عرب اردو نہیں جانتے تھے اس لیے اصل کتابوں کو جو اردو میں تھیں خود سمجھ نہیں سکتے تھے، جو کچھ مطلب مولانا نے بتلایا اس پر اعتماد کیا اور دستخط کردیے، اور اعلی حضرت نے اس کتاب کوچھپواکر شائع کردیا، جس سے زبردست فتنہ برپا ہوا۔ہندوستان کے بعض علماء سے جب علماء حرمین کی ملاقات ہوئی اور اس کتاب کا تذکرہ ہوا تو انہیں پتہ چلا کہ اعلی حضرت بریلوی نے غلط مطلب بتلاکر اور بقول ان کے دھوکہ دے کر عبارات اور ان کے مفہوم میں خیانت کی اور علماء دیوبند کی طرف ایسی باتیں عقیدہ کے طور پر منسوب کی ہیں جو ان حضرات کے حاشیہء خیال میں بھی نہیں تھیں۔اس پر علمائے حرمین بہت نادم ہوئے کہ افسوس! دھوکہ دے کر ہم سے ایسے حضرات کے کفر پر دستخط کرائے جو بڑے محقق ہی نہیں بلکہ وقت کے اولیاء اللہ میں سے ہیں، اور سلاسل اولیاء اللہ، چشتی، قادری، سہروردی، نقشبندی سے منسلک ہیں، صاحب ارشاد وتلقین ہیں اور ساتھ ہی پورے طور پر متبع سنت ہیں، اس کے بعد عرب سے ان مسائل کی تحقیق کے لیے مستقل سوالات آئے کہ کیا علماء دیوبند اور ان حضرات نے ایسا لکھا ہے؟ اور آپ حضرات کا عقیدہ کیا ہے؟
ان کے جوابات یہاں سے عربی میں لکھ کر روانہ کیے گئے، جن پر ہندوستان کے اونچے طبقے کے چوبیس علماء کے دستخط ہیں، عرب پہنچنے کے بعد ان جوابات کو دیکھ کر ان کی تائید وتصدیق فرمائی اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مصر، طرابلس، دمشق، بخارا، تونس، الجزائر، نابلس، وغیرہ کے چھیالیس علماء نے دستخط کیے جن میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سب شریک ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مسلک کے بلند پایہ مفتی اور بلند پایہ عالم ہیں، بعض خود حرم شریف کے اعلی مدرسین بھی ہیں۔
ان سوالات وجوابات کے مجموعہ کا نام "التصدیقات لدفع التلبیسات" ہے، جن علماء عرب نے ان جوابات کو دیکھا اور وہ پہلے "حسام الحرمین" پر ناوقفیت کی بنا پر دستخط کرچکے تھے انہوں نے اپنے دستخط سے رجوع کیا اور اعلان کیا کہ ہم کو دھوکہ دے کر "اعلی حضرت" بریلوی نے دستخط کرائے، چوں کہ یہ کتاب "حسام الحرمین" ہندوستان آچکی تھی اور
۵