گرفتار بھی ہوا، لیکن پولیس نے پیسے لے کر چھوڑ دیا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راہنما مولانا سلیم الله خان، قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی محمد رفیع عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے کہا کہ اس واقعہ میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔“ (روزنامہ جنگ کراچی۔15 جولائی2009ء)
اسی طرح ڈیرہ غازی خان کی ایک خالی حویلی پر راتوں رات مدرسہ کا بورڈ لگانا اور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں اسلحہ رکھنے کے بعد اس پر ” چھاپہ“ مارکر اس سے اسلحہ کی برآمدگی کی خبر بھی مدارس کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف باقاعدہ سازش کے مترادف ہے ، لیجیے! اس سلسلہ کی صحیح صورت حال بھی ملاحظہ فرمائیے:
” اسلام آباد (ثناء نیوز) وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سکریٹری جنرل اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ترجمان قار ی محمدحنیف جالندھری نے کہا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی ایک ویران حویلی سے اسلحہ برآمد کرکے اسے مدرسہ قرار دے کر جنوبی پنجاب او رمدارس کے خلاف آپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، انہوں نے مدرسے سے اسلحہ برآمدگی کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا، مدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری کی ہدایت پر گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان میں وفاق المدارس کے نمائندہ مفتی خالد محمود کی قیادت میں مبینہ مدرسہ کا دورہ کیا گیا ، جہاں سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ وفد کی جانب سے وفاق المدار س العربیہ کے ذمہ داران کو بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق جس مقام سے اسلحہ برآمد کیاگیا، وہاں ایک ویران حویلی ہے ،باقاعدہ کوئی مدرسہ نہیں ، نہ وہاں کوئی طلبا زیر تعلیم ہیں ، بلکہ ایک ویران جگہ ہے ۔“ (روزنامہ جنگ کراچی13 جولائی2009ء)
ایسے حالات میں جب کہ ہر طرف ان بے یارومد گار مظلوموں اور مسکینوں کے خلاف چڑھائی اور حملہ کا بگل بجایا جارہا ہے، کچھ حقیقت بین ایسے بھی ہیں جو حقائق سے پردہ اٹھانے سے نہیں ہچکچاتے، چناں چہ ایک ایسا شخص جو کسی اعتبار سے ملا، مولوی اور طالبان نہیں کہلا سکتا، اس کی شہادت قابل قبول ہونی چاہیے۔
لیجیے! روزنامہ امت کے کالم نگار ریٹائرڈلیفٹیننٹ کرنل جناب عادل اختر کی چشم کشا او رحقائق آشنا تحریر پڑھیے اور فیصلہ فرمائے کہ ” مجرم کون، ملا یا مسٹر؟“۔ ”ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی “ کے مصداق اس پر ہم کسی قسم کا کوئی اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ، چناں چہ موصوف تحریر فرماتے ہیں : 
”16 دسمبر1971ء کی صبح ناشاد تھی۔ مقام ڈھاکہ کا میدان جنگ۔ ناظریہ راقم کمترین۔ ( اس وقت ایک لفٹین) آسمان سے آگ برس رہی تھی … او رزمین سے خون کے چشمے ابل رہے تھے کہ اچانک بڑی کمانڈ پوسٹ سے ایک حیران کن آرڈر آیا” ہندوستانی جہازوں پر فائرنگ نہ کی جائے “ اس کے بعد کنفیوژ کر دینے والے احکامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ دوپہر تک ساری رجمنٹ کو ایک مرکزی مقام پر جمع ہونے کا آرڈر آگیا ، کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ ہر طرف ایک کنفیوژن کا عالم تھا۔ جلد ہی صبح ناشاد، شام غم میں بدل گئی۔
اس واقعے کو چالیس برس ہونے کو آئے ، گوحکمرانوں کا سر پُر غرور خاک میں مل گیا، پررعونت وہی باقی ہے اور عوام میں بھی کنفیوژن کا وہی عالم ہے ، صوبے ، صوبوں سے دست وگریباں ہیں ، طبقے، طبقوں سے نالاں ہیں ، ہر طبقہ پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار دوسرے طبقے کو ٹھہرا رہا ہے ۔ ( کم ظرفوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ) ملک میں پانی ہے نہ پیٹرول، البتہ گرانی اورسرگردانی ہیں کہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے ، سیاست دان؟ فوجی حکمران؟ یا بیورو کریٹ؟ یا اجتماعی شعور وبصیرت کی کمی؟
اس افراتفری اور شور قیامت میں ایک طبقہ ملک کی ناکامی کی ذمہ داری ملاؤں پر ڈال رہا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ایک دن بھی ملاؤں کی حکومت نہیں رہی۔ دس گیارہ برس ایک نیم ملا فوجی ڈکٹیٹر ضرور ملک پر قابض رہا، اس ڈکٹیٹر کے آنے یا جانے میں ملاؤں کا کوئی دخل نہیں تھا، اس لیے اسے ملاؤں کی حکومت نہیں کہا جاسکتا ، اس کے علاوہ پاپائیت کی مانند، اسلام میں ملائیت نام کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے ۔ نہ کبھی سارے ملا ، مولوی ، کسی مسئلے پر متفق ہوئے ہیں ۔ فکری مسائل پر ہر طبقے میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ عین فطری بات ہے۔
برصغیر کے ملاؤں پر ایک سنگین الزام یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ، آج ان ملاؤں کا دفاع غداری کے زمرے میں آسکتا ہے اور ہاتھوں کے علاوہ سر بھی قلم ہو سکتا ہے ، بہرحال اس وقت کے ملاؤں کا مؤقف اصولی تھا ، وہ کہتے تھے : آپ تو کشور حسین میں بیٹھ کر عیش کریں گے ، جو کروڑوں مظلوم مردود مسلمان بھارت میں رہ جائیں گے ، ان کا والی وارث کون ہو گا ؟ وہ تاقیامت بے بسی کی دلدل میں اترتے چلے جائیں گے ۔ ان کی زندگی میں کبھی صبح امید نہیں آئے گی۔ ان ملاؤں کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ تحریک پاکستان میں شامل ہو جانے والے ہزاروں کھوٹے سکے ناقابل اعتبار ہیں ، ان سکوں سے خیر کی کوئی امید نہیں ، یہی ہوا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد انہوں نے کھل کھیلنا شروع کر دیا ، ملک میں سازشیں اور چھینا جھپٹی شروع ہو گئی اول تو ملک میں آئین بننے نہیں دیا گیا اور جب آئیں بن گیا تو اسے جلد ہی قتل کر دیا گیا ، جو لوگ حکمران بنے ، وہ نہ تو الله کا قانون ( قرآن) ماننے کے روادار تھے، نہ انسان کا بنایا ہوا قانون (آئین) ماننے کے لیے تیار تھے ، ان طالع آزماؤں کی حماقتوں کے نتیجے میں قائداعظم کا پاکستان دو نیم ہو گیا ، لاکھوں انسان قتل ہوئے ، کروڑوں بے گھر اور ایک لاکھ افراد دشمن کی قید میں چلے گئے ، قائداعظم کی روح پر قیامت گزر گئی ہو گی ۔ کمروں میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے والے دانش ور اس کرب کا ، اس ذلت واذیت کا احساس ہی نہیں کر سکتے، جو اس آگ کے دریا سے گزرنے والوں پر بیت گئی۔
ملاؤں پر الزام ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم حاکم کی حمایت کرتے ہیں ، عرض ہے کہ ملاؤں نے حاکموں کی حمایت اپنی انفرادی حیثیت میں کی ہے، بہ حیثیت جماعت یا ادارے کے ملاؤں نے کبھی کسی حاکم کی حمایت نہیں کی ، ہزاروں ملا ظالم حکمرانوں کے درباروں میں چٹان کی طرح باوقار انداز سے کھڑے رہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ الله ، امام احمد بن حنبل رحمہ الله ، امام ابن تیمیہ رحمہ الله ، مجدد الف ثانی رحمہ الله( … مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله، حافظ ضامن شہید رحمہ الله، حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله، شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ الله اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله ، مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ الله، امیر شریعت مولانا سید عطاء الله شاہ بخاری رحمہ الله… ناقل۔) کاسر ہمیشہ بلند اور سخن دلنواز رہا۔
پاکستان میں حاکموں کی حمایت کرنے والوں میں جاگیر دار ،جج، جرنیل، جرنلسٹ، اساتذہ کرام، تاجر، دانشور ہمیشہ پیش پیش رہے اور ظل الہٰی سے اس کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے رہے ، آج انصاف اور سائینٹیفک تحقیق کا تقاضا ہے کہ ملک کے پانچ دس ہزار رؤسائے اعظم کی فہرست بنائی جائے اور دیکھا جائے اس میں ملا کتنے ہیں ؟ او رمسٹر کتنے ؟ اگر یہ مشکل ہو تو چک شہزاد میں عطا کیے جانے والے 499 فارم ہاؤسوں کے مالکان کے نام جو اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ، دیکھ لیے جائیں کہ ان میں ملا کتنے؟ اورمسٹر کتنے ہیں ؟ عوام کو بتایا جائے ، ملا مودودی نے کس قدر جائیداد چھوڑی اور پرویزمشرف نے کس قدر دولت بٹوری۔ ( دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں دہلی کے رہنے والے تھے)…
تحقیق اور انصاف سے دلچسپی رکھنے والوں سے التماس ہے کہ وہ کچھ مشہور ملاؤں: مثلاً حسرت موہانی، ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی ، حسین احمد قاضی، حافظ حسین احمد، احمد علی لاہوری، سرفراز احمد نعیمی(… اگر اس کے ساتھ ساتھ مفتی کفایت الله، مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا مفتی محمود، مولانا محمد عبدالله درخواستی، مولانا محمد بہلوی ، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری، مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری، مولانا سید محمد یوسف بنوری، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله، مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہم الله وغیرہ کے نام بھی شامل کر دیے جائیں تو نامناسب نہ ہو گا… ناقل۔) کی دولت وجائیداد کی تفصیلات حاصل کریں اور پرویز مشرف اورموجودہ حکومتی وسیاسی رہنماؤں کی دولت سے موازنہ کریں ، پھر انصاف سے بتائیں کہ پاکستان پر حکومت کس نے کی ؟ دولت کس نے بٹوری؟
ملاؤں پر ایک الزام اور بھی ہے کہ ان کا پسندیدہ نظام ملوکیت ہے اور وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔ ( کیا اقتدار پر قبضے کی کوششیں جنرلز نہیں کرتے؟) عرض یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی نظام کی حمایت یا مخالفت کر سکتا ہے، اس وقت ہندوستان اورپاکستان میں جس قدر مذہبی پارٹیاں سیاست میں حصہ لے رہی ہیں، وہ ملک کے آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں اور جمہوریت کی حامی ہیں ( ورنہ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملتی) پاکستان کی کسی مذہبی جماعت نے کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی ، پرامن مقاصد سے اپنے مشن اور مقصد کا حصول ہر سیاسی پارٹی کا آئینی حق ہے ۔ کوئی جرم نہیں ۔ البتہ غیر ملا پارٹیوں میں نہ کبھی الیکشن ہوتے ہیں ، نہ فنڈز کا حساب رکھا جاتا ہے۔
برصغیر میں باہر سے آنے والی قوموں نے اقتدار اور اختیار پر قبضہ کرکے یہاں کے رہنے والی قدیم اور پسماندہ اقوام کا استحصال کیا، آریا ، مغل، عرب، ترک، ایرانی اور انگریز… آج بھی پاکستان پر ایک استحصالی طبقہ قابض ہے، ضرورت پڑنے پر یہ لوگ فوراً چولا بدل لیتے ہیں ، ان کا کوئی دین ومذہب نہیں ، اس طبقے کے لوگ ہر نظام کے خلاف ہیں اسلام ، کمیونزم، سوشلزم،سیکولرازم…
کیوں کہ دنیا کے تمام مذاہب اورتمام نظام ، استحصال کے خلاف ہیں ، کسی بھی نظام کی کامیابی کی صورت میں استحصالی ٹولے کی لوٹ مار کا خاتمہ ہو جائے گا ، اس طبقے کی ظلم وستم کی داستانیں کبھی کبھار اخباروں میں چھپ جاتی ہیں ، ورنہ عام طور پر عوام کی نظروں سے چھپی رہتی ہیں۔ ان طبقات کی داستانیں پڑھ کر حیر ت ہوتی ہے کہ انسان کس قدر گر سکتا ہے ؟ 
پاکستان میں اس طبقے کے بنائے ہوئے عالیشان محلات دیکھ لیجیے، ہر محل ایک قلعہ ہے ، باہر لوہے کا جنگلہ اور اندر جنگلی کتے غرار ہے ہیں، مسلح چوکیدار گشت کر رہے ہیں ، سیکورٹی کیمرے نصب ہیں ، فرار ہونے کے لیے ہیلی پیڈ ہیں اور ڈوب مرنے کے لیے سوئمنگ پول۔
اخباری قیاس آرائیوں کے مطابق اس طبقے کے پاس ناجائز ذرائع سے جمع کیے ہوئے بارہ ہزار ارب روپے موجود ہیں، اتنے روپے حکومت کے پاس بھی نہیں ہیں، اس رقم کو بینک کی اصطلاح میں کالا دھن کہتے ہیں ، بیرون ممالک ان لوگوں کے پاس ساٹھ ستر ارب ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں، اس طبقے کی عیاشیوں کی داستانوں پر عام طور پر پردہ پڑا رہتا ہے، بیرون ممالک جاکر بہترین مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام وطعام ، مہنگے ترین اسٹوروں میں شاپنگ ، جوئے خانوں ، نائٹ کلب اور عیاشی کے اڈوں پر ” حاضری“ کبھی کبھار تیز ہوا چلتی ہے تو کچھ دیر کے لیے پردہ ہٹ جاتا ہے اوران کے کالے کرتوت نظر آجاتے ہیں ، جو لوگ حق اور سچ کے متلاشی ہیں وہ تحقیق کرکے دیکھ لیں ، ان لوگوں میں ملا کتنے ہیں ، مسٹر کتنے؟
نوٹ: اس مضمون میں علمائے کرام کی جگہ ملا کالفظ جان بوجھ کر استعمال کیا گیا ہے ، کیوں کہ جو حضرات اسلام کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے مصلحتاً علمائے کرام یا اسلام کی جگہ لفظ ملا استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ اس میں حقارت کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
کچھ دانشور ملا کو ملعون ومطعون قرار دے کر مسرت محسوس کرتے ہیں ، ملا اپنے دفاع میں اور کیا کہہ سکتے ہیں ، سوائے اس کہ #
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات انہیں بہت گراں گزری ہے
جب تک ملاؤں کی جان میں جان باقی ہے ، یہ تزئین دروبام کرتے رہیں گے ، حق پسند قاری خود دیکھ لیں ، ملا کے پاس کتنا مال ہے ؟ اور غیر ملاؤں کے پاس کس قدر ؟ 
ملاؤں کی سب سے اچھی خدمت یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے، ملک میں میرٹ اور انصاف کی حکومت ہو ۔“ (روز نامہ امت کراچی 16 جولائی2009ء)
مکرر عرض ہے کہ یہ تحریر کسی ملا، مولوی، یا کسی دینی مدرسہ کے پڑھے لکھے، ” تنگ نظر“ کی نہیں ، بلکہ یہ ایک ریٹائرڈ فوجی کی آپ بیتی ہے، جو1971ء کی جنگ میں خود شریک تھا او راس نے وہ سارا منظر بچشم خود دیکھا، جس کے دیکھنے اور سننے کی ہمارے ” بڑے“ بھی تاب لانے سے قاصر ہیں۔
ہاں ! ہاں! یہ تحریر ایک غیر جانب دار تجزیہ نگارکی ہے ، جو یقینا مسجد، مدرسہ، ملا، مولوی اور دین دار طبقہ کے مخالفین کے خلاف حجت قاطعہ ہے ۔ خدا کرے کہ اس کے ذریعے ہمارے معصوم قارئین کے دل ودماغ میں ڈالی گئی غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور وہ اس بین الاقوامی سازش کا ادراک کر سکیں۔
والله یقول الحق وھو یھدی السیبل

Flag Counter