Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

3 - 15
***
ڈاڑھی کا وجوب
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا 
یہ حدیث صاف طور سے بتلا رہی ہے کہ عام صحابہ کرام تمام سال میں ڈاڑھی کا اگلا اور لانبا حصہ کترواتے نہیں تھے، ہاں! جب حج اور عمرہ کرتے تھے تو ایک مشت سے زائد حصہ کو کتروادیتے تھے۔ نیز جناب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کم از کم ایک مشت، بلکہ اس سے زائد اتنی ثابت ہوتی ہے جس میں تخلیل ( خلال ) فرماتے تھے ۔ کنگھی سے درست فرمایا کرتے تھے ۔ وہ اتنی بڑی گنجان تھی کہ اس نے سینہٴ مبارک کے اوپر کے حصہ کو طول وعرض کو بھر لیا تھا۔
حضرت عمار بن یاسر، عبدالله بن عمر، حضرت عمر، حضرت ابوہریرہ ، حضرت جابر رضی الله عنہم کے اقوال وافعال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھتے تھے اور رکھواتے تھے۔ تمام دوسرے صحابہٴ کرام کا بھی یہی عمل ہونا التزاماً ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ڈاڑھی لمبی رکھتے تھے۔ بجزحج عمرہ کے کترواتے نہیں تھے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام او رامت کو ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور اس عمل کو تمام مسلمانوں کے لیے مابہ التمیز قرار دیا ہے کہ یہ ان کا مخصوص شعار اور یونیفارم ہو گا، نہ منڈوانا جائز نہ خشخشی رکھنا، نہ چھوٹی رکھنا۔ ( ملتقط از ڈاڑھی کا فلسفہ)
حضرت مولانا الحاج قاری محمد طیب صاحب  نے اپنے رسالہ ”ڈاڑھی کی شرعی حیثیت“ میں اس مضمون کو تفصیل سے تحریر فرمایا ہے او رمقدار قبضہ کو قرآن پاک ،احادیث اور آثار صحابہ سے ثابت فرمایا ہے ۔ اس میں تحریر فرمایا ہے کہ شیخ ابن ہمام، صاحب فتح القدیر نے یہ دعوی فرمایا ہے کہ :”واما الاخذ منھا، وھی دون القبضة کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال، فلم یبحہ احد“․
ترجمہ:” یعنی ڈاڑھی کا کٹانا، جب کہ وہ مقدار قبضہ سے کم ہو، جیسا کہ بعض مغربی لوگ او رمخنث قسم کے انسان یہ حرکت کرتے ہیں ، اس کو کسی نے بھی مباح قرار نہیں دیا۔ یعنی تمام فقہا ئے امت اس پر متفق ہیں کہ ڈاڑھی کا مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں۔ اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے اس کے وجوب کی ۔ حضرت امام محمد اپنی کتاب الآثار میں تحریر فرماتے ہیں:”محمد قال: اخبرنا ابو حنیفة، عن الھیثم، عن ابن عمر کان یقبض علی لحیتہ، ثم یقص ما تحت القبضة․ قال محمد: وبہ ناخذ، وھو قول ابی حنیفہ․“
ترجمہ: حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم سے روایت کیا امام ابوحنیفہ نے اور وہ روایت کرتے ہیں ہیثمسے اور وہ ابنِ عمر سے کہ وہ یعنی ابن عمر اپنی ڈاڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھر سے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی ہے کتردیتے تھے۔ امام محمد نے فرمایا کہ ہم اسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور یہی قول ہے امام ابوحنیفہ کا۔
اوجز المسالک میں اس سلسلہ میں ائمہ اربعہ وغیرہ دوسرے علما کے مذاہب کو مدلل اور مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی میں حضرات شافعیہ کا راجح اور پسندیدہ قول ہے کہ اس کو علیٰ حالہ باقی رکھا جائے۔ اور یہی قول حنابلہ کا ہے۔ اور مالکیہ کا مذہب مختار یہ ہے کہ جو ڈاڑھی حد سے زیادہ بڑھ جائے اس کو کم کیا جائے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ایک مشت سے زائد رکھی نہ جائے اور حضرات حنفیہ کے یہاں مستحب یہ ہے کہ ایک مشت سے جتنی زائد ہے ا س کو کاٹ دینا چاہیے۔
فصل ثانی
حضرت تھانوی نور الله مرقدہ اصلاح الرسوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ منجملہ ان رسوم کے ڈاڑھی منڈانا یا کٹانا ،اس طرح کہ ایک مشت سے کم رہ جائے یامونچھیں بڑھانا، جو ا س زمانہ میں اکثر نوجوانوں کے خیال میں خوش وضعی سمجھی جاتی ہے۔
حدیث میں ہے کہ بڑھاؤ ڈاڑھی کو اور کترواؤ مونچھوں کو۔ روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے صیغہٴ امر سے دونوں حکم فرمائے او رامر حقیقتاً وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم واجب ہیں ۔ اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے۔ پس ڈاڑھی کٹانا او رمونچھیں بڑھانا دونوں حرام فعل ہیں ، اس سے زیادہ دوسری حدیث میں مذکور ہے،ارشاد فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو شخص اپنی لبیں نہ لے وہ ہمارے گروہ سے نہیں ۔ روایت کیا اس کو احمد وترمذی او ر نسائی نے۔ جب اس کا گناہ ہونا ثابت ہوگیا تو جو لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور ڈاڑھی بڑھانے کو عیب جانتے ہیں ۔ بلکہ ڈاڑھی والوں پر ہنستے ہیں اور ان کی ہجو کرتے ہیں ۔ ان سب مجموعہ امور سے ایمان کا سالم رہنا از بس دشوار ہے۔ ان لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور ایمان اور نکاح کی تجدید کریں اور اپنی صورت موافق حکم الله اور رسول کی بنادیں اور عقل بھی کہتی ہے کہ ڈاڑھی مردوں کے لیے ایسی ہے جیسے عورتوں کے لیے سر کے بال کہ دونوں باعثِ زینت ہیں۔
جب عورتوں کا سرمنڈانا بدصورتی میں داخل ہے تو مردوں کا ڈاڑھی منڈانا خوب صورتی کیسے ہے ۔ کچھ بھی نہیں ، رواج نے بصیرت پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب! تُرک بھی منڈاتے ہیں، ہم ان کی تقلید کرتے ہیں۔ اس کا وہی جواب ہے کہ عام آدمیوں کا فعل، جو خلاف شرع ہو حجت نہیں ، جو منڈاتا ہے بُرا کرتا ہے، چاہے کسی ملک کا رہنے والا ہو ۔
بعض لوگ اپنے کو کم عمر ظاہر کرنے کو منڈاتے ہیں کہ بڑی عمر میں تحصیل کمال کرنا موجب عار ہے۔ یہ بھی ایک لغو خیال ہے ، عمر تو ایک خداوندی عطیہ ہے، جتنی زیادہ نعمت ہے اس کا چھپانا بھی ایک قسم کا کفرانِ نعمت ہے اور بڑی عمرمیں تو کمال حاصل کرنا زیادہ کمال کی بات ہے کہ بڑا ہی شوقین ہے، جو اس عمر میں بھی کمال کی دھن میں لگا رہتا ہے ۔ اور چند بے عقلوں کے نزدیک یہ موجب عار ہے تو بہت سے کافروں کے نزد یک مسلمان ہونا موجب عار ہے تو نعوذ بالله! کیا اسلام کو بھی جواب دے بیٹھیں گے؟ جیسے کفار کے عار سمجھنے سے مذہبِ اسلام کو ترک نہیں کرتے، فساق کے عار سمجھنے سے وضع اسلام کو کیوں عار سمجھا جاوے؟ یہ سب شیطانی خیالات ہیں۔ سخت افسوس یہ ہے کہ بعض طالب علم عربی پڑھنے والے اس بلا میں مبتلا ہیں، ان کی شان میں بجز اس کے کیا کہا جائے کہ: 
”چار پائے بروکتابے چند“
ان لوگوں پر سب سے زیادہ وبال پڑتا ہے ۔ اوّل تو اوروں سے زیادہ واقف پھر اوروں کو نصیحت کریں ، مسئلے بتائیں خود بد عمل ہوں۔ عالم بے عمل کے حق میں کیا کیا وعیدیں قرآن اور حدیث میں وارد ہیں ۔ پھر ان کو دیکھ کر او رجاہل گمراہ ہوتے ہیں ان کی گمراہی کا وبال ان ہی کے برابر ان پر پڑتا ہے ۔ جیسے اوپر بیان ہوا کہ جو شخص باعث ہوتا ہے اس گناہ کا وہ بھی شریک اس کے وبال کا ہوتا ہے ۔
میرے نزدیک مدرسین او رمہتممین مدارس اسلامیہ پر واجب ہے کہ جو طالب ایسی حرکت کرے یا کوئی امر خلافِ وضع شرعی کرے۔ اگر توبہ کر لے فبہا، ورنہ مدرسہ سے خارج کر دینا چاہیے، ایسے شخص کو مقتدائے قوم بنانا تمام مخلوق کو تباہ کرنا ہے #
بے ادب را علم وفن آموختن
دادن تیغ است دست راہزن
اور یاد رہے کہ نائی کو بھی جائز نہیں کہ کسی کے کہنے سے ایسا خط بنا دے جو شرعاً ممنوع ہو، خواہ ڈاڑھی کا یا سر کا، کیوں کہ گناہ کی اعانت بھی گناہ ہے۔ اس کو چاہیے کہ عذر وانکار کر دے۔ (از رسالہ اصلاح الرسوم)
بعض سعادت مند نائی ایسے بھی ہوتے ہیں، جو باوجود ضرورت مند ہونے کے، ڈاڑھی مونڈنے سے بڑی صفائی سے انکار کردیتے ہیں۔ اگرچہ ایسے بہت کم ہوتے ہیں ۔ اس ناکارہ کو اپنے جاننے والوں میں سے کئی سے سابقہ پڑا کہ انہوں نے بڑی پریشانیاں اٹھائیں ۔ مگر ڈاڑھی نہ مونڈنے کا جو عہد کیا تھا اس کو خوب نبھایا۔ ابھی چند سال کا قصہ ہے کہ ایک صاحب پٹنہ بہار کے رہنے والے حاجی پیدل کے نام سے حج کے لیے جارہے تھے۔ جو ہر پانچ قدم پر دو رکعت نفل پڑھتے تھے، ان کے بہت سے اعزّہ جواونچے عہدوں پر تھے ، ان کے سفر کی خبر رکھتے تھے اور جب کسی ایسی جگہ پر جہاں ریل کی سہولت ہو جانے کا حال معلوم ہوتا تو وہ ریل سے ان سے ملنے آیا کرتے تھے ، وہ حاجی صاحب جب سہارنپور پہنچے تو میرے مخلص دوست اور حضرت اقدس رائے پوری نورالله مرقدہ کے مریدراؤ یعقوب علی خاں کے یہاں قیام ہوا، غالباً آگرہ کے ایک ڈپٹی صاحب ان سے ملاقات کے لیے راؤ صاحب کے مکان پر پہنچے اورحجامت کے لیے نائی کو بلایا، اس نے بہت بہتر حجامت بنائی، جس سے وہ صاحب بہت خوش ہوئے ، لیکن جب ڈاڑھی منڈانے کا وقت آیا۔ تب اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ حضور! یہ کام میں نے عمر بھر نہیں کیا، اس پر مہمان بہت خوش ہوئے اور یاد پڑتا ہے کہ اس نائی کو کچھ انعام بھی دیا۔
حضرت شیخ الاسلام مدنی نورالله مرقدہ اپنے رسالہ ڈاڑھی کے فلسفہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہر نظامِ سلطنت وسیاست میں مختلف شعبوں کے لیے کوئی نہ کوئی یونیفارم مقرر ہے، پولیس کے یونیفارم اور ہیں ، فوج کا اور ہے ، سوار کا اور ہے، پیادہ کا اور ہے، برّی فوج کا اور ہے،بحری فوج کا اور ہے ، ڈاک خانہ کا اور ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر اس پر مزید سختی اور تاکید یہاں تک ہے کہ ڈیوٹی ادا کرتے وقت اگر یونیفارم میں کوئی ملازم نہیں پایا جاتا تو مستوجب سزا شمار کیا جاتا ہے اور جس طرح یہ امر ایک نظام سلطنت اور حکومت میں ضروری خیال کیا جاتا ہے ، اسی طرح اقوام وملل میں بھی ہمیشہ اس کا خیال رکھا جاتا ہے اگر آپ تفحص(معلوم) کریں تو انگلینڈ، فرانس، جرمنی وغیرہ کو پائیں گے کہ وہ اپنے نشانات، جھنڈے، یونیفارم او رنشانات کو محفوظ رکھنا از حد ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اس میں خلل پڑنے سے سخت سے سخت وقائع پیش آجاتے ہیں ۔ کسی حکومت کے جھنڈے کو گرادیجیے ، کوئی توہین کر دیجیے ، دیکھیے کس طرح جنگ کی تیاری ہو جاتی ہے۔
الغرض یہ طریقہٴ امتیاز شعبہ ہائے مختلفہ اور اقوام وحکومات اور ملل کا ہمیشہ سے او رتمام اقوام میں اطرافِ عالم میں چلا آتا ہے، اگر یہ نہ ہو تو کوئی محکمہ اور کوئی قوم اور کوئی حکومت دوسرے سے تمیز نہ کرسکے۔ ہم کو کس طرح سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ فوجی ہے یا ملکی، یہ پولیس ہے یا ڈاکیہ؟ ہر زمانہ او رہر ملک میں اس کا لحاظ ضروری سمجھا گیا ہے او رسمجھا جاتا ہے۔
جو قوم اور جو ملک اپنے یونیفارم او رنشان کی محافظ نہیں رہی وہ بہت جلد دوسری قوموں میں جذب ہو گئیں۔ حتیٰ کہ اس کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا۔ سکھّوں نے اپنی امتیازی وردی قائم کی، سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو محفوظ رکھا۔ آج ان کی قوم امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور زندہ قوم شمار کی جاتی ہے۔
انگریز سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں آیا، تقریباً ڈھائی سو برس گزر گئے، نہایت سرد ملک کا رہنے والا ہے ، مگر اس نے اپنا یونیفارم کوٹ پتلون، ہیٹ، ٹائی نکٹائی اس گرم ملک میں بھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو 35 کروڑ افراد والا ملک اپنے میں ہضم نہ کر سکا، اس کی قوم اور ملت علیحدہ ملت ہے۔
مسلمان اس ملک میں آئے اور تقریباً ایک ہزار برس سے زائد ہوتا ہے، جب سے آئے ہیں ، اگر وہ اپنے خصوصی یونیفارم کو محفوظ نہ رکھتے تو آج اسی طرح ہندو قوم نظر آتے، جیسے کہ مسلمانوں سے پہلے آنے والی قومیں ہضم ہو کر اپنا نام ونشان مٹا گئیں، آج بجز تاریخی صفحات کے ان کا نام ونشان کرہٴ ارض پر نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں نے صرف یہی کیا کہ اپنا یونیفارم رکھا، اس لیے ان کی ایک مستقل ہستی ہندوستان میں قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات رکھیں گے، رہے گی اور جب چھوڑ دیں گے مٹ جائیں گے۔
مذکورہ بالا معروضات سے بخوبی واضح ہے کہ قوم او رمذہب کا دنیا میں مستقل وجود جب ہی قائم ہو سکتا ہے اور باقی بھی جب ہی رہ سکتا ہے جب کہ وہ اپنے لیے خصوصیات وضع قطع میں، تہذیب وکلچر میں ، بودوباش میں، زبان او رعمل میں اختیار کرے۔
اس لیے ضروری تھا کہ مذہب اسلام جو کہ اپنے عقائد، اخلاق واعمال وغیرہ کی حیثیت سے تمام مذاہب دنیوی اور تمام اقوام عالم سے بالاتر تھا اور ہے ، خصوصیات اور یونیفارم مقرر کرے او ران کے تحفظ کو قومی اور مذہبی تحفظ سمجھتا ہو ، ان کے لیے جان لڑا دے، اس کی وہ خصوصیات اور یونیفارم خداوندی تابعداروں کے یونیفارم ہوں جن سے وہ الله تعالیٰ کے سرکشوں اور دشمنوں سے تمیز کر سکے۔
(ان ہی کو شعار اسلام کہا جاتا ہے ) او ران کی بنا پر باغیان اور بندگانِ بار گاہ الوہیت میں تمیز ہوا کرے۔ چناں یہی راز ”من تشبہ بقوم فھو منھم“ کا ہے ۔ جس پر بسا اوقات نوجوانوں کو بہت غصہ آجاتا ہے۔ اسی بنا پر جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے تابعداروں کے لیے خاص خاص یونیفارم تجویز فرمائے۔ کہیں فرمایا جاتا ہے : ”فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس“․
کہیں اہل کتاب سے مانگ نکالنے میں مخالفت اختیار کی گئی ۔ اسی بنا پر ازار اور پاجامہ میں ٹخنہ کھولنے کا حکم کیا گیا ہے کہ اہل تکبر سے تمیز ہو جائے ۔ اس کے بعد متعدد احادیث، جو اُوپر گزر چکی ہیں، لکھنے کے بعد حضرت  نے تحریر فرمایا۔ ” خلاصہ یہ نکلا کہ یہ خاص یونیفارم اور شعار ہے جو کہ مقربان بار گاہ اُلوہیت کا ہمیشہ سے یونیفارم رہا ہے۔ اور پھر دوسری قومیں اس کے خلاف کو اپنا یونیفارم بنائے ہوئے ہیں، جو کہ الله تعالیٰ کے قوانین کوتوڑنے والی اور اس سے بغاوت کرنے والی ہیں۔
علاوہ ازیں ایک محمدی کو حسب اقتضائے فطرت وعقل لازم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آقا کا سارنگ ڈھنگ ، چال چلن، صورت سیرت، فیشن کلچر وغیرہ بنائے او راپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن او رکلچر سے پرہیز کرے، ہمیشہ عقل وفطرت کا تقاضہ یہی رہا ہے۔ اور یہی ہر قوم اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ آج یورپ سے بڑھ کر روئے زمین پر حضرت محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا اور مسلمانوں کا دشمن کون ہے؟ واقعات کو دیکھیے، اس بنا پر بھی جو ان کے خصوصی شعار اور فیشن ہیں ہم کو ان سے انتہائی متنفر ہونا چاہیے خواہ، وہ کرزن فیشن ہو یا گلیڈا سٹون فیشن ہو۔ خواہ وہ فرنچ فیشن ہو یا امریکن،خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتا ہو یا بدن سے خواہ وہ زبان سے ،متعلق ہو یا تہذیب وعادات سے ، ہر جگہ اورہر ملک میں یہی امر طبعی اور فطرت شمار کیا گیا ہے کہ دوست کی سب چیزیں پیاری ہوتی ہیں اور دشمن کی سب چیزیں مبغوض اور اوپری، بالخصوص جو چیزیں دشمن کا خصوصی شعار ہو جائیں۔
اسی لیے ہماری جدوجہد یہ ہونی چاہیے کہ ہم غلامانِ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم او ران کے فدائی بنیں، نہ کہ غلامان کرزن وہارڈنگ، فرانس وامریکا وغیرہ ، باقی رہا امتحان مقابلہ یا ملازمتیں یا آفس کے ملازموں کے طعنے وغیرہ تو یہ نہایت کمزور امر ہے سکھ امتحانِ مقابلہ بھی دیتے ہیں، چھوٹے اور بڑے عہدوں پر بھی مقرر ہیں ، اپنی وردی پر مضبوطی سے قائم ہیں ، کوئی ان کو ٹیڑھی اور بینکی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ باوجود اپنے قلیل التعداد ہونے کے سب سے زیادہ ملازمتیں اور عہدے لیے ہوئے غرار ہے ہیں ۔ “( ماخوذ ڈاڑھی کا فلسفہ)
مجھ سے 1947ء میں بہت سے نوجوانوں نے خود کہا کہ ہم ڈاڑھی منڈاتے تھے مگر اس قتل عام کے زمانہ میں اس ڈر سے رکھ لی کہ نہ معلوم کہاں مارے جاویں اور ہمیں لوگ ہندوسمجھ کر جلادیں، یہ خطرہ تو ہر وقت موجود ہے ، نہ موت کا وقت معلوم ہے نہ جگہ۔
مولانا سعید احمد پالن پوری مدرس دارالعلوم دیوبند نے اپنے رسالہ” ڈاڑھی او رانبیاء کی سنتیں“ میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی منڈانے کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، ایک فرد بھی امت میں اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ اس کے بعد علما کی چند تصریحات نقل کی ہیں۔ جس میں صاحبِ منہل شارح ابوداؤد کی یہ عبارت نقل کی ہے۔
”فلذلک کان حلق اللحیة محرما عند ائمة المسلمین المجتھدین: ابی حنیفة ومالک والشافعی واحمد وغیرھم“․
(اسی وجہ سے ڈاڑھی کا منڈانا سب اماموں کے نردیک حرام ہے ، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہم) اس کے بعد حضرت تھانوی نورا لله مرقدہ کا قول نقل کیا ہے ۔ ”قولہ: لم یبحہ احد: نص فی الاجماع“ یعنی صاحب درمختار کا قول ” لم یبحہ احد“ منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔ اس کے بعد فقہائے امت کے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔
حضرت مولانا عاشق الہی صاحب نورالله مرقدہ نے اپنے رسالہ ” ڈاڑھی کی قدروقیمت“ میں مذاہب اربعہ کے فقہاء کی عبارتیں نقل کی ہیں، اس میں شافعیہ کی کتاب العباب سے نقل کیا ہے ۔ ” قال ابن الرفعة: ان الشافعی نص فی الام بالتحریم“․
”امام ابن الرفعہ کہتے ہیں کہ کتاب الام میں حضرت امام شافعی نے خود اس کے ( یعنی حلق لحیہ کے) حرام ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔“
اس کے بعد کتاب الابداع سے مالکیہ کا مذہب نقل کیا ہے۔ جس کی عبارت کتاب اللحیہ فی الاسلام میں نقل کی ہے۔
” وقد اتفقت المذاہب الاربعة علی وجوب توفیر اللحیة وحرمة حلقھا، ومذہب السادة المالکیة حرمة حلق اللحیة، وکذا قصھا اذا کان یحصل بھا المثلة“․
”بلاشبہ مذاہب اربعہ متفق ہیں اس بات پر کہ ڈاڑھی بڑھانا واجب ہے او را س کا منڈانا حرام ہے اور اسی طرح اس کا کتروانا بھی حرام ہے جب کہ اس سے صورت بگڑے۔“
”المعتمد حرمة حلقھا، ومنھم من صرح بالحرمة، ولم یحک خلافا ،کصاحب الانصاف“․
”معتبر قول یہی ہے کہ ڈاڑھی منڈانا حرام ہے او ربعض علما مثلاً مؤلف انصاف نے حرمت کی تصریح کی ہے اور اس حکم میں کسی کا بھی خلاف نقل نہیں کیا۔“
اسی طرح اور دوسرے حضرات نے بھی ڈاڑھی کے وجوب پر ائمہ کا اجماع نقل کیا ہے، چناں چہ عبدالرحمن القاسم اپنے رسالہ میں، جو اسی موضوع پر ہے، تحریر فرماتے ہیں۔
”قال شیخ الاسلام ابن تیمیة رحمہ الله تعالی: یحرم حلق اللحیة: وقال القرطبی: لایجوز حلقھا، ولا نتفھا، ولا قصھا․ وحکی ابو محمد بن حزم الاجماع ان قص الشارب واعفاء اللحیة فرض، واستدل بحدیث ابن عمر: خالفوا المشرکین احفوا الشوارب واعفوا اللحی، وبحدیث زید بن ارقم المرفوع: من لم یأخذ شاربہ فلیس منا․ صححہ الترمذی“․
”شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حلق لحیہ کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی ہے اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی کا منڈانا او راس کا نوچنا اور اس کا کترنا سب ناجائز ہے۔ اس طرح امام ابو محمد ابن حزم ظاہری نے اس پر علما کا اتفاق نقل کیا ہے کہ مونچھوں کا تراشنا اور ڈاڑھی کا بڑھانا فرض عین ہے اور اس کی دلیل میں حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث پیش فرمائی کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں تراشو اور ڈاڑھی بڑھاؤ اور حضرت زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث سے، جس میں وہ حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی مونچھیں نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔“
اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہود ونصاریٰ کی مشابہت کی مخالفت کی روایات نقل کرکے لکھا ہے کہ ان کی مخالفت شریعت میں مطلوب ہے اور ظاہر میں مشابہت ان سے محبت اور دوستی پیدا کرتی ہے، جیسا کہ باطنی محبت ظاہری مشابہت میں اثرانداز ہوتی ہے ۔ یہ امور تجربہ سے ظاہر ہیں۔
حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ جو کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرے او راسی پر مر جائے تو ان ہی کے ساتھ حشر ہو گا۔ تمہید شرح مؤطا میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کا منڈانا حرام ہے اور مردوں میں سے ہیجڑے ہی اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حضرت عمر او رابن ابی لیلیٰ قاضی مدینہ نے اس شخص کی شہادت رد فرما دی ، جو ڈاڑھی نوچتا تھا۔ اس رسالہ میں بہت سی روایات اور آثار ڈاڑھی منڈانے کے ذکر کیے ہیں۔
کسریٰ کے قاصدوں کا قصہ مختصراً پہلے گزر چکا۔ مولانا میرٹھی نے اس کو مفصل لکھا ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں۔ ” کہ خسرو پرویز شاہ ایران کے پاس حضرت عبدالله بن حذافہ کے ہاتھ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا والا نامہ پہنچا تو اس نے نامہٴ مبارک دیکھتے ہی غصہ میں اس کو چاک کر دیا۔ اور زبان سے کہا کہ ہماری رعایا کا ادنیٰ شخص ہمیں خط لکھتا ہے اور اپنانام ہمارے نام سے پہلے لکھتا ہے۔ اس کے بعد خسرو( کسریٰ) نے باذان کو، جو یمن میں اس کا گورنر تھا اور عرب کا تمام ملک اس کے زیر اقتدار سمجھاجاتا تھا، یہ حکم بھیجا کہ اس شخص (آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو۔
باذان نے ایک فوجی دستہ مامور کیا، جس کے افسر کا نام خرخسروتھا، نیز حالات محمدیہ پر گہری نظر ڈالنے کے لیے ایک ملکی افسر بھی اس کے ساتھ کیا، جس کا نام بانویہ تھا۔ یہ دونوں افسر جس وقت بارگاہِ رسالت میں پیش کیے گئے تو رعب نبوت کی وجہ سے ان کی رگ ہائے گردن تھر تھرارہی تھی ، یہ لوگ چوں کہ آتش پرست پارسی تھے ، اس لیے ان کی ڈاڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں اور اپنے بادشاہ کو رب کہا کرتے تھے ، ان کے چہرے پر نظر ڈال کر آپ کو تکلیف پہنچی او رپہلا سوال ان سے یہ کیا کہ ایسی صورت بنانے کو تم سے کس نے کہا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے رب کسری نے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مگر میرے رب نے تو مجھے یہ حکم دیا ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤں اور مونچھیں کترواؤں۔ قصہ طویل ہے۔ مگر یہاں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ غیر مسلم سفیروں کی بھی اس صورت اور شکل سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو طبعی تکلیف ہوئی ۔ اس قصہ کو مولانا محمد یوسف صاحب رحمة الله علیہ نے ” حیاة الصحابہ“ میں مختلف سندوں سے ذکر کیاہے۔
مسلمانوں کے سوچنے کی بات ہے کہ مرنے کے بعد سب سے پہلے قبر میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا سامنا ہو گا۔ ایسے خلاف سنت چہرے کو دیکھ کر اس ذات پاک صلی الله علیہ وسلم کو کتنی تکلیف ہو گی ، جس کی شفاعت پر ہم سب مسلمانوں کی اُمیدیں وابستہ ہیں؟ اس کے بعد مولانا میرٹھی لکھتے ہیں کہ مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا۔ ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہو کر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہو گیا۔ اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا ، جس وقت ان کے پاس پہنچا تو مرزا ڈاڑھی کا صفایا کر رہے تھے۔ اس نے تعجب سے دیکھا اور کہا آغاریش می تراشی ( جناب آپ ڈاڑھی منڈارہے ہیں؟!) مرزا نے جواب دیا، بلے! موئے می تراشم، ولے دل کسے نمی تراشم (ہاں! بال تراش رہا ہوں، کسی کا دل نہیں چھیل رہا ہوں )۔
گویا” دل بدست آور کہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے مگر مخلوق کا دل نہ دکھائے۔ ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا” آرے دل رسول می خراشی“ کسی کا دل دکھانا چہ معنی تم تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو ، یہ سن کر مرزا کو وجدآگیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے ، ہوش آیا تو یہ شعر زبان پر تھا #
جزاک الله چشمم باز کر دی
مرا باجانِ جاں ہمراز کر دی
پس اگر محبوبِ خدا کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھاؤ۔ مولانا نے جو شعر لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے کہ تونے میری آنکھ کھول دی اور مجھے جان جاں کے ساتھ ہمراز کر دیا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم، الله تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اس لیے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی اذیت الله جل شانہ کی اذیت ہے ۔ اس لیے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ من آذانی فقد اذی الله تعالیٰ“جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی۔ جب غیر مسلموں کے ڈاڑھی منڈانے اور مونچھیں بڑھانے سے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی تو جو لوگ امتی کہلاتے ہیں ان کے اس ناپاک فعل سے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟
مولانا میرٹھی تحریر فرماتے ہیں کہ اب ڈاڑھی کی طبی حیثیت بھی ملاحظہ فرمائیے ، طبِ یونانی تو پہلے ہی طے کر چکی تھی کہ ڈاڑھی مرد کے لیے زینت او رگردن اور سینہ کے لیے بڑی محافظ ہے، مگر اب تو ڈاکٹر بھی الٹے پاؤں لوٹتے ہیں ۔ چناں چہ ایک ڈاکٹر لکھتا ہے کہ ڈاڑھی پر بار بار اُسترا چلانے سے آنکھوں کی رگوں پر اثر پڑتا ہے اور ان کی بینائی کمزور ہوتی جاتی ہے ، دوسرا ڈاکٹر لکھتا ہے کہ نیچی ڈاڑھی مضر صحت جراثیم کو اپنے اندر اُلجھا کر حلق اور سینہ تک پہنچنے سے روک لیتی ہے اور ایک ڈاکٹر یہاں تک لکھتا ہے کہ اگر سات نسلوں تک مردوں میں ڈاڑھی منڈانے کی عادت قائم رہی تو آٹھویں نسل بے ڈاڑھی کے پیدا ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نسل میں مادہ کم ہوتے ہوتے آٹھویں نسل میں مفقود ہو جائے گا۔ یہ اس ڈاکٹر کی پیشین گوئی نہیں ہے، جس کا تعلق نجوم سے ہے بلکہ یہ ایک طبعی اصول ہے ، صاف لہجہ والا بچہ اگر بار بار کسی ہکلے کی نقل اُتارتارہتا ہے تو چند ہی روز میں ہکلا بن جاتا ہے ۔ او رپھر کتنی ہی کوشش کرے ایک بات بھی بغیر ہکلاہٹ کے نہیں کر سکتا۔ اس بحث میں سب سے زیادہ واضح تحریر امریکن ڈاکٹر چارلس ہومر کی ہے، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا بلفظہ ترجمہ یہ ہے۔
”ایک مضمون نگار نے ڈاڑھی مونڈنے کے لیے برقی سوئیاں ایجاد کرنے کی مجھ سے فرمائش کی ہے ۔ تاکہ وہ تمام وقت جو ڈاڑھی مونڈنے کی نذر ہوتا ہے بچ جائے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا، آخر ڈاڑھی کے نام سے لوگوں کو لرزہ کیوں چڑھتا ہے۔ لوگ جب اپنے سروں پر بال رکھتے ہیں تو پھر چہرے پر ان کے رکھنے میں کیا عیب ہے؟ کسی کے سر پر سے اگر کسی جگہ کے بال اُڑ جائیں تو اسے گنج کے اظہار سے شرم آیا کرتی ہے ۔ لیکن یہ عجیب تماشا ہے کہ اپنے پورے چہرے کو خوشی سے گنجا کر لیتے ہیں۔ اور اپنے کو ڈاڑھی سے محروم کرتے ذرا نہیں شرماتے ، جو کہ مرد ہونے کی سب سے زیادہ واضح علامت ہے ، ڈاڑھی اور مونچھیں انسان کے چہرے کو مردانہ قوت ، استحکام سیرت، کمالِ فردیت اور علامات امتیاز بخشتی ہیں اور ا س کی بقا او رتحفظ بھی دلیری کی بنا پر ہوتا ہے ، یہی تھوڑے سے بال ہیں جو مرد کو زنانہ صفات سے ممتاز بتاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کے علاوہ وہ بدن کے تمام بالوں میں مرد اور عورت دونوں مشترک ہیں، عورتیں اپنے دلوں میں ڈاڑھی اور مونچھوں کی بڑی قدر رکھتی ہیں اور باطن میں بے ریش مردوں کی زیادہ دلدادہ ہوتی ہیں ۔ اور بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ڈاڑھی اور مونچھیں اچھی معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ فیشن کی غلام اور لباس کی ماتحت ہوا کرتی ہیں اور بدقسمتی سے آج کل ڈاڑھی اور مونچھیں فیشن کی بارگاہ سے مردود ہو چکی ہیں، نتھنوں او رمنھ کے سامنے تھوڑے سے بالوں کی موجودگی ایک اچھی چھلنی کا کام دیتی ہے۔ او رمضرت رساں خاک مٹی اور بہت سے جراثیم ناک یا منھ میں نہیں جانے پاتے۔ لمبی او رگھنی ڈاڑھی گلے کو سردی کے اثرات سے بچائے رکھتی ہے۔“
دیکھیے ڈاکٹر ہومر ، ڈاڑھی منڈانے کو چہرے کا گنج اور فیشن کی غلامی کو زنانہ خصلت بتاتا ہے، اس کے نزدیک استقلال، شجاعت، حوصلہ، ہمت تمام مردانہ خصائل اور زینت کا مدار ڈاڑھی ہے، وہ آپ کے کھانسی، زکام اور نزلہ میں مبتلا رہنے کا سبب آپ کی اس عادت کو قرار دیتا ہے او رپھر آگے لکھتا ہے کہ ڈاڑھی اور مونچھیں پھر دنیا میں واپس آرہی ہیں اور ان ہی کے ساتھ وہ فوقیت بھی واپس آئے گی جو قدرت نے مرد کو عورت پر دی ہے ۔ کسی ڈاڑھی رکھنے والے مرد نے کبھی اپنی بیوی کو نہیں چھوڑاتھا۔ ڈاڑھی والا انسان اپنی ڈاڑھی کی ہمیشہ لاج رکھا کرتا ہے ، اس میں ایک آن ہوتی ہیں ، جو مرد کی شان کو شایان ہے ۔ آخر ایک پورے نوجوان مرد کی یہ تمنا کیوں ہو کہ اس کا چہرہ بچوں کا سا نظرآئے، خدا نے ڈاڑھی اور مونچھیں اسی واسطے بنائی تھیں کہ ان سے مردوں کے چہرے کی زینت ہو ، جو لوگ ڈاڑھی کا مذاق او رمخول اُڑاتے ہیں وہ حضرت یسوع مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کا مذاق او رمخول اُڑاتے ہیں ، اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ڈاڑھی رکھتے تھے۔
دیکھا آپ نے کہ ایک عیسائی اپنے مذہبی اور طبی تحقیق میں مختصر لفظوں میں کیا کچھ کہہ گیا۔ اس کے نزدیک جوان کو امرد، بے ریش بننے کی تمنا کرنا ، رجعت قہقری ہے، انسان پھر بندر بننے کی تمنا کرنے لگے اور انیس صدیاں گزرنے پر بھی اپنے نبی کی اتنی قدر کرتا ہے کہ ڈاڑھی کا مضحکہ اُڑانے والوں کو یسوع مسیح علیہ السلام کا مضحکہ اڑانے والا بتاتا ہے، اس لیے کہ وہ ڈاڑھی رکھتے تھے ، مدعیان اسلام بتائیں کہ وہ کیا قدر کر رہے ہیں سید الانبیا صلی الله علیہ وسلم کی جن کے امتی بن کر قبل قیامت یہی حضور مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے؟
ہم نے چارلس ہو مر کا مضمون بجنسہ درج کر دیا کہ تصرف اورخیانت عیب ہے ، مگر مونچھوں سے متعلق ہمیں اس کی رائے سے اختلاف ہے۔ خود ہومر کو بھی اس کا اقرار ہے کہ حضرت یسوع مسیح کی مونچھیں بڑی ہوئی نہ تھیں ، ورنہ جہاں اس نے اس کا اظہار کیا ہے کہ یسوع مسیح ڈاڑھی رکھتے تھے، وہیں ان کی بڑ ی مونچھیں رکھنے کا بھی ضرور ذکر کرتا ہے۔
مولانا میرٹھی کے رسالہ کا خلاصہ ختم ہوا۔ اس ناکارہ نے جب یہ رسالہ شروع کیا تھا اس وقت صرف مولانا میرٹھی کا رسالہ ذہن میں تھا اور وہ بھی مدینہ میں نہیں تھا ،مگر شروع کرنے کے بعد احباب نے بہت رسالے اس مضمون کے اپنے اپنے پاس سے لا کر دیے تو خیال یہ ہوا کہ ما شاء الله اس سلسلہ میں تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس لیے میں نے تو اپنے رسالہ کو ملتوی کر دیا تھا، مگر بعض دوستوں کا اصرار ہوا کہ مختصر ہی سہی، جب شروع کر دیا تو کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیا جائے۔ میں نے بھی سوچا کہ اب ضرورت کا درجہ تو نہیں ہے ۔ مگرا حیائے سنت کے ثواب میں شرکت تو میری بھی ہو ہی جائے گی ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے تو ان کو میں ایک شعر سنایا کرتا ہوں #
لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکیں
وہ نہ سمجھیں کہ مری بزم کے قابل نہ رہا
سیدالکونین صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم شافع المذنبین کی خوش نودی کے مقابلہ میں احمقوں کا مذاق کیا قابلِ التفات ہو سکتا ہے۔
واخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین، وصلی الله تعالی علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم․

Flag Counter