Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1430ھ

ہ رسالہ

12 - 15
***
کملا داس سے ثریا بننے تک
تحقیق وتحریر: محترم طہٰ حسن
یہ گیارہ دسمبر1999ء کا ایک یادگار دن تھا۔ جنوبی بھارت کے شہر کوچی ( بعض کوچین یا کوچن بھی لکھتے ہیں) میں کیرالا لائبریری کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا ۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس اجلاس میں ایک ایسا اعلان ہونے والا ہے جو اس اجلاس کو نہ صرف عالمی شہرت بخش دے گا، بلکہ اسے تاریخ کے صفحات میں بھی محفوظ کر دے گا ، خود اعلان کرنے والی خاتون بھی اپنے اس اعلان سے آگاہ نہ تھی ۔جب وہ تقریر کرنے کے لیے آئی تو اس نے محسوس کیا کہ ایک نور نے اس کی ذات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اس کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوئے او زبان سے بے ساختہ نکلا” یا الله“ اس کے ساتھ ہی ساری مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا اور حیرت نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سناٹا اس وقت ٹوٹا جب اس نے کہا: 
” اب میں اس کی پرستار ہوں جو اپنی ذات میں یکتا ہے ۔“ یہ اعلان کرنے والی کوئی مسلمان خاتون نہ تھی بلکہ انگریزی اور ملیا لم زبان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ بھارت کی ہندو مصنفہ کملاداس تھی ، جو اعلان کرتے ہی مسلمان ہو چکی تھی ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ” کملاثریا“ کا نام پسند کیا۔13 مئی2009ء کو وہ اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملیں۔
کملاداس جنوبی بھارت کے ضلع تھریسور کے گاؤں پُنا یورکولام میں 31 مارچ1934ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ بالامنی ملیا لم کی مشہور شاعرہ تھیں، جب کہ والد وی ایم نائر ایک اہم اخبار ماتربھومی کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے۔ ان کے ماموں نارایانا مینون بھی ملیا لم زبان کے مشہور شاعر تھے ۔16 سال کی عمر میں 20 سال بڑے مادھوداس سے ان کی شادی ہو گئی، جو ایک بینک کے افسر تھے اور بعد میں آئی ایم ایف کے سینئر مشیر بنے۔
20 سال کی عمر میں انہوں نے لکھنا شروع کر دیا ،مگر وقت کب ملتا تھا؟ ان کا کہنا ہے کہ جب خاوند اور بچے سوجاتے تو لکھنا شروع کر تی اور اس وقت اٹھتی جب گوالا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ اپنی یادداشتوں میں انہوں نے لکھا ہے کہ ” گھر میں صرف ایک کچن ٹیبل ہی تھی جس پر میں سبزیاں کاٹتی تھی۔ جب اس میز سے تمام تھالیاں اور دوسری اشیاء اٹھالی جاتیں تو میں وہاں بیٹھ جاتی اور ٹائپنگ شروع کر دیتی۔“ ان کی سب سے اہم کتاب ”My Story“ جو انگریزی زبان میں ہے، 1976ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 42 سال تھی ۔1984ء میں انہوں نے پارلیمنٹ کے انتخاب میں حصہ لیا، مگر ہار گئیں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد کملا نے بتایا: ” میں نے اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اس مذہب کو قبول کیا ہے ، یہ محبت اور امن وسلامتی کا مذہب ہے ، عورت کو تحفظ دیتا ہے، جس کی مجھے ضرورت ہے ۔ ماہِ رمضان انسانی عقائد کی تبدیلیوں کا مہینہ ہے، لہٰذا میرے اندر بھی یہ تبدیلی آگئی ہے ہندو دیوتا انسانوں کو سزائیں دیتے ہیں، جب کہ الله تعالیٰ کرم فرماتا ہے ، وہ رحمن ورحیم ہے اورکریم ہے ۔ اس کا رحم، محبت، شفقت اور فضل وکرم اس کے غصے اور سزا پر حاوی ہے ۔ بس وہی میرا الله اور محمد صلی الله علیہ وسلم میرے رسول ہیں۔ ماضی میں میرا کوئی مذہب نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ انسان کا کوئی عقیدہ تو ہونا چاہیے ، آخر میں کب تک اس لفافے کی صورت میں رہوں گی جس پر کوئی پتہ درج نہ ہو، الله تعالیٰ مجھے معاف فرما دے میں ہر انسان سے محبت کرتی ہوں ۔“
بعد میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹریو دیتے ہوئے کملا نے بتایا: ” اسلام قبول کرنے پر مجھے کسی کی تنقید کی کوئی پروا نہیں، یہ میرا اپنا فیصلہ ہے ۔ میں نے ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں اور تصویریں اپنے کمرے سے اتار کر مہمان خانہ میں رکھی دی ہیں ۔“ انہوں نے بتایا: ” ہندوؤں نے مجھے صرف دکھ ہی دیے ہیں اور میرے اسیکنڈل ہی بنائے ہیں ، اب اسلام قبول کرکے میں نے نیا جنم لیا ہے ۔ میں نے کچھ قرآن سیکھ لیا اور اس پر تین نظمیں بھی لکھی ہیں، اب میں اپنے گاؤں نالاپت میں ایک مسجد بنواؤں گی۔ اس مسجد میں گونجنے والی اذان کی آواز سے میرے آبائی ہندووانہ گھر کی تصویر بدل جائے گی۔“
کملاداس کے قبول اسلام کی داستان کا آغاز37 برس قبل ہوتا ہے، جب انہوں نے امتیاز اور ارشاد نامی دو مسلمان بچوں کو گود لیا اور انہیں ہندوبنانے کے بجائے ان کی تعلیم وتربیت اسلام کے مطابق کی۔ اس طرح ان کا اسلامی تعلیمات سے واسطہ پڑا اور آہستہ آہستہ اسلام ان کے دل میں گھر بناتا چلاگیا۔ مسلمان گھرانوں سے تعلقات نے بھی دین اسلام کی حقانیت سے ان کے ذہن کو روشن کیا۔ کملا داس نے اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے شوہر کو آگاہ کیا ، شوہر ایک آزاد خیال انسان تھا، اس نے آنے والی تبدیلیوں میں رکاوٹ بننے کے بجائے بیوی کو اسلام کے مزید مطالعہ کی اجازت دے دی ۔ اسلام کے مطالعہ سے ان کے قلب وذہن میں روشنی پھیلنے لگی او رتاریکی دور ہونا شروع ہو گئی۔ اور پھر 11 دسمبر 1999ء کو اس روشنی کی کرنوں نے رام مندر کی تاریکی میں شگاف ڈال دیے۔
برطانوی دور کے معروف ہندو بنگالی دانش ور اور شاعر رابندرناتھ ٹیگور نے ایک بار کہا تھا کہ آئندہ60 سالوں میں اسلام ہندوستان کے ہر گھر کی تقدیر بن جائے گا۔ اگر برصغیر کے مسلمان فرقہ وارانہ مباحث اور نسلی جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے اسلام کی دعوت پھیلانے کی طرف توجہ دیتے ، بھارت کے عوام کو توحید سے آگاہ کرتے تو آج ہندوستان کا مذہبی نقشہ مختلف ہوتا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھی کوئی مثبت کام نہیں کیا۔
15 دسمبر1999ء کو ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پردہ تھا جس نے مجھے اسلام کی طرف کھینچا:” مجھے پردہ بہت پسند ہے ، جو مسلمان عورتیں پہنتی ہیں۔ مجھے مسلمان عورتوں کا مروجہ طرز حیات مرغوب ہے ۔ پردہ نہایت عمدہ اور قابل تعریف لباس ہے، یہ عورت کو تحفظ کا احساس دلاتا ہے ۔“ مزید کہا: ”حقیقت یہ ہے کہ میں گزشتہ 24 سالوں کے دوران میں حجاب اوڑھتی اور اتارتی رہی ہوں، میں نے بازار اور سینما میں اور بیرون ملک بھی حجاب اوڑھاہے، میرے پاس کئی حجاب ہیں۔ پردہ میں عورت قابل احترام ہوتی ہے ، کوئی آپ کو تنگ نہیں کرتا ، مکمل تحفظ ملتا ہے۔“
کملا داس جو کبھی ایک روشن خیال اور آزادیٴ نسواں کی حامی خاتون تھیں ، پردہ کے بارے میں ان کے خیالات پردہ کو جبر کا نام دینے والوں کے منھ پر ایک زبردست طمانچہ ہیں۔ مستشرقین جو آئے روز حجاب کے نام پر مسلمان عورتوں کی تذلیل کرتے ہیں، اسکارف کو میز پو ش، برقعہ کو خیمہ اور نہ جانے کیا کیانام دیتے ہیں ، کملا ثریا نے اپنے خیالات کا اظہار کرکے ان کو اصلیت دکھا دی ہے ۔ حجاب کے بارے میں کملا ثریا کے افکار ان سب لوگوں کے منھ پر ایک تھپڑ ہیں جوعورت کو مساواتِ مرد وزن، عورتوں کو معاشی بہتری اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے نام پر ایک جنسی کھلونا بنانا چاہتے ہیں ۔ کملا ثریا کے خیالات سے ان ترقی پسند اورر وشن خیال لوگوں کو بھی سخت مایوسی ہوئی جو پردے کو مسلمان عورت کی جہالت کا باعث اور پسماندگی کی علامت قرار دیتے ہیں ، اسے ظلم وجبر ، تنگ نظری اور بربریت تک کہتے ہیں اورجن کے خیال میں یہ عورت کی ترقی وخوش حالی اور آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے تو تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
”بھارت میں حقوق نسواں کی تحریک کو کملا داس کے اعلان سے دھچکا لگا ہے کیوں کہ ماضی میں کملا داس آزادی ٴ نسواں کی حامی رہی ہیں، جب کہ اب وہ پردہ کی حمایت اور آزادی کی مخالفت کرنے لگی ہیں، وہ تحفظ کو عورت کی اصل خواہش قرار دے رہی ہیں ۔“ جریدے کے مطابق کملا داس نے کہا کہ اسلام کو پانے کے بعد وہ دنیا کی ہر چیز کو اس نعمت پر قربان کر سکتی ہیں۔
کملا ثریا کا کہنا تھا : ” اسلام عورت کو مکمل آزادی اور مرد کے برابر کا مقام ومرتبہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے ۔ پابندیاں صرف ان معاشروں میں ہیں جہاں اسلامی احکام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اسلام خواتین کے حقوق غصب نہیں کرتا، یہ سماجی ناہمواریاں ہیں جن کے باعث خواتین کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ شوہر اور بزرگوں کی اطاعت گزاری کو میں آزادی سے محرومی تصور نہیں کرتی۔ میرے پاس کافی آزادی ہے، مجھے مزید اس کی کوئی ضرورت نہیں ، آزادی تو میرے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے ۔ میں تو اپنی زندگی میں نظم وضبط کے لیے رہنمائی چاہتی ہوں۔ مجھے تو اپنے تحفظ کے لیے ایک آقا چاہیے۔ میں تحفظ چاہتی ہوں، آزادی نہیں ، میں تو الله کی اطاعت وبندگی کرنا چاہتی ہوں ، میں تو اپنے آپ کو مکمل طور پر الله کی اطاعت میں دے چکی ہوں، میں الله کے احکام اور اس کی مقررہ حدد وقیود پر مطمئن اور خوش ہوں۔“
کملاثریا کے مطابق اسلام کرہٴ ارض کا واحد مذہب ہے جو عورت کی عزت وعظمت او رامتیازو شہرت کو تسلیم کرتا ہے، جب کہ ہندو مت میں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلامی مطالعہ کے دوران اسلام کی حقانیت کی تو وہ قائل ہو چکی تھیں، مگر اسلام قبول کرنے کا اعلان کب کرنا ہے ، اس کا فیصلہ ثریا نے قدرت پر چھوڑ رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج کے طلوع وغروب سے الله تعالیٰ کی ذات اقدس ، اس کی کبریائی ، عظمت اور قدرت کو پہچانا ۔ ثریا نے بھی سورج ہی سے اشارہ لیا۔ انہوں نے بتایا:
” میں مالا بار سے کوچی کی طرف کار میں سفر کر رہی تھی۔ صبح پونے چھ بجے سفر کا آغاز کیا تھا، میں نے طلوع آفتاب کا منظر دیکھا۔ خلاف توقع طلوعِ آفتاب کا رنگ غروب آفتاب جیسا تھا۔ یہ میرے ساتھ سفر کرتا رہا اور سات بجے صبح یہ سفید ہو گیا۔ میں کئی سالوں سے کسی ایسی ہی علامت کا انتظار کر رہی تھی جو یہ بتائے کہ مجھے اسلام کب قبول کرنا ہے ۔ قدرت نے سورج کے بدلتے رنگ سے مجھے قبولِ سلام کا پیغام دے دیا تھا۔“
خلیج ٹائمز اور دیگر کئی جرائد کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا:
” میں اسلام کو نئی ہزاری کے مذہب کے طور پر متعارف کرانا چاہتی ہوں۔ میں لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور فضیلتوں سے آگاہ کروں گی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں، جن خوشیوں کے تجربات سے گزری ہوں، لوگوں کو ان میں شریک کرنا چاہوں گی۔ قبول اسلام کے بعد میں جو اطمینان قلب محسوس کرتی ہیں ، اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی خوشی کبھی محسوس نہیں کی ۔ میں اپنے آپ کو محفوظ اور چاہی جانے والیمحسوس کرتی ہوں۔ میں ایک بوڑھی عورت ہوں اور میں اس محبت کو چاہتی ہوں۔ دولت ایسی خوشیاں نہیں لاسکتی ، مجھے دولت کی کوئی ضرورت نہیں۔“
ڈاکٹر کملاثریا کا قبول اسلام کئی لحاظ سے منفرد تھا، مثلاً یہ کہ:
وہ بھارت کی پہلی عالمی شہرت او رایوارڈ یافتہ ہندو مصنفہ تھی، جس نے اسلام قبول کیا۔
اس نے ایک ایسے وقت اسلام قبل کیا جب بھارت میں تبدیلی مذہب کے خلاف انتہا پسند ہندو بھرپور سرگرم عمل تھے ، تشدد ، قتل او رہر گھٹیاہتھکنڈا اختیار کیے ہوئے تھے۔ انتہائی ظالمانہ حربوں سے وہ مسلمانوں کو بھی ہندو بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھارت میں رہتے ہوئے کسی تنہا فرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسلام قبول کرنے کا اعلان کرکے انتہا پسندوں کی دشمنی مول لے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر ثریا کا اعلان بے انتہا جرأت مندانہ تھا۔
اسے کسی مسلمان مذہبی یا سیاسی لیڈر یا کسی دعوتی تنظیم نے اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں دی ، اس کا قبول اسلام خالصتاً اس کی اسلام کے متعلق تحقیق کے باعث تھا۔
بھارت میں جو بھی مسلمان ہوتا ہے اس پر الزام لگتا ہے کہ اس نے دولت یا کسی عرب ملک کے ویزے کی خاطر اسلام قبول کیا ہے ۔ کملا ثریا پر ایسا کوئی الزام نہیں لگ سکا ،کیوں کہ اس کا تعلق نہ صرف ایک امیر خاندان سے تھا، بلکہ خود اس کی اپنی آمدنی بھی کم نہیں تھی۔
اسلام قبول کرنے والی ہندو خواتین پر یہ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے خوب صورت مسلمان نوجوانوں سے محبت اور شادی کی خاطر اسلام قبول کیا ہے، مگر قبول اسلام کے وقت کملا ثریا کی عمر67 سال تھی، وہ نہ تو کسی کی محبت میں گرفتار ہوئی اور نہ اسے شادی کی ضرورت تھی۔
بھارت میں زیادہ ترنچلی ذات کے ہندو اسلام قبول کرتے ہیں اور کملا ثریا کا تعلق اونچی ذات کے ہندوؤں سے تھا۔
بھارت کی معروف خاتون مصنفہ پروفیسر صلاح جوزف نے کملا ثریا کے قبول اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کے دور میں ثریا کا فیصلہ انتہائی فکر انگیز ہے ، یہ کوئی معمولی یا آسان فیصلہ نہیں ہے، خاص طور پر کسی اونچی ذات کے ہندوکامذہب تبدیل کرنا بہت بڑا فیصلہ ہے۔
مسٹر ذیچاریہ نے کہا:” پیغمبر(صلی الله علیہ وسلم) کی جمہوری وسماجی تعلیمات کے باوجود بدقسمتی سے کیرالا میں اسلام قربانی کا بکرا بنا ہوا ہے ( یعنی بلا قصور، مجرم ٹھہرایا گیا ہے ) لیکن یہ ایک حیران کن خوش آئند بات ہے کہ مادھوی کٹی جیسی ایک ذہین وفطین اور بارسوخ شخصیت نے اسلام قبول کیا ہے ۔ اس سے ہماری سوسائٹی کی لچک کا ایک اظہار ہوتا ہے جو اچھی اقدار کا مظہر ہے۔ قتل وغارت اور پُر تشدد کارروائیوں کی خبروں میں ثریا کے قبول اسلام کی خبر کیرالا کے لیے خاص طور پر ایک خوب صورت خبر ہے۔“
ایک اور مصنف پروفیسر ایم این وجائن نے کہا:” مادھوی کٹی نے سیاسی دیومالائی خرافات جسے ” ہندوازم“ کہا جاتا ہے میں دھماکا کیا ہے ۔“ معروف ادیب او وی وجائن نے کملاثریا کو ان کے جرأت مندانہ فیصلے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہاکہ میں بہت خوش ہوں کہ مادھوی کٹی نے بالآخر اپنی آزادی کا بہترین استعمال کیا ہے۔
باوجود کہ کملا ثریا سنگھ پر یوار کی زبردست حامی رہی تھیں، ہندوؤں کو ان کا فیصلہ ہضم نہ ہو پایا اور انتہا پسندوں نے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دیں۔ کملا ثریا الله تعالیٰ کی ذات او راس کی قدرت کاملہ پر یقین رکھتی تھیں، اس لیے انہوں نے ان دھمکیوں کی کوئی پروانہ کی او رکہا : ” میں اپنا ہر معاملہ الله پر چھوڑ چکی ہوں ، وہ زندگی کے آخری سانس تک میری حفاظت کرے گا۔“
خلیج ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا:” ہندوؤں کی دھمکیوں کی مجھے کوئی پروا نہیں ،میں نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری الله تعالیٰ پر چھوڑ دی ہے ، مجھے یقین ہے کہ وہ میرا سب سے بہتر تحفظ کرے گا، کیوں کہ وہی سب سے بڑا تحفظ دینے والا ہے۔“
ہندوؤں نے ان پر گوروایورمندر سے دیوتا” کرشنا“ کابت چرانے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ وہ اس مورتی کو ” محمد“ بنانا چاہتی ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ تو 14 سال سے مندر ہی نہیں گئی، اس لیے چوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ثریا کے قبول اسلام کے کئی ہفتے بعد خلیج ٹائمز نے لکھا کہ ” بھارتی شہر کو چن کے گاندھی نگرمیں وائل اسٹیڈیم کے قریب سات نمبر فلیٹ ثریا کے قبول اسلام کے بعد سے اب تک لوگوں سے کھچا کچ بھرا ہوا ہے، ثریا کے ٹیلی فون کو پانچ منٹ کا بھی وقفہ نہیں ملتا اور دنیا بھر سے انہیں مبارک باد کے پیغام مل رہے ہیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ قبول اسلام سے مجھے جو سکون قلب میسر ہوا ہے، وہ بیان کی حد سے باہر ہے ، میں نے زندگی میں اس قدر طماننیت کو کبھی محسوس نہیں کیا تھا، مجھے اب موت سے کوئی خوف نہیں ہے ۔ میر ا یہ کامل یقین ہے کہ مرنے کے بعد میرا الله مجھے سہارا دے گا، تاہم اس عمر میں، میں موت کو فراموش نہیں کر سکتی۔ اس سوال پر کہ کیا آپ نے ہندوازم میں بعد از موت جلائے جانے کے عذاب سے بچنے کے لیے تو کہیں اسلام قبول نہیں کیا؟ کا جواب انہوں نے نفی میں دیا اور کہا کہ میں شروع سے ہی لاش جلانے کی مخالف تھی، لیکن یہ ایک معمولی سی بات ہے ، میں نے اسلام کو سمجھنے کے بعد قبول کیا ہے ۔مجھے اسلام کے بارے میں کافی فہم ہے۔ چند سال پہلے میں نے اپنے شوہر سے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اسلام کے گہرے مطالعہ کا مشورہ دیا، میں نے اسلام کاگہرا مطالعہ تو نہیں کیا، لیکن کافی حد تک سمجھ گئی ہوں میں نے قبول اسلام اس وقت کیا جب مجھے محبت اور تحفظ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ساتھی مصنّفین کے رد عمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ناراض ہیں، لیکن مجموعی طور پر رد عمل خراب نہیں ہے۔ بچوں کے نقطہ نظر کے بارے میں ا نہوں نے بتایا کہ میں ان کی والدہ ہوں ، وہ میری خوشی ہی چاہیں گے۔ پھر ہمارے خاندان میں سب کو آزادی حاصل ہے ، میرے ایک بیٹے نے بدھ مذہب اپنالیا ہے اور میں نے اسلام قبول کیا ہے۔ اسلامی احکامات پر عمل درآمد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے ان کی پابندی کروں گی۔ مجھے دولت کی ضرورت نہیں ہے ، دولت انسان کی زندگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، مجھے کسی کے ردّعمل کی بھی کوئی پروا نہیں ،یہ چند افراد ہیں جو اعتراض کرتے ہیں، باقی مجموعی طور پر ردّعمل بہت اچھا ہے۔ ہندوؤں کی طرف سے دھمکیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں، پولیس نے مجھے سیکورٹی کی پیش کش کی تھی، لیکن میں نے وہ مسترد کر دی ، میں نے سب کچھ اپنے الله پر چھوڑ دیا ہے او روہی میری حفاظت کرے گا جو پوری دنیا کا محافظ ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا آپ کے خیال میں بھارتی معاشرے کے مقابلے میں اسلام میں عورت کو زیادہ آزادی حاصل ہے ؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں! جب سے میں نے پردہ کیا ہے تو مجھے احساس تحفظ ہوا ہے ، اسلام نے خواتین کو برابری کے حقوق دیے ہیں ، پردے کی حالت میں کوئی بھی مرد خاتون کو چھیڑ نہیں سکتا۔ آئندہ شاعری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے رب کی حمد وثنا میں نظمیں لکھیں گی۔“
ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اب جب آپ ہندو نہیں رہی ہیں تو ہندوستان آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت اچھا، یہی آزادی ہے ۔ گزشتہ14 سال سے میں مندر نہیں گئی ہوں۔
ثریا کے بچوں کا کہنا ہے : ” امی کملاداس ہوں یا ثریا وہ ہر رنگ میں ہماری ماں ہیں ، ہمیں ان کے فیصلے پر کوئی تعجب نہیں ، ان کے مسلمان ہونے کے باوجود ہم ان کے ساتھ ہیں اور ارشاد او رامتیاز ہمارے بھائی ہیں۔“ اپنے ایک نٹرویو میں انہوں نے کہا:” میرا یہ احساس کہ” اسلام محبت ، ہمدردی، تلطف اور درد مندی کا دین ہے “ درست ثابت ہوا ہے ، تماممسلم ممالک سے ، مجھے برابر فون آرہے ہیں، جن میں میرے لیے دعائیں، محبت اور عقیدت ہوتی ہے۔“
اپنے تعارف میں وہ بتاتی ہیں : ” میرا نام کملا تھا۔ جب میں ملیا لم میں کہانیاں لکھنے لگی تو اپنا قلمی نام مادھوی کٹی رکھ لیا۔ انگریزی شاعری میں نے کملاداس کے نام سے کی ہے ۔ اب میرا نام کملاثریا ہے۔ میں 1934ء میں کیرالا کے ایک مشہور نائرخاندان میں پیدا ہوئی جس کا نام نالاپاٹ ہے۔ میری والدہ بالامنی امابھی مشہور شاعرہ تھیں او رمیرے والد وی ایم نائر ملیالم کے ایک اہم روزنامہ ماتربھومی کے ایڈیٹر تھے۔ میرے تین لڑکے ہیں ،بڑا لڑکا این ڈی نالا پاٹ ہندوستان کا ایک مشہور صحافی ہے او روزنامہ ماتربھومی اور ٹائمز آف انڈیا کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور فی الوقت ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ پروفیسر ہے ۔ دوسرا لڑکا چنین داس پورے جنوبی ہند میں ٹائمز آف انڈیا کا ڈائریکٹر ہے اور آج کل بنگلور میں مقیم ہے۔ تیسرا لڑکا جے سرویا ٹائمز آف انڈیا پونا کا منیجر ہے۔ ان کے علاوہ میرے پرورش کردہ مسلم لڑکے بھی ہیں۔ دونوں نابینا ہیں۔ دونوں کو میں نے اچھی طرح تعلیم دلائی ہے۔ ان میں سے ایک کا نام پروفیسر ارشاد احمد ہے۔ دوسرے کو میں نے لندن میں تعلیم دلوائی ہے ، اس کانام بیرسٹر امتیاز احمد ہے۔ یہ سارے اپنے فارغ اوقات میں میرے پاس آتے جاتے ہیں، باوجودیکہ وہ ہندوستان کے مختلف خطوں میں مصروف زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میرے شوہر مادھوداس ریزور بینک کے ایک افسر تھے ۔1992ء میں وہ انتقال کر گئے ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس خو ش حال گھریلو پس منظر، شہر کی بھیڑ بھاڑ اور ادبی دنیا کے وسیع تعلقات کے باوجود میں ہمیشہ ایک بھیانک باطنی تنہائی کے عذاب میں مبتلا رہی۔ اب معاملہ بالکل برعکس ہے۔ رب ذوالجلال کی محبت سے میری روح پرسکون ومطمئن ہے۔“
اپنی ادبی خدمات کے حوالے سے انہوں نے بتایا:” میں نے بچپن ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔1952ء میں میری پہلی کتاب ملیالم میں شائع ہوئی۔1964ء میں اپنے انگریزی اشعار کے مجموعہ پر مجھے ایشین پوٹری ایوارڈ (Asian Poetry Award) ملا،1965ء میں ایک دوسری تصنیف پرکینٹ(Kent) ایوارڈ ملا، جو ایشیائی ملکوں میں لکھی جانے والی انگریری کتابوں پر دیا جاتا ہے ۔ میری اس کتاب کا نام(Summer in Calcutta) تھا۔ اسی سال آسیان ولرڈ پرائزاینڈ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔1969ء میں کیرالا ساھتیہ اکیڈمی(Sahitya Academy) ایوارڈ ملا۔ ان کے علاوہ میں السٹریٹڈ ویکلی کی پوئٹری ایڈیٹر، کیرالا چلڈرنز فلم سوسائٹی کی صدر، کیرالا فارسٹری کی چیئرپرسن او رانگریزی رسالہ پوئٹ کی ایڈیٹر رہ چکی ہوں۔ اس کے علاوہ میری ایک تصنیف ” میرا قصہ“ ہے، جو ہندوستانی زبانوں کے علاوہ پندرہ غیر ملکی زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔“ (ڈاکٹر ثریا کے انگریزی اشعار دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہیں۔)
”اسلام سے آپ کا تعلق کس زمانے میں قائم ہوا؟“ کے جواب میں انہو ں نے بتایا: ” ارشاد احمد اور امتیاز احمد کی پرورش جب میں نے اپنے ذمہ لی تو ارادہ کیا کہ ان کی اسلامی تعلیم کا بھی انتظام ہو، مگر کوئی قابل عالم نہ مل سکا۔ مجبوراً مجھے خو د اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرکے انہیں سمجھانا پڑا، اس طرح مجھے اسلام کا تعارف حاصل ہوا۔“
”اسلام کی کس تعلیم نے آپ کو متاثر کیا؟“ کے جواب میں فرمایا ”پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی 63 سالہ زندگی کئی مراحل سے گزری ہے ۔ آغاز زندگی میں آپ صلی الله علیہ وسلم ایک حسین وجمیل مگر یتیم بچے تھے۔ نبوت ملی اور آپ صلی الله علیہ وسلم ایک وسیع سلطنت کے حکمران بنے، مگر آپ کی زندگی ایک مسکین اور فقیر کی زندگی رہی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنا معیار زندگی نہیں بدلا، یقینا اس چیز نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔“
”11 دسمبر1999ء کو کوچین میں کیرالا لائبریری کونسل کا افتتاح کرنے کے لیے جاتے ہوئے کیا آپ نے یہ طے کیا تھا کہ وہاں قبول اسلام کا اعلان کریں گی؟‘ کے جواب میں ان کا کہنا تھا:” نہیں نہیں ، پہلے سے ایساکوئی فیصلہ نہیں تھا۔ افتتاحی کلمات میری زبان سے ادا ہو رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا ہے کہ جیسے ایک نورمیرے قریب ہوا ہو ۔ اسی لمحہ میرے دل نے بذات خود فیصلہ کر لیا اور زبان نے بے ساختہ اس کا اظہار کر دیا ۔ میرے ہاتھ خود بخود آسمان کی طرف اٹھ گئے اور میر ی زبان سے ” یاالله“ کا لفظ نکلا اور تقریباً اسی کیفیت میں دس منٹ تک مجھ پر اور ساری مجلس پر ایک سکتہ طاری رہا۔ ہزاروں کے اس مجمع میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس وقت میں نے اپنی دیرینہ خواہش پوری کر دی، جو ایک زمانہ سے میرے سینے میں دبی ہوئی تھی۔“
”قبول اسلام کے بعد آپ نے اپنے اندر کیا تبدیلی محسوس کی؟“ کے بارے میں بتایا: ”قبولِ اسلام سے قبل میں جس باطنی تنہائی کے عذاب میں مبتلا تھی اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل گیا ہے ۔ پہلے میرا اپنا کوئی نہ تھا، اب میرے لیے الله ہے ، اس لیے میں بے انتہا خوش ہوں ۔ فجر سے قبل تین بجے اٹھ کر الله کے دربار میں گڑگڑانے سے مجھے ایک عجیب سکون ملتاہے، جو گرزے ہوئے 67 سالوں میں کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔ پہلے میں خود اپنے آپ کی بندی تھی، مگر اب میں ایک مالک کی بندی ہوں، جو کائنات کا پروردگار الله سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ میں نے زندگی میں آزادی کا مزہ خوب چکھا ہے ، اب میں اس سے تنگ آگئی ہوں ۔ عورتوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں آزادی چاہیے، میں نے اپنی 67 سالہ زندگی سے جو سب سے اہم سبق سیکھا ہے وہ ساری دنیا کی عورتوں کے سامنے بیان کر رہی ہوں کہ عورتوں کو آزادی نہیں چاہیے ۔ یہ آزادی انہیں سینکڑوں افراد کا غلام بناتی ہے، عورتوں کو تحفظ چاہیے… کیوں کہ وہ کمزور ہیں ۔ میں آج محفوظ ہوں۔ عورتوں کو مطلوب تحفظ عطا کرنے والا مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنے اندر ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کا تذکرہ بھی مناسب سمجھتی ہوں ۔ میں ایک بوڑھی عورت ہی نہیں، ایک بیمار عورت بھی ہوں ۔ ذیابیطس کی بیماری نے مجھے کمزور کر دیا ہے ، تین مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ میں گھر کے اندر بھی ویل چیئر کے بغیر گھوم نہیں سکتی تھی۔ قبول اسلام کے بعد میرا جسم توانا ہو گیا ہے ، ہر جگہ میں خود چل کر جاتی ہوں۔ ویل چیئر کو میں نے اسٹور روم میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے علاوہ ساری دنیا کے مسلمان مجھ سے قریب ہوئے ہیں ۔ وہ محبت کے ساتھ مجھ سے ملتے جلتے ہیں ، مجھے خط لکھتے ہیں ، مجھ سے فون پر گفتگو کرتے او رمجھے دعوت دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ،میں ممبئی گئی تھیں، جہاں ڈاکٹرذاکر نائیک اور مولانا سلیمان ندوی صاحب سے ملاقات کی ۔ فی الوقت میں قطر سے واپس آئی ہوں ۔بہت سے عرب ممالک کی طرف سے مجھے دعوت مل رہی ہے ۔ ماں کے مقدس لقب سے نواز کر لوگ میرا احترام کرتے ہیں۔“
آپ کے قبول اسلام پر مخالفین اسلام کا رد عمل کیسا رہا ؟“ کے جواب میں انہوں نے بتایا:” بے شمار خطوط اور فون ایسے آتے رہے ہیں جن میں ہندوقوم میں واپسی کے لیے نصیحت ہی نہیں بلکہ دھمکی بھی دی گئی تھی۔ شیوسینا کے لوگوں نے وقت اور دن متعین کرکے دھمکی دی کہ اگر دیے گئے وقت سے پہلے اسلام کو ترک نہ کیا تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ شہر کی دیواروں پر میرے خلاف پوسٹر چپکائے گئے۔ا س وقت میری ایک سہیلی، پولیسI.G کی بیوی، نے مجھ سے کہا کہ پولیس کو تحفظ کے لیے درخواست دے دو، پولیس تمہاری حفاظت کر ے گی ۔ میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے کسی کے تحفظ کی ضرورت نہیں ۔ موت تک کے لیے مجھے تحفظ مل چکا ہے۔ یہ تحفظ الله کی جانب سے ہے۔ الله جب چاہے میں مرنے کے لیے تیار ہوں ۔ رہا مسئلہ ظالموں کے حملے کاتو یوں سمجھو کہ اس سے مجھے ایک بہت بڑی فضیلت ملے گی، میں شہید کہلاؤں گی۔ یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اپنی بقیہ زندگی میں پوری کوشش کے باوجود میں ایسی سعادت حاصل نہیں کرسکتی۔ میں نے اپنی سہیلی کو تسلی دی۔ ایک مرتبہ ایک شخص میرے گھر میں داخل ہوا او ر مجھے اذیت پہنچانا چاہی، اس وقت گھر پرمیرا لڑکا موجود تھا، اس نے اسے بھگا دیا۔ ایک اورموقع پر ایک گروہ نے میرے گھر کے دروازے پر پہنچ کر رات کے وقت شور وہنگامہ کیا۔ میں نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا او ران سے کہا کہ جس کو اپنی جان عزیز ہو وہ واپس چلا جائے، چناں چہ سبھی خاموشی کے ساتھ لوٹ گئے۔“
اسلام قبول کرنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اپنے ایک پیغام میں انہوں نے کہا:” سارے مذاہب اور فلسفوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ ابتدا میں و ہ اچھے رہے ہیں ، مگر اب وہ ناقابل عمل ہو چکے ہیں ، صرف اسلام ناقابل عمل نہ ہو سکا۔ ملک کے لوگ بھی اس کے خواہش مند ہیں، مگر مسلمانوں کی بے عملی کو دیکھ کر وہ ٹھٹک جاتے ہیں۔ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہے، تاکہ ہمیں دیکھ کر انہیں اسلام پسند آئے۔ ایسے حالات پیدا کرنا ہمارا اصل کام ہے ۔ مسلمان بہت خوش قسمت ہیں اور خوش نصیب ہیں، کیوں کہ الله تعالیٰ نے انہیں مسلمان بنایا ہے ، مگر اب ہمیں اپنے آپ کو اس خوش نصیبی کا مستحق ثابت کرنا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے ، جاہلی تہذیبوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے ،ایک سچے مسلمان کی زندگی گزارنا اور غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔“
یہ عظیم خاتون75 سال کی عمر میں 31 مئی2009ء بروز اتوار 1:55 بجے دن بھارت کے شہر پونا کے جہانگیر ہسپتال میں خالق حقیقی سے جاملیں۔ انا لله وانا الیہ راجعون․
موت کے بعد ان کا جسدخاکی کیرالہ واپس لایا گیا۔2007ء میں وہ کیرالہ سے پونا میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاں منتقل ہو گئی تھیں۔ کوچی سے ٹرائیون ڈرم تک ان کے جسد خاکی پرمنوں کے حساب سے پھول نچھاور کیے گئے۔ پالایام مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مسجد کے گراؤنڈ میں درختوں کے ایک جھنڈ میں انہیں دفن کیا گیا۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے ان کی قبر کے دونوں اطراف دو پودے لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ان کی آخری رسومات میں ہر مذہب کے لوگوں نے شرکت کی اور اہل دانش نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس عظیم خاتون کو مکمل نظر انداز کیا،حالاں کہ وہ عالمی شہرت کی حامل شاعرہ اور ادیبہ تھیں۔ اگر وہ نو مسلمہ نہ ہوتیں تو پاکستانی میڈیا میں نمایاں جگہ پاتیں۔
ہماری دعا ہے کہ الله تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی اولاد کو بھی اسلام کی نعمت سے سرفراز کرے۔ آمین۔

Flag Counter