Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

9 - 11
آزادی اور اس کا مقصد !
آزادی اور اس کا مقصد

کسی مملکت کی آزادی یا کسی مسلمان قوم کی آزادی درحقیقت حق تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن یہ آزادی بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں، بلکہ یہ صحیح ترین اور اعلیٰ ترین مقاصد کے لئے بہترین وسیلہ ہے اور صحیح مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ ہے، چنانچہ مسلمان قوم کی آزادی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کافرانہ اور ظالمانہ حکومت کے تسلّط سے آزاد ہوکر اللہ تعالیٰ کی رحمت وعدل کے زیرسایہ آجائے، تاکہ حق تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانینِ عدل ورحمت پر عمل کرکے دنیا وآخرت کی نعمتوں کی مستحق بن جائے اور دنیاوی زندگی کے اس عبوری دور میں قانونِ الٰہی پر عمل کرکے اس امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے نمبر حاصل کرے، تاکہ آخرت کی غیر فانی نعمتوں وبرکتوں سے مالا مال ہوسکے۔
اسی لئے جب کوئی مسلمان قوم آزادی کے صحیح مقصد کو فراموش کردیتی ہے اور اس نعمت کو غلط طریقے پر ناجائز مقاصد واغراض کے لئے استعمال کرتی ہے، تو حق تعالیٰ کا قانونِ قدرت اس سے انتقام لے کر اس آزادی کی نعمت کو اس سے چھین لیتا ہے۔ یہی تمام اسلامی تاریخ کا لُبِّ لباب ہے اور یہی مسلمانوں کے عروج وزوال کا خلاصہ ہے۔
متحدہ ہندوستان کے مسلمان اپنے سیاہ کارناموں کی پاداش میں اس نعمتِ آزادی سے عرصہٴ دراز تک محروم رہے، لیکن پھر بعد خرابی بسیار ہوش آنے پر عرصہ دراز تک آہ وبکا میں مبتلا رہے اور ساتھ ہی اس نعمت کے حصول کے لئے مسلسل کوشش اور جد وجہد میں لگے رہے، آخر حق تعالیٰ کی رحمت نے مسلمانوں کو پھر اپنی آغوشِ رحمت میں لے کر ایک قطعہٴ ملک دوبارہ ان کے حوالے کردیا، تاکہ دوبارہ امتحان لیا جائے۔ لِیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۔
لیکن انتہائی صدمہ کی بات ہے کہ نہ صرف حکمران اور عوام، بلکہ ہر خاص وعام سب کے سب اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں مقصِّر رہے، نہ صرف مقصِّر بلکہ اصل مقصد کے برعکس ہر شخص اس نعمت کے ذریعہ اپنی اپنی اغراض وخواہشات کے حصول میں مشغول ہوگیا، جس کا نتیجہ خاکم بدہن نہایت خطرناک ہے۔ حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ جلد سے جلد اسلامی قانون نافذ کرتے اور حکومت کی طاقت سے لوگوں کو صحیح مسلمان بناتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے، محاکمِ احتساب تمام ملک میں قائم کرتے اور قرآن ِ حکیم میں جو فرائض حکمرانوں کے ہیں پورے کرتے”أَلَّذِیْنَ إِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ“۔
علماء کا فریضہ تھا کہ دعوت واصلاح کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے، تاکہ دینی رہنمائی کا صحیح تقاضا پورا ہوتا۔ عوامِ امت کا فرض تھا کہ عقائد وعبادات، اسلامی تہذیب واخلاق اور اسلامی معاشرت کے اختیار کرنے میں کوشش کرتے، لیکن اس کے برعکس جو کچھ ہورہا ہے، ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ”عیاں راچہ بیان؟“۔
آج کل جو بحران ملک پر مسلط ہے اور اس کے نتیجہ میں جو انقلابات رونما ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں، یہ سب کچھ صرف اسی تقصیر وکوتاہی کے نتائج ہیں جو سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکمران اور کارکنان حکومت صحیح معنوں میں عادل وقوم پر ور ہوتے اور خود اپنی زندگی میں ظاہر وباطن دونوں لحاظ سے اسلام کے تقاضے پورے کرتے تو آئے دن جو یہ بحران اور انقلابات رونما ہورہے ہیں، امت ان سے محفوظ رہتی۔ دیکھتے دیکھتے ان چند سالوں میں نہ صرف پاکستان ، بلکہ تمام ممالکِ اسلامیہ خصوصاً ممالکِ عربیہ کا کیا سے کیا نقشہ ہوگیا، یہ سب کچھ اسی خدا فراموشی کے نتائج ہیں جو سامنے آ رہے ہیں۔ صبح وشام روزانہ اخبارات کے صفحات میں کسی نہ کسی ملک میں تباہ کن انقلاب کی خبر نظر آتی ہے، لیکن ان حقائق وواقعات کے مشاہدہ کے باوجود کسی کو بھی عبرت نہیں ہوتی۔
غیر اللہ کوعزت وطاقت کا شرچشمہ سمجھنے کی سزا
مملکتِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ ہندوستان اور اعداء اسلام کی متحدہ طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بننے سے محض اپنے فضل وکرم سے محفوظ فرمایا، اس نعمت کا شکر ادا کیا جانا چاہئے اور وہ شکر یہی ہے کہ پاکستان کا خالص اسلامی دستور ہو، حکومت صحیح اور خالص اسلامی قوانین ملک میں نافذ کرے، تاکہ تمام امتِ پاکستان اسلامی قانون کی برکات سے مالا مال ہو اور ہرطرح کے بحرانوں سے محفوظ رہے۔ بارہا ہم اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں کہ اس ملک اور قوم کو کمیونزم اور سوشلزم کی لعنت سے یا سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے اور استحصال سے صرف اسلامی قانون ہی بچا سکتا ہے اور صرف اسلامی قانون پاس کردینے سے نہیں، بلکہ اسلامی قانون کی دیانت داری سے تنفیذاور اجراء اور پھر قوم کے ہرطبقہ کے اس پر عمل پیرا ہونے سے یہ لعنتیں دور ہوسکتی ہیں۔ صحیح اسلام ہی وہ نعمت ہے اور وہ دولت ہے، جس کے حصول کے بعد خود ملک اپنی ضروریات کے لئے مکتفی ہوسکتا ہے اور اغیار سے بھیک مانگنے سے نجات پاسکتا ہے ۔ آج ہمارا ملک بے رحم دشمنوں سے لئے ہوئے قرضوں اور ان کے سود سے اتنا دبا ہوا ہے اور کراہ رہا ہے کہ نہ معلوم اس کا انجام کار کیا ہوگا ؟جب تک اسلامی قانون کے محکمہ ہائے احتساب قائم نہ ہوں گے اور اس ملک سے رشوت کا خاتمہ نہ ہوگا، نہ حکومت کا خزانہ حسب ضرورت بھر سکتا ہے، نہ ٹیکسوں اور مال گذاریوں کی صحیح مقدار حکومت کو حاصل ہوسکتی ہے، چاہے کتنے ہی بھاری ٹیکس حکومت لگائے، عوام ضرور تباہ ہوں گے، مگر حکومت کی ضرورتیں ہرگز پوری نہ ہوں گی اور عوام کی قربانیوں اور فدا کاریوں کے باجود دشمنوں سے قرض کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگی۔
آج اگر سرکاری محکموں میں رشوت لینی اور دینی ختم ہوجائے اور بیرونی ممالک کے بینکوں میں خفیہ اور علانیہ جمع کرایا ہوا سرمایہ ملک میں واپس آجائے اور زندگی کی غیر ضروری اشیاء، یعنی تعیشات ہر طبقہ کی زندگی سے خارج کردی جائیں تو حکومت ان دشمنانِ اسلام کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور قرض کی بھیک مانگنے کی لعنت سے بآسانی بچ سکتی ہے۔ آج انہی دشمنانِ اسلام اور درپئے آزار طاقتوں کے ہم رہینِ منت ہیں اور ہمیشہ ان سے بھیک مانگتے رہتے ہیں اور اس بھیک کی وہ اتنی بڑی قیمت پاکستان سے وصول کررہے ہیں کہ عقل حیران ہے اور صرف اسی وجہ سے وہ ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت دلیری کے ساتھ دخل اندازی کرتے ہیں، اپنی پارلیمنٹوں میں ہمارے داخلی معاملات میں بحثیں کرتے رہتے ہیں اور نہ صرف مشورے دیتے ہیں، بلکہ مغرورانہ انداز سے اوامر واحکامات صادر کرتے ہیں اور ان احکامات کی تعمیل میں ذرا بھی کوتاہی دیکھتے ہیں تو طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں اور ہمارے خلاف پروپیگنڈے کرکے آسمان سرپر اٹھاتے ہیں، دراصل ان کی امدادوں اور قرضوں نے جہاں ان کے حوصلے بڑھادیئے ہیں، وہاں ہمارے حوصلے پست کردیئے ہیں، اسی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ تحقیقات کے لئے اپنے وفود بھیجتے ہیں، خودساختہ صحافی بھیجتے ہیں، اس کے علاوہ یہ صحافی ہمارے دشمنوں کے لئے مخبری بھی کرتے ہیں اور ہمارے کمزور پہلوؤں سے ان کو آگاہ کرتے ہیں، تاکہ بصورتِ جنگ ہمیں خاطر خواہ نقصان پہنچا سکیں۔کیا اسی کا نام آزادی ہے؟ اس سے بڑھ کر اور کیا غلامی ہوسکتی ہے؟ یہ سب کچھ اسی کے نتائج ہیں کہ ہم ان کے محتاج ہیں، قرضوں کے علاوہ اپنی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز ان سے درآمد کرتے ہیں۔ انا لله۔
جہاں ہماری بڑی بڑی اسلامی حکومتیں اس لعنت میں گرفتار ہیں، وہاں بعض چھوٹی چھوٹی حکومتیں اس لعنت سے محفوظ ہیں۔ روز نامہ جنگ مؤرخہ ۲۹/ جون ۱۹۷۱ء پیر علی محمد راشدی صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو، ممکن ہے اس سے ہماری حکومت کی آنکھیں کھل جائیں۔

”شروع میں جیسے ہی مشرقی پاکستان کے حالات نے ناگوار صورت اختیار کی، میں نے جنگ کی دو اشاعتوں مؤرخہ ۱۷/ اپریل اور ۲۰/اپریل میں اپنی ناچیز رائے پیش کرتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ اس صورت ِ حال سے نمٹنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے! اس کے بعد میں ملکی حالات پر لکھنے سے احتراز کرتا رہا ہوں، وجہ یہ ہے کہ جب ملکی معاملات ذمہ دار قابلِ اعتماد اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو ہر شکل کا حل نکالنے کے اہل ہیں، تو پھر ایسے موقع پر ہم باہر سے دیکھنے والے لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خواہ مخواہ اپنی غیر مکمل اور سیکنڈ ہینڈ (SECOND HAND)معلومات کی بنا پر موقع بے موقع رائے زنی کرتے پھریں اور بے وجہ ذہنی الجھاؤ میں اضافہ کرتے رہیں۔ وقت یقینا نازک ہے، مگر ہماری طرف سے جو لوگ کام چلا رہے ہیں اور حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، وہ بے شک وشبہ ہر لحاظ سے وقت کی ضروریات کو پہچاننے اور پورا کرنے کے اہل ہیں، لہذا ہم کو مطمئن ہوکر ان کی ہمت افزائی کرنی چاہئے اور جو تدبیر وہ کریں، اس کی تائید کرنی چاہئے۔ بحران کی کیفیت میں ہرایک کو فلاسفر نہیں بننا چاہئے، اس طرح سے ذہنی انتشار بڑھتا ہے اور اصل مسئلہ کے حل میں رکاوٹ پڑتی ہے۔
مگر حال ہی میں مسئلہ کا ایک پہلو ایسا نکل آیا ہے جس پر میں لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، وہ پہلو یہ ہے کہ آئے دن باہر کے ملکوں کے نمائندے ہمارے یہاں ہمارے حالات کا جائزہ لینے آنے لگے اور ہمارے اندرونی انتظامی معاملات کے بارے میں دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹوں میں بحثیں ہونے لگی ہیں، نہ صرف یہ، بلکہ صورتِ حال ایسی بنی ہے کہ آج کل باہر کے ملک ہم کو براہِ راست ”ڈکٹیٹ“ کرنے لگے ہیں کہ ہم کو ہمارے داخلی معاملات کے سلسلہ میں کیا کرنا چاہئے۔ بھارت والے تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ وہ ہم پر احکامات صادر فرمانے لگے ہیں کہ ہم کو فلاں پارٹی سے سمجھوتہ کرنا چاہئے، ورنہ وہ دخل اندازی سے باز نہیں آئیں گے، دو دن ہوئے کنسوریشم والوں نے اسی اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے، ان کا ارشاد ہے کہ وہ ہماری کوئی امداد کریں، اس سے پہلے وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے صدر ملک کے سیاسی اور آئینی معاملات کے بارے میں کس قسم کا اعلان کرتے ہیں؟۔اصولی طور پر میں اس ساری صورتِ حال کو جائز اور معقول نہیں سمجھتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست ایک آزاد ریاست ہے یا بین الاقوامی دنیا کی نظروں میں ہماری وہی حیثیت ہے جو کسی زمانہ میں انگریز کے تحت برصغیر کی ”دیسی ریاستوں“ راجوں، مہارا جوں کی ہوتی تھی؟ یعنی نیچے راجہ صاحبان کا راج اور اوپر وائسرائے ہند کا ڈنڈا؟بین المملکتی تعلقات کی تاریخ میں مجھے ایسی کوئی مثال نہیں مل رہی ہے، جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی آزاد ریاست کے اندرونی معاملات کے بارے میں تحقیقات کرنے کے لئے باہر سے لوگ آتے ہوں یا ان پر باہر کی پارلیمنٹوں میں بحثیں ہوتی رہی ہوں یا باہر کی ریاستیں ڈکٹیٹ کرتی رہی ہوں کہ فلاں سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ ہوناچاہئے یا نہیں ہونا چاہئے، اقتدار منتقل ہونا چاہئے یا نہیں؟
یمن میں کئی سال تک خانہ جنگی جاری رہی، کیا باہر کی کسی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوئی؟ کسی باہر کے ملک نے کوئی تحقیقاتی کمیشن وہاں بھیجا؟
یونان میں چند سال سے فوجی حکومت قائم ہے، اس حکومت کی کارگذاریوں کے بارے میں باہر کے اخبارات میں عجیب وغریب مواد شائع ہوتا رہا ہے، مگر امریکہ نے جس کی امداد پر یونان کا یہ سارا کاروبار چل رہا ہے، کبھی نہیں کہا کہ ”اقتدارقومی نمائندوں کو منتقل کردو، ورنہ امداد بند کردی جائے گی“۔ یونان کے یہ حکمران کھل کر امریکہ سے کہتے رہتے ہیں کہ ”ہم وہی کریں گے جو ہمارے ملک کے لئے موزوں ہوگا، آپ کو اگر امداد دینا ہے تو مہربانی، ورنہ بند کردو“۔امریکہ خاموش ہے۔ برطانیہ کے اپنے علاقے شمالی آئرلینڈ میں مدتوں سے اندرونی گڑ بڑ، بدامنی اور خونریزی چل رہی ہے، گڑبڑ کا سبب قریب قریب وہی ہے جس سے مشرقی پاکستان میں ہمارا سابقہ پڑا ہے۔ برطانیہ کی مرکزی حکومت کو مجبور ہوکر وہاں فوجی کارروائی کرنی پڑی ہے، مگر کیا ہم نے یا کسی رومن کیتھولک ملک نے کبھی اپنے آدمی وہاں بھیج کر ”تحقیقات“ کروائیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک نے برطانیہ سے یہ مطالبہ کیا کہ ”تم شمالی آئرلینڈ سے فوج ہٹادو، ورنہ تمہارے ساتھ راہ ورسم منقطع؟ کیا جنوبی آئرلینڈ کی آزاد حکومت نے اس معاملے میں مداخلت کی؟“
سوڈان کے جنوبی حصہ میں ”تحریکِ آزادی“ کے نام سے بغاوت کی سی کیفیت رہی ہے، وقتاً فوقتاً سوڈان کی حکومت جو ایک فوجی حکومت ہے، فوجیں بھیج کر بغاوت کو کچلنے کی کوشش کرتی رہی ہے، مگر کیا اس بنا پر بین الاقوامی برادری نے سوڈان سے کبھی کوئی باز پرس کی؟
اریٹریا کے لوگ ایبے سینیا سے الگ ہونا چاہتے ہیں، ایبے سینیا کی حکومت ان کو مارمار کر اپنی بات منوانے کے لئے فوج استعمال کرتی رہی ہے، کیا”سیلف ڈٹرمینیشن“ یا ”جمہوری حقوق“ والے اصول کی خاطر کسی باہر کے ملک نے کبھی کوئی تحقیقاتی کمیشن یا پارلیمانی وفد اریٹریا بھیج کر وہاں کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کی؟ اریٹریا کا علاقہ، انگریزوں نے ہی ایتھوپیا کے حوالے کیا ہوا ہے، اس بنا پر وہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس کے بارے میں اخلاقی ذمہ داری کسی حد تک برطانیہ پر بھی عائد ہوتی تھی، مگر کیا اس مسئلہ کے بارے میں برطانیہ کی پارلیمنٹ میں کبھی کوئی بحث ہوئی؟ کیا برطانیہ نے کبھی ایبے سینیا سے یہ مطالبہ کیا کہ تم اریٹریا کے لوگوں سے سیاسی سمجھوتہ کرلو، ورنہ ہم تمہاری مدد نہیں کریں گے اور ہمارے اخبار تمہارے خلاف رات دن او دھم مچاتے رہیں گے؟
عراق میں کردوں نے بغاوت کی جوکئی سال جاری رہی، اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے عراق آزادی سے اپنی فوجی قوت سے کام لیتا رہا، مگر کیا اس کی وجہ سے باہر کے ملکوں نے کبھی عراق پر کردوں کی خاطر دباؤ ڈالنے کی ہمت کی؟
نائیجریا اور کانگر کے واقعات ہرایک کے علم میں ہیں، وہاں بھی صوبوں نے بغاوت کی اور مرکزی حکومتوں نے اس بغاوت کو فوجی قوت سے ختم کردیا، مگر ان معاملات میں باہر کی حکومتوں نے کبھی کوئی مداخلت کی؟بہرحال کہنا یہ ہے کہ جو دردناک صورتِ حال اس وقت پیش آرہی ہے، اس کی اصلی وجہ یہی ہے کہ عزت وطاقت کا شرچشمہ اعداء ِ اسلام کو سمجھا گیا ہے، آج اگر مسلمان حکومتیں حق تعالیٰ کی ذات کو عزت وطاقت کا سر چشمہ سمجھیں اور اس حقیقت کو سمجھ لیں جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَللهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ“۔
ترجمہ:۔”عزت تو اللہ کے اور اس رسول کے اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، لیکن منافق سمجھتے نہیں“۔
ان حکومتوں کی ظاہری مادی ترقیات نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کردیا ہے اور اپنی ”ترقیات“ کی وجہ سے جس اخلاقی بحران میں یہ قومیں مبتلا ہیں، اس سے ہم قطعاً غافل ہیں۔
بالفرض اگر باہر کی امدادوں اور قرضوں کے ہم محتاج ہی ہیں اور بغیر قرضوں کے ہمارا کام نہیں چل سکتا، تو پھر ہماری متعدد عرب حکومتوں کو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ان سے بآسانی سود کے بغیر قرض لے سکتے ہیں، تو پھر ہم ان سے قرضے کیوں نہ لیں؟ ایک کویت کی دولت اللہ کے فضل سے اتنی ہے کہ اگر انگلستان کے بنکوں سے اس کی دولت نکال لی جائے تو انگلستان کا دیوالیہ نکل جائے۔ اگر بھیک مانگنا ضروری ہی ہے، تو پھر اپنوں سے کیوں نہ مانگیں؟ وہ یقینا ہمارے دشمن ہیں نہ ان کی طرح بے رحم ، ہماری تمام مشکلات ان کے تعاون سے حل ہوسکتی ہیں۔ آج اگر ایک طرف حکومت کو ان اعداء ِ اسلام کے سودی قرضوں نے تباہ کررکھا ہے اور سرمایہ دارانہ سودی نظام نے قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف شراب کے لائسنسوں نے اور عریاں کلبوں کے اجازت ناموں نے فواحش ومنکرات کو فروغ دینے کی نت نئی تدبیروں اور فریب کاریوں نے تمام امت کو بے حیائی وبے شرمی اور بربادی وتباہی میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ ہے وہ بدترین صورتِ حال جس کے تصور سے دماغ پھٹا جارہا ہے، قلم تحریر سے عاجز ہے، زبان بیان سے قاصر ہے، کیا کیا لکھا جائے اور کیا کیا کہا جائے؟خدارا اپنی حالت پر رحم کرو! ابھی وقت ہے، اس ملک کو تباہی سے بچانے کا عزم کرلو، اسلامی قانون نافذ کردو، اسلامی تعزیرات جاری کرکے صالح معاشرے کی تشکیل کرلو، غیر اسلامی تعزیرات کے ذریعہ جان ومال وآبرو کی حفاظت کی توقع بالکل بے معنی ہے۔ رشوت پربلارورعایت سخت سے سخت سزا دو، یورپ وامریکہ کی خدا فراموش تہذیب کی بیخ کنی کرو، فوجیوں اور نوجوانوں میں جہاد کی روح پیدا کرو، قوم کو ایثار سکھاؤ، اس اسراف وتبذیر کی بنیاد پر قائم شیطانی معاشرے کو ملک سے باہر کرو۔ جب تک ان باتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا، اسلامی ترقی کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہوگا۔اللّٰہم اہد قومی فانہم لایعلمون۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید  !
Flag Counter