Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

4 - 15
***
نکاح شرعی پر اخلاقی حیثیت غالب ہے
مولانا اخلاق حسین قاسمی
نکاح کی ایک مجلس تھی جس میں مسلمان اور غیر مسلموں کا تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ جمع تھا۔ اس مجلس میں اس ناچیز نے قدیم دستور کے مطابق ایجاب وقبول کراتے ہوئے کہا” فلاں کی بیٹی کو بعوض مہر مبلغ دس ہزار سکہ رائج الوقت میں نے آپ کے نکاح میں دیا، آپ نے قبول کیا“؟ شہر کے ایک مشہور ہندووکیل صاحب نے مجھ سے پوچھا:” کیا آپ نے اس لڑکی کو اس لڑکے کے ہاتھ فروخت کیا ہے “؟ میں نے ان کو سمجھا دیا کہ ایسا نہیں ، یہ وہ روایتی الفاظ ہیں، جو چلے آرہے ہیں، نکاح محبت واخلاق کا ایک رشتہ ہے جو عورت او رمرد کے درمیان فطری ضرورت کے مطابق قائم ہوتا ہے۔
اس کے بعد سے میں نے قدیم روایتی فقرے کہنے کے بجائے یہ کہنا شروع کر دیا۔” میں نے فلاں کی لڑکی کو مہر مقرر کے مطابق آپ کے نکاح میں دیا“۔ رہا معاملہ کا بین نامہ اور نکاح نامہ کا تو وہ ایک قانونی دستاویز ہے، اس میں فقہی اصطلاح کے مطابق” بعوض مہر مبلغ“ کے الفاظ تحریر ہوتے ہیں، ان میں ردوبدل نہیں ہو سکتی، یہی بات میں نکاح خواں حضرات سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ عام مجلسوں اور عام اجتماعات میں مہر مقرر کے الفاظ استعمال کیا کریں، تاکہ اگر غیر مسلم سن رہاہو تو وہ کسی الجھن میں نہ پڑے۔ وہ نکاح کو خرید وفروخت کا معاملہ نہ سمجھے۔ یہ آج کے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم نکاح کے اخلاقی پہلو کو زیادہ نمایاں کریں اور قرآن کریم میں او راحادیث رسول میں نکاح کے جو اخلاقی ثمرات وفوائد بیان کیے گئے ہیں وہ نمایاں کیے جائیں۔
اب ہم ذیل میں نکاح کے دونوں ( قانونی اور اخلاقی) پہلو واضح کرتے ہیں اور اس وضاحت سے یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ نکاح اسلامی کی قانونی حیثیت انعقاد نکاح کی مجلس تک رہتی ہے، ورنہ عملی طور پر مسلم معاشرہ میں نکاح ایک اخلاقی تعلق کے طور پر زندگی کے آخری سانس تک قائم رہتا ہے اور تعلق نکاح پر اس کی اخلاقی حیثیت غالب رہتی ہے۔
نکاح ملتِ ابراہیمی میں
اسلام سے پہلے اولاد اسماعیل او رملت ابراہیمی میں نکاح کی یہ صورت تھی کہ مرد وعورت دونوں کے بڑے جمع ہو کر اپنے اپنے خاندانی فضائل پر روشنی ڈالتے تھے او را س کے بعد مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاملہ طے پاجاتا تھا او رمہر کی ایک رقم یا کچھ سامان مرد کے ذمہ واجب کر دیا جاتا تھا، جو وہ ادا کر دیا کرتا تھا۔
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کی اس قدیم رسم اور قدیم طریقہ کو قائم رکھا، کیوں کہ وہ طریقہ فطری طور پر معاملات کے طے ہونے کا مناسب طریقہ تھا، البتہ آپ نے خاندانی فضائل بیان کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی تعریف وثنا کے ساتھ خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا ، موجودہ خطبہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے ، اسی تاریخی نکاح میں حضور علیہ السلام کی طرف سے بطور وکیل آپ کے چچا ابوطالب تھے اورحضرت خدیجہ کے وکیل ان کے چچا عمروبن اسد تھے او ربیس اونٹ بطور مہر مقرر ہوئے تھے۔
اولاد اسماعیل پر جب شرک کا تین سو سالہ عہد مسلط ہوا تو اس دور میں معاشرہ کے اندر کچھ خرابیاں پیدا ہو گئیں اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان خرابیوں کی اصلاح کر دی ،آپ نے ایک طرف نکاح کی اہمیت قائم کی او ردوسری طرف نکاح کو آسان سے آسان تر کر دیا، تاکہ غریب سے غریب آدمی بھی بے نکاح نہ رہے ، نکاح کے ذریعہ مرد اور عورت کو جو کردار کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور نسل انسانی کے سلسلہ میں ،جو پاکیزگی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے، وہ پیدا ہو جائے۔
نکاح کی قانونی اور فقہی حیثیت
قرآن کریم اوراحادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم میں نکاح (مردوعورت کے خاص رشتہ) کو اخلاقی تعلق کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل آگے آئے گی ۔ لیکن قرآن وحدیث کے اہل قانون ( اہل فقہ، فقہاء) نے اس خاص تعلق کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے ، چناں چہ فقہاء نے نکاح کی یہ تعریف کی ہے النکاح عقد یرد علی ملک المتعة․ (کنز:97) یعنی اہل فقہ کی اصطلاح میں نکاح ایک خاص معاملہ ہے جو عورت سے خاص استفادہ کرنے کے جائز ہونے او راس استفادہ پر مالکانہ حقوق حاصل کرنے پر منعقد ہوتا ہے۔ استفادہ حلال ہونے کے لیے یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ بیع وشراء اور خرید وفروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ بیع ( خرید وفروخت) تو واقع ہو جاتی ہے مگر مبیع ( جس چیز کی فروختگی ہوئی ) سے استفادہ جائز نہیں ہوتا۔ جیسے کسی شخص نے اپنی بہن کو اس کے مالک سے خریدا تو یہ بیع وشراء درست تو ہو گئی، مگر اس بہن سے استفادہ خاص حلال نہیں ہوا، کیوں کہ وہ ذورحم محرم ہے۔
اب یہ تعلق نکاح جب ایک معاملہ ٹھہرا تو اس میں دو گواہ بھی لازم ہو گئے او رمال ( استفادہ) کا عوض بھی ضروری ہو اور وہ عوض مہر ہے ۔ دو گواہوں کی مجلس میں موجودگی عام معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی لازم ہوتی ہے، فقہ کی بعض کتابوں میں استفادہ خاص اور خصوصی فائدہ کی تشریح میں ( عوض البضع) کے الفاظ تحریر کر دیے گئے ہیں ۔ ان کی حیثیت صرف قانونی ہے، یہ قطعی طور پر مناسب نہیں کہ انعقاد نکاح کے موقع پر اس قسم کے الفاظ (عوض ومعاوضہ) کا اظہار کیا جائے، متعلقین جانتے ہیں کہ مہر کی حیثیت معاوضہٴ تعلق خاص کی ہے۔ پھر عام اجتماعات میں اس تصور ( عوضیت) کا اظہار کیوں ضروری ہو؟
حدیث میں احتیاط
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے ایک معاملہ نکاح میں مہر اور عوض مہر کی بابت بڑی احتیاط سے کام لیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی عامر بن ربیعہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے کہا :یا رسول الله! میں فلاں خاتون سے جوتی کے جوڑے پر نکاح کر رہا ہوں ، کیا مجھے اس کی اجازت ہے ؟ حضور نے اس خاتون سے پوچھا: ”ارضیت بنفسک ومالک بنعلین؟ قالت: نعم“ (مشکوٰة:277) اے خاتون! کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ اپنی جان اوراپنے مال دونوں کو جوتیوں کے ایک جوڑے کے بدلہ اسے دے دے؟ “ اس نے اقرار کیا۔ آپ نے اجازت دے دی۔ یہ تھی آپ کی احتیاط، ایک عورت کا احترام، آپ نے جان ومال کہا ، ناموس او رمقام حرمت کا ذکر نہیں کیا ، حالاں کہ مہر صرف مصاحبت کا بدلہ ہے، عورت کی تمام جان او رتمام مال کا بدلہ نہیں ہے۔ ہاں! اخلاقی اعتبار سے عورت اپنی جان اور اپنا مال دونوں چیزیں شوہر کے حوالہ کر دیتی ہے۔ یہ نکاح کا اخلاقی پہلو ہے، قانونی پہلو صرف فعل زوجیت پر شوہر کے حق کالزوم ہے۔
قصہ پر اشکال
فقہی تعریف میں معاوضہ مرد کے ذمہ واجب ہونے پر یہ اشکال وراد ہوتا ہے کہ یہ استفادہٴ خاص ایک طرفہ نہیں ہے ، جس طرح مرد عورت سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرتا ہے ،اسی طرح عورت بھی اپنی فطری خواہش کی تسکین حاصل کرتی ہے اوریہ استفادہ مشترک ضرور ہے، لیکن ان دونوں استفادوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مرد کو عورت سے استفادہ ( مصاحبت) پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور یہ حقوق مالکانہ عورت کو مرد کے ساتھ استفادہ ( جماع) پر حاصل نہیں ہوتے، یعنی مرد کو بوقت ضرورت دوسری شادی کرنے کا احتیار حاصل ہے ، لیکن عورت کو ایک شوہر کے ہوتے ہوئے ، دوسرا شوہر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، مرد کے لیے دوسری شادی کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے عورت او رمرد کے درمیان اس شرعی فرق کے مصالح پر روشنی ڈالی ہے۔
نکاح کے قانونی فرائض
فقہاء نے عورت کا خاص قانونی فرض مرد کی جنس خواہشات کی تسکین کو قرار دیا ہے، باقی گھریلو ضروریات، گھرکی صفائی ، کھانا پکانا، بچوں کی پرورش، عورت کی مستحب اور غیر واجب خدمات قرار دی گئی ہیں ، لیکن ان میں سے ہر ضرورت مرد او رعورت کے درمیان مشترک ہے، عورت گھر کی صفائی کرتی ہے او راس گھر میں مرد بھی رہتاہے ، عورت بھی رہتی ہے وہ بچوں کو پالتی ہے یہ بچے شوہر کے بھی ہیں، عورت کے بھی ہیں، وہ شوہر کی تندرستی کا خیال رکھتی ہے ،کیوں کہ وہ اس کے لیے کماتا ہے، یہ تمام مشترک ضروریات قانونی طور پر واجب نہ سہی، لیکن عملی طور پر ضروری ہیں اور عورت انہیں انجام دیتی ہے۔
اس طرح شوہر کا قانونی فرض نان ونفقہ مہیاکرنا ہے، اس کے علاوہ گھریلو ضروریات، بال بچوں کی دکھ بیماری کا خیال، کنبہ والوں، ساس سسر اور سالے اور سالیوں کی دکھ بیماری کا خیال۔ یہ باتیں بھی گھر کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لیے مرد کے اخلاقی واجبات میں داخل ہیں او رمرد ایسا کرتا ہے یہ پہلو نکاح کو ایک اخلاقی رشتہ قرار دیتا ہے۔ قانونی رشتہ اسے محدود نہیں رکھتا۔
اخلاقی فرائض
قانون نے تو کہہ دیا کہ بس عورت کا یہ خاص فریضہ ہے کہ وہ مرد کی تسکین کے لیے تیار رہے، لیکن سماجی اور اخلاقی ضرورتیں عورت کو گھر داری کی تمام ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اسی طرح قانون نے تو کہہ دیا کہ شوہر کا فریضہ صرف عورت کے لیے روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے، لیکن سماجی اور اخلاقی طو رپر شوہر کو نان ونفقہ کے علاوہ اپنے گھر کو خوش گوار بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عورت کا نان ونفقہ ہر حال میں مرد کے ذمہ ہے، عورت اگر خود مال دار ہو تب بھی مرد ہی نان ونفقہ کا ذمہ دار ہے، لیکن ایک مال دار عورت اخلاقی طور پر اپنی کمائی اپنے گھر بار پر خرچ کرتی ہے، شوہر کو تعاون دیتی ہے، اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں او رشادی بیاہ کے مصارف میں حصہ لیتی ہے اور کبھی مرد پر احسان نہیں رکھتی، بلکہ اپنی ذاتی دولت کو اپنے شوہر کی دولت قرار دیتی ہے۔
نکاحِ شرعی کی قانونی حیثیت مرد او رعورت کے باہمی قول وقرار اور ایجاب وقبول کے بعد مکمل ہو جاتی ہے ، بین نامہ پر مرد عورت او رگواہوں کے دستخط ہو جاتے ہیں، اگر لڑکی کا ولی موجود ہے تو وہ، ورنہ لڑکی کا وکیل دستخط کرکے فارغ ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بعد نکاح وشادی کی گاڑی اخلاقی بنیادوں پر چلنی شروع ہو جاتی ہے۔ اب پہلے قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجیے جن میں نکاح کے اخلاقی فضائل بیان کیے گئے ہیں۔
( سورہٴ اعراف)198 میں فرمایا گیا ”وہ خدا وند عالم ہے جس نے انسانو! تم سب کو ایک جان ( آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے (حوا) کی تخلیق فرمائی تاکہ وہ آدم اپنے اس جوڑے سے سکون حاصل کرے۔“ سورہ روم (2) میں عام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ”خداوند عالم کی عظیم قدرتی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اے لوگو! اس نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے ( عورتیں) پیدا کیے، لہٰذا تم عملی طور پر بھی جوڑے جوڑے بن کر رہو، تاکہ اپنے جوڑوں سے تسکین حاصل کرو اور الله تعالیٰ نے تمہارے اندر محبت او رگہری رفاقت پیدا کر دی ہے ۔“
قرآن کریم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ اس نے محبت پیداکرنے کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، کیوں کہ ہر چیز کی تخلیق اسی کی طرف سے ہے، لیکن یہ اشارہ ہے کہ تسکین جذبات کا فطری تقاضا یہ ہے کہ دونوں (مرد وعورت) کے درمیان محبت پیدا ہو تی ہے۔ اس لیے قرآن نے انسان اول آدم علیہ السلام او رعام انسانوں دونوں کو مخاطب کرکے تسکین جذبات کے فطری اثر کا تذکرہ کیا ہے۔ قرآنی اسلوب میں تسکین حاصل کرنے کی نسبت مردوں کی طرف کی گئی، حالاں کہ تسکین جذبات دونوں طرف سے حاصل ہوتی ہے ۔ یعنی تسکین وسکون کا عمل شوہر اور بیوی دونوں کے درمیان مشترک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تسکین کے عمل کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے، عورت بعد میں شامل ہوتی ہے۔
تسکین جذبات کے عمل کا یہ اثر کہ دونوں فریقوں کے درمیان محبت پیدا ہو جاتی ہے حیوانات کے اندر بھی دیکھا جاسکتا ہے، پھر قرآن کریم نے اس محبت ومودت کے گہرے اثرات کو کسی جگہ لباس ( پوشش، پردہ پوشی) سے تعبیر کیا (بقرہ:187) او رکسی جگہ قلعہ بندی او رحصار بندی ( نساء:24) سے تعبیر کیا ہے، یعنی اس جذباتی اور شہوانی تسکین کا اثر ہے کہ شوہر اور بیو ی ایک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کی فطری کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں او راس تعلق نکاح کی بدولت دونوں گھریا قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔
عورت نسل انسانی کی کھیتی ہے سیرگاہ اور تفریح گاہ نہیں
کچھ لوگ عورت کو تفریح گاہ اور سیر گاہ سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ خواہش نفس کی تسکین کے لیے وضع فطرت اور طریقہ انسانیت کے خلاف سلوک کرتے تھے ، قرآن کریم نے نہایت آسان اور عام فہم پیرایہ میں عورت کو کاشت کی زمین کہہ کر لوگوں کو فطرت کے خلاف مصاحبت کرنے سے روکا، اس استعارہ میں عورت کی توہین نہیں ہے،بلکہ تو الدوتناسل کی بنیادی غرض وغایت کا ایک عام فہم پیرایہ میں اظہار ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں کے لیے اسباب لباس اور پوشش کا استعارہ اختیار کیا، ﴿ھن لباس لکم﴾ کہا گیا، لیکن ایک دیہاتی سمجھ رکھنے والے انسان کے لیے لباس کااستعارہ ایک مشکل استعارہ ہے، اس لیے قرآن نے کھیتی کا استعارہ اختیار کرکے ہر سمجھ کے انسان کو عورت کی عظمت کا احساس دلایا۔ حیوانات کو دیکھیے! فطرت نے ہر حیوانی جوڑے کے اندر اس کی پیدائشی ساخت کے مطابق شہوت رانی کا جو طریقہ سمجھا دیا ہے وہ اسی طریقہ کا پابند ہے، لیکن انسان کے اندر اس فطری معاملہ میں بھی آزادی کا جو اختیار پیدا کیا ہے وہ اس اختیار سے کام لے کر اس میدان میں بھی گمراہی کی راہ میں پڑ جاتا ہے اور تسکین جذبات کے ساتھ نسل کی افزائش سے قطع نظر کر لیتا ہے، چناں چہ فرمایا:﴿نساء کم حرث لکم فأتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لانفسکم﴾، مولانا آزاد نے اس اہم آیت کانہایت واضح مطلب بیان کرتے ہوئے اس کا ترجمہ یا ترجمانی تحریر کی ۔ لکھتے ہیں ، ” جہاں تک وظیفہٴ زوجیت کا تعلق ہے، تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمینیں، پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین میں ( فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے مستقبل کا سروسامان کرو ( یعنی اولاد کی پیدائش کا سروسامان کرو)۔ (البقرہ:251)
عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دے کر بھی افزائش نسل کی طرف توجہ دلائی اور اس کے بعد اگلے فقرہ ﴿قدموا لانفسکم﴾ میں اسی مطلب ومفہوم کی تاکید کی۔ مولانا آزاد نے دونوں فقروں کا واضح ترجمہ کیا: قدموا کے فقرہ کا ترجمہ شاہ ولی الله نے تفسیر جلالین کے مطابق کیا، صاحب جلالین نے لکھا ہے کہ : مصاحبت کے وقت بسم الله پڑھو، یہی ہے اپنے آگے بھیجنے کا مطلب، جلالین کی تفسیر آخرت کی طرف گئی ، شاہ ولی الله نے آخرت ہی کی طرف اشارہ کیا، البتہ مفہوم وسیع کر دیا ” پیش فرستید، یعنی اعمال صالحہ رابرائے خویش“ یعنی اپنے اعمال صالحہ آگے بھیجو۔ بسم الله پڑھنے سے زیادہ وسیع مفہوم بیان کیا۔ شاہ عبدالقادر صاحب نے آیت کی اصلی روح کو سمجھا اور یہ ترجمہ کیا ” اور آگے کی تدبیر کرو اپنے واسطے“ یہ ترجمہ جامع ہے۔
اس ترجمہ سے آخرت کے لیے نیکیاں اور دنیا کے لیے اولاد دونوں مفہوم نکلتے ہیں، آگے کی تدبیر کے مفہوم میں دونوں پہلو شامل ہیں ، مولانا آزاد نے شاہ عبدالقادر کے ترجمہ کی پیروی کی ہے اور آگے کے لیے بھیجو کا مطلب اولاد کی پیدائش کا خیال وانتظام بیان کیاہے۔
دوسرا یہ کہ اپنی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کا انتظام کرو۔“
مرد عورتوں کے نگراں ہیں
مردوعورت کے درمیان حقوق وفرائض کا جو متوازن نظام قائم ہے اس کے پیش نظر مردوں کو عورتوں پر حاکم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اعلان کیا ہے : ﴿الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضھم علی بعض وبما انفقوا﴾․ شوہر اپنی عورتوں کے نگراں ہیں ایک اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور بیویوں کانان ونفقہ ادا کرتے ہیں، قرآن کریم نے مردوں کی عورتوں پر بڑائی کے لیے بالکل نیا لفظ استعمال کیا ہے ، یعنی قوام، قائم رکھنے والا۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے آیت مذکورہ میں قوام کا یہی ترجمہ کیا ہے، جلالین کے محشی نے لکھا:”یقومون علیھن آمرین ناھین،کما یقوم الامیر علی الرعایا، وسموا قواما لذلک“․ وہ شوہر ان کے سروں پر کھڑے رہتے ہیں حکم دینے کے لیے اور ممانعت کرنے کے لیے، جیسے امیر قوم اپنی رعایا کے لیے کھڑا رہتا ہے، چوکس رہتا ہے۔(75)
اس تشریح کے مطابق شاہ عبدالقادر صاحب اور مولانا تھانوی صاحب نے ”قوام“ کا ترجمہ ”حاکم“ کیا ہے ، لیکن”قوام“ کا صحیح مفہوم شاہ ولی الله نے تحریر کیا، یعنی” تدبیر کا رکنندہ، مسلط شدہ“ شاہ صاحب سے پہلے جرجانی صاحب نے لکھا: ”کارگزار انند۔“: مولانا آزاد نے دو لفظ تحریر کیے، یعنی ”سربراہ“ اور ”کارفرما “ ڈپٹی نذیر احمد نے تحریر کیا ”دھرے ہیں عورتوں کے“ ۔
اگر ہم شاہ عبدالقادرصاحب کا ترجمہ”حاکم“ درست مان لیں تو یہ حاکم آنریری او راعزازی حاکم ہوں گے، جیسے کبھی آنریری مجسٹریٹ ہوتے تھے، ورنہ صحیح مفہوم کا رگزار اور کار فرما ہے، حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے تعلق میں شوہر اور بیوی اپنی اپنی اعزازی خدمات سے گھر چلاتے ہیں ، قانونی حکومت مرد کی گھر پرقائم نہیں ہوتی۔ تسکین جذبات کے دائرہ سے باہر عورت اپنے معاملات میں آزاد حیثیت رکھتی ہے۔
میراث میں حصہ کیوں؟
شریعت نے شوہر اور بیوی دونوں کا ایک دوسرے کی میراث میں سے حصہ مقرر کیا ہے، اولاد کے ہوتے شوہر بیوی کے ترکہ میں سے چوتھائی اور اولاد نہ ہو تو آدھا حصہ، بیوی کو اولاد کے ہوتے شوہر کے ترکہ میں سے آٹھواں اور اولاد نہ ہو تو چوتھائی، سوال یہ ہے کہ جب موت نے باہمی معاہدہ کے رشتہ کو ختم کر دیا تو پھر موت کے بعد یہ حصہ داری کیسی؟ ماں باپ اولاد اور بھائی بہنوں کا رشتہ تو خون کا اور نسب کا ہے، جو موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے ، لیکن دو اجنبی انسانوں کے درمیان باہمی معاہدہ سے نکاح کا جو رشتہ قائم ہوا تھا وہ موت کے بعد کیسے قائم رہا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رشتہ نکاح کے دو پہلو تھے ، ایک باہمی معاہدہ کا پہلو اور ایک محبت اور رفقات وتعاون کا خلاقی پہلو ،ایک پہلو سے یہ تعلق ختم ہو گیا، لیکن ایک پہلو ( اخلاق ومحبت) سے یہ ختم نہیں ہوا، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں جنت کے اندر بھی یہ رشتہ قائم رہے گا اور ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ہی رکھا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر اولاد کا درجہ ماں باپ سے کم ہو گا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ماں باپ کی خوش نودی کے سبب اولاد کے درجہ میں ترقی دے کر ان کے ساتھ شامل کردے گا۔
شریعت نے اخلاقی حق داری کو قانون کا درجہ دے دیا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ شریعت کہتی کہ اخلاقی طور پر ( نہ کہ فرض کے طور پر) میاں بیوی میں سے ہر ایک کو کچھ دے دیا جائے ، مگر شریعت نے میراث کے فرض قانون کا اسے حصہ بنا دیا۔
سورہٴ طور آیت:21 میں کہا گیا﴿الحقنا بھم ذریتھم وما التناھم من عملھم من شییء﴾․
احادیث میں عورت کے اخلاقی فضائل
ایک حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے نکاح کے جنسی فائدہ کی طرف توجہ دلائی ہے، کیوں کہ خطاب جوانوں کو کیا گیا ہے فرمایا اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص قوت رکھتا ہو ( جنسی قوت مراد ہے ) تو اسے چاہیے کہ وہ شادی کرے، کیوں کہ شادی اس کی نظروں کو نیچا رکھے گی اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت کرے گی، البتہ جو شخص نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھا کرے، حدیث میں ”باء“ کا لفظ خاص قوت( مصاحبت) کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور استطاعت کا لفظ عام ہے، جس میں مالی طاقت بھی داخل ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے دونوں قسم کی قوتوں کا تذکرہ کر دیا۔ حاصل یہ کہ یہاں بیو ی کی گھریلو زندگی قانونی دائرہ تک محدود رہنے سے چل نہیں سکتی۔
اس گھریلو زندگی کی گاڑی کو میاں بیوی دونوں کے اخلاقی فرائض اور اخلاقی حقوق کی ادائیگی ہی چلا سکتی ہے او رعملی طور پر ایساہی ہوتا ہے عورت اور مرد اور دونوں کے رشتہ دار اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں او رمیاں بیوی میں اگر کوئی کوتاہی کرتا ہے تو رشتہ دار اسے سمجھاتے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایک اچھی بیوی کی تعریف کرتے ہوئے اس کے اخلاقی فرائض کو نمایاں کیا ہے ، کسی نے پوچھا : من افضل النساء یا رسول الله؟ حضور بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا: بہترین عورت وہ ہے کہ اس کا شوہر جب گھر سے چلا جائے تو اس کی املاک او راس کے بال بچوں کی حفاظت کرے اور جب وہ گھر میں داخل ہو تو اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ کر خوش کر دے اور جب وہ کسی جائز کام کا حکم دے تو اس کی تعمیل کرے۔
اخلاقی طور پر یہ عورت کے فرائض کی مکمل فہرست ہے ،ان فرائض میں قانونی اور اخلاقی دونوں قسم کے فرائض شامل ہیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: ”النکاح نصف الایمان، والنکاح نصف الدین“․ نکاح مرد وعورت کے حق میں آدھا ایمان اور آدھا دین ہے، یعنی دین کے تقاضوں کی تکمیل میں ایمان کا نصف حصہ ہے۔
نیک عورت کی تعریف
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے نیک عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ قرار دیا، فرمایا دنیا تمام کی تمام صرف متاع ہے، عارضی طور پر برتنے کی چیز ہے او را س متاع میں بہترین متاع اور بہترین سامانِ حیات نیک عورت ہے ۔ایک حدیث میں مال دار عورت اور خوب صورت عورت سے مقابلہ کرتے ہوئے حضور صلی الله علیہ وسلم نے نیک عورت کو ترجیح دی اور اسے باعث برکت قرار دیا۔

Flag Counter